گلگت بلتستان کی اسٹرٹیجک اہمیت
گلگت بلتستان کی اسٹرٹیجک اہمیت گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک انتہائی اسٹرٹیجک علاقہ ہے جو پاکستان اور چین کو جوڑتا ہے، بھارت نے وہاں پر کافی فلیتے لگانے کی کوشش کی اور اس کی کوششوں کو ناکامی میں تبدیل کر دیا گیا، کئی عجیب واقعات ہوئے، لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا گیا، […]
گلگت بلتستان کی اسٹرٹیجک اہمیت
گلگت بلتستان، پاکستان کا ایک انتہائی اسٹرٹیجک علاقہ ہے جو پاکستان اور چین کو جوڑتا ہے، بھارت نے وہاں پر کافی فلیتے لگانے کی کوشش کی اور اس کی کوششوں کو ناکامی میں تبدیل کر دیا گیا، کئی عجیب واقعات ہوئے، لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کیا گیا، ہائیکرز کو بے دریغ مار ڈالا گیا اور پاکستان کی سیاحت کی صنعت کو کافی نقصان پہنچایا گیا، کئی فوجی افسران شہید کئے گئے مگر پھر اِن واقعات کے ذمہ داران کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ ثبوت حاصل کر لئے گئے جن سے یہ پتہ چل گیا کہ کون سی طاقت ان واقعات کے پیچھے تھی۔
اس علاقے کے لوگوں کے لئے گندم کی سبسڈی ختم کر دی گئی ،وہاں عوام کئی روز سراپا احتجاج رہے۔ اس علاقے کے لوگوں کو یہ سبسڈی ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اس لئے دی تھی کہ وہاں گندم پیدا نہیں ہوتی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ یہ رعایت اُن کو دوبارہ دی جاتی سو مرکزی حکومت نے وہ اب بحال کر دی ہے۔ اِس خطے میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے جو ایک اچھی علامت ہے اِس لئے بھی کہ یہ ایک انتہائی اہم خطہ ہے مگر صاحبان اقتدار نے یہاں الٹی گنگا بہانے کا پروگرام بنا ڈالا ہے جس پر تیزی سے عمل درامد ہو رہا ہے، چین اور پاکستان کے درمیان معاشی کوریڈور بنانے کا پروگرام روبہ عمل ہے، بھارت نے اس معاشی کوریڈور پر احتجاج کیا ہے اور اس کے علاوہ مغرب کو بھی یہ بات پسند نہیں ہے۔ اس لئے وہ بھی اس پر گہری نظر رکھ رہا ہے اور حالات و معاملات خراب کرنے میں لگا ہوا ہے، اس وجہ سے اس علاقہ میں بےچینی پیدا ہونا چاہئے اور نہ ہی کوئی احتجاجی مظاہرہ ہونا چاہئے، اچھا ہوا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایک ایماندار، محب وطن، جذبہ اور لگن سے معمور شخص جلال سکندر سلطان راجہ کو یہاں کا چیف سیکریٹری مقرر کر دیا ہے، سکندر سلطان کو ہم نے پاسپورٹ کے محکمے کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے دیکھا ہے، رات اور دن کام کر کے پاکستان میں پاسپورٹ کے حصول کو تعین شدہ مدت میں ممکن بنایا۔
ماضی کی حکومت نے پاسپورٹ کے حصول کو اس قدر مشکل بنا دیا تھا بلکہ اس کا حصول یا تو بڑی سفارش یا صرف رشوت کے ذریعے ہی ممکن تھا، نہ پاسپورٹ کا کاغذ تھا اور نہ ہی وہ چھپتا تھا، جس کی وجہ سے بہت سے بچے غیرملکی تعلیم سے محروم ہو گئے۔ کئی لوگ ملازمتوں سے گئے۔ کئی تاجر بڑے بڑے آرڈر کو حاصل کرنے میں ناکام ہوئے، کئی لوگ رشتہ داروں کی خوشی و غم میں شریک ہونے سے رہ گئے اور ساری عمر کا ملال کا روگ لگا بیٹھے۔ اس شخص کی شبانہ روز کی کاوشوں نے پاسپورٹ کے محکمے کی ہئیت کو بدل ڈالا۔ پرانے تعطل میں پڑے پاسپورٹ کے منتظر لوگوں کے پاسپورٹ کو قلیل ترین مدت میں اُن کے حوالے کیا گیا اور ایک سسٹم وضع کرایا کہ پاسپورٹ کے حصول کا کیا طریقہ ہو گا، کتنی مدت میں کس کیٹیگری کا پاسپورٹ طلبگار کو مل جائے گا۔ ایسا شخص اگر گلگت بلتستان کا چیف سیکریٹری مقرر ہوا ہے تو اِس کے معنی ہیں کہ وہاں کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ میاں نوازشریف بہت سوچ سمجھ کر افسران تعینات کررہے ہیں جو ایماندار بھی ہیں، حب الوطنی اور مستعد اور متحرک اور کام کی لگن کے جذبے سے معمور ہیں۔ اسی طرح کی شخصیات میں ڈاکٹر وقار مسعود بھی ہیں جو سیکریٹری مالیات ہیں۔ اپنی ایمانداری، مہارت اور خدمت کے جذبے میں سرشاری کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔
پاکستان کو حالات نے ایک عالمی کھلاڑی بنا دیا ہے، اِس وجہ سے کہ اُس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، اس کا اسٹرٹیجک محل و قوع ہے، اس کے پاس بے پناہ معدنی دولت ہے اور سارے وسائل سے مالا مال ممالک کے راستے یہاں سے گزرتے ہیں۔ عالمی طاقتیں اِن حقیقتوں کو تسلیم بھی کرتی ہیں مگر پھر بھی ایک دوسرے کے خلاف ریشہ دوانیوں کا سلسلہ بھی جاری رکھتی ہیں،پاکستان کیونکہ نئے کھلاڑی کے طور پر میدان میں اتر رہا ہے، کمزور ہے، ملک میں بدامنی ہے، اس لئے اُس کو کافی مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ ایک کے بعد دوسری ابتلاء میں اُسے مبتلا کر دیا جاتا ہے، پاکستان ایک طرف بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے نمٹنے میں لگا ہوا ہے تو دوسری طرف طالبان اُس کو مشکلات میں ڈال رہے ہیں، اب سیاسی و خاکی کشمکش کے ساتھ میڈیا کے ساتھ بھی رسہ کشی شروع ہو گئی ہے، جو کوئی اچھی علامت نہیں ہے، یہ بارودی فلیتے ہیں انہیں جلد سے جلد بے اثر کر دیا جائے تو پاکستان کے لئے بہتر ہے، اِن معاملات کو خوش اسلوبی سے نمٹا دینا چاہئے۔
میڈیا قانون کی حکمرانی کا خواہاں ہے جو درست ہے۔ گلگت بلتستان کی جہاں تک بات ہے اُس کی اہمیت ایک تو اُس کی اسٹرٹیجک گزرگاہ کی وجہ سے ہے تو دوسرے اس میں سونے کے پہاڑ ہیں اور ہنزہ کا علاقہ میں جو پہاڑی سلسلہ ہے اُسے Arc of Hope قوسِ اُمید کہا جاتا ہے۔ دُنیا کے ممالک سارے عالم میں سونے کی تلاش کرتے رہے کہ کہیں سے بڑی تعداد میں سونے کے ذخائر نکل آئیں، وہ علاقہ پاکستان نکلا جس میں سونا بڑی مقدار میں موجود ہے۔ ایک ریکوڈک ہے جہاں 1400 بلین ڈالر کے سونے کے ذخائر ہیں اور ہنزہ کی پہاڑیوں میں اِس سے کہیں زیادہ سونا موجود ہے۔ اِس لحاظ سے گلگت اور ہنزہ کو پاکستان کو پُرامن رکھنا چاہئے اور یہاں پر گرفت کو مضبوط رکھنا ہوگا۔ اِس کے علاوہ سیکورٹی کے زاویہ سے بھی اس کی سیکورٹی انتہائی سخت کرنا پڑے گی۔ چن چن کر ایسے افسران کو تعینات کرنا پڑے گا جو ملک و قوم کے لئے اپنی جان نثار کرنے کا عزم رکھتے ہوں اور ساری صورتِ حال کو سمجھتے ہوں تاکہ ہم آسانی سے پاکستان کی فلاح و بہبود کے پروگرام کو پایۂ تکمیل کو پہنچا سکیں، معاشی کوریڈور کو مکمل کرسکیں، سیاسی کشمکش سے گریز، جنگجوئی اور مہم جوئی سے اُسی طرح سے گریز کرنا ہو گا جس طرح سے چین نے کئی عشروں تک خاموش رہ کر اپنے آپ کو معاشی طور پر منظم کیا یا پھر روس نے اپنی معیشت کی بحالی کے بعد اب دُنیا کے معاملات پر توجہ دینا شروع کی ہے۔ پاکستان کے تمام اداروں اور تمام افراد کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ پاکستان ایک عظیم ملک ہے، اِس میں پاکستان کے لوگوں کی بہتر زندگی کے سامان اسی زمین میں مدفون ہیں، اِس کا اپنا محل وقوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو پاکستان کے لوگوں کی خوشحالی اور عظمت کی ضمانت دیتا ہے، اس لئے اچھا ہوگا کہ سب مل کر معاملات کو الجھائیں نہیں بلکہ سلجھائیں۔ یہ ملک کسی قسم کی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
بشکریہ روزنامہ”جنگ“
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید