نظام قرآن حق هےاور اس سے هٹ کر کسی اور نظام کے مطابق چلنا باطل هے . علی محمد جوادی
سید الشهداء حضرت امام حسین علیه السلام اور انکے با وفا اصحاب کی یاد میں حسینیه بلتستانیه قم المقدسه میں منعقده عشره محرم الحرام (سنه 1437 ھ.ق) کی آٹھویں مجلس سے خطاب کرتے هوئے حجت الاسلام والمسلمین شخ علی محمد جوادی نے فرمایا ارشاد باری تعالی هے :” هم حق کو باطل کے اوپر دے ماریں گے اور اس کے سر کو کچل دیں گے اور باطل تباه اور نابود هونے والی هے.”
حق اور باطل همیشه سے بر سر پیکار هے اور یه ٹکراؤ هوتا رهے گااور یهاں تک که امام زمانه عجل الله تعالی فرجه الشریف تشریف لائنگے اور انکے هاتھوں حق کو باطل پر فتح و کامرانی حاصل هوگا. حق یعنی هر وه چیز جو حقیقت کے ساتھ مطابقت رکھتا هو اور پائدار هو ، باطل اس کا بر عکس هے . باطل یعنی جس میں ثبات نه هو کھوکھلے پن کا شکار هو. حق کا وجود اصلی اور استقلالی هے اور باطل کا وجود غیری هے . حق کو دوام حاصل هے اور باطل زوال پزیر هے. باطل کی علامت یه هے جو شور و غل ، اظهار کے ساتھ همیشه حق کا لباده اوڑھ کر سامنے آتا هے. حق کے ساتھ باطل کو وجود میں لانے کا مقصد کیا هے ؟ باطل کا موجود هونا امتحان اور آزمائش کے لئے هے خدا اس کے ذریعے امتحان لینا چاهتا هے . اگر اچھائی نهیں هوتی تو برائی کا تصور نهیں هوتا اور اگر سچ نهیں هوتا تو جھوٹ کا تصور نهیں هوتا .
انهوں نے اپنے خطاب کو آگے بڑھاتے هوئے فرمایا که خدا نے قرآن مجید میں خود کو حق کها هے .خدا حق هے لیکن انسان حق سے هٹ کر دوسری چیزوں کی پوجا کرتا هے اسی طرح میزان حق هے ، صراط حق هے ، انبیاء حق هے ، قیامت حق هے و ….. خدا کے علاوه کسی اور کی پوجا کرنا باطل هے . نظام قرآن سے هٹ کر کسی اور نظام کے مطابق چلنا باطل هے انبیاء اور ائمه علیهم السلام کے علاوه کسی اور کے کهنے پر چلنا باطل هے .ابتداء تخلیق سے حق اور باطل کا ٹکراؤ اور جنگ برقرار هے اسی لئے شاعر مشرق علامه اقبال نے کیا خوب کها هے :
موسی و فرعون و شبیر و یزید این دو قوت از حیات آمد پدید
جب انسان خداکو بھول جاتا هے تو اپنے آپ سے بیگانه هوتا هے اور غیروں کا غلام هوجاتا هے جس کا مصداق دیکھنا هوتو اپنے آپ کو خادم الحرمین کهنے والے اپنے آپ سے بیگانه هوکر استکبار جهان کے اشاروں پر مسلمانوں اور مهمانان خداکا خون بهارها هے منی کا واقعه که جس میں هزاروں حجاج کو بے دردی کے ساتھ شهید کیا جاتا هےان میں همارے درمیان سے ایک عظیم هستی شهید ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین کی شخصیت تھی جن کا خلا پر کرنا بهت دشوار هے اور ان کی کوشش بھی یهی هوتی تھی که حق پر عمل هو اور حق دار کو اس کا حق مل جائے.
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید