تازہ ترین

جامعہ روحانیت بلتستان کا موجودہ سیٹ اپ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور یہ ایک انقلابی قدم ہے۔(آغا سید راحت حسین الحسینی)

آغا سید راحت حسین الحسینی کے خطاب کے اقتباسات

قال الله تعالی: الَّذینَ جاهَدوا فینا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنا… (سوره عنکبوت، آیه 69)

جامعہ روحانیت بلتستان کے عہدے داران کا شکریہ۔

جامعہ روحانیت کا یہ سیٹ اپ بہت ہی اہمیت کاحامل ہے اور یہ ایک انقلابی سفر ہے۔

وَ کانَ حَقًّا عَلَيْنا نَصْرُ الْمُؤْمِنينَ (روم: 47) یہ آیت صرف حضرت یونس سے خاص نہیں بلکہ تمام مومنین کے لئے ہے۔ ’’ان تنصروا اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم‘‘ درحقیقت دین کی نصرت کامیابی کا زینہ ہے۔

شئیر
40 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1503

 

ارادے جن کے پختے ہوں نظر جن کی خدا پر ہو

تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

ہمارے ہر کام میں خدائی رنگ غالب رہنا چاہئے، تکلیفیں نفس کے غالب آنے کے باعث ہیں۔ جس طرح انبیا کے لئے غیبی امداد آتے تھے آج بھی اگر  ہم محض خدا کی خوشنودی کے لئے کام کریں  تو  یہی امداد ہمارے لئے بھی آسکتے ہیں۔

ہمارے کاموں کا محور گلگت بلتستان ہونا چاہئے۔ جس طرح محمدیہ ٹرسٹ ہے۔ ہم بھی ان کے ماتحت کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کے ذمہ داران اساتذہ کے فقدان کا گلہ کرتے ہیں۔ حوزہ علمیہ قم کی طرح سکردو میں بھی حوزہ قائم ہوسکتا ہے۔ موجودہ دور میں لوگوں کی مالی حالت  پہلے کی نسبت بہت بہتر ہوئی ہے۔

مدارس قوم کی تعمیر و ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، جتنے باصلاحیت طلبہ مدارس کی طرف آئیں گے اسی حساب سے معاشرہ ترقی کرے گا۔

آپ کا کہنا تھا کہ میں جامعہ جعفریہ کراچی کے سربراہ کو خراج تحسین پیش کرتاہوں کہ جن کے الٰہی خدمات کے سبب اب اکثر مدارس میں اسی مدرسے کے پڑھے ہوئے اساتذہ موجود ہیں۔

ہمیں وقت کے تقاضوں کے مطابق اساتذہ اور  محققین تیار کرنے کی ضرورت ہے، ہر فن کا ماہر پیدا کرنا واجب کفائی ہے خواہ وہ موچی اور نائی ہی کیوں نہ ہو۔

ہمارے پاس ایسے مقررین ہونا چاہئے  جو ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرسکتے ہوں۔

ہم ایسی جگہ سے تعلق رکھتے ہیں جس پر پوری دنیا کی توجہ مرکوز ہے۔ لوگوں کی توجہ حد سے زیادہ ہماری طرف بڑھ رہی ہے۔ دنیا بھر سے بالعموم اور پاکستان بھر سے بالخصوص کثیر تعداد میں سیر و تفریح کی خاطر    ہر سال لوگ ہماری طرف آتے ہیں۔  ان کے لئے ہماری ذمہ داری بنتی  ہے کہ لب سڑک جگہ جگہ مساجد، باتھ رومز وغیرہ تعمیر کریں۔ اسلامی ثقافت کو فروغ دیں تاکہ باہر سے آنے والا دیکھ کر ہی منقلب ہوسکے۔

ہمارے وزیر اعلیٰ اور دوسرے وزرا ایسے  باصلاحیت ہوں کہ جو وفاق سے اپنے حقوق لے سکیں۔ 

ہمیں انگلش، عربی، فارسی اور اردو میں اتنی  مہارت حاصل ہونی چاہئے کہ ہم ان میں سے کسی بھی زبان میں تقریر کر سکیں، ہمیں  ایسے افراد کی تربیت کرنی چاہئے کہ وہ اپنے فن میں ماہر ہوں۔

ہمارے پاس لکھاریوں کی کمی ہے، کسی بھی اخبار میں ولادت ائمہ اطہار اور ان کی شہادت  کے مواقع پر بہت کم تحریر چھپتے ہیں۔ ہمیں کالم نگاروں کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔

ہماری مذہبی اور اسلامی ثقافت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 75%  این جی اوز کروڑوں روپے اسی پر خرچ کر رہی ہے۔ AKRSP کے  متعارف ہونے کےبعد مادہ پرستی کا رجحان بڑھا۔ 

پرائیویٹ تعلیمی ادارے مخلوط نظام تعلیم کو فروغ دے رہے ہیں۔ جس کے باعث اساتذہ اور طلبہ و طالبات میں غلط روابط بڑھ رہے ہیں۔ ہم اگر چاہیں تو طلبہ و طالبات دونوں کے لئے الگ الگ تعلیمی اداروں بالخصوص الگ   یونیورسٹی کا تقاضا کرسکتے ہیں۔ ان پرائیویٹ ایجوکیشن، ہیلتھ وغیرہ کی وجہ سے ثقافت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ میں بلتستان کے علما کے بارے میں بہت زیادہ خوش بین ہوں۔

میں پر امید  ہوں کہ آپ لوگ ان نکات پر  مختلف زاویوں سے تحقیق  کرنے کے بعد آئندہ کے لیے بہترین لائحہ عمل طے کریں گے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *