تازہ ترین

جھوٹے دو راہے کے مد مقابل استقامتی معیشت کے لئے دس تجویزیں/ یہ انقلابی ایران کو محفوظ بنائیں گی

رہبر انقلاب اسلامی کا حرم امام رضاع میں زائرین اور مجاورین کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہجری شمسی کیلنڈر کے نئے سال 1395 کے آغاز پر مشہد مقدس میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں زائرین اور خدام […]

شئیر
15 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1609

رہبر انقلاب اسلامی کا حرم امام رضاع میں زائرین اور مجاورین کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہجری شمسی کیلنڈر کے نئے سال 1395 کے آغاز پر مشہد مقدس میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں زائرین اور خدام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کلیدی مسائل اور امور کا جائزہ لیتے ہوئے سر تسلیم خم کرنے کی ترغیب دلانے والی خطرناک فکر کے حقیقی مفہوم اور پوشیدہ اہداف کی تشریح کی جسے امریکا اور ملک کے اندر بعض افراد ایران کی رائے عامہ اور دانشوروں کے ذہنوں میں بٹھانے کے لئے جھوٹے اور مصنوعی دو راہے کی بات کرتے ہیں، اور آپ نے اپنے خطاب میں استقامتی معیشت سے متعلق اقدام و عمل’ کے لئے دس بنیادی تجاویز بھی پیش کیں اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ یہ منطقی اور ساتھ ہی انقلابی راستہ وطن عزیز ایران کو خطرات اور پابندیوں کے سامنے محفوظ بنا دیگا اور حکومت کو یہ توانائی ملے گی کہ ہمہ گیر ہمدلی کے سائے میں اور ملک کے تینوں مرکزی شعبوں  کے تعاون سے رواں سال کے آخر تک عوام کے سامنے حقیقی اور قابل بھروسہ رپورٹ پیش کرے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں ایک بار پھر ملت ایران کو سال نو کی مبارکباد پیش کی اور ہجری شمسی سال 1395  کے آغاز و اختتام کے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایام ولادت سے اتصال کو ملک کے لئے باعث برکت قرار دیا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں سال 1395 کے لئے منتخب کئے گئے نعرے یعنی استقامتی معیشت، اقدام اور عمل کی تشریح فرمائی۔

 آپ نے اس بات تاکید کرتے ہوئے کہ رواں سال کے لئے منتخب نعرے کا مدلل اور منطقی پس منظر ہے اور ملک کے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو اس نعرے کی مدلل بنیادوں پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا فرمایا کہ شاید کچھ لوگوں کی ترجیح یہ رہی ہو کہ اس سال کے لئے کوئی ثقافتی یا اخلاقی نعرہ منتخب کیا جائے لیکن ملکی مسائل کا مجموعی طور پر جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ گزشتہ سال کی طرح اس سال کا نعرہ بھی اقتصادی شعبے سے متعلق ہو تاکہ یہ مسئلہ عمومی بحث میں تبدیل ہو جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اس سال کے نعرے کا انتخاب ملکی مسائل کے تجزئے اور دراز مدتی جائزے پر استوار ہے۔

آپ نے اس دراز مدتی جائزے کی تشریح کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ موجودہ دور میں امریکی اس بات کے درپے رہے ہیں کہ یہ خاص فکر معاشرے کے دانشور طبقے میں اور پھر عمومی سطح پر پھیلائیں کہ ملت ایران اس وقت دو راہے پر کھڑی ہے اور انکے پاس ان میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ جس دو راہے کا دعوی وہ کر رہے ہیں یہ ہے کہ ملت ایران یا تو امریکا سے سمجھوتا کر لے یا پھر مستقل بنیادوں پر امریکا کے دباؤ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔

آپ نے امریکا کی دولت، سیاسی وسائل، وسیع تشہیراتی نیٹ ورک اور عسکری ساز و سامان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس خاص فکر بنیاد پر امریکا جیسی حکومتوں سے معاملہ کر لینا چاہئے اور ان کا دباؤ قبول کرتے ہوئے اپنی بعض “پالیسیوں، اصولوں، اور ریڈ لائنوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ حالیہ ایٹمی معاہدے میں بھی، جس کی حمایت کی گئی اور ہمارے ملک کے مذاکرات کار بھی قابل اطمینان تھے، یہی ہوا اور کچھ موارد میں محترم وزیر خارجہ نے مجھ سے کہا کہ ہم بعض ریڈ لائنوں کی حفاظت نہیں کر سکے۔

 

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب سامنے امریکا جیسی حکومت ہو تو اس سے سمجھوتا کرنے کا مطلب ایسی بعض چیزوں سے صرف نظر کرنا ہوتا ہے جن پر انسان استقامت دکھا رہا ہوتا ہے۔

آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ اس جھوٹے دو راہے کی خطرناک فکرکو مانتے ہیں اور دوسروں کو بھی منوانا چاہتے ہیں فرمایا کہ ایسے افراد کہتے ہیں کہ ایران کی معیشت میں بڑی توانائیاں اور صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور ان صلاحیتوں کو متحرک کرنا صرف ایٹمی معاہدے سے ممکن نہیں ہے بلکہ امریکا کے ساتھ ہمارے کچھ اور بھی مسائل ہیں جن کے بارے میں ملت ایران اور ملک کے حکام کو چاہئے کہ انکے بارے میں فیصلے اور اقدامات انجام دیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کے ساتھ مغربی ایشیا کے مسائل کے بارے میں گفتگو اور تعاون اور اپنے کچھ اصولوں اور ریڈ لائنوں سے پسپا ہو کر تہران اور واشنگٹن کے درمیان اختلافات کے بارے میں گفتگو کو ان موارد میں سے قرار دیا کہ ایٹمی معاہدے کے بعد یہ خاص فکر جس کی کوششیں کر رہی ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ یہ خاص فکر اس بات پر زور دیتی ہے کہ ملک کی اقتصادی مشکلات صرف اسی صورت میں حل ہو سکتی ہیں جب ہم مختلف امور کے بارے میں امریکا سے مذاکرات کریں اور اپنے موجودہ موقف سے پیچھے ہٹ جائیں فرمایا کہ یہ افراد کہتے ہیں کہ جس طرح ایٹمی معاہدے کو مشترکہ جامع ایکشن پلان کا نام دیا گیا، اسی طرح دیگر امور کے بارے میں یہاں تک کہ ملک کے آئین کے بارے میں امریکا سے گفتگو بھی مشترکہ جامع ایکشن پلان دو، تین اور چار ہو سکتا ہے تاکہ ان مذاکرات اور معاہدوں کے نتیجے میں عوام آسانی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں اور ان کی مشکلات حل ہو جائيں۔

 

آپ نے مزید فرمایا کہ اس خطرناک فکر کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران بتدریج اپنی قوت اور سلامتی کی بنیادوں سے اور ان کلیدی امور سے جن کی اسلام کے حکم کے مطابق اور اسلامی نظام کے دائرے میں یہ ملک پابندی کر رہا ہے اسی طرح اسلامی استقامتی محاذ کی حمایت اور فلسطین، یمن اور بحرین کے عوام کی پشت پناہی، جیسے معاملات سے صرف نظر کرے اور اپنے موقف کو امریکی مطالبات کے مطابق ڈھال لے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس خاص فکر کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ کو بھی بعض عرب حکومتوں کی طرح جنھوں نے انتہائی بے شرمی کے ساتھ صیہونی حکومت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے، بالآخر صیہونی دشمن سے ہاتھ ملا لینا چاہئے۔

 

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ اس خطرناک فکر کے تناظر میں ایک ایک قدم پسپائی کا سلسلہ لگاتار جاری رہے گا فرمایا کہ اگر امریکا کی مرضی اور خواہش کے مطابق عمل کرنا ہے تو اسلامی جمہوریہ کو اپنے دفاعی وسائل سے بھی صرف نظر کر لینا ہوگا اور اسے دائمی طور پر امریکا کے سوالوں اور توسیع پسندانہ مطالبات کا جواب دینا ہوگا۔

 

آپ نے ایران کی میزائلی مشقوں کے بارے میں مغربی میڈیا میں اٹھنے والے طوفان کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکی خود تو خلیج فارس کے علاقے میں جو ان سے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر ہے وقفے وقفے سے مشترکہ مشقیں کرتے ہیں، لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کی مشقوں پر جو وہ اپنے گھر میں اور اپنی سیکورٹی کے دائرے میں انجام دیتا ہے، ہنگامہ برپا کرتے ہیں۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اگر اس خاص فکر کو قبول کر لیا جائے تو امریکا کے بے جا مطالبات اور ان کے سامنے پسپائی کا سلسلہ کبھی نہیں رکے گا فرمایا کہ اس تدریجی عمل کے تحت اسلامی جمہوریہ ایران کو امریکیوں کے سامنے یہ وضاحت بھی کرنا ہوگی کہ اس نے پاسداران انقلاب فورس اور القدس بریگیڈ کیوں بنائی، اس کی داخلی پالیسیاں شرعی معیاروں کے مطابق کیوں بنائی جاتی ہیں، اس کے تینوں بنیادی ادارے اسلامی شریعت کے مطابق کیوں عمل کرتے ہیں اور شورائے نگہبان شرعی معیاروں سے متصادم قوانین کی حمایت کیوں نہیں کرتی؟

 

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید فرمائی کہ اگر ہم امریکا کے سامنے پسپائی اختیار کریں گے تو وہ قدم بہ قدم آگے ہی بڑھتا آئے گا اور نوبت یہاں آن پہنچے گی کہ اسلامی جمہوریہ ایران اندر سے کھوکھلا ہو جائے گا اور صرف اس کی ظاہری صورت باقی رہ جائے گی۔

 آپ نے مزید فرمایا کہ دشمن کی اس فکر و تجزئے کی بنیاد پر اگر ملت ایران خود کو امریکا کے شر سے نجات دلانا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ کے اصلی مضمون، اسلامی مفاہیم اور اپنی سلامتی کو فراموش کر دے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس خاص فکر کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرنے کے بعد اس کے نقائص کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ اس فکر و تجزئے میں ایک چیز جو نظر انداز کر دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکا سے معاہدے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایران تو اپنے وعدے پورے کرنے پر مجبور ہو لیکن امریکا اپنے وعدوں کے سلسلے میں عہد شکنی، فریب اور دھوکہ دہی کرتا رہے، چنانچہ آج ہم بالکل یہی چیز دیکھ رہے ہیں جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس سلسلے میں ایٹمی معاہدے کی مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اس معاہدے کے سلسلے میں بھی امریکیوں نے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کیا اور محترم وزیر خارجہ کے بقول انھوں نے کاغذ پر تو کچھ وعدے کئے لیکن عمل میں اور انحرافی راستوں کے ذریعے انھوں نے ان معاہدوں پر عمل درآمد کا راستہ روکا۔

آپ نے مزید فرمایا کہ ایٹمی معاہدہ ہو جانے کے بعد بھی ہمارا سسٹم مشکلات سے دچار ہے اور ایران کی رقوم بھی اسے نہیں لوٹائی گئیں، کیونکہ مغربی ممالک اور ان کے زیر اثر دیگر ممالک امریکیوں سے ناراض ہیں۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ جھوٹے دو راہے والے نظرئے کے تحت ایک اور چیز ملت ایران سے امریکی دشمنی و عناد کی وجہ کے طور پر بیان کی جاتی ہے فرمایا کہ علاقے میں ایران کی اسٹریٹیجک پوزیشن اور اہم مقام، تیل اور گیس کے بڑے ذخائر، اچھی خاصی آبادی، بے پناہ توانائیوں اور طویل تاریخی پس منظر کی بنیاد پر ایران علاقے کا گلدستہ ہے، لیکن یہی بے نظیر ملک کئی عشروں تک امریکیوں کے قبضے اور تسلط میں تھا اور ملت ایران نے اسلامی انقلاب کے ذریعے اس تسلط کو ختم کیا اور ملک کو امریکیوں کے بے چوں و چرا تسلط سے نجات دلائی۔

 

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ اسلامی انقلاب نے صرف ایران کو امریکیوں کے قبضے سے نہیں نکالا بلکہ پورے علاقے میں اور یہاں تک کہ علاقے کے باہر بھی امریکی سامراج اور توسیع پسندی کے مقابل استقامت و مزاحمت کا جذبہ عام کیا۔

 

آپ نے فرمایا کہ امریکی عظیم مشرق وسطیٰ کی اپنی پالیسی اور علاقے پر صیہونی حکومت کو مسلط کرنے کی کوششوں میں اپنی شکست، نیز یمن، شام، عراق اور فلسطین میں اپنی پے در پے ناکامیوں کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کو قصوروار سمجھتے ہیں، بنابریں ملت ایران سے ان کی دشمنی بہت گہری اور اساسی ہے اور یہ دشمنی اس وقت ہی ختم ہوگی جب وہ ایران پر پوری طرح اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

 

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی گفتگو میں ایران پر برطانیہ اور پھر امریکا کے طولانی مدت تسلط کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس ملک میں امریکا اور برطانیہ نے داخلی محاذ ایجاد کر لئے تھے جن کی مدد سے وہ اپنا تسلط جاری رکھے ہوئے تھے، لیکن اسلامی انقلاب نے اپنے انقلابی نوجوانوں کی مدد سے ان محاذوں کو نابود کر دیا اور اسلامی جمہوریہ اور ملت کے مفادات کی پاسبانی کرنے والے نئے مورچے بنا لئے۔

 

آپ نے فرمایا کہ امریکی اب منصوبہ بندی کے ذریعے اور سفارتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کوشش میں ہیں کہ تباہ شدہ محاذوں کی تعمیر نو کریں اور انقلابی محاذوں کو مسمار کر دیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ظالم و طاغوتی پہلوی حکومت ایران میں امریکا کا سب سے اہم مورچہ تھی، لیکن اسلامی انقلاب نے شاہی حکومت اور شخصی حاکمیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اس کی جگہ عوامی حکمرانی کے نام سے ایک مستحکم مورچہ تشکیل دیا۔

 

آپ نے بڑی طاقتوں اور خاص طور پر امریکا سے خوف کو تسلط کا راستہ ہموار کرنے والا ایک محاذ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ طاغوتی دور کے برخلاف اب اسلامی جمہوریہ میں کوئی بھی آگاہ، باخبر اور دینی اقدار پر بھروسہ کرنے والا شخص امریکا سے نہیں ڈرتا۔

 

حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ آج بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ امریکا سے ڈرتے ہوں فرمایا کہ طاغوتی حکومت کا امریکا سے خوف تو منطقی تھا کیونکہ امریکا کے مد مقابل اس کے پاس کوئی سہارا نہیں تھا، لیکن اسلامی جمہوریہ میں امریکا سے خوف غیر منطقی ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ عظیم الشان ملت ایران کی پشت پناہی کا حامل ہے۔

 

آپ نے امریکی تسلط کا ایک اور طریقہ احساس کمتری کی ترویج اور قومی خود اعتمادی کے جذبے کو کمزور کرنا قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امریکی تسلط کے سامنے سر جھکائے رکھنے والا محاذ “ہم کر سکتے ہیں” کی فکر والے محاذ میں تبدیل ہوگیا۔

 

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دین اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی مہم کو بھی ایران پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے امریکا کی جانب سے ایران کے اندر بنائے جانے والے ایک محاذ سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب نے اس مورچے کو بھی نابود کر دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں صراحت کے ساتھ دشمن سے اپنی مراد امریکا کو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکی سیاسی رہنما اور اس ملک کی وزارت خزانہ ایک طرف خاص پیچیدہ روش کے ذریعے پابندیوں کو عملی طور پر باقی رکھے ہوئے ہیں اور خالص دشمنی کی وجہ سے دھمکیوں اور پابندیوں کی باتیں کرتے ہیں اور دوسری طرف وائٹ ہاؤس میں نوروز کا روایتی ہفت سین بچھایا جاتا ہے اور بچوں کو بہلانے والی روش کے زریعے نوروز کے پیغام میں ہمارے نوجوانوں کے روزگار سے متعلق ہمدردی دکھائی جاتی ہے۔

 

آپ نے فرمایا کہ اس دوہرے روئے کی وجہ یہ ہے کہ امریکی حکام ملت ایران کو ابھی تک پہچان نہیں پائے ہیں اور انھیں نہیں معلوم کہ یہ باشعور قوم اپنے دشمنوں کے خفیہ و آشکارا سارے حربوں کو بخوبی درک کرتی ہے۔

 

حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسکے بعد صراحت کے ساتھ اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ دنیا کی دیگر اقوام کی طرح ہمیں امریکی عوام سے بھی کوئی مشکل نہیں ہے، بلکہ ہم اس ملک کی معاندانہ سیاست کا مقابلہ کرتے ہیں، کچھ ایسے حقائق بیان کئے جن پر توجہ دینے سے ملک کی مستقبل کی حکمت عملی کو سمجھا جا سکتا ہے۔

 

اندرونی طور پر پروان چڑھنے والی ترقی کے لئے بے پناہ انسانی اور قدرتی وسائل اور سرمایہ، بین الاقوامی سطح پر مواقع، علاقائی اور بعض اوقات عالمی سطح پر گہرا اثر و رسوخ، اس سلسلے میں پہلی حقیقت تھی جس کا ذکر رہبر انقلاب نے کیا۔

آپ نے ملت ایران اور اسلامی نظام سے امریکا کی کھلی دشمنی کو بھی ایک مسلمہ حقیقت قرار دیا جس کی واضح نشانیاں امریکیوں کی دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہنا اور ایٹمی معاہدے کے نتائج سے بہرہ مند ہونے کے معاملے میں ایران کے راستے میں ان کی طرف سے لگاتار کھڑی کی جانے والی رکاوٹیں ہیں۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ امریکا میں صدارتی انتخابات سے چند ماہ قبل انتخابی امیدواروں نے ایران کے خلاف بدکلامی کا مقابلہ شروع کر دیا اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ آئندہ حکومت ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں جو اس وقت امریکا کی طرف سے معمولی سا عہد ہے اسے جاری رکھے گی، لیکن جب بھی امریکا کی دشمنی کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو ملک کے اندر کچھ لوگ پریشان اور مضطرب ہو جاتے ہیں۔

 

تیسری حقیقت کہ جس کی جانب رہبر انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا ملت ایران سے امریکا کی دشمنی کے وسائل کے لا محدود ہونے کا سلسلہ ہے۔

آپ نے فرمایا کہ امریکیوں کے پاس تین بنیادی اور موثر وسائل ہیں، پروپیگنڈا، دراندازی اور پابندیاں۔

 

رہبر انقلاب نے پابندیوں کے بارے میں فرمایا کہ حقیقت میں دشمن کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایران پر وار کرنے کے لئے پابندیاں موثر قدم ہیں، البتہ اس احساس اور تصور کو ہمارے روئیے نے بھی تقویت پہنچائی ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس سلسلے میں مزید فرمایا کہ ایک زمانے میں ہم نے ملک کے اندر پابندیوں کے نقصانات اور اس سے پڑنے والی ضربوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا، اسی طرح ایک موقع پر پابندیوں کے اٹھ جانے کے اثرات و ثمرات کے بارے میں بھی مبالغہ آرائی کی گئی، جبکہ اب تک اس میدان میں کچھ بھی نہیں بدلا اور اگر یہی حالات رہے تو آئندہ بھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے پابندیوں پر دشمن کی خاص توجہ کے بارے میں دلائل پیش کرنے کے بعد ایک بنیادی سوال کیا کہ دشمنی و دباؤ کے ان ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے کا صحیح راستہ کیا ہے؟

آپ نے اس سوال کے جواب میں ایک بار پھر امریکا کے اسی جھوٹے دو راہے کا ذکر کرتے ہوئے کہ یا سر جھکا لیا جائے یا سختیوں اور پابندیوں کا سامنا کیا جائے فرمایا کہ البتہ اس سلسلے میں ایک حقیقی دو راہہ بھی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ یا تو پابندیوں سے پیدا ہونے والی مشکلات کو ہم بس تحمل کرتے رہیں یا استقامتی معیشت پر بھروسہ کرکے تحمل کریں اور مشکلات پر غالب آجائیں۔

 

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس کے بعد اس سال کے نعرے استقامتی معیشت، اقدام اور عمل’ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ بے شک حکومت نے کچھ کام انجام دیئے ہیں من جملہ استقامتی معیشت کے لئے کمانڈ تشکیل دی ہے اور اس کے مثبت نتائج جیسے تجارتی لین دین میں توازن اور درآمدات کی شرح میں کمی کی اطلاعات حکومت دے رہی ہے لیکن ضروری ہے کہ اس میدان میں بنیادی کام انجام دئے جائیں۔

 

رہبر انقلاب نے اس کے لئے روڈ میپ معین کئے جانے اور اس کا خاکہ تیار کر لینے کی ضرورت پر زور دیا اور استقامتی معیشت کے میدان میں اقدام و عمل سے متعلق دس بنیادی تجویزیں پیش کیں۔

 

آپ کی پہلی تجویز اقتصادی ماہیت کی سرگرمیوں اور سلسلہ وار اقدامات کی شناخت اور ان پر ارتکاز کے سلسلے میں تھی کیونکہ اس طرح اقتصادی نمو اور رونق کے دوسرے راستے بھی کھلیں گے۔

قومی پیداوار کا احیاء اور پیداواری یونٹوں کو متحرک کرنا جو استقامتی معیشت کے تناظر میں اقدام و عمل کا تقاضا ہے، رہبر انقلاب اسلامی کی حکام کے لئے دوسری تجویز تھی۔

 

آپ نے فرمایا کہ بعض رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ داخلی پیداوار کی یونٹوں میں سے ساٹھ فیصد یا تو بند ہیں یا اپنی گنجائش سے کم پیداواری سرگرمیاں انجام دے رہی ہیں۔ حکومت ناقد ماہرین اور اقتصاد دانوں کی مدد سے داخلی پیداوار کو زندہ کر سکتی ہے۔

 

ایسی غیر ملکی مصنوعات کی خریداری سے سختی کے ساتھ پرہیز کہ جس سے داخلی پیداوار متاثر ہو اور غیر ممالک سے آنے والے پیسے اور اثاثوں کا درست استعمال۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی حکام کے لئے یہ دو عملی تجاویز تھیں۔

 

آپ نے فرمایا کہ البتہ امریکا کی شیطنت اور بعض عوامل کی وجہ سے ایران کا پیسہ ابھی تک ملک کے اندر واپس نہیں آ سکا ہے، لیکن بہرحال بہت توجہ رکھنی چاہئے کہ یہ پیسہ اسراف اور غیر ضروری خریداری کی نذر اور ضائع نہ ہو جائے۔

 

اقدام و عمل سے متعلق حکام کے لئے رہبر انقلاب اسلامی کی پانچویں تجویز اہم اقتصادی شعبوں کو نالج بیسڈ اکانومی کے مطابق ڈھالنا تھا۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ وہ ایرانی صلاحیت کہ جو دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے سے ایک میزائل کو صرف چند میٹر فرق کے ساتھ اس کے ہدف تک پہنچا سکتی ہے، دیگر اہم صنعتوں منجملہ تیل اور گیس، گاڑیوں، ہوائی جہاز اور ٹرین کے انجن بنانے اور نئی ایجادات میں بھی استعمال کی جا سکتی ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ اس کے لئے زمینہ فراہم کرے۔

 

ان شعبوں کو جہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہو چکی ہے آپریشنل بنانا جیسے پیٹروکیمیکل اور بجلی گھروں کی تعمیر، تمام غیر ملکی معاملات کو ایران کے اندر ٹیکنالوجی کی منتقلی سے مشروط کرنا اقتصادی استحکام کے بارے میں حکام کے لئے رہبر انقلاب اسلامی کی چھٹی اور ساتویں تجاویز تھیں۔

آپ نے اسی طرح کرپشن کے بارے میں اخبارات کے زریعے اور سیاسی ہنگامہ مچائے جانے پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ استقامتی معیشت کے تناظر میں اقدام و عمل کے لئے آٹھویں تجویز کرپشن اور اسمگلنگ سے سختی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے جس نے ملکی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

 

توانائی کے شعبے میں بہتری جس سے ایک طے شدہ پروسس کے زریعے اربوں کی بچت کی جا سکتی ہے، اقتصادی تحرک اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے چھوٹی اور اوسط سطح کی صنعتوں پر خاص حمایتی نظر رکھنا رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی آخری دو تجاویز تھیں جو استقامتی معیشت، اقدام اور عمل’ کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ نے حکام کو پیش کیں۔

آپ نے فرمایا کہ البتہ دوسرے بھی کچھ کام ہیں جو اس سلسلے میں انجام دیئے جا سکتے ہیں، لیکن اگر ان دس نکات کو عملی جامہ پہنایا جائے تو ملک کے اندر بہت بڑے اور ترقی پذیر انقلابی تحریک کا آغاز ہوگا جو ایران کی معیشت کو محفوظ بنائے گی اور پابندیوں کے اثرات کو بالکل کم کر دے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اگر اس منطقی و انقلابی پروگرام کو عملی جامہ پہنایا گيا تو پھر پابندیوں کا نام سن کر کسی پر لزرہ طاری نہیں ہوگا اور امریکا کی پابندیوں سے بچنے کے لئے اصولوں، اقدار اور ریڈ لائن سے پیچھے ہٹنے اور پسپائی اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ عوام اور سیاسی و اقتصادی امور کے ماہرین حکومت کی مدد کریں اور تینوں بنیادی اداروں درمیان مکمل ہم آہنگی قائم رہنی چاہئے فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ استقامتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اقدام و عمل کے زیر سایہ حکومت رواں سال کے آخر تک کئی ہزار صنعتی، پیداواری اور زرعی کارخانوں اور ورک شاپس کے احیاء کی حقیقی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کریگی اور عوام بھی ان اقدامات کو محسوس کریں گے اور ان کی بابت ان کے اندر اعتماد و اطمینان پیدا ہوگا۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح انقلابی انداز میں کام کرنے کو گزشتہ تین دہائیوں کے دوران حاصل ہونے والی کامیابیوں کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہوئے اور انقلابی فورسز کی قدردانی کی ضرورت پر ایک بار پھر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ شہید ایٹمی سائنسدانوں کی خدمات، میزائل سے متعلق ریسرچ کے میدان میں شہید طہرانی مقدم کی کامیابیاں، اسٹیم سیلز کے شعبے میں جناب کاظمی، ثقافتی میدان میں شہید آوینی اور مرحوم سلحشور کی ثقافتی مسائل میں جدوجہداس بات کا ثبوت ہیں کہ انقلابی فکر و جذبہ کس طرح گرہیں کھولتا ہے اور کامیابیوں کے لئے زمینہ ہموار کرتا ہے۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے آخری حصے میں ثقافتی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے انھیں بڑی اہمیت کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ میں ایک بار پھر حکام کو تاکید کرتا ہوں کہ ملک بھر میں رضاکارانہ طور پر ثقافتی سرگرمیوں میں مشغول تنظیموں اور اداروں کی حمایت کریں۔

آپ نے مزید فرمایا کہ ان تنظیموں اور اداروں کو روز بروز وسعت دی جانی چاہئے اور ثقافتی ادارے اپنی آغوش ان لوگوں کے لئے کھولنے کے بجائے جو اسلام، انقلاب اور اقدار کو نہیں مانتے مومن و انقلابی نوجوانوں کی پشت پناہی اور حمایت کریں۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے وطن عزیز کے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ملک اور حال و مستقبل سب آپ کا ہے، اگر آپ تمام میدانوں میں ایمان اور خود اعتمادی کے جذبے کے ساتھ موجود رہیں گے اور آگے بڑھیں گے تو امریکا اور اس کے بڑے بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔

 

آپ نے اسی طرح آستانہ قدس رضوی کے مجاہد و حقیقی خدمت گزار عالم دین آیت اللہ واعظ طبسی مرحوم کی رحلت کا تذکرہ کرتے ہوئے اور اس انقلابی اور مجاہد عالم دین کے فقدان کو ایک عظیم نقصان قرار دیا۔

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *