گلگت بلتستان میں دہشت گردی سے سیاحت زوال کاشکار
اسلام آباد: سال 2012-13 کے دوران سانحہ نانگا پربت،سانحہ چلاس وکوہستان اور سانحہ بابوسر ٹاپ واقعات کے نتیجے میں تباہ شدہ گلگت بلتستان کاسیاحتی شعبہ اب تک بحال نہ ہو سکا۔ ان 2 سال کے دوران یکے بعد دیگرے یہ سانحات پیش آنے اوراس سے قبل شمالی قبائلی علاقہ جات میں جاری دہشت گردی کے […]
اسلام آباد: سال 2012-13 کے دوران سانحہ نانگا پربت،سانحہ چلاس وکوہستان اور سانحہ بابوسر ٹاپ واقعات کے نتیجے میں تباہ شدہ گلگت بلتستان کاسیاحتی شعبہ اب تک بحال نہ ہو سکا۔
ان 2 سال کے دوران یکے بعد دیگرے یہ سانحات پیش آنے اوراس سے قبل شمالی قبائلی علاقہ جات میں جاری دہشت گردی کے واقعات نے گلگت بلتستان کی سیاحت کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا تھا جبکہ اس کے علاوہ قراقرم ہائی وے کی خستہ حالی اورآئے روز ٹریفک حادثات نے بھی سیاحت کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔دستاویز کے مطابق گزشتہ چندسال کے دوران غیر ملکی سیاحوں نے گلگت بلتستان کا رخ کرناچھوڑدیا تھا جبکہ اس سے قبل سالانہ ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی سیاح اور کوہ پیما، ٹریکنگ، کوہ پیمائی اور مہم جوئی کے لیے گلگت بلتستان کا رخ کرتے تھے جس سے کروڑوں کی آمدنی ہوتی تھی۔
دستاویز کے مطابق سال 2014-15کے دوران گلگت بلتستان میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد نہ ہونے کے برابر رہی جس کے باعث سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثرہوا۔ دستاویز کے مطابق گذشتہ دو سال کے دوران مجموعی طور پر 2000 سے بھی کم غیر ملکی سیاحوں نے گلگت بلتستان کا رخ کیا جبکہ اس کے مقابلے میں سال 2007 کے دوران کل10,338 غیر ملکی سیاحوں نے گلگت بلتستان کا رخ کیا تھا۔2008کے دوران 8504، سال 2009 میں7704، 2010 میں 5529،سال 2011 میں5242، 2012 میں4321، 2013 میں4524 غیر ملکی سیاح گلگت بلتستان آئے تھے۔ ذرائع کے مطابق فی ایکسپڈیشن ٹیم 6 ہزار امریکی ڈالر سرکاری خزانہ میں جمع ہوتی ہے اسی طرح فی ایکسپڈیشن گروپ 1000 امریکی ڈالر ماحولیاتی آلودگی کی مد میں جمع ہوتے ہیں جبکہ فی ممبر ٹریکنگ پرمٹ کی مد میں 75ڈالر جمع کرتے ہیں۔
(بشکریہ ایکسپریس نیوز)
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید