قرآن مجید میں معاشرےکی اقسام
قرآن مجید میں معاشرےکی اقسام
غلام مصطفی حلیمی
خلاصہ:
اس مقالے میں معاشرہ کے لئے قرآن مجید میں اللہ تعالی نےجو الفاظ استعمال کیا ہے ان کی مختصر وضاحت کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی نگاہ میں معاشرےکی اقسام وانواع اوران کی خصوصیات کو بیان کیا ہے۔
مقدمہ:
انسان ایک اجتماعی مخلوق ہونے کےساتھ ساتھ اعلی اور مشترک اہداف کی خاطر معاشرتی زندگی کرنے والی مخلوق بھی ہے ۔اور اس عظیم مخلوق میں مادی اورمعنوی دو پہلو پایا جاتا ہے۔ان دوپہلو ں کو مد نظر رکھتے ہوۓ قرآن مجید نے انسانوں کی اچھی اور بری معاشرتی زندگی کے اصولوں اور قواعد کو بیان کیا ہے۔لہذا انسانوں کواگر ایک کامیاب اور مثالی معاشرہ تشکیل دینا ہےتو اس عظیم الہی اور انسانی کتاب سےرہنما ئی لینا پڑے گا۔
۱۔معاشرہ لغوی معنی:
معاشرہ کو عربی زبان میں مجتمع اور فارسی میں جامعہ کہتے ہیں جوکہ لغوی طور پر اسم فاعل ہے۔ لفظ مجتمع اور جامعہ دو نوں کے اصلی حروف ج-م-ع ہیں۔ جمع کے لغوی معنی جمع کرنا، اکٹھا کرنا، مہیا و فراہم کرنا اور اشیاء کا آپس میں ایک دوسرے میں ضم ہونا اور ملنےکے ہیں۔( ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ ،ص ۴۷۹)( دہخدا،علیاکبر ، لغت نامہ، ج۵، ص ۶۴۸۹، تاریخ انتشار (۱۹۳۱م))
لفظِ جمع سمیٹ کر اکٹھا کر دینا، جمع کر دینا اور فراہم کرنا ،کے معنی میں متعدد آیات کریمہ میں وارد ہوئی ہے، مثلاً ارشادِ باری تعالٰی ہوتا ہے{وجُمِعَ الشَّمسُ والقَمَر} اور سورج و چاند جمع کر کے ملا دیئے جائیں گے۔(قیامت/ ۹)
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے( یَومَ یَجمَعُکُم لِیَومِ الجَمعِ)جس روز اللہ اجتماع کے دن تمہیں اکٹھا کر دے گا۔(تغابن / ۸)نیز فرمانِ الہٰی ہوتا ہے
( اِنَّ عَلَینا جَمعَهُ وقُرءانَه)اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا یقینا ہمارے ذمے ہے۔( ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ ،ص ۴۷۹)
سماجیات وعمرانیات کےمحققین اور دانشوروں کے درمیان جامعہ یا معاشرہ کی اصطلاح مبہم ترین اور کلی و جامع ترین الفاظ میں سے ہے۔ یہ ابہام اس وقت مزید وسعت پیدا کر لیتا ہے جب یہ کلمہ ملت، امت اور اس طرح کے دیگر معانی میں آتا ہے۔ یہاں تک کہ تمدن کی اصطلاح نے بھی اسی طرح سے وسعت اور عمومیت پیدا کی اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ اس کے مترادف استعمال ہونے لگا۔ بعض علمائے عمرانیات قائل ہیں کہ ان کا اطلاق بڑے معاشروں پر ہوتا ہے جبکہ وہ چھوٹے چھوٹےمعاشرے جو مدنیت کے مرحلہ تک نہیں پہنچے ان کو جماعت، گروہ، دستہ وغیرہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔( ساموئل کینگ جامعہ شناسی،ترجمہ مشفق ہمدانی ، ص۲۰۱)
اس بناء پر معاشرہ کی ایک جامع و مانع تعریف کرنا انتہائی دشوار اور مشکل ہے۔ اگرچہ یہ لفظ کثرت سے اپنے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کی ایک متفق تعریف ابھی تک سامنے نہیں آ سکی ہے۔( ساروخانی، باقر ، دائرة المعارف علوم اجتماعی، ص۷۴۵)
معاشرہ کااصطلاحی معنی:
معاشرہ انسانوں سے تشکیل پانے والے ایسے مجموعےکو کہتے ہیں جو باہمی طور پر یکساں زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنی ضرورياتِ زندگی کو پورا کرنے میں اور زندگی کے مختلف امور کی انجام دہی میں ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ عقائد و نظریات، مشترکہ آداب و عادات اور یکساں اہداف کے مالک ہوتے ہیں۔
علما ئےعمرانیات نے معاشرہ کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں جو ان سے وابستہ مذہب و مکتب کے تناظر میں کی گئی ہیں۔ ان میں سے ہر تعریف میں متعدد عناصر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جبکہ بعض تعریف میں عمومی منفعت کو ہدف قرار دیتے ہوئے بطور عنصر تاکید کی گئی ہے۔(جمیل صلیبا ، واژہ نامہ فلسفہ و علوم اجتماعی، ص۱۵۲)
بعض علماء نے معاشرے کی تعریف میں روش و سنت، عادات، رسومات، طرزِ زندگی اور مشترکہ ثقافت کو اساسی عناصر قرار دیا ہے۔ جبکہ بعض دیگر نے ایک معاشرے میں افراد کا ایک دوسرے سے مضبوط ربط و تعلق جسے وحدتِ جزئی جسمی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اہمیت کا حامل عنصر قرار دیا ہے، نیز اس کے علاوہ ہوش و حواس رکھنے والے موجودات کے درمیان نفسیاتی و اخلاقی امور، مقبول اور جامعیت رکھنے والی حکومت، ہدف، سرزمین، مشترکہ ثقافت، باہمی مربوط زندگی اور فنون وحرفت کو انتہائی اہم عناصر قرار دیا ہے ۔ (فرہنگ علوم اجتماعی، ص۳۸۷ ـ ۳۸۸)
محققین نے معاشرے کو بعض امتیازات و اہداف تک براہ راست یا بالواسطہ رسائی حاصل کرنے کے لیے لوگوں کا ارادی طور پر ایک جگہ جمع ہونے سے تعبیر کیا. (فرہنگ اصطلاحات اجتماعی، ص۳۵۵)
شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں اگر کلی طور دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ معاشرے سے مراد انسانوں سے تشکیل پانے والا ایسا مجموعہ ہے جو جبری طور پر احتیاج و ضرورت کے تحت اور عقائد و افکار و نظریات کے خاص سلسلہ کی تاثیر کی وجہ سے ایک دوسرے سے محکم طور پر جڑتے ہیں اور ایک مشترکہ زندگی میں غوطہ زن ہوتے ہیں. (مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار،ج ۲، ص ۳۳۱-۳۳۳)
بعض محققین نے معاشرے کا مطالعہ خاص علمی اصولوں کے تناظر میں کیا ہیں جس کے نتیجے میں نئی علمی ابحاث سامنے آئیں اور مختلف زوایوں سے معاشرے کا جائزہ لیا جانے لگا۔ ان محققین کے علمی آثار میں انسانوں کے درمیان جنم لینے والے باہمی روابط کا جائزہ لیا گیا ہے، فرق نہیں پڑتا کہ یہ روابط طبیعت کے اعتبار سے قائم ہوئے یا اجتماعی جہات سے، جیساکہ خواجہ نصیر الدین طوسی (۵۹۸ ـ ۶۷۲ ق) ہیں جوکہ پہلے حکیم ہیں جنہوں نے اصالتِ معاشرہ کی بحث کو فلسفی نظر سے بیان کیا ہے.( درآمدی بہ جامعہ شناسی اسلامی، ص ۲۲۸)
مختلف تعریفوں میں معاشرے کاجو خدوخال بیان کیا گیاہے اور معاشرے کی تشکیل میں دخیل بنیادی اجزاء و عناصر کا تعارف کروایا گیا ہے اس پر متعدد آیات کریمہ بھی دلالت کرتی ہیں اور ان مفاہیم و خصوصیات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں مختلف کلمات ہیں جن سے معاشرہ کا قرآنی تصور ہمارے سامنے آتا ہے، مثلا(فِئَةٌ،قَرنٌ،قَرْیَةٌ،شُعُوب، رَهط، أُمَّة، قَوْمٌ، حِزْبٌ، طَائِفَة، قَبِیْلَة، مَعْشَر، مَدِیْنة) اسی طرح وہ آیات جو خاندان، گھرانے، ایک وسیع و عریض سر زمین پر بسنے والے افراد اور ایک دین کے پیرو ہونے کو بیان کرتی ہیں ان سے بھی معاشرے کا قرآنی مفہوم سمجھا جا سکتا ہے۔ ان آیات کریمہ سے معاشرے کے مفہوم کا تشکیکی اور مختلف مراتب کا حامل ہونا بھی سامنے آتا ہے۔ قرآن کریم کی کثیر آیات میں معاشروں کے اجتماعی مسائل، ان کی روش و سنت اور ان کی مختلف حوادث پر مشتمل تاریخ کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔ اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر و بیشتر آیات کریمہ یا تو اجتماعی احکام کو بیان کرتی ہیں یا ان احکام کے بیان کے نتیجہ میں انسانوں کے درمیان محکم اور قوی اجتماعی روابط جنم لیتے ہیں۔ نیز جہاں ان آیات کریمہ کے معارف و معانی سے استفادہ کرتے ہوئے بعض اجتماعی مباحث میں موجود مشکلات اور ابہام کو حل کیا جاتا ہے وہاں معاشرے کی حقیقت و ہویت کی اصالت اور عدمِ اصالت کا مسئلہ فرعی مسائل کی صورت میں ان آیات سے روشن ہوتا ہے۔ اگر ہم قرآن کریم میں معاشرے سے تعلق رکھنے والے کلمات کا کلی طور پر جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ قرآن نے معاشرے کو بیان کرنے کے لیے مختلف الفاظ و کلمات کو استعمال کیا ہے۔ یہ الفاظ اگرچہ لغوی طور پر جدا خاص معنی رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کلمات ایک معاشرہ، گروہ اور ایک جمعیت پر دلالت کرتے ہیں۔ انہی کلمات میں سے بعض کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے:
2.امت کا لغوی اور اصطلاحی معنی:
اجتماعی امور اور معاشرے کو بیان کرنے کے لیے قرآن کریم نے وسیع پیمانے پر جن الفاظ کا استعمال کیا ہے ان میں سے ایک کلمہِ امّت ہے۔ یہ لفظ أُمّ سے مشتق ہے جس کا اطلاق ایسے گروہ پر ہوتا ہے جو اختیاری یا جبری طور پر ایک دین، ایک زمانہ، ایک علاقہ و جگہ سے تعلق رکھتا ہو۔ (راغب اصفہان حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص۸۶)
والأُمّة: كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مكان واحد سواء كان ذلك الأمر الجامع تسخيرا أو اختيارا، وجمعها: أمم، وقوله تعالى: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ۔( الأنعام/ ۳۸)
لفظِ امت قرآن کریم میں ۶۴ مرتبہ تکرار ہوا ہے۔ ۵۱ موارد میں لفظِ امت مفرد اور ۱۳ جگہوں پر جمع کی صورت میں استعمال ہوا ہے۔ یہ کلمہ اکثر و بیشتر موارد میں انسانی معاشرے، دین اور آئین کے ماتحت گروہ یا وہ جماعت جو ایک زمانے میں ایک جگہ پر باہمی ربط و تعلق رکھتے ہوئے مشترک پہلو کے حامل ہیں ان کے لیے استعمال ہوا ہے۔ قرآنی آیات ان گروہوں کے درمیان اللہ تعالٰی کی ربوبیت میں ایک ہدف اور دقیق طور پر زندگی کے معین ا ور منظم کے ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جیساکہ ارشادِ رب العزت ہے( ولَو شاءَ اللّهُ لَجَعَلَکُم اُمَّةً واحِدَةً) اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک امت قرار دے دیتا۔ (مائده / ۴۸)
ایک اور جگہ ارشادِ خداوندی ہے( تِلکَ اُمَّةٌ قَد خَلَت لَها ما کَسَبَت ولَکُم ما کَسَبتُم) وہ امت گزر گئی ہے جس کے لیے بس وہی ہے جو اس نے کسب کیا اور تمہارے لیے وہ کچھ ہے جو تم نے کسب کیا ہے.( بقرہ/ ۱۳۴)
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے۔(ولَقَد بَعَثنا فی کُلِّ اُمَّةٍ رَسولاً اَنِ اعبُدُوا اللّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوت) اور ہم نے ہر امت میں رسول مبعوث کیا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو.( نحل/ ۳۶)
نیز ارشاد باری تعالی ہوتا ہے( رَبَّنا واجعَلنا مُسلِمَینِ لَکَ ومِن ذُرِّیَّتِنا اُمَّةً مُسلِمَةً لَکَ)اے ہمارے رب! تو ہمیں اپنے سامنے سر تسلیم خم (مسلمین) قرار دیے اور ہماری ذریّت سے ایک ایسی امت قرار دے جو تیرے سامنے تسلیم ہو.( بقرہ/۱۲۸)
سورہ مومنون میں ارشاد ہوتا ہے(ما تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَها وَما يَسْتَأْخِرُون) کوئی بھی امت اپنے وقتِ اجل سے نہ سبقت کر سکتی ہے اور نہ تاخیر کر سکتی ہے۔( مومنون / ۴۳)
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے۔(مِنهُم اُمَّةٌ مُقتَصِدَةٌ وکَثیرٌ مِنهُم ساءَ ما یَعمَلون)ان میں سے ایک امت معتدل و میانہ رو ہے اور ان میں سے کثیر اپنے اعمال کی بدولت بدکردار ہیں.( مائده/ ۶۶)
قرآن کریم میں لفظ امت انسانوں کے علاوہ دیگر ہوائی اور زمینی جانداروں کے لیےبھی استعمال ہوا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالٰی ہوتا ہے( وَمَا مِنۡ دابَّةٍ فِی الاَرضِ ولا طـئِرٍ یَطیرُ بِجَناحَیهِ اِلاّ اُمَمٌ اَمثالُکُم) اور زمین پر چلنے والے جاندار اور اپنے دونوں پروں سے اڑنے والے تمام پرندے بھی تمہاری طرح امتیں ہیں.( انعام / ۳۸)
3۔ قریہ:
قریہ لغت میں دیہات ،گاؤں یا جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں ان دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے۔( راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۴۰۲.) اورقرآن کریم میں لفظِ قریہ ایک مشترکہ جگے پر دلالت کرتا ہے، ارشادِ الٰہی ہوتا ہے(وکَم قَصَمۡنَا مِن قَریَةٍ کانَت ظالِمَةً واَنشَانا بَعدَها قَومـًا ءاخَرین) اور ہم نے کتنی ایسی بستیوں کو درہم برہم کر کے رکھ دیا جنہوں نے ظلم کیا اور ہم نے ان کے بعد دوسری قوم کو خلق کیا(انبیا/11) اگرچہ روزمرہ کی زبان میں گاؤں کا مطلب گاؤں ہے، لیکن قرآن اور عربی زبان میں اس کا مطلب کوئی بھی ایسی جگہ ہے جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں، چاہے وہ بڑے شہر ہو یا گاؤں۔ (مکارم، تفسیر نمونہ، جلد 1، ص 268)
لفظ قَرن اصطلاح میں :
قرآن کریم میں لفظِ قرن ایک زمانے میں زندگی بسر کرنے والوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالٰی ہوتا ہے(وکَم اَهلَکنا قَبلَهُم مِن قَرنٍ)اور ان سے پہلے کتنی ہم عصر قومیں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا۔( مریم/ ۷۴) لفظِ قرن قرآن کریم کی متعدد آیات میں معاشرے، یا قوم یا ہم عصر زندگی بسر کرنے والے بڑے گروہوں کے معنی میں وارد ہوا ہے۔
معاشرے کی اقسام:
مدینہ فاضلہ ایک ایسی نعمت ہے جس کا قرآن کریم نے وعدہ کیا ہے۔(وعد الله الذین آمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنکم فی الارض کما استخلف الذین من قبلکم ولیمکنن لهم دینهم الذی ارتضالهم و لیبدلنهم من بعد خوفهم امنا یعبدوننی لایشرکون بی شیئا و من کفر بعد ذالک فاولئک هم الفاسقون) (نور،55)
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔
اس آیت کے مفہوم سےیہ کہا جا سکتا ہے۔ اس آیت میں پوری امت اسلامیہ شامل ہے، جس کے بارے میں بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت میں لفظ “منکم” میں “من” بیانیہ ہے۔یہ مسلمانوں کی عمومیت کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن علامہ طباطبائی نے من بعضیہ کے طور پر لیا ہے اور استخلاف کےوعدے کو روئے زمین میں اہل ایمان کےساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، یعنی عمل صالح کرنے والوں کے لیے۔ جو بھی تفسیر کرے اس آیت کا مطلب مدینہ فاضلہ مراد ہی ہے۔
حکماء اور فلاسفہ کے نظریے کے مطابق انسان اپنےافعال اور اعمال کو خیروحق کی بنیاد پر انجام دیتاہے۔لہذا حقیقت میں یگانیّت پائی جاتی ہےاورکثرت پذیری ممکن نہیں ہے۔اگر ہم اس سوچ اور نظریے کےقائل ہوجائیں تو یقینا وہ معاشرہ مدینہ فاضلہ ہوجائے گاجس معاشرےمیں انسانی فضْائل عام ہوں اور جس کےحکمران صرف عوام کی ضرورت اور احتیاجات کو دور کرنے کے بارےمیں ہی سوچتےہو۔ان کا اصل ہدف اور مقصدمعاشرے میں عدل و انصاف کا قیام کرنا ہو اورجس معاشرے کا حاکم اور قانون دونوں الہی ہو۔
اس معاشرے کےعلاوہ باقی تمام حکومتیں ٬ریاستیں اور معاشرے سب کےسب مدینہ غیر فاضلہ تصور کیا جائےگا یعنی اس معاشرے کو فاسد معاشرہ کہلایا حائے گا ۔اور مدینہ فاسدہ کی کئی قسمیں قابل تصور ہیں۔
۱۔مدینہ جاہلہ:
کچھ لوگ ایک جگہ پراکٹھے تو ہوجاتے ہیں مگرتفکرو تدبر کی صلاحیت سے خالی ہوتے ہیں اسی وجہ سے وہ لوگ سعادت حقیقی کونہیں پہچان سکتےہیں اور سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتےہیں۔قرآن مجید کی بہت ساری آیتیں اسی مطلب کو بیان کرتی ہیں. (وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ)
اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں۔
یہاں چار صورتیں قابل تصور ہیں: ٍپہلى یہ کہ اللہ مومن و کافر سب کو جنت بھیج دے۔ دوسرى یہ کہ کافر و مومن سب کو جہنم بھیج دے۔ تيسرى یہ کہ مومن کو جہنم اور کافر کو جنت روانہ کرے اور چوتھي یہ کہ مومن کو جنت اور کافر کو جہنم بھیج دے۔ پہلی، دوسری اور تیسری صورتیں ناممکن ہیں۔ پس چوتھی صورت ہی ممکن اور عدل و انصاف کے مطابق ضروری بھی ہے۔ اس نظام عدل کے مطابق لازم آتا ہے کہ کچھ لوگوں کو گویا جہنم ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ (قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ)
یا کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سننے یا سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟ (نہیں) یہ لوگ تو محض جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔
چونکہ حیوانات کی غرض تخلیق انسان کے لیے ان کا مسخر ہونا ہے اور یہ غرض حیوانات سے انجام پاتی ہے، جبکہ سرکش انسان اپنی غرض تخلیق کے منافی عمل کرتا ہے، اس لیے انسان جانوروں سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔
۲۔مدینہ فاسقہ:
جو لوگ قوہ ناطقہ اور فکر کی نعمت سے توبہرہ مند ہیں اورسعادت حقیقی کی شناخت بھی رکھتے ہیں۔مگر مقام عمل میں سعادت کے اصولوں اور قوانین کی رعایت نہیں کرتے ہیں ۔یعنی خد ا کی وحدانیت٬عالم بالغیب اور مقدسات دینیہ کا اعتقاد رکھتے ہیں مگر مقام عمل میں پا ئبند نہیں ہوتے ہیں ۔ اور حق کو اپنی شہوت کی تابع کرنا چاہتے ہیں ۔ جیسا کہ سورہ مؤمنون میں ان اوصاف کے لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
(لَا تَجۡـَٔرُوا الۡیَوۡمَ ۟ اِنَّکُمۡ مِّنَّا لَا تُنۡصَرُوۡ ) آج مت چلاؤ! تمہیں ہم سے یقینا کوئی مدد نہیں ملے گی۔
(قَدۡ کَانَتۡ اٰیٰتِیۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ فَکُنۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ تَنۡکِصُوۡنَ) میری آیات تم پر تلاوت کی جاتی تھیں تو اس وقت تم الٹے پاؤں پھر جاتے تھے۔
(مُسۡتَکۡبِرِیۡنَ بِه سٰمِرًا تَه جُرُوۡنَ)تکبر کرتے ہوئے، افسانہ گوئی کرتے ہوئے، بیہودہ گوئی کرتے تھے۔
( مُسۡتَکۡبِرِیۡنَ بِه سٰمِرًا تَه جُرُوۡنَ) میں بِہ کا مرجع النکوص ہے۔ بعض کے نزدیک قرآن ہے، یعنی قرآن سے سرکشی کرتے ہوئے۔ سٰمِرًا: رات کو خوش گپی کرنا۔
(أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُمْ مَا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ) کیا انہوں نے اس کلام پر غور نہیں کیا یا ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی بات آئی ہے جو ان کے پہلے باپ دادا کے پاس نہیں آئی تھی؟
اَمۡ لَمۡ یَعۡرِفُوۡا رَسُوۡلَهُمۡ فَهُمۡ لَه مُنۡکِرُوۡنَ یا انہوں نے اپنے رسول کو پہچانا ہی نہیں جس کی وجہ سے وہ اس کے منکر ہو گئے ہیں؟
(اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ بِه جِنَّة بَلۡ جَآءَهُمۡ بِالۡحَقِّ وَ اَکۡثَرُهُمۡ لِلۡحَقِّ کٰرِهُوۡنَ) (مؤمنون/۶۵تا۷۰)
ا وہ یہ کہتے ہیں: وہ مجنون ہے؟ نہیں بلکہ وہ ان لوگوں کے پاس حق لے کر آئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے ہیں۔مذکورہ آیتوں سے یہ معلوم ہوجاتا ہے جس معاشرے کے افراد تکبرکی وجہ سے قرآن٬رسول اور اہل حق سے انکار کرتے ہیں اس معاشرے کو قرآن فاسق ا ور فاسد معاشرہ کہلاتا ہے۔
۳۔مدینہ مبدلہ :
کچھ لوگ سالم اور مطلوب معاشرہ میں زندگی تو کر تے ہیں مگر تدریجا اس سالم بافضیلت معاشرے سے منحرف ہوکر روبہ زوال اور انحطاط کا شکار ہوتے ہیں اور پستی ورزائل کی انتہا تک جا پہنچتے ہیں مدینہ مبدلہ کے لئے قوم سبا بہترین مثال بن سکتی ہے چیسا کہ قرآن کریم کہ یہ آیت لَقَدۡ کَانَ لِسَبَاٍ فِیۡ مَسۡکَنِهِمۡ اٰیَةٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنۡ یَّمِیۡنٍ وَّ شِمَالٍ کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِ رَبِّکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لَه بَلۡدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّ رَبٌّ غَفُوۡرٌ-(سبا/۱۵) بتحقیق(اہل) سبا کے لیے ان کی آبادی میں ایک نشانی تھی، (یعنی) دو باغ دائیں اور بائیں تھے، اپنے رب کے رزق سے کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، ایک پاکیزہ شہر (ہے) اور بڑا بخشنے والا رب۔
سبا سے مراد وہ علاقہ ہے جسے آج ہم یمن کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ نہایت سر سبز تھا اور یہاں ہر طرف باغات نظر آتے تھے۔
(فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ)۔( سبا/۱۶)
پس انہوں نے منہ پھیر لیا تو ہم نے ان پر بند کا سیلاب بھیج دیا اور ان دو باغوں کے عوض ہم نے انہیں دو ایسے باغات دیے جن میں بدمزہ پھل اور کچھ جھاؤ کے درخت اور تھوڑے سے بیر تھے۔
۴۔مدینہ ضالّہ :
جس معاشرے کے افراد میں حق وباطل سعادت وشقاوت کی شناخت نہیں ہے ان کی مشکل یہ ہے کہ باطل حکمرانوں نے حقیقت کی صحیح اور درست معرفی نہیں کی ہیں ۔ یا کج فکری کی وجہ سے فضائل کی جگہ پر رزائل جایگزین ہوگئے ہیں اور قوانین کو بھی اپنی منفعت کے مطابق تدوین کیا ہےاور لوگ بھی اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں خداوند عالم نے حضرت موسی کی قوم کی ہدایت کے لئے حضرت موسی نبی کو بھیجا ،کیونکہ اس سےپہلے کوئی رہنمائی کرنا والا نہیں تھااور اس معاشرے پر حکمرانی کرنے والوں میں فرعون جیسا جابر اور ظالم بادشاہ تھا۔تبھی تو پوری قوم انکے گمراہ کن قانون اور آئین پر عمل کرنے کے نتیجے میں گمراہ ہوگئ تھی لہذا جومعاشرہ گمراہی کا شکار ہوتا ہے اس میں حکمر انوں كاکردار زیادہ ہوتا ہے ۔ ان کے مقابلے میں حق و حقانیت کی رہبری اور راہ سعادت کی رہنمائی کے لئے موسی جیسا بہادر اور شجاعت مند اایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی اس مطلب کو بیان کیا ہے ۔( وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَٰكِنْ رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ) (قصص:۴۶) اور آپ طور کے کنارے پر موجود نہ تھے جب ہم نے ندا دی تھی بلکہ (آپ کا رسول بنانا) آپ کے رب کی رحمت ہے تاکہ آپ اس قوم کو تنبیہ کریں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں آیا شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔
مشرکین مکہ کی معلومات کے مطابق آپؐ ان تمام مقامات پر موجود نہ تھے اور ان پر طویل مدت بھی گزر گئی تھی اور مکہ کی ان پڑھ قوم میں ان واقعات کا علم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا، پس اگر یہ قرآن وحی الہٰی نہیں ہے تو کون سا ذریعہ ممکن ہو سکتا ہے؟ اگر کوئی ذریعہ موجود ہوتا تو آج کے مستشرقین سے کہیں زیادہ مکہ کے مشرکین کو اس کی ضرورت تھی۔ وہ اسے برملا کر دیتے اور جنگ کرنے کی نوبت نہ آتی۔قرآن مجید میں کسی اور جگہ ارشاد فرماتاہےاگر کسی شہر میں لوگ باتقوا اور باایمان ہو جائیں تو یقینا اللہ کی طرف سے آسمان سے برکتیں نازل ہوگی اور زمین اسکے لئے وسیع ہوجائےگی مگر جنھوں نے جھٹلایا ان کو خداوند قہارکا عذاب اپنی گرفت میں لےگا (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ) (اغراف،۹۶)
اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔
ایمان باللہ انسانی زندگی سے الگ کسی اور چیز کا نام نہیں ہے۔ ایمان باللہ کا حامل معاشرہ ظلم و استحصال سے پاک ہو گا اور ہر ایک کو قدرتی وسائل و ذرائع اور ذخائر سے استفادہ کرنے کا مساویانہ حق اور موقع ملے گا۔ اس طرح نعمتوں کی فراوانی ہو جائے گی۔ البتہ مادی وسائل کے لیے نظریات کافی نہیں ہوتے، بلکہ نظریات مادی وسائل سے مساویانہ استفادہ کرنے کا حق دلانے میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ (اَفَاَمِنَ اَهۡلُ الۡقُرٰۤی اَنۡ یَّاۡتِیَهُمۡ بَاۡسُنَا بَیَاتًا وَّ هُمۡ نَآئِمُوۡنَ) (اعراف،۹۷) کیا ان بستیوں کے لوگ بے فکر ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آ جائے جب وہ سو رہے ہوں ؟
سرکش اقوام کا انجام اور سنت الٰہی بیان کرنے کے بعد دوسری قوموں کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے پروردگار عالم فرماتا ہے: عذاب خداوندی میں آزمائشی وقفے سے کسی قوم کو دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کیونکہ مجرموں کو مکافات عمل اس وقت اپنی گرفت میں لے گا جب وہ فحشا اور خواب غفلت میں مگن ہوں گے۔ مَکۡرَ اللّٰهِ سے مراد اللہ کا وہ عذاب ہے جو مجرموں پر اس وقت آ پڑتا ہے جب وہ اپنی بد مستیوں اور بے شعوری کی حالت میں ہوتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ ان کی اپنی بے حسی کی وجہ سے اللہ انہیں ایسی راہ پر لگا دیتا ہے جس سے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے حق میں یہ بہتر ہے حالانکہ وہ عذاب الٰہی کا پش خیمہ ہوتا ہے۔)
قرآن مجید کی مبناء کے مطابق ارسال رسل کا ہدف روئے زمین پر انصاف کا قیام اور عدالت کا اجرا کرناہے ۔ تمام انبیاء علیہم السلام بنی نوع انسان کوتوحید کی طرف دعوت دینےاور حق کے قیام کے لئے تشریف لائے تھےمگر بہت سارے اقوام نے انھیں جھٹلا یا اور ان کو قبول نہیں کیا اس کی مثالیں قرآن میں بھری پڑی ہوئی ہیں۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید