تازہ ترین

رہبر معظم کی قرآنی فکر میں دشمن سے نمٹنے کی حکمت عملی اور اس کے نتائج

رہبر معظم کے بیانات میں چھان بین سے واضح ہو جاتا ہے کہ دشمن کے ساتھ نمٹنے کے لئے دشمن شناسی، دشمن کے ساتھ حد بندی اور سیاسی حریف کے ساتھ دشمنی سے اجتناب کرنے پر زور دینا، آپ کی قرآنی سوچ اور فکر کا نتیجہ ہے
شئیر
11 بازدید
مطالب کا کوڈ: 10229

رہبر معظم کی قرآنی فکر میں دشمن سے نمٹنے کی حکمت عملی اور اس کے نتائج
محمد جعفر صادقی
امت اسلامیہ بالخصوص اسلامی نظام کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے اور دشمن کو اسلامی ملکوں کے نظریاتی حدود میں دخل اندازی سے باز رکھنے کے لیے رہبر معظم نے دشمن شناسی ، دشمن شناسی کے حدود کی اہمیت اور ان کے نتائج پر زور دیا ہے جوکہ ذیل میں تفصیلی بحث کریں گے۔
الف: دشمن سے نمٹنے کی حکمت عملی
رہبر معظم کی نگاہ میں دشمن سے نمٹنے کے لئے دشمن شناسی اور اس کے ساتھ حد بندی بہت ضروری ہے اور یہیں دشمن شناسی اور حد بندی اور سیاسی حریفوں کے ساتھ دشمنی سے اجتناب، دشمن کے ساتھ نمٹنے کے لئے بہترین حکمت عملی ہے۔
1۔دشمن شناسی اور حد بندی
دشمن کے ساتھ حد بندی کے لئے دشمن شناسی ضروری ہے۔ کیونکہ اگر دشمن کو درست نہ پہچانیں توحد بندی کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا جاتاہے ۔ رہبر معظم نے مختلف خطابات میں دشمن کو جاننے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔آپ فرماتے ہیں: اسلامی جمہوریہ کےعہدہ داران کی حیثیت سے ہمارا سب سے پہلا فرض دشمن کو جاننا ہے۔ دشمن کو جانیں؛ دشمن کو جاننے میں غلطی نہ کریں۔ یہ مت کہو کہ ہم سب جانتے ہیں۔ جی ہاں، آپ جانتے ہیں کہ دشمن کون ہے؛ دشمن تکبر ہے، دشمن صیہونیت ہے، دشمن امریکہ ہے۔ آپ یہ جانتے ہیں، لیکن دوسری طرف اس مسئلے میں رائ عامہ کو تبدیل کرنے کے لئے ایک وسیع پیمانے پر کوشش کی جا رہی ہے اور سوشل میڈیا پرمہم چلائی جارہی ہے۔ سب کو ہوشیار رہنا چاہیے؛ دشمن شناسی بہت ضروری ہے۔دوسرا فرض دشمن کے منصوبے کو جانناہے؛ دشمن کیا کر رہا ہے، کیا کرنا چاہتا ہے؟ یہ جان نے کے بعد ہمارے لوگوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کے منصوبوں اور حربوں سے کیسے نمٹا جائے ۔” رہبر معظم ، 10/18/1398)۔
2۔سیاسی حریفوں کے ساتھ دشمنی سے اجتناب
دشمن کے ساتھ حد بندی میں ایک اہم مسٗلہ سیاسی حریفوں کے ساتھ دشمنی سے گریز اور اجتناب کرناہے کیوں کہ دشمن اور سیاسی مخالفین میں فرق ہے۔ رہبر معظم اس تناظر میں فرماتے ہیں: کچھ لوگ اپنے سیاسی مخالف شخص یا پارٹی کو سب سے بڑا شیطان سمجھتے ہیں! جبکہ سب سے بڑا شیطان امریکہ ہے، سب سے بڑا شیطان صیہونیت ہے۔میں زید کا فین ہوں تم عمر کے پرستار ہو کیا میں تمہیں شیطان کہوں؟ کیوں؟ جبکہ زید اور عمرو دونوں انقلاب اور اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ اسلام اور انقلاب کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہمیں دشمن کے ساتھ تصادم اور سیاسی حریف کے ساتھ مخالفت کی لکیر کا تعین کرنا ضروری ہے ” (رہبر معظم ، 24/7/1391)۔
ب: دشمن شناسی اور اس کے ساتھ حد بندی کے نتائج
رہبر معظم انقلاب کے بیانات پر دقت کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ دشمن شناسی اور دشمن کے ساتھ حد بندی، وہ حکمت عملی ہے جس کے زریعے تمام شعبوں میں دشمن کے ساتھ نمٹنے میں کامیابی مل جاتی ہے اور اسلامی معاشروں میں مثبت نتائج سامنے آتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں۔
۱۔ نرم یلغار سے تحفظ
رہبر معظم کی نگاہ میں ، دشمن کے ساتھ سرحدوں کی حد بندی کا مطلب یہ ہے کہ لوگ دشمن کے نرم حملوں کا شکار نہ ہوں اور اسلامی معاشرہ اس سے محفوظ رہے… لیکن دشمن کے ساتھ سرحدوں کی حد بندی اسلامی معاشرے کو کس طرح نرم حملوں سے محفوظ رکھتی ہے؟ رہبر معظم انقلاب نے وضاحت کی: “جب نظریاتی سرحد واضح نہ ہو، تو دشمن آسانی کے ساتھ در اندازی کر سکتا ہے، دھوکہ دے سکتا ہے، فریب دے سکتا ہے، معنوی فضا پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے۔ اگر دشمن کے ساتھ حد بندی واضح ہوجاتی ہے تو اس کے لیے معنوی اور ثقافتی ماحول پر غلبہ حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ (رہبر معظم ، 23/12/1397)۔
۲۔ دنیا کے ساتھ روابط میں شفافیت اور نظم و ضبط
اگرچہ بعض کا خیال ہے کہ دشمن کے ساتھ حد بندی دنیا کے ساتھ روابط کے لئے مانع ہے اور وہ دشمن کا لفظ استعمال کرنے سے بھی محتاط رہتے ہیں، اور کہتےن ہیں کہ ہمیں لفظ دشمن کے استعمال سے گریز کرنے کی ضرورت ہے! لیکن رہبر معظم یقین رکھتے ہیں کہ دشمن کے ساتھ حد بندی نہ صرف دنیا کے ساتھروابط کے لئے مانع نہیں ہے بلکہ روابط کو نظم و ضبط دینے اور شفاف بنانے میں مددگار ہے۔ وہ کہتے ہیں: “جس کام پر ہمیں ہمیشہ توجہ دینی چاہیے وہ، دشمن کے محاذ کے ساتھ درست اور واضح حد بندی کا کام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ایسا کرنا پڑے گا، آپ کو حدود طے کرنے ہوں گے۔ حد بندی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے تعلقات ختم کر لیں۔ جیسا کہ رہبر معظم انقلاب کے بیان میں واضح ہے کہ وہ دشمن کے ساتھ حد بندی کا مطلب دنیا سے تعلقات منقطع کرنا نہیں سمجھتے ہیں بلکہ ان کی رائے میں دشمن کے ساتھ حد بندی دنیا کے ساتھ تعلقات اور روابط میں نظم و ضبط اور شفافیت لاناہے۔
۳- امت اسلامیہ کے وقار کا تحفظ
ایسا معاشرہ با وقارہو سکتا ہے کہ جس کے حدود اپنے دشمن کے ساتھ مشخص ہوں، جو معاشرہ دوسروں کے تسلط اور حکم کے تحت چلتا ہووہ باوقار معاشرہ نہیں ہو سکتا ہے۔ رہبر انقلاب دشمن کو دھوکے باز اور بے اعتبار سمجھتے ہیں اور ایسے دشمن کے لئے نرم گوشہ رکھنا ملک کی عزت کے خلاف ہے، اس لیے انہوں نے دشمن کے ساتھ حدود کو احتیاط سے برقرار رکھنے کی تاکید کی اور دشمن کی دھمکیوں سے خوفزدہ نہ ہونے اور مقاومت کرنے پر زور دیا ہے ۔ ان کی قرآنی فکر میں ملک کی عزت اور اسلامی معاشرے کا وقار، دشمن کے ساتھ حد بندی اور مسلمان بھائیوں کے درمیان یکجہتی پر مبنی ہے۔ ان کی قرآنی نگاہ میں ” اسلامی معاشرے کی عزت و وقار کے دو ستون ہیں، یعنی ایک طرف دشمن کے ساتھ حد بندی اور استکبار کے خلاف طاقت ور محاز پر کھڑے ہونا، اور دوسری طرف اپنوں کے ساتھ ہمدردی، مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارگی ، جب ان دو ستونوں کے ساتھ تیسرا ستون یعنی (عاجزی اور اطاعت خداوندی ) بھی ہمراہ ہو، تو ملت اسلامیہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گی اور مسلم اقوام اس ذلت آمیز پسماندگی سے نجات پائیں گی جو حالیہ صدیوں میں ان پر مسلط کی گئی ہے۔ (رہبر معظم ، 27/9/1386)۔ لہٰذا رہبر معظم کے قرآنی افکار میں اگر اسلامی معاشرہ اپنی عزت کی تلاش میں ہے تو اسے دشمن کے ساتھ حدود کا تعین کرنے کی ضرورت ہے اور قرآن کریم نے ہر ایسے لین دین، سلوک اور رویے کی مذمت کی ہے جس سے مسلمانوں کی عزت اور وقار کو نقصان پہنچے۔
۴۔ استقلال اور آزادی کی حفاظت
آزادی کی اہمیت کے بارے میں وہ کہتے ہیں: “آزادی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔” اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونسکو کی طرف سے تیار کیا گیا تعلیمی دستاویزی مسودہ (۲۰۳۰) – ہماری آزادی کا سوال ہے۔ اب کچھ لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جناب مثال کے طور پر فرض کریں کہ ہم نے حفاظت کی ہے یا کہا ہے کہ ہم فلاں چیز کو نہیں مانتے۔ نہیں، یہ مسئلہ نہیں ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ اس دستاویز میں کوئی ایسی چیز واضح نہیں ہے جو اسلام کے خلاف ہو، جبکہ یقیناً موجود ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں صحیح رپورٹ نہیں ملی۔ نہیں، ہماری پاس درست رپورٹیں ہیں، میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام کو ملک سے باہر نہیں لکھا جانا چاہیے۔ یہ ایران ہے، یہ اسلامی جمہوریہ ہے، یہ ایک عظیم قوم ہے۔ کیا ہمارے تعلیمی نظام کو یونیسکو یا اقوام متحدہ یا کہیں جگہ چار لوگ بیتھ کر لکھیں۔ کیوں؟ یہ آزادی کا مسئلہ ہے” (رہبر معظم : 17/03/2016)۔
نتیجہ
رہبر معظم کے بیانات میں چھان بین سے واضح ہو جاتا ہے کہ دشمن کے ساتھ نمٹنے کے لئے دشمن شناسی، دشمن کے ساتھ حد بندی اور سیاسی حریف کے ساتھ دشمنی سے اجتناب کرنے پر زور دینا، آپ کی قرآنی سوچ اور فکر کا نتیجہ ہے ، اسی لئے اس مسئلے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ رہبر معظم کی قرآنی فکر میں ، نرم یلغار سے تحفظ ، دنیا کے ساتھ روابط میں شفافیت اور نظم و ضبط، امت اسلامیہ کے وقار کا تحفظ ا ور استقلال اور آزادی کی حفاظت۔ درحقیقت دشمن شناسی، دشمن کے ساتھ حد بندی اور حریف کے ساتھ دشمنی سے اجتناب کے مثبت نتائج میں سے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ملک ، قوم اور دینی نظریات، مادی اور انسانی وسائل کی، دشمنوں کے نفوذ اور دست اندازی سے حفاظت ہو جاتی ہے اور امت مسلمہ انہیں مادی و معنوی وسائل کو بروئے کار لاکر ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گی۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *