تازہ ترین

گلگت بلتستان پر مسلط ثقافتی یلغار اور اس کا راہ حل

خداوند متعال نے ملک عزیز پاکستان کو مختلف نعمتوں سے نوازا ہے، اور جنت نظیر وادی گلگت بلتستان، جغرافیائی اعتبار بہت اہمیت کی حامل ہے اور سیاحتی میدان میں پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے
شئیر
31 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10221

گلگت بلتستان پر مسلط ثقافتی یلغار اور اس کا راہ حل
تحریر :احمد حسین جوہری

پہاڑی سلسلے چاروں طرف اور بیچ میں ہم ہیں مثال گوہر نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں
(پروفیسر مرحوم حشمت علی کمال الہامی)
پروردگار عالم نے پاکستان کے مختلف علاقوں کی طرح گلگت بلتستان کو قدرتی حسن سے مالا مال کر دیا ہے۔
خصوصاً اسلامی تہذیب اور ثقافت میں گلگت بلتستان اپنی مثال آپ ہے۔
گلگت بلتستان کی ثقافت درجہ ذیل:
1- مختلف مکاتب فکر کے ساتھ الفت، محبت، اور بھائی چارہ گی
2-مجالس و محافل آئمہ طاہرین علیہم السلام گلگت بلتستان ادب جو دنیا میں مشہور ہے بلخصوص مجالس و محافل اور مساجد میں جو ادب بلتستان میں نظر آتا ہے کہیں اور نظر نہیں آتا
بلتی قصائد مرثیہ بحر طویل اور مجالس و محافل جیسی اسلامی ثقافت اور رسومات بہت اہم ہیں
اس سے اخلاق، کردار، انسانیت، انسان دوستی، رحمدلی ؛ نرم مزاجی، تواضع و انکساری، شجاعت، سخاوت، عبادت، دیانت، امانت، خدمت خلق، غریب پروری، اخلاق کردار اور گفتار کی درستگی؛ تزکیہ نفس، اصلاح معاشرہ؛ آپس میں محبت اور سب سے اہم اتحاد و اتفاق کا درس ملتا ہے
3- مہمان نوازی گلگت بلتستان کی ثقافت ہے۔
4۔ ایک دوسرے کے غم و خوشی میں شریک ہونا
5- صلہ رحمی پر خاص توجہ دینا
6- ماہ مبارک رمضان میں مقابلہ قرآن خوانی اور دورس کا انتظام
7- حیاء گلگت بلتستان کی ثقافت ہے
8- گلگت بلتستان کی ایمان داری اپنی مثال آپ ہے
9- گلگت بلتستان کو اپنی خاص تہذیب و ثقافت اور شرافت کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک منفرد پہچان حاصل ہے
10- گلگت بلتستان کی ثقافت کی اور پہچان ناچ گانے نہیں ہے۔ یہاں کی پہچان یہاں بسنے والوں کی شرافت ہے۔ یہاں کی پہچان اسلامی اصولوں کی پاسداری ہے۔ اور یہاں کی ثقافت اسلامی احکام پر عملدرآمد کرنا ہے۔ یہاں شریف النفس عوام کسی صورت یہاں کے اسلامی ثقافتی ورثے کا سودا نہیں چاہتے ہیں۔
لیکن اس مقدس سر زمین کو جو تہذیب اسلامی اور امن کا گہوراہ سمجھا جاتا تھا ۔۔ اس خوبصورت ماحول کو ناچ گانے اور گمراہ کن محفلیں اپنی اور نئی نسلوں کوخراب کرنے کے لئے مختلف حربوں سے خراب کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں
1- تعلیمی اداروں کی تباہی
بدقسمتی سے آج مغرب ہماری اس خوبصورت ترین اسلامی ثقافت کو ختم کر کے مغربی کلچر لانے میں مصروف عمل ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں کچھ مغرب پرست عناصر گھس کر تعلیم کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں اس وقت آپ ہمارے تعلیمی اداروں میں دیکھیں خصوصاً گلگت بلتستان کی یو نیورسٹیز میں ملکی اور غیر ملکی این جی اوز ثقافت کے نام پر مخلوط ڈانس اور فحاشی کو پھیلانے میں مصروف ہیں۔ این جی اوز ثقافت کے نام پر کالجز اور یونیورسٹیز میں خواتین کی بے حرمتی کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے کچھ افراد کچھ پیسوں کے لیے ہماری ثقافت کو خراب کر کے منظر عام پر لا رہے ہیں۔ کئی سالوں میں گلگت بلتستان یونیورسٹیوں کا ہماری ثقافت کو خراب کرنے کے لیے رقص و سرود کا انتظام کرنا اور مردوں اور خواتین کے مخلوط ڈانس کا پروگرام بنانا وغیرہ۔ ہماری ثقافت کو بچانے کے لیے دانشوروں، علم دوست شخصیات، قومی تنظیمیں، اور مذہبی تنظیموں کو رول ادا کرنے کی ضرورت ہے، خصوصاً گلگت بلتستان کے علماء کرام کو ایک دوسرے پر الزام لگانے کے بجائے متحد اور متحرک ہو کر این جی اوز اور تعلیم دشمن عناصر کے مقابلے کے لیے تیار ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے علماء کرام اور دانشور حضرات متحد ہو جائیں تو کسی کو مجال نہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں کو ٹھیس پہنچائے۔
2- گلگت بلتستان اور سیاحت
خداوند متعال نے ملک عزیز پاکستان کو مختلف نعمتوں سے نوازا ہے، اور جنت نظیر وادی گلگت بلتستان، جغرافیائی اعتبار بہت اہمیت کی حامل ہے اور سیاحتی میدان میں پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے، ایک سروے کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے پچاس فیصد سے زیادہ پہاڑ گلگت بلتستان میں واقع ہیں، دینا کی 8 ہزار میٹر سے زیادہ بلند 14 چوٹیوں میں سے 5 گلگت بلتستان میں واقع ہیں جیسے کے 2، نانگا پربت، راکاپوشی، رگشہ برم اور مشہ برم، اس کے علاوہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے، اور کھرفوچو کی پہاڑی گلگت بلتستان کے حسن کو مزید چار چاند لگاتے ہیں اور اسی طرح دیوسائی، شنگریلا جھیل، اپرکچوراہ جھیل، سدپارہ جھیل، منٹھوکھ آبشار، خموش آبشار، شگر فورٹ، خپلو فورٹ، چقچن مسجد، جربہ ژھو، اور گلگت بلتستان کے باقی خوبصورت مناظر دیدنی ہیں۔ ہر سال اندرونی ملک اور بیرون ملکوں سے ہزاروں کی تعداد میں سیاح قدرتی حسن سے مالا مال مناظر دیکھنے کے لیے گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں۔ رواں سال بھی گلگت بلتستان کی جانب ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا سیلاب امڈ آیا، جس میں سے اکثریت کا تعلق اندرونی ملک سے تھا۔ یقیناً قدرتی حسن جہاں بھی ہوگا وہ علاقے دنیا کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ اور ان جگہوں کو دنیا کے سامنے لانا یہاں کے باشندوں اور حکومت کی ذمہ داری ہے،جس طرح حکومت گلگت بلتستان کو دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے یہ قابل تحسین اقدام ہے۔ لیکن حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے گلگت بلتستان کی تہذیب اور ثقافت کی حفاظت کریں۔ اس وقت حکومت نے گلگت بلتستان کی تہذیب اور ثقافت کو صرف اور صرف ناچ گانے تک محدود کر رکھا ہے جبکہ گلگت بلتستان کی تہذیب اور ثقافت ناچ گانا نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان کی تہذیب اور ثقافت کو سوچی سمجھی سازشوں کے ذریعے ختم کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر سے آنے والے سیاح جی بی کی روایات، مہمان نوازی اور سادگی کی مثالیں دے رہے ہیں۔ لیکن یہاں حکومتی سرپرستی میں ایسے بے ہودہ پروگرام رکھے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے نوجوان مرد اور خواتین بے حیائی اور بے راہ روی کی طرف راغب ہو رہے ہیں پورے ملک کی این جی اوز ایک طرف جبکہ گلگت بلتستان میں ہزاروں بین الاقوامی این جی اوز پیسوں کے ذریعے نوجوان مرد اور خواتین کی عزت پامال کرنے کے چکر میں ہیں۔ دشمن عناصر کی طرف سے خواتین کے حقوق کے نام پر جس انداز سے نوجوان خواتین کو پیش کیا جا رہا ہے اس کا بنیادی ہدف خواتین کی اہمیت،عزت اور حرمت کو پامال کرنا ہے۔ خواتین کے درمیان بے حیائی عام کرنے کے بہت تیزی سے کام ہو رہا ہے۔اج تمام خواتین پر فرض ہے کہ حجاب اور اسلامی پردہ کی فکر کو عام کریں۔کیونکہ گلگت بلتستان کے باہر سے آنے والی خواتین نے بے حیائی کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ لہذا حکومت اور علمائے کرام اور تعلیم یافتہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ فوری طور پر گلگت بلتستان کی تہذیب اور ثقافت کے نام پر مجرے بند کریں۔ چونکہ دنوں کچھ دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے اور کچھ غیر سرکاری تنظیمیں، حتی بعض سرکاری ادارے ملک کے مختلف مقامات اور ٹی وی چینلز پر گلگت بلتستان کی تہذیب اور ثقافت و کلچر کے عنوان سے شوز اور پروگرامز کا انعقاد کرتے ہیں جو نہ صرف وہاں کی حقیقی تہذیب اور ثقافت کو مسخ کرتے ہیں، بلکہ اسے بے ہودہ رقص و سرود والی تہذیب اور ثقافت کے طور پر پر متعارف کراتے ہیں۔سیّاحوں کے روپ میں فرقہ­ پرست اور تکفیری ٹولے سے وابستہ شرپسند، گلگت بلتستان کا رخ کرکے مقامی افراد پر اثر انداز ہونے کی بھرپورکوشش کر رہے ہیں؛ لہذا انتظامیہ اور شہریوں کو نہایت ہوشیاری اور خوش اسلوبی سے ہرقسم کی ثقافتی اور مذہبی یلغار کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرنی چاہئےکیوں کہ مغربی کلچر نے اس وقت پورے گلگت بلتستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، نوجوان نسل گلگت بلتستان کے تہذیب اور ثقافت کو چھوڑ کر مغربی کلچر اپنانے کی وجہ سے تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ لہذا گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو مغربی کلچر سے روکنے کے لیے گلگت بلتستان کے علماء، سیاستدان اساتیذ، ثقافت کے ماہرین، تعلیم یافتہ طبقے اور والدین گلگت بلتستان لیول کی قومی تنظیمیں اور تمام مذہبی تنظیموں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر مغربی چیلنجز سے ہر وقت مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *