حضرت فاطمہ زہر(س) خواتین عالم کیلئے نمونہ عمل
رانسان اپنی زندگی میں سعادت اور کامیابی چاہتا ہے ، بنی آدم کی خلقت کی ابتدائ سے ہی یہی دستور رہا ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی کو ایک کامیاب زندگی گزارنا چاہتا ہے اگرچہ جو خداپرست انسان ہیں وہ اپنی زندگی کے ساتھ اپنی آخرت کو بھی سنوارنا چاہتے ہیں کیونکہ خداپرست افراد کو معلوم ہے کہ یہ زندگی بہت ہی مختصر ہوتی ہے اس زندگی کے بعد ایک طویل عرصے کی زندگی ہوگی اور ہر عاقل انسان مختصر زندگی کے ساتھ اس طویل عرصے کی زندگی کیلئے زیادہ اہتمام کرے گا۔لیکن جیسا بھی ہو خدا پرست انسان ہو یا ایسا انسان ہو جوخدا کو نہ مانتا ہو اس بات پر متفق ہیں کہ ایسی زندگی گزاری جائے جو باعث سعادت ہو۔
لیکن انسان کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ یہ کہ کوئی بھی انسان پیدائشی طور پر عالم اور جاننے والا نہیں ہوتا لہٰذا اس کیلئے یہ مشکل پیش آتی ہے کہ کامیاب زندگی کسے کہتے ہیں اور کامیاب اور سعادت کی حامل زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے بزرگوں کی طرف دیکھتے ہیں کہ اگر ان میں کوئی ایسا گزرا ہو جو کامیابی اور سعادت حاصل کرچکا ہو تو یہ بھی ان کی پیروی کریںاور نتیجتاً ایک اچھی اور کامیاب زندگی گزاریں، خلاصہ یہ کہ کوئی نمونہ عمل ہونا چاہیے جسے دیکھ کر انسان اپنی زندگی کو کامیاب بنائے اور اسے اپنے لئے نمونہ عمل قرار دے۔ انسان کی اسی مشکل کو مدنظر رکھتے ہوئے خداوند متعال نے انسان کیلئے نمونہ عمل بنا کر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائ بھیجے تاکہ انسانوں کی ہدایت کریں اور انہیں دنیا اور آخرت کی سعادت کے بارے میں بتائیں۔اب اگر کوئی انسان اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارنا چاہے تو اس کیلئے یہ مشکل نہیں ہے کہ وہ کس طرح اپنی زندگی کو گزارے تاکہ ایک کامیاب اور باسعادت زندگی کہا جاسکے ، وہ انبیائ ٪ کو دیکھ کر اپنی زندگی گزار سکتا ہے اور ان انبیائ ٪کے بارے میں خدا نے یہ اطمینان دلایا ہے کہ یہ سب معصوم ہیں اور جو بھی ان کی پیروی کرے گا وہ یقینا کامیاب ہوجائے گا۔لیکن یہ تمام انبیائ مرد تھے ہمیں تاریخ میں کوئی ایسا نبی نہیں ملتا جو عورت ہو اور وہ عورتوں کیلئے نمونہ عمل بن سکے ، مردوں کیلئے تو بہت سارے انبیائ نمونہ عمل بن کر آئے اور آخری امت کیلئے خداوند متعال نے قرآن مجید میں واضح الفاظ میں یہ فرمایا کہ: ولکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃ یعنی تمہارے لئے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ عمل ہے۔ لیکن بنی نوع انسان کی صنف نازک کیلئے کوئی نبی نمونہ عمل بن کر نہیں آیا ۔ خداوند متعال نے صنف نازک کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کچھ نیک خواتین کو بھی بھیجا جو اس صنف نازک کیلئے نمونہ بن سکے ان میں حضرت حوا (ع)، حضرت مریم (ع)، حضرت آسیہ (ع) ، حضرت حاجرہ(ع) اور حضرت سارہ (ع)جیسی عظیم المرتبت خواتین تھیں، یہ خواتین اچھی اور نیک تھیں اور نمونہ عمل بھی بن سکتی تھیں لیکن یہ صرف اس زمانے کی خواتین کیلئے نمونہ عمل بن سکتی تھیں ، زمانے کے تقاضے کے مطابق انسان کی فکر اور عقل جتنی کامل ہوگی اسی حساب سے اس زندگی کو کامیاب گزارنے کیلئے ایک کامل نمونہ عمل خاتون کی ضرورت ہے ، خداوند متعال نے امت مرحومہ کی خواتین کی اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ایک بہترین اور کامل ترین نمونہ عمل بھیجا جسے اللہ کے رسول (ص) نے یوں دنیا کے سامنے پیش کیا،قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم: الفاطمۃ بضعۃ منی یعنی فاطمہ (ع) میرا ٹکڑا ہے ۔بعض لوگوں نے اس حدیث مبارکہ کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ، اس طرح حدیث کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ بات محبت اور عطوفت کے زندان میں قید ہوجائے اور یہ بتلا سکیں کہ رسول (ص) نے فاطمہ (ع) زہرا کو اپنا ٹکڑا کہا ہے تو بیٹی ہونے کے حوالے سے کہا ہے نہ کسی خدائی منصب کی بنا پر۔انہوں نے فاطمہ زہرا (ع)کی ذات سے نانصافی کی ہے اس حدیث مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے کہ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے اس میں کوئی ایسا لفظ موجود ہی نہیں ہے جو ’’جگر‘‘ کا معنی سمجھائے لہذا اس حدیث مبارکہ کا معنی یہ ہے کہ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے یعنی میں جو کچھ ہوں فاطمہ (ع) بھی اس کا حصہ ہیں اگر میں رسول ہوں تو فاطمہ(ع) بھی میری رسالت میں شامل ہیں اگر میں رحمۃ اللعالمین ہوں تو فاطمہ (ع) بھی سیدۃ نسائ العالمین ہیں، اگر میں مردوں کیلئے نمونہ عمل ہوں تو فاطمہ (ع) بھی خواتین کیلئے نمونہ عمل ہیں۔ہمیں رسول ا(ص)سلام کی تاریخ زندگی میں یہ نہیں ملتا کہ آپ نے باہرسے آنے والے کسی فرد کو اپنی جگہ پر بٹھایا ہو ، ہاں بیشک یہ کرتے تھے کہ آنے والے مہمان کی تعظیم کرنے کیلئے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے تھے لیکن کھڑے ہونے کے بعد کسی کو اپنی جگہ پر نہیں بٹھایا لیکن یہ فاطمہ (ع) زہرا کا مقام ومنصب تھا کہ جب بھی رسول اسلام (ص) کی خدمت میں تشریف لاتی تھیں رسول اسلام (ص) اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے تھے اور فاطمہ زہرا (ع) کو وہاں بٹھاتے تھے ، کیونکہ وہ مقام نبوت اور مقام رسالت ہے اس مقام پر یا نبی رہ سکتا ہے یا وہ جو نبی کا شریک کار ہو۔رسول اسلام (ص) کے اس رفتارو عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی شان ومنزلت خدا اور اس کے رسول کے نزدیک بہت بڑی ہے جو ان کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کر رہے ہیں کیونکہ رسول (ص) کا ہر قول اور فعل خدا سے منسوب ہوتا ہے وہ جو بھی کام یابات کرتے ہیں وہ خدا کی اجازت سے کرتے ہیں، قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ: وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحیٰ یعنی ہمارے رسول اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتے وہ جو کچھ کہتے ہیں وحی کے مطابق گفتگو کرتے ہیں۔حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی عظمت کیلئے یہ کافی ہے کہ امام محمد باقر کی ایک حدیث ان کے بارے میں ہیں کہ نحن حجج اللّٰہ علی الخلق وامّنا فاطمۃ حجۃ علینا، یعنی ہم خدا کی جانب سے خدا کی مخلوقات پر حجت ہیں اور ہماری ماں فاطمہ زہرا (ع) ہم پر حجت ہیں۔پس فاطمہ (ع) زہرا تمام عورتوں کیلئے نمونہ عمل ہیں۔اگر کوئی خاتون اپنی زندگی کو سنوارنا چاہتی ہے تو فاطمہ زہرا (ع) سے بڑھ کر کوئی نمونہ عمل نہیں مل سکتا جو اتنا کامل ہو کہ ہر کسی کی سعادت کی ضمانت دے سکے۔آج کل ہمارے معاشرے میں ہر طرف برائی ہی برائی نظر آتی ہے اور انفرادی برائیوں کے علاوہ اجتماعی برائیاں بھی نظر آرہی ہیں ۔ انفرادی گناہ کا ذمہ دار تو وہی شخص ہوگا جس نے گناہ انجام دیا ہے لیکن اجتماعی گناہوں میں صورتحال مختلف ہے اجتماعی برائی کو ختم کرنے کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو کوشش کرنی پڑے گی کیونکہ یہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ اس لحاظ سے خواتین کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ایک معاشرے کی تربیت وپرورش کرے کیونکہ ہرانسان ماں کی گود سے ہی دنیا کو دیکھتا ہے اور ماں کی تربیت کے حساب سے ہی وہ اپنی زندگی میں قدم بڑھاتا ہے، ماں کی گود میں صرف ایک بچہ نہیں ہوتا بلکہ یہ آئندہ کا ایک مکمل خاندان ہوتا ہے اگر ماں چاہے تو اس خاندان کی اچھی تربیت کرکے معاشرے کو اچھے افراد فراہم کرسکتی ہے۔اسی لئے حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ:الجنۃ تحت اقدام الامھات یعنی جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ۔اس سے دو چیزیں سامنے آتی ہیں ، ایک یہ کہ اولاد کو بتایا جائے کہ ماں کی عظمت خدا کے نزدیک بہت زیادہ ہے اگر کوئی بچہ جنت حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی ماں کی پیروی کرے اور ماں کی خدمت کرے کیونکہ اکثرانسانوں کی انتہائی کوشش جنت کیلئے ہی ہوتی ہے اور جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے لہذا ہمیں آگے پیچھے بھٹکنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے گھر میں ہی جنت موجود ہے اور وہ بھی سب سے پیاری اور محترم ذات، ماں کے قدموں کے نیچے لہذا ماں کا کہنا ماننا چاہیے اور اس کی کہی ہوئی باتوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے تاکہ جنت حاصل کی جاسکے۔ دوسری چیز یہ کہ اس حدیث میں ماں کو مخاطب کیا گیا ہو یعنی کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اپنے بچوں کی عاقبت ماں کے ہاتھ میں اگر ماں چاہے تو اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرے اور اپنے بچوں کو جنت دے دے اور اگر اچھی تربیت نہ کرے تو اس کے بچے جنت جیسی نعمت سے محروم ہوجائیں گے خلاصہ یہ کہ جنت کا ملنا اور نہ ملنا ماں کے ہاتھوں میں ہے۔تو پس ایک اچھی ماں ہی ہے جو اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرکے اسے نیک بنا دے اور معاشرے کیلئے بھی نیک اور کاآمد افراد مہیا کرلے ۔روایات میںہے کہ قیامت کے دن والدین کے ایک گروہ کو عدالت میں پیش کرنے کیلئے لے جایا جائے گا تو وہ پوچھیں گے کہ ہمارا کیا قصور ہے جو ہمیں عدالت میں پیش کیا جارہا ہے ہم تو اپنا حساب دے چکے ہیں ۔ان کو جواب دیا جائے گا کہ تمہارے بچوں کی جانب سے خدا کی عدالت میں شکایت آئی ہے کہ ہمارے برے اعمال کی ذمہ داری صرف ہمارے اوپر نہیں ہے بلکہ ان برائیوں میں ہمارے والدین بھی شریک ہیں، والدین کہیں گے کہ ہماری اولاد جھوٹ بول رہی ہے ان گناہوں میں ہم ان کے ساتھ شریک نہیں ہیں تو اولاد کہے گی کہ یہ بات درست ہے کہ ہمارے والدین براہ راست ان گناہوں میں شریک نہیں ہیں لیکن انہوں نے ہماری اچھی تربیت نہیں کی جس کی وجہ سے ہم ان گناہوں میں آلودہ ہوگئے۔اچھے والدین وہ ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں اور اس جامعہ کیلئے مفید افراد دیں۔اولاد کو صحیح تربیت ماں کے ہاتھوں ہی مل سکتی ہے کیونکہ باپ روزگار کے سلسلے میں اکثر گھر سے باہر ہوتا ہے اور ماں کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ ہوتی ہے تو اسی وجہ سے بچوں کی تربیت کی زیادہ تر ذمہ داری ماں پر ہوتی ہے ،حدیث میں بھی اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہوتی ہے۔ اولاد کی تربیت کیلئے سب سے اچھی اور کامل سیرت حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی ہے اگر ہم ان کی سیرت پر چلتے ہوئے اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں تو ممکن ہے کہ ہمارے بچے امام زمانہ (ع)کی فوج کے سپاہی ہوں،زہرا (ع) کی تربیت کا یہ نتیجہ نکلا کہ انہوں نے جن بیٹوں کی تربیت کی وہ امام جیسے منصب پر فائز ہوئے اور جن بیٹیوں کی تربیت کی وہ محافظ اسلام وامامت بنیں اگر ہم اسی فاطمہ زہرا (ع)کی سیرت پر عمل کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے بچے امام زمانہ (ع) کے سپاہی نہ بن سکیں۔آخر میں یہی دعا ہے کہ خدا ہم سب کو نیک اعمال انجام دینے کی توفیق عنایت فرمائے اور حضرت فاطمہ زہرا (ع)کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے تاکہ ہم سعادت دنیوی اور سعادت اخروی دونوں سے بہرہ مند ہو سکیں۔ آمین
http://erfan.ir/urdu/83456.html
Hazrat Fatima
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید