تازہ ترین

گلگت بلتستان اور نامحسوس دھشتگردی

تحریر: (مشتاق حسین حکیمی)
دنیا میں دہشتگردی پر اتنی زیادہ انگلیاں اس لیے اٹھتی ہیں جس میں بے گناہ عوام قربانی ہوجاتی ہے۔ اور اس میں یہ بھی نہیں دیکھا جاتا ہے کہ مرد ہے یا عورت بالغ ہے یا نابالغ۔
بس ان دھشتگردوں کا کام یہ ہے کہ بے گناہ جانیں ضایع ہوجائیں اور وہ اپنے ناپاک عزایم میں کامیاب ہوجایں۔
پورے پاکستان میں دہشتگردی کے نذر ہونے والی جانوں کی گنتی کریں یقینا بہت زیادہ ہے اور ان تمام شہداء کو پورے پاکستان کی آبادی کے تناسب سے ایک دفعہ گنتی کریں تو پتہ چلے گا کہ کتنے فیصد لوگ دہشتگردی کے نذر ہوگئے ہیں۔

شئیر
35 بازدید
مطالب کا کوڈ: 178

اگرچہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی مملکت میں بے گناہ خون بہایا جایے۔ لیکن دھشتگردی کے نذر ہونے والے افراد کو شہید کہا جاتا ہے اور بہت سارے حکمران، سیاسی و سماجی شخصیات لواحقین سے اظہار ہمدردی بھی کرتے ہیں۔ اور بعض دفعہ لواحقین کی مالی امداد بھی کی جاتی ہے۔
لیکن
گلگت بلتستان میں ایک نامحسوس دھشتگردی ہورہی ہے جس کے بھینٹ چڑھنے والے افراد کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرنے والے نہ سیاسی و سماجی شخصیات ہیں اور نہ ہی مذہبی شخصیات
جبکہ گلگت بلتستان کی مجموعی آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو اس نامحسوس دہشتگردی کے نذر ہونے والے افراد کی تعداد پاکستان بھر کے شہدا سے زیادہ ہے۔
اس نامحسوس دھشتگردی سے مراد گلگت سکردو روڑ پر ھونے والے حادثات ہیں جس پر سالہا سال سے پوری پوری بسیں ایکسیڈنٹ ہوگیں اور دریا برد ہوکر مسافروں کے جنازے تک نہیں ملے ان بے یار و مددگاروں کی فہرست تیار کی جایے تو ایک لمبی فہرست بنےگی کئی تو پوری بسیں دریای سندھ میں جاگری ہیں جن میں پانچ سال پہلے 35 آرمی کے جوانوں سمیت کوئی چالیس کے لگ بھگ مسافروں سمیت روندو کے مقام پر نیلوپہ چڑھائی چڑھتے ہو‌ۓ گرنے والی بس ہے جس کے 35 آرمی مسافر ہونے کے باوجود کسی بھی نظامی یا انتظامی ادارے نے انکی میت تک تلاش کرنے کی زحمت نہیں کی۔
مال بردار گاڑیاں جو اس نامحسوس دہشتگردی کے بھینٹ چڑھی ہیں وہ تو کہیں ذکر تک نہیں ہوتیں چونکہ دو غریب آدمی ڈرایور اور اس کا ساتھی جو بچوں کا پیٹ پالنے اس موت کے کنویں میں کود پڑتے ھیں انکا ذکر تک نہیں ھوتا.
گلگت سکردو روڑ پر ضایع ہونے والی جانوں کی گنتی کی جایے تو ہزاروں میں ہے اس کے باوجود کسی نے بھی اس پر توجہ نہیں کی جب کسی ملک کے حکمران اس طرح سے بدمست سو رہے ہوں اور انکی آنکھوں کے سامنے ہر روز اس روڑ کی وجہ سے کوئی نہ کوئی گھر اجڑھ جائے ہماری بہنیں بیوہ ہوجائیں اور بچے یتیم ہوجائے اور پوری زندگی بے آسرا ہوجائیں لیکن حکمران اور زمہ دار لوگ خاموش رھیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟
شہروں میں ھونے والے دھماکوں میں جام شہادت نوش کرنے والے افراد کی میت تو ملتی ہے اور قبریں بنتی ہیں اور شہداء کے بچے اگر ماوں سے باپ کا پوچھیں تو کم از کم باپ کی قبر دکھا کر بچوں کو خاموش کراسکتی ہیں لیکن گلگت بلتستان کی وہ مائیں جنکے سرپرست دریای سندھ کی تاریک گہرائی میں گہری نیند سوگئے ہیں اور نہ تو انکو نماز جنازہ نصیب ہوئی نہ نماز وحشت اور نہ ہی زندگی کے اختتام کی نشانی (قبر) تو مائیں بچوں کو کیسے دلاسہ دیں اور کیا دکھائیں ان معصوم بچوں کو!!!
پاکستان بھر میں دھشتگردی پر چِلّانے والے ادارے، گلگت بلتستان کے اس دھشتگرد کے بارے میں کیوں خاموش ہیں؟ کب تک گلگت بلتستان والوں کو اس موت کے کنوئں میں دھکیلتے رہیں گے!
اسلامی ریاست میں ان بے یار و مددگار بچوں کا پرسان حال کون ہے؟ الیکشن میں در در پہ جاکر ووٹ لینے والے نمایندوں کی اس حوالے سے کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
کیا رعایا کی جانی حفاظت ریاست کے ذمے نہیں؟ کیا امیر و غریب سے ٹیکس کے بہانے لیے جانے والے پیسے امیروں کی عیاشی کے لیے ہے؟
کیا گلگت بلتستان سے ٹوریزم سے ملنے والی آمدنی پانامہ لیکس کی زینت بنانے کے لیے ہے؟
کیا ان ہزاروں یا کم از کم سینکڑوں انسانوں کی جانوں کی قیمت چالیس سے پچاس ارب روپیہ نہیں جو ایک روڑ کے ٹینڈر کے لیے گورنمنٹ نہیں دے سکتی؟
کیا یہ ہزاروں جانیں نواز شریف یا آصف علی زرداری کی جان کے برابر نہیں؟ ان کو تو کھانسی بھی آتی ہے تو سرکاری اخراجات پر باہر ملک چلے جاتے ہیں جبکہ غریب جی بی کی عوام گلگت اور سکردو کے درمیان آئے دن یکے پس از دیگرے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور کوئی ٹس سے مس تک نہیں!
اس حوالے سے ہر وہ شخص جو خاموش ہے سیاسی ہو یا سماجی، مذہبی ہو یا سکیولار، وہ خائن اور قوم کا غدار ہے بلکہ وہ حدیث کی رو سے اسلام کے دائرے سے بھی خارج ہے
جب تک درد کا احساس نہ ہو اور احساس کے بعد درد کا اظہار اور ری ایکشن نہ ہو کوئی بھی شخص آپ کا ہمدرد نہیں بنے گا۔ روئے بغیر ماں اپنے بچے کو دودھ نہیں دیتی ہے تو کرپٹ، بدمست اور ظالم حکمران کسی کی کیا سنیں گے؟
(آجکل بلتستان سول سوسایٹی کی طرف سے اس حوالے سے بیداری کا اظہار ہورہا ہے اور یہ نیک شگون ہے۔ امید ہے کہ ان بیدار جوانوں کی سلانے کے لیے وقت کے جعفر اور صادق متحرک نہ ہوجائیں۔
بس ان جوانوں کے لیے اتنا کہا جاسکتا ہے
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے انکو اپنی منزل آسمانوں میں۔)
بہر حال دہشتگردی کے خلاف بولنے والو، ہیومن رائٹس پر چلّانے والو، کیا جی بی کے عوام کی قدر و قیمت باقی انسانوں کے برابر نہیں؟
کیا جی بی کے عوام سے لیے جانے والے ووٹوں کی اہمیت کم ہے؟
وزیر اعلی صاحب، وزیر تعمیرات، وزیر۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ نے اس روڑ پر سفر نہیں کیا ہے کبھی؟ اگر سفر کیا ہے تو روڑ کی تعمیر کیلیے کیا کردار ادا کیا ہے؟ اور یہ نامحسوس دہشتگردی پر کنٹرول کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟
اگر سب کچھ جاننے کے بعد بھی صرف اپنی دنیاداری اور مالی لالچ میں خاموش رہے تو خدا کی قسم جو پیسہ اس بابت لے رہے ہو مردار سے بھی بدتر ہے۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *