تازہ ترین

جیو تو ایسے؟

کچھ دوست معاشرے میں رواج پانے والی شدت پسندی اور حساسیت کا رونا روتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا معاشرہ اکثر معاملات میں شدت پسند اور حساس ہے، تاہم اگر حکومتیں مختلف موارد میں اس حساسیت کے پیش نظر بروقت اقدام کر لیا کریں تو اس شدت اور اس کے منفی اثرات سے بچنا بہت آسان ہوسکتا ہے۔

شئیر
62 بازدید
مطالب کا کوڈ: 112

آپ حالیہ واقعہ کو ہی لے لیجیئے، تادم تحریر پیمرا اور حکومت فیصلہ نہیں کر پائی کہ ہم نے جیو کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ قانون میں اس بات کی کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ قوانین موجود ہیں فقط ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے تاہم ہمارے ادارے ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ حکومت اور قومی اداروں کی یہ ناکامی عوام میں بے چینی اور اضطراب کو جنم دیتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قسم کے حساس معاملات جن کے ردعمل سے کسی بڑے نقصان کا اندیشہ ہو، پر کم از کم فوری ایکشن لینا چاہیے، تاکہ ملک کو کسی بھی غیر یقینی صدمے سے بچایا جاسکے۔ اس وقت ضرورت نہیں تھی کہ پیمرا لوگوں کی شکایات یا عدالتی احکامات کا انتظار کرتی بلکہ اسے اپنے قوانین کی روشنی میں از خود اقدام کرتے ہوئے اس چینل کی انتظامیہ کو جوابدہی کے لئے بلانا چاہیے تھا، تاکہ انصاف ہوتا نظر آتا۔

 جیو تو ایسے ۔۔۔۔ کہ نہ اپنی عزت سلامت رہے اور نہ کسی دوسرے کی پگڑی۔ کیا دنیا میں جینے کا یہی انداز ہے؟ جیو ٹی وی کی صبح کی نشریات میں کی جانے والی حالیہ گستاخی، جس کے بارے میں ان کا اپنانقطہ نظر یہ ہے کہ گستاخی نادانستہ طور پر ہوئی، پر بحث زوروں پر ہے۔ تقریباً ہر مسلمان کو جیو کے پروگرام میں دکھائے جانے والے مناظر نے دکھ اور تکلیف میں مبتلا کر دیا۔ ایک ایسی اداکارہ جس کا کردار ملکی ساکھ اور مذہبی و معاشرتی اقدار کے حوالے سے انتہائی قابل اعتراض اور باغیانہ ہے، کی رچی ہوئی شادی کا جشن منانے کے لیے نہ صرف جیو نے اپنے وسائل کو صرف کیا بلکہ انتہائی توہین آمیز انداز میں خاندان عصمت و طہارت سے منسوب اشعار کو اس تقریب میں پیش کیا گیا۔ 

اس سے قبل بھی جیو اس اداکارہ پر بہت سے پروگرام کرچکا ہے، بلکہ یہ اداکارہ جیو ہی کی پیداوار ہے۔ اس خاتون نے اپنے کیریئر کا آغاز اسی چینل سے کیا اور پھر ہمسایہ ملک چلی گئی۔ یہ چینل اس اداکارہ کی مختلف نازیبا حرکات کو نشر کرتا رہا۔ اس چینل نے مذکورہ اداکارہ کے کئی ایک خصوصی انٹرویوز چلائے۔ حیرت ہوتی تھی کہ یہ اداکارہ جیو کے لیے کیوں اتنی اہمیت کی حامل ہے؟ ہندوستان میں رنگ رلیاں منانے کے بعد شادی کرکے جب یہ اداکارہ پاکستان آئی تو ایک مرتبہ پھر جیو میدان میں اترا۔ ملک، دین اور اقدار کی حرمت کو پامال کرنے والی اس اداکارہ کی شادی کا جشن کوئی نادانستہ غلطی نہیں بلکہ میری نظر میں ایک سوچی سمجھی سکیم اور منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ 

اس خاتون کی شادی کا جشن منانا اور اسے پاکستانی معاشرے کے سامنے نشر کرنا بذات خود پاکستانیت، اسلام اور ہماری ثقافتی اقدار سے بغاوت ہے۔ اگر جیو فقط اتنا ہی کرتا تو بھی قوم کا مجرم تھا۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ گذشتہ چند برسوں سے ہمارے میڈیا چینلز تفریح کے نام پر جس روش کو اختیار کئے ہوئے ہیں، وہ کسی طور بھی پاکستانی ثقافت اور مسلم اقدار سے سازگار نہیں ہے۔ پہلے پہل تو معاملہ فقط ڈراموں کی حد تک تھا، تاہم اب یہ صورتحال ہے کہ خبروں میں بھی ہمسایہ ملک کی فلموں کے کلپ اور گانے بڑے اہتمام سے دکھائے جاتے ہیں۔ نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو خصوصی پروگراموں میں ان گانوں کے بولوں پر جھومتے اور رقص کرتے دکھانا تو عام سی بات بن چکی ہے۔ 

شادیوں کے سیزن میں مہندی، بارات کی رسوم پر پروگرام نشر ہوتے ہیں اور اس سب پر نظر رکھنے کے لئے ایک نام نہاد ادارہ پیمرا کے نام سے کام کر رہا ہے۔ آپ میں سے جن لوگوں کو ترکی کے ترجمہ شدہ ڈرامے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو، وہ میری اس بات کی تائید کریں گے کہ یہ پروگرام گھر والوں بالخصوص بچوں اور خواتین کے ہمراہ بیٹھ کر نہیں دیکھے جاسکتے۔ جو بچے یہ ڈرامے دیکھتے ہیں، ان کے معصوم کھیلوں میں بھی ان ڈراموں کا عکس واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ کبھی سننے میں آتا ہے کہ میں رومان نہیں بلکہ مناحل ہوں۔ کوئی کہ رہا ہے کہ میں عبداللہ نہیں خلیل ہوں۔ یہ نسل جو آج ہی ترکی کے ڈراموں کو ذہن نشین کرچکی ہے، مستقبل میں کونسی ثقافتی اقدار کی حامل ہوگی۔ آج سے دس یا پندرہ سال بعد پاکستانی معاشرہ کیا تصویر پیش کر رہا ہوگا۔؟

ان ڈراموں میں نہ صرف قوم کی نسل نو کو اپنی ثقافت سے دور کیا جا رہا ہے بلکہ تاریخ کو بھی ان کے سامنے مسخ کرکے پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر ترکی کے ترجمہ شدہ ڈرامے فقط پاکستان میں ہی دکھائے جاتے تو میں اسے بھی ایک اتفاق سمجھتا۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ ڈرامے تقریباً تمام مسلمان ممالک میں علاقائی زبانوں میں ترجمہ کرکے چلائے جا رہے ہیں۔ ایسا ہونا کسی منظم منصوبہ بندی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آپ اسلامی ممالک میں بولی جانے والی کسی بھی زبان میں ان ڈراموں کے نام لکھیں تو آپ کو یوٹیوب، ویمو، ڈیلی موشن اور طرح طرح کی سائٹس پر ان ڈراموں کے ترجمہ شدہ ورژن مل جائیں گے۔ ہمارے ملک میں بھی چند چینلز اس عالمی سازش کا حصہ ہیں۔ جیو بہرحال اس میدان میں بھی پیش پیش ہے۔ 

اسی یلغار کو ہمارے اہل علم ثقافتی یلغار کا عنوان دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس یلغار کو بڑھاوا دینے اور فروغ بخشنے میں ملک میں کام کرنے والی نجی کمپنیوں کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ ملک میں ثقافتی تنزلی اس حد تک پہنچا دی گئی ہے کہ موبائل، ٹوتھ پیسٹ، ریزر حتٰی کہ بچوں کی اشیاء سے متعلق اشتہارات بھی ناچ گانے سے پاک نہیں ہوتے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے نسلیں برباد ہو رہی ہیں۔ آپ بھلے انہیں دین داری سکھایئے، مدرسے بھیجئے، اخلاق کا درس دیجئے۔ آپ کا چند گھنٹوں کا درس بچے کے لاشعور میں بیٹھ جانے والے ہر وقت کے اشتہارات اور ڈراموں کے اثرات کو محو نہیں کرسکتا۔ اس ثقافتی یلغار کے سامنے بنیادی بند باندھنے کی ذمہ داری کس کی تھی؟ اخلاقی طور پر تو پورا معاشرہ ہی اس تنزلی کا ذمہ دار ہے، تاہم بنیادی ترین مسؤلیت حکومت کے کندھوں پر ہے، جسے عوام نے اختیار سونپا ہے کہ وہ ان امور کی دیکھ بھال کرے۔

کچھ دوست معاشرے میں رواج پانے والی شدت پسندی اور حساسیت کا رونا روتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا معاشرہ اکثر معاملات میں شدت پسند اور حساس ہے، تاہم اگر حکومتیں مختلف موارد میں اس حساسیت کے پیش نظر بروقت اقدام کر لیا کریں تو اس شدت اور اس کے منفی اثرات سے بچنا بہت آسان ہوسکتا ہے۔ آپ حالیہ واقعہ کو ہی لے لیجیئے، تادم تحریر پیمرا اور حکومت فیصلہ نہیں کر پائی کہ ہم نے جیو کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ قانون میں اس بات کی کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ قوانین موجود ہیں فقط ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے تاہم ہمارے ادارے ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ حکومت اور قومی اداروں کی یہ ناکامی عوام میں بے چینی اور اضطراب کو جنم دیتی ہے۔

جھنجلاہٹ اور بے چینی کے شکار لوگ کبھی عدالت کا دروازہ کھٹکٹاتے ہیں تو کبھی اپنا سر پیٹتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اس پریشانی اور جھنجلاہٹ میں کوئی نقصان کر بیٹھیں تو جتنے وہ اس نقصان کے خود ذمہ دار ہیں، اتنی ہی ذمہ داری حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قسم کے حساس معاملات جن کے ردعمل سے کسی بڑے نقصان کا اندیشہ ہو، پر کم از کم فوری ایکشن لینا چاہیے، تاکہ ملک کو کسی بھی غیر یقینی صدمے سے بچایا جاسکے۔ اس وقت ضرورت نہیں تھی کہ پیمرا لوگوں کی شکایات یا عدالتی احکامات کا انتظار کرتی بلکہ اسے اپنے قوانین کی روشنی میں از خود اقدام کرتے ہوئے اس چینل کی انتظامیہ کو جوابدہی کے لئے بلانا چاہیے تھا، تاکہ انصاف ہوتا نظر آتا۔

تحریر: سید اسد عباس تقوی

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *