حضرت عباس نمونہ وفا
تمہید:
حضرت عباس علیہ السلام کی ذات بابرکت، فضائل اوربرکات کاوہ موج زن سمندر ہے کہ ایک یا چند مقالوں سے اس عظیم شخصیت کے کسی ایک پہلو پر بھی سیر حاصل بحث نہیں کی جاسکتی، لیکن عربی کےاس معروف موکلہ«مالا یدرک کله لا یترک کله» کومدنظررکھتےہوۓ اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ حضرت عباس علمدار کی ایک اہم ترین صفت( وفاء) کےذیل میں کچھ مطالب بیان کریں ، البتہ یہ اعتراف کرتے ہوے کہ حضرت عباس (ع) کی زندگی تحلیل کرنا ایک معمولی کام نہیں ، اور مجھ جیسے بے بضاعت کے بس میں نہیں کہ ایک سیر حاصل بحث کر سکوں فقط اس امیدکے ساتھ کہ میرا نام بھی محبان خاندان عترت و طہارت کی فهرست میں شامل ہوجاے آنحضرت (ع)کے فضائل و کمالات کے کچھ موتی اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کیے دیتا ہوں اورنیز اپنے اس مقالے کو یوم جانباز(غازیوں کادن) کی مناسبت سے اسلام کےتمام غازیوں کےنام منسوب کرتا ہوں۔
ولادت با سعادت حضرت عباسؑ:
حضرت عباس ؑکی تاریخ تولدکےسلسلےمیں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن معروف یہ ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت جمعہ کےدن چہار شعبان سال ٢٦ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہویٔی۔ امیر المومنین (ع) نے اپنے نو مولود کا نام عباسؑ رکھا چونکہ علی (ع) بعنوان دروازہ علم نبوت جانتے تھے کہ ان کا یہ فرزند ارجمند بغیر کسی شک و تردیدکے باطل کے مقابلے میں سخت اور هیبت والے اور حق کے سامنے شاداب و تسلیم ہے۔ استاد ارجمند آیت اﷲ ڈاکٹراحمدبہشتی دامت برکاتہ اپنی ایک کتاب (قہرمان علقمہ) میں عباس کے معنی بیان کرتے هوے فرماتے ہیں: «نہیں جانتا کہ عباس ؑکو زیادہ غصہ دلانے والا معنی کروں یانہیں۔ کیونکہ آپ ہی تھے کہ دشت کربلا میں دشمن آپ کےوجود سے غصے میں آجاتا اوراس پر حالت عبوست ظاہرہوجاتی ۔ا اورنام عباس ان کی چین وسکون کوچھین لیتا تھا۔ » البتہ اھل لغت نے لفظ عباس کا ایک اور معنی بھی بیان کیا ہے وہ معنی بھی حضرت عباس کے لیے مناسب اور موزوں ہے۔اس معنی کے تحت عباس اس شیر کو کہتے ہیں جس کو دیکھ کر دوسرے شیر بھاگ جاتے ہیں۔اور یہ منظر صحرا طف میں سب نے دیکھاکہ جناب عباس جس طرف بھی حملہ کرتے تھے سارے یزیدی وہاں سے بھاگ جاتے تھے۔ شجاعت ، بہادری، وفا اور دلیری جیسی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے شجاع باپ نے اپنے شجاع بیٹے کا نام عباس ؑرکھا اور مورخین کے کلمات اس بات کے گواہ ہیں وہ لکھتے ہیں:«سماہ امیرالمومنین علیه السلام بالعباس لعلمه بشجاعته و سطوته و عبوسته فی قتال الاعداء و فی مقا بله الخصما» ٰ حضرت علی علیہ السلام نے عباس کانام عباس اس لیے رکھا کیونکہ آپ میدان جنگ میں دشمن کے مقابلے میں حضرت عباس کی شجاعت،قدرت و صلابت کے بارے میں علم و آگاھی رکھتے تھے۔
حضرت عباسؑ کاحسب ونسب:
کسی شخص کی شخصیت اس کے حسب و نسب سے بخوبی سمجھی جاسکتی ہے چونکه صالح گرجانوں کی مثال اس پاک سر زمین کی سی هے کہ جس میں شایستہ اورپھلدار درخت پر ورش پاتے هیں۔ خاندانی اصالت شخصیتوں کی پرورش میں نمایا ںکردار ادا کرتی ہے، تبھی تو امام علی علیہ السلام مالک اشتر ؓکو خطاب کرتے ہوۓ فرماتے هیں ۔« وتوَّ خَ منهم اهل التَّجربة و الحیاء من اهل البیوتات الصالحة والقدم فی الاسلام المتقدمة فانهم اکرم اخلاقا و اصح اعراضا و اقل فی المطامع اشرافا و ابلغ فی عواقب الامور نظرا » یعنی اپنے عمّال میں سے ایسے افراد کا انتخاب کرو جو تجربہ کار و غیرت مند ہوں اور ان کا تعلق صالح خاندانوں سے ہو اور وہ اسلام میں اپنی خدمات کی بناپرپیشی رکتھے ہوں کیو نکہ ایسے لوگ بلند اخلاق ،بے داغ اورعزت والے ہوتے ہیں۔ حرص و طمع کی طرف کم جھکتے ہیں اور عواقب و نتایج پر زیادہ نظر رکھتے ہیں۔
امیر المومنین علی علیہ السلام کے اس فرمان سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ حسب و نسب پاک ہی گوہر و صدف پاک کو پروان چڑھایاکرتا ہے۔ نسب پاک ہر کسی کے نصیب میں نہیں آتا۔ حضرت عباس علیہ السلام ان خوش قسمت افراد میں سے ایک ہیں جن کو عالم انساب میں وہ برتری حاصل ہے جو کم کسی کو حاصل ہوتی ہے۔وہ باپ کی جانب سے علوی و هاشمی ہیں جو شرف اور کرامت میں بے نظیر ہے جن کانظیر روی زمین میں پیدا نہیں ہوسکتا ہے۔ یوں ، عباسؑ نہ فقط قمر بنی ہاشم ہیں بلکہ قمر بشریت اور جہان ہستی کا چمکتا ہوا مهتاب ہیں۔
حضرت عباسؑ کے والدگرامی حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام ہیں کہ جن کی عظمت کے سامنے دوست و دشمن سب سر تسلیم خم کے نظرآتےہیں۔ ان کی ماں فاطمہ بنت حزام بن خالد جو ام البنین سے ملقب اور اسی نام سے معروف ہوئیں ۔آپ کی شخصیت عالم اسلام میں بے نظیر مانی جاتی ہے آپ ہی کے چار فرزند کربلا میں سبط پیامبر حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جام شھادت نوش فرماکر تا ابد زندہ وجاویدہوگئے۔
حضرت ام البنین کا خاندان شرافت و پاکی ، سخاوت و شجاعت اور مہمان نوازی میں عرب کے قبائل کےدرمیان زبان زد عام و خاص تھا۔ ان کے والدین، دادا، پردادا ۔۔۔ بھی انسانی کمالات کے شہرہ آفاق ستارے تھے۔حضرت ابوالفضل عباسؑ نے فضائل و کمالات کو ان دو خاندانوں سے ورثے میں پایا تھا۔
حضرت عباس علیہ السلام کے القاب:
ارباب تاریخ نے حضرت عباسؑ کے کئی القاب بیان کیے ہیں ، ہم ان میں سے کچھ کا بیان اختصار کے ساتھ کیے دیتے ہیں۔
١۔ابولفضل:
ابولفضل یعنی فضیلتوں کامالک(باپ)، حضرت عباسؑ کو شاید ان کی انگنت فضائل کی وجہ سے اس لقب سے موسوم کیا گیا ہو یا فضل ان کےکسی بیٹے کا نام تھا جس کی وجہ سےآپ ابولفضل کہلایے۔
٢۔ابوالقریہ:
کچھ علما اورمورخین نے آپ کو ابو قریہ (صاحب مشکیزہ)سے ملقب کیا ہے۔ کیونکہ حضرت عباس نے روز عاشورا چند مرتبہ پانی کا مشکیزہ خیمہ گاہ حسینیؑ تک پہنچایا تھا۔
٣۔ابوالقاسم:
حضرت عباس ؑکے ایک بیٹے کا نام قاسم تھا ۔ بعض مورخین کے مطا بق قاسم نے اپنے پدر بزرگوار کے ہمراہ کربلا میں جام شہادت نوش فرمایا۔اس بیٹےسے نسبت کی وجہ سے آپ ابوقاسم کہلائے ۔
٤۔قمر بنی ہاشم:
حضرت عباسؑ بہت ہی حسین،اور پرکشش چہرے کےمالک تھے۔صاحب مقاتل الطالبین لکھتے ہیں کہ حضرت عباسؑ بہت خوبصورت ،حسین تھے جب وہ ایک درشت ہیکل گھوڑے پر سوار ہوتے تو ان کے پاوں زمین سے لگ جاتے تھے۔ انہیں قمر بنی ہاشم کہا جاتاتھا۔ شہید مطہری(رہ) فرماتے ہیں کہ حضرت عباسؑ بلند قامت جسیم اور خوبصورت جوان تھے، امام حسین علیہ السلام آپ کو دیکھ کربہت محظوظ ہواکرتے تھے۔
٥۔ سقا:
حضرت عباسؑ کے محبوب ترین القاب میں سے ایک لقب سقا ہے۔ جب پسر مرجانہ نے خاندان رسالت پر پانی کی بندش کی تو حضرت عباسؑ نے اپنی بہادری اور دلیری کا ثبوت دیتے ہوئے کئی بار پانی خیموں تک پہنچایا اور اہل بیت پیامبر(ع)کو سیراب فرمایا ۔ اس وظیفے کی انجام دہی میں ہی جام شہادت نوش فرما کر رہتی دنیا تک تاریخ کے اوراق میں سرخ رو ہوئے۔
٦۔علمدار:
حضرت عباسؑ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کےلشکرکےعلمدار تھےلشکر امام حسین علیہ السلام کی سالاری کا منصب آپ ہی کے نصیب میں آیا۔
٧۔عبدالصالح:
امام صادق علیہ السلام اس زیارت میں کہ جسے ابوحمزہ ثمالیؓ نے نقل فرمایا ہے آپؑ کو عبد صالح سے خطاب کرتے ہیں۔جیسا کہ آپ علیه السلام فرماتے ہیں (السلام علیک ایها العبد الصالح) میرا سلام ہو تجھے پر اے بندہ شایستہ۔
٨۔المواسی:
آپ کی اناہائی اثیار اور قربانی کی وجہ سے آپ کو المواسی کا لقب دیا گیا۔ آپ نے دشمن کو بھگا کر پانی تک رسائی حاصل کی لیکن اہل بیت عصمت و طہارت ؑکی پیاس کو یاد کرکے خود پانی نہیں پیا ۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «اشهد لقد نصحت ﷲ و رسوله ولاخیک فنعم الاخ المواسی۔» میں گواہی دیتاہوں کہ آپ اللہ ورسول اوراپنےبھائی کی راہ میں خیرخواہ تھےاورنصیحت کی۔ آپ بہت ہمدردی رکھنےوالے بھائی تھے۔ زیارت ناحیہ مقدسہ میں امام زمانہ(عج) فرماتے ہیں: ااسلام علی ابی الفضل العباس المواسی اخاہ بنفسه ۔ یعنی سلام ہو ابوالفضل عباسؑ پرکہ جنہوں نے اپنی جان کےساتھ بھائی کی مواسات (ہمدردی)کی۔
۹۔ باب الحوائج:
یہ لقب ایسا دلنشین ہے کہ آج بھی اہل بیت ؑ سے محبت رکھنے والے حضرت عباسؑ کو اسی لقب سے جانتے اور یاد کرتے ہیں،گویا باب الحوائج آپ ؑکا دوسرا نام ہو۔محبان حضرت عباسؑ کا عقیدہ ہے کہ اگر کوئی خالص نیت کے ساتھ عباس ؑکو وسیلہ قرار دے تو اﷲ تعالی اس کی حاجتیں اور مرادیں بر لاتا ہے اوراسے مایوس نہیں کرتا ہے۔ایسا کیوں نہ ہو چونکہ عباسؑ در ر حمت خدا اور اس کے محکم اسباب و وسائل میں سے ایک ہیں۔ عباس ہی نے تو اپنے امام علیہ السلام کی نصرت اور دین اسلام کی بقاء اور پایداری کیلیئے سب سے زیادہ تلاش و کوشش کی یہاں تک کہ اپنی جان بھی اس ہدف پر قربان کی۔تعجب اس پر ہوتا اگر عباس باب الحوائج نہ کہلاتے!
١۰۔شہید:
ارباب تاریخ نے اگرچہ شہید کا لقب حضرت عباسؑ کیلئے بیان نہیں کیا ہے لیکن امام صادق علیہ الاسلام کے کلام مبارک میں آپ کے لئے یه لقب بیان ہواہے ایک مرتبہ معاویہ بن عماریزیدی نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا جب فدک آپ کو واپس کیا گیا تواسے آپ نے کس طرح تقسیم کیا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا ؛«اعطینا ولد العباس الشهید الربع و الباقی لنا» یعنی عباس شہیدؑ کے فرزندان کو ایک چوتھائی حصہ دیا اور باقی ہمارے لئے ہے۔
١۱۔پاسدار و پاسبان حرم:
طول تاریخ میں بہت ساروں نے اپنی ناموس اور حریم کی دفاع میں حتی جان تک کو قربان کیا لیکن کوئی بھی اس کام میں حضرت عباسؑ کی منزلت کو نہیں پہنچ سکا ۔حضرت عباس ؑسارے پاسبانوں کے لئے بہترین نمونہ ہیں ۔تبھی تو اسلامی جمہوریہ ایران میں ہر سال چار شعبان کو روز جانباز کے نام سے منایا جاتا ہے۔ مذکورہ القابات کے علاوہ بھی مورخین نےکئی ایک القاب حضرت عباس ؑکے لئےنقل کئے ہیں’ جن میں سے ،الفادی’عمید’ حامی’ واقی’ کبش الکتیبہ’،اوراطلس، زیادہ مشہورہیں۔
حضرت عباسؑ پیکر وفا:
لفظ وفاء کو غدر، فریب اور بے وفائی کے مقابلے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ وفا، فضلیت اور بے وفائی اور غدر صفت رذیلہ کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ امام صادق علیہ السلام کی ایک لمبی حدیث ہے اس میں نیک اور بری صفتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں: «الوفاء وضدہ الغدر» یعنی وفا عقل کی وزیر ہے اور خداوند نے غدر کو جووزیر جہل ہے اس کے مقابلے میں قرار دیا ہے۔ شاید یہ کہنا مناسب ہو اگر ایمان صاحب اجزاء ہو تو قطعی طور پر ان اجزاء میں سے ایک جزء وفاءہے۔ جیساکہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:((ان اﷲ عزوجل وضع الایمان علی سبعه اسهم علی البر و الصدق و الیقین و الرضاء و الوفاء و العلم و الحلم)) یعنی(اﷲتعالی نے ایمان کو سا ت حصوں میں قرار دیا: نیکی، سچائی،یقین، رضا ، وفا ، علم و حلم)
اصولی طور پر نیک اعمال کی قبولیت کیلئے وفاء کا ہونا شرط ہے۔جو لوگ غدار،حیلہ گر اور فریب کار ہوتے ہیں ان کا مقام تو کتوں سے بھی نیچے درجے کا ہے ایسے لوگ نیک اعمال کے ثواب سے بے نصیب ہیں۔جیسا خود خدا وند ارشاد فرماتا ہے . « اوفوا بعهدی اوف بعهدکم» یعنی( میرے عہد سے وفا داری کرو تا تمہارے عہد کی میں پاسداری کروں۔)لہذا خداوند نے جن نیک اعمال کے لئے ثواب کا وعدہ کیا ہے یہ وعدہ تب نبھایا جائیگا کہ جب صاحب عمل، وفادار لوگوں میں سے ہو۔ اس سلسلے میں آیات و روایات بہت ہیں۔ اس سے زیادہ بیان اس مقالے کے احاطے سے باہر ہے ۔سابقاً اس حقیقت کی طرف اشارہ کیاجاچکا ہےکہ حضرت عباسؑ نیک فضو ہیں کےمرکزکہلاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کی کنیت ہی ابولفضل یعنی فضیلتوں کا باپ پڑگئی۔حضرت عباسؑ کی پوری فضیلتوں کا احصا ایک یا دو مقالوں کی گنجائش سےباہرہےبلکہ اس امر کیلئے کئی جلد کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کومد نظر رکھتے ہوئے ہم اس مقالے میں حضرت عباسؑ کی صرف صفت وفا پر مختصربحث کریں گے۔ آپؑ کی وفا کو مختلف پیرایوں سے بیان کیا جاسکتا ہے۔
وفاداری کے مختلف پہلو:
وفاداری کے کئی ایاوک پہلو ہوتےہیں ۔ دین کے ساتھ وفا داری، اپنی قوم و ملت کے ساتھ وفاداری، اپنے ملک اور وطن کے ساتھ وفاداری، اپنے بھائی اور نزدیک ترین افراد کے ساتھ وفا داری،امامِ وقت سے وفاداری دوست اور احباب کے ساتھ وفا داری وغیرہ۔ حضرت عباسؑ نے ان تمام پہلووں میں امتحان دےکر پہلے رتبے پر فائز ہوئے۔
١۔دین کے ساتھ وفا داری:
دین اسلام پر جب کبھی بھی برا وقت آیا عباس علیہ السلام بہترین مدافع کے طور پر سامنے آئے ، اور کبھی بھی اپنی جان کی پروا نہ کی، چاہے وہ بابا علی مرتضی(ع) کا زمانہ امامت ہو یا بھیا حسن مجتبی(ع) کا دور امامت، آپ ہمیشہ اسلام اور اپنے امام وقت کے دفاع میں ہر اول دستے میں رہے۔اور اپنی وفا کے جوہر دکھلاتے رہے۔جس وقت بھیا حسین سید الشہداءعلیہ السلام کا دور امامت آیا ہمیشہ انکی اطاعت میں زندگی گذاری. جب بنوامیہ نے یذید ملعون کو خلیفهه المسلمین کے منصب پر بٹھا کر دین اسلام کو پا مال کرنے کا تہیہ کیا اور امام حسین علیہ السلام کو یہ فرمانا پڑا کہ (علی الاسلام،السلام) یعنی یذید جیسے فاجروفاسق شخص کو خلیفہ بنا کر اس کی بیعت کرنا گویا اسلام کو سلام کرکے اسے خیر باد کہنا ہے ایسے موقع پر حضرت عباسؑ جیسے دین اسلام کے وفا دار اپنی جان کو جو کھوں میں ڈال کر اسلام کی بقاء اور اس کی سربلندی کیلئےاپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے آمادہ ہوئے۔
٢۔قوم و ملت کے ساتھ وفادری:
قوم وملت کے ساتھ وفاداری حضرت عباس ؑکی روح میں متجلی تھی۔ قوم و ملت بنی امیہ کے ظلم و جور میں جکڑی ہوئی ہے۔ظلم کی گھٹا ٹوپ تاریکی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔بہادرسے بہادر شخص بھی اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے سے کترا تا نظرآتاہے۔بنوا میہ نے تمام مسلمانوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے، ان کے اموال کو تاراج کردیا اور کسی کی ناموس محفوظ نہیں۔لوگوں کو استثمار کرنے کیلئے دین خدا کو اپنا کھلونا بنا کر کھیل کھیلا جارہا ہے ایسے سخت اوقات میں عباس علیہ اسلام ہی قوم وملت کے وفا دار ہیں تبھی تو امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورا اپنا علم عباس ؑکے سپردکرکے ان کو اپنا سپاہ کا سالار بناتے ہیں حقا کہ حضرت عباس ؑنے اپنے دونوں بازووں کوکٹوا کر اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ،اور نهر علقمہ پر جام شہادت نوش کرکے ہمیشہ کے لیے علقمہ کے هیرو کهلائے گئے۔
٣۔ملک و وطن سے وفادری:
اسلامی مملکت خطرے میں ہے اس سے بڑ ھ کر برا وقت کبھی اسلامی وطن پر نہیں آیاہے۔بنوامیہ اسلامی وطن کی ثروت کو لوٹ رهے ہیں۔ مملکت اسلامی کے خزانے من پسند افراد میں تقسیم کیے جارہے ہیں۔جو چرطے کل تک اسلامی مملکت کے اندر موح س سمجھے جاتے تھے ان کو آج عالی ترین مناصب دیکر انہیں عزت دی جاتی ہے، وہ ان منصولں کے آڑاوٹ میں لوگوں کے اموال کو غارت کر رہے ہیں۔ان سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں۔ ارباب تاریخ لکھتے ہیں کہ حضرت عباس کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ اسلام کے بدن میں زندگی کی کوٍئی رمق باقی نہیں رہی تھی آپ ہڈیوں کے ایک ڈھا نچے کی صورت میں رہ گئے تھے۔ «لم یبق الحسین بعد ابی الفضل الاهیکلا شاخصا معری عن لوازملوازم الحیات» جب حضرت عباسؑ شہید ہوئے تو دشمن ہر طرف سے اصحاب امام حسین علیہ السلام پر حملہ آور ہوئے ، اب چونکہ حسینؑ سے وفاء کرنے والا اس کابهادر بھائی عباسؑ باقی نہ رها تھا۔ «لما قتل العباس تدا فعت الرجال علی اصحاب الحسین»
یه وه وقت تها کہ اسلامی مملکت کے اندر آزاد اندیش انسانوں کے لئےکوئی جگہ نہیں تھی۔جن لوگو ں کی اسلام کے لئے خدمات تھیں اور ابھی بھی شیفتہ اسلام ہیں ان کو وطن سے نکال دیا جاتا ہے۔ عمارؓ و میثم ؓو سعیدؓ بن جبیر ؓاور رشدب ہجریؓ جیسوں کا دائرہ تنگ کر کے ان کو انہی کے خون میں نہلایا گیا۔جب کہ عمرو عاصم ، ابوہریرہ، عمر سعد، زیاد ، عبید جیسے اسلام دشمن عناصر کی شخصیت پروری کی جاتی ہے۔ ولید جیسوں کو مدینہ الرسول کا حاکم بنایا جاتا ہے۔ ایسے حالات اور شرائط میں اسلامی مملکت کی بقاء اور استحکام کیلئے عباس علمدار ؑجیسے وفادار افراد اگرچہ تعداد میں کم ہیں لیکن ایک مضبوط عزم و ارادہ کے ساتھ اپنے امام وقت کے گرد یوں جمع ہوجاتے ہیں جیسے پروا نے شمع کے گرد. اور اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں .اور یوں اسلامی وطن کے پاسبان کے لقب سے معزز پاتے ہیں۔
٤۔ بھائی سے وفا داری:
امام حسین علیہ السلام ریحان رسول خدا ﷺ ہیں۔ وہ ہی رهبر دین، مسلمین کےپیشوا و صالحین کےامام اور سرور و سالار شہیدان ہیں۔ عباسؑ کا اپنے بھائی حسین علیہ السلام کے ساتھ کبھی نہ ٹوٹنے والا ایک عہد موجود ہے .انہوں نے اپنے امام حق کی بیعت کی تا کہ باطل سے ٹکرائںر۔عباسؑ، امام نور کا پیرو کار ہے اور وہ ظلمت اور تاریکی کے رهبروں کے ساتھ اپنی آخری سانسوں تک نبرد آزماں ہے۔عباسؑ نے بتلا دیا کہ وہ اپنے بھائی، مولا ، رهبر ، امام اور مقتدی کے ساتھ کس قدر وفادارہیں۔آپ کی وفاداری اس قدر عروج کو پنچیس کہ خود وفا کو ناز ہے کہ وہ آپ سے منسوب ہے۔اور آپ وفاداروں کیلئے نمونہ، بلکہ پیکر وفا ہوئے۔ کیوں نہ ایسا ہو چونکہ تاریخ نے کبھی ایسے وفا کو نہیں دیکھا ہے،اگر آپ کو قطب وفا کہا جایے تو بیجا نهیں ہے۔ امام زمانہ (عج) اس بارے میں فرماتے ہیں «السلام علی ابی الفضل العباس المواسی اخاہ بنفسه» همارا سلام ہو ابولفضل العباسؑ پر کہ جس نے اپنی جان قربان کرنے کے ساتھ بھائی سے ہمدردی کی-
۵۔ وقت کے امام سے وفاداری:
حضرت عباسؑ کی مہم ترین خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اپنے زمانے کے امام کی شناخت اور ان کیان کی اطاعت محض تھی۔ آپ نے تین اماموں ؑ کی دور امامت کو دیکھا .چاہے بابا علی علیہ السلام کا دور امامت ہو یا بھیا حسن علیہ السلام کا دور امامت ہو، آ پ نے ہمیشہ اپنی وفا کا لوها منوایا ۔ آپ کے زیارتنامہ میں امام صادق علیہ السلام سے منقول یہ جملات اس امر کی روشن دلیل ہیں کہ آپ ولایت مداری میں کس قدر آگے تھے۔ «المطیح ﷲ و لرسوله ولامیر المومنین والحسن والحسین صلی اﷲ علیهم » یعنی ،تجھ پر سلام اےای اﷲ کے صالح بندےوخدابندےو خدا اور اس کے رسول کے مطیع و فرمانبردار اور امیرالمومنین،امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے حقیقی پیرو کار۔ حضرت عباسؑ نے کربلا میں وفا اور وفاداری کے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ سب اپنے امام وقت کی اطاعت اور اس سے وفاداری کی وجہ سے ہے۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ شاید حضرت عباسؑ کی فداکاری قبیلہ کاتعصب اور خاندانی تھی، نہیں بلکہ حضرت عباسؑ کی یہ ساری قربانیاں ولایت مداری اور اسکی اطاعت کی وجہ سے تھیں۔چنانچہ ارباب تاریخ اس شبھہ سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں۔
«بل کان یعرف ان دین اﷲ قائم با لحسین(علیه السلام) وهو عمود الدین ، مجاهد عن دین اﷲ و عن شریعت المصطفی و حامی عن ابن رسول اﷲ و عن بنات الزهراء کما قال انی احامی ابدا عن دینی وعن امام الصادق الیقین نجل النبی الطاهر الامین» بلکہ( حضرت عباسؑ) جانتے تھے کہ دین خدا، امام حسین کی وجہ سے قائم ہے۔امام حسینؑ ہی دین کے ستون ہیں۔ وه دین خدا اور شریعت پیامبرﷺکی بقاء کیلئے جہاد کر رہے ہیں (اس خاطر حضرت عباس جان ودل سے)فرزندان رسول خداﷺ اور حضرت زهرا سلام اللہ علیہا کی بیٹیوں کی حمایت کر رهے تھے جیسا کہ خود فرمایا کرتے تھے، خدا کی قسم اگر میرے بازووں کو کاٹو تو بھی میں اپنے دین، اپنے امام حق اور یقین اور فرزند دختر پیامبر پاک ﷺﷺ و امین کی حمایت کروں گا۔
وفاداری کے چند نمونے :
یوں تو حضرت عباسؑ کی پوری زندگی وفا اور وفاداری سے لبریز ہے لیکن حضرت عباس ؑکی یه وفا داری سانحہ کربلا میں کچھ منفرد انداز میں نکھر کر سامنے آئی دوست ہوں یا دشمن کوئی بھی آپ کی وفا داری کی داد دئے بغیر نہ رہ سکا۔ منمندرجہدرجہ ذیل سطور میں حضرت عباسؑ کی وفاداری کے چند نمونے پیش کرتے ہیں۔
١۔امان نامے کا ٹکرنانا:
عبیداللہ اوراس کے کارندے اس بات سے آگاہ تھے کہ جب تک حضرت عباسؑ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہیں ان پر حاوی ہونا نہایت ہی دشوار مسئلہ ہے لہذا یہ چال چلی کہ حضرت عباسؑ کو امام حسین علیه السلام سے جداکریں اس چال اورحربے کوعملی جامه پهنا نے کے لیے عصرتاسوعا شمرملعون چارهزار فوج کے همراه دشت نینوا پهنچا،اورحضرت عباسؑ کو آواز دی لیکن حضرت عباس ؑنے اس کی پکار پر کوٍئی توجہ نہیں دی بلکہ یوں کہوں عباس نامدارؑ نے شمر کو جواب کا لائق ہی نہ سمجھا، جب آقا و مولا امام حسین علیہ السلام نے کہا میرے عزیز بھیا جا و دیکھوشمر آپ سے کیا چاہتا ہے؟ اپنے بھیا اور امامؑ کی اطاعت میں آگے بڑھ کر شمر سے کہا،کہو کیا کہا چاہتے ہو۔شمر نے کہا اے عباس !میں نے ابن زیاد سے تمہیں اور تمھارے بھائیوں کیلئے امانامان نامہ لے لیا ہے، لہذا آپ اپنے آپ کو حسین ؑسے الگ رکھئے۔شیر خدا کے شیر فرزند بپھر گئے اور طیش میں آکر فرمایا:«تبت یداک و لعن ما جئت به من امانک یا عدو اﷲ، اتأ مرونا ان نترک اخانا وسیدنا الحسین بن فاطمه و ند خل فی طاعت اللعناء و اولاد اللعناء اتومننا و ابن رسول اﷲ لا آمان له» تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیس اور لعنت ہو اس امان نامہ پر اور اس پر کہ جس سے یہ امان نامہ لے کر کے آئے ہو، اے دشمن خداکیا تو ہمیں یہ امرکررہاہے کہ ہم اپنے بھائی ومولا اور فاطمہ (ع) کےلخت جگر کو تنای چھوڑ کر لعنت شدگان اور لعنت شدگان کے فرزندوں کی اطاعت کے زمرے میں داخل ہوجائیں(عجیب بات ہے) آیا ہمیں امان دے رہے ہو لیکن فرزند رسول خدا ﷺکے لیے کوئی امانآمان نہیں؟یہ جملات حضرت عباس کی شجاعت اور وفاداری کی واضح دلیل ہے۔
٢۔شب عاشورا کو اعلان وفاداری:
شام عاشورا امام حسین علیہ السلام نے اپنے تمام یار و انصار کو ایک خیمے میں جمع کرکے فرمایا : سب سنو یہ قوم دغل باز،صرف میرے خون کی پیاسی ہے لہذا میں اپنی بیتم تمہاری گردنوں سے اٹھاتا ہوں ،چراغ گل کیے دیتا ہوں۔شب کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر ہر کوئی اپنا اپنا راستہ لےلے ، اور یوں ہر کسی کو بھاگنے کی بہترین فرصت فراہم کی لیکن قربان جائیں حضرت عباسؑ کی وفاداری پر کہ تاریکی کا سکوت توڑ کر سب سے پہلے آپ نے اپنے عھد وفا کو پورا کرنے کا عزم ظاہر کیا ، چنانچہ ارباب تاریخ نے لکھا ہے «فبدألقول العباس بن علی علیه السلام فقال له لم نفعل ذالک؟البقی بعدک؟ لا ارنا اﷲ ذالک ابدا» اس وقت عباسؑ بن علی ؑنے آغاز سخن فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا،ہم یہ کام کیوں انجام دیں؟کیا اس لیئے کہ آپ کے بعد باقی رهیں (یعنی زندہ رہںا)؟ نہیں، خدا کبھی بھی یہ چیز(آپ کی جدایی ) ہمیں نہ دکھلائے۔
٣۔نہر فرات پر وفاداری کی انتہا:
جب اکبر شہید ہوئے کئی بار حضرت عباس ؑنے امام حسین علیہ السلام سے جنگ کی اجازت چاہی ہر بار امام علیہ السلام نے یہ کہہ کر کہ بھیا تو میرے فوج کا علمدار ہے اگر تو جائے گا تو میری فوج کا کیا بنے گا؟ میرا خیال ہے شاید امام علیہ السلام عباس کو کچھ دیر اور اپنےدرمیان روکنا چاہتے تھے چونکہ امام علیہ السلام جانتے تھے خیام حسینی میں موجود مخدرات عصمت و طہارتؑ اور چھو ٹے معصوم بچوں کی ڈھارس عباسؑ تھے جب تک عباسؑ زندہ تھے ؛ ان کی امیدیں بھی زندہ تھیں۔ جب حضرت عباسؑ کا اصرار بڑھا تو امام علیہ السلام نے یہ کہکر کہ خیموں میں چھوٹے بچے تشنہ لب ہیں ان کے لئے کچھ پانی کا بندوبست کرو۔ حضرت عباس ؑنے اپنے بھائی حسین ؑکے ماتھے کو چوما اور نہر فرات کی طرف بڑھے فوج اشقیا کی صفوں کو چیرتےہوئے نہر فرات تک پہنچے ، مشکیزہ کو پانی سے بھرا خود بھی تو پیاسے تھے ایک چلو پانی کالیا اور پینےکاارادہ کیا «فذکر عطش الحسین علیه السلام و من معه فرقی الماء» ایک دفعہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھ موجود افراد(چھوٹے چھوٹے بچوں) کی پیاس یاد آئی ۔ پانی کو نہر فرات میں پھینک دیااور اپنے نفس سے یوں مخاطب ہوئے: «یا نفس من بعد الحسین هونی و بعدہ لا کنت ان تکونی وهذا الحسین وارد المنون وتشربین باردالمعین ، تاﷲ ما هذا فعال دینی» ای نفس حسینؑ کے بعد ذلت و خواری تر ی نصیب ہو’ حسینؑ کے بعد زندہ رہنے کیلئے تو باقی نہ رہے۔حسین علیہ السلام (تشنگی کی وجہ سے) موت کے دھانے پرجا پہنچے ہیں اور تو ٹھنڈا پانی پی رہاہے ، خدا کی قسم یہ کام عباس کے دین اور آئین(وفا) میں شامل نہیں، پھر ایک نعرہ لگاتے ہوئے فرمایا:« واﷲ لا اذوق الماء وسیدی الحسین عطشانا» اﷲ کی قسم میں پانی نہیں پیتا در حالیکہ میرے آقا حسین علیہ السلام پیاسے ہیں ایک فارسی شاعر نے زبان عباس ؑکو یوں رقم کیا ہے۔
عباس بی وفا تو نبودی کنون چہ شد
نوشی تو آب ماندہ حسینیت در انتظار
عباس تو بے وفا نہیں تھے ابھی تجھ کو کیا ہوا
تو پانی پیے جبکہ تیرا حسینؑ پیاسا تیرے انتظار میں ہے
وفاداری عباسؑ پر دشمن کا اعتراف:
حضرت عباسؑ کی وفاداری اتنی عظیم تھی کہ دشمن بھی اس پر اعتراف کرنے لگا’ اور ان کا پلید ترین دشمن بھی اس سے انکار نہیں کرسکا۔ چنانچہ جب وسائل غارت شدہ کو شام میں یزید کے پاس لے جایا گیا ان وسائل میں ایک بڑا علم بھی تھا جسکا کوئی بھی حصہ تیروں اور تلواروں کے زخموں سے خالی نہیں تھا لیکن اس علم کا دستگیرہ (قبضہ) بالکل سالم تھا، یزید نےپوچھا اس علم کو کون اٹھاتا تھا؟ کہا گیا یہ علم ’عباس بن علی کا ہے۔ یزید تعجب سے تین بار اس علم کی تعظیم میں کھڑے ہوکر بیٹھا اور کہا «انظروا الی هذا العلم فانه لم یسلم من الطعن و الضرب الا مقبض الید التی تحمله» یعنی اس علم کو دیکھیے نیزوں اور تلوار کی چوٹوں سے اس کا کوئی حصہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا، سوائے دستگیرہ کے کہ جس کو علمدار اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر اٹھاتے تھے۔ (یعنی صرف قبضہ علم ضربات سے محفوظ رها ہے) قبضہ علم کا سالم رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ علمدار نے تیروں ، نیزوں اور تلواروں کی تمام ضربات کو جو ہاتھوں پر آتے تھے تحمل کیا ہے اور علم کو گرنے نہ دیاہے۔ تب یزید نے کہا « بیت اللعن یا عباس هکذایکون وفاء الاخ لاخیه » اے عباس لعن اور ملامت (ننگ و عار)کو اپنے سے کوسوں دور کردیا (یعنی لعن اور ملامت تجھے پر نہیں ججتی ہے)بے شک بھائی کی بھائی سے وفاداری ایسی ہی ہونی چاہیے ۔
ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔
پنج امامی کہ تو را دیدہ اند
دست علم گیر تو بوسیدہ اند
چشم خداوند چو دست تو دید
بوسہ زد و اشک زچشمش چکید
اے عباس تجھ کو پانچ اماموں ؑنے دیکھا ہے اور علم اٹھانے والے تیرے بازووں کا بوسہ لیتے ہیں۔عین اﷲ (حضرت علیؑ) نے جب قنداقے کو اٹھایا اور تربے بازووں پر انکی نظر لگی تو انکھیں آنسووں سے نمناک ہوئیں۔
حضرت عباس کی وفاداری ائمہ علیہم السلام کی نگاہ میں:
ائمہ معصومین علیہم السلام نے حضرت عباس علیہ اسلام کے متعلق بہت کچھ بیان فرمایا ہے اور معصوم کی زبان سے نکلی ہوئی بات مبالغہ آرائی اور غیر حقیقت پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ قول معصوم حقیقت کو بیان کرتا ہے ۔ ذیل میں چند ایک نمونے بطور مختصر بیان کرتے ہیں؛
١۔امام زین العابدین علیہ السلام خود کربلا میں موجود تھے امام حسینؑ اور ان کے یارو انصار کی شہادت کے بعد مخدرات عصمت اور ننےدمنھے بچوں کو کوفے اور شام کے بازاروں اور درباروں میں سہارا دیا ۔ آپ ہی تو کربلا میں اپنے چچا عباس کی وفا داریوں کے چشم دیدہ گواہ تھے۔آپ علیہ السلام حضرت عباسؑ کی وفا کے بارے میں یوں ارشاد فرماتے ہیں: «رحم اﷲ عمی العباس فلقد آثر وابلی وفدی اخاہ بنفسه حتی قطعت یداهٰ» خدا رحمت کرے میرے چچا عباسؑ پر کہ جنہوں نے حقیقی طور پر ایثار ، جانبازی اور وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بھائی کی خاطر اپنی جان فدا کی اور اپنے دونوں بازووں کو ان کے راہ میں کٹوایا۔
٢۔امام صادق علیہ السلام حضرت عباسؑ کی وفاداری اور فداکاری کو بیان کرتے ہوئے یوں ارشاد فرماتے ہیں۔«اشهد لقد نصحت ﷲ و لرسوله ولا خیک فنعم الاخ المواسی» میں شھادت دیتا ہوں کہ تو نے خدا، اس کے رسول ﷺاور اپنے بھائی کے ساتھ بہترین نیکی اور خیر خواھی کی، پس آپ (اے عباسؑ)کس قدر اچھا فداکار اور وفادار بھائی تھے۔
٣۔حضرت عباس علیہ السلام کی فداکاری اور وفاداری کا تذکرہ امام زمانہ (عج اﷲتعالی فرجه الشریف)نے زیارت ناحیہ مقدسہ کے اندریوں بیان کیا ہے:
«السلام علی ابی الفضل العباس المواسی اخاه بنفسه» ؛ (میرا سلام ہو ابولفضل العباس ؑپر کہ جنہوں نے اپنے بھائی کے لیے اپنی جان کی قربانی پیش کرکے ایثار اور وفاداری کا اعلی مظاہرہ کیا۔)
ان تمام باتوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حضرت عباسؑ کی ذات ،وفاء اور وفاداری کی عظیم درسگاہ ہے۔ جس کو بھی درس وفاء لینا ہو اسے چا ہیے کہ درسگاہ حضرت عباسؑ کے در پر سر تسلیم خم کرے اور اپنی جھولی پھیلاے جس نے بھی ایسا کیا اس نے ضرور اپنی مرادلے لی۔
……………………….
منابع :
1. جس شی کومکمل طورپرحاصل نہ کیاجاسکتاہواسے مکمل طورپرچھوڑدینابھی صحیح نہیں۔
2 . قہرمان علقمه ص٤٢
3 . زینب کبری ص١٢
4 ۔ نہج البلاغہ، خط نمبر،٥٣
5 . مزارسرایر(ابن ادریس)، المقاتل (ابوالفرج اصفهانی) ، الانوار النعمانیه (سیدجزایری) ، تاریخ الخمیس ج2ص317(ابوالحسن دیاربکر).
6 . تنقیح المقال ج ٢ ص١٢٨
7 ۔ حماسہ حسینی ج ٢ ص ١١٨
8 ۔ مفاتیح الجنان،زیارت حضرت عباسؑ
9 ۔مفاتیح الجنان ،زیارت ناحیه
10 . العباس، عبدلرزاق الموسوی المقرم ص ٨١
11 . الکافی ج ١ ص ٢٢
12. الکافی ج ٢ ص ٤٢
13 . سورہ بقرہ٤٠
14 . مقتل مقرم ،ص ٢٦٩
15 . الذریعہ، ص١٢٤
16 .مفاتیح الجنان ، زیارت نامه حضرت عباس
17 .ایضاً
18 . معالی السمطین ج ١ ص ٢٧٠،نفس المھوم ص٧٧ا
19 . وقایع الایام ، ویژہ محرم ص ٢٦٤
20 . منتخب التواریخ ص٢٥٨، منتخب المیزان الحکمہ ص ٤٠٠
21 . کبیرت الاحمر ،ص ١٥٩، منتخب التواریخ ،ص ٢٥٨
22 ۔ناسخ التواریخ َ’ج٢ ’ص٤٥ ٣
23 . بحارالانوار ،ج ٤٥، ص٤١ ، ترجمہ مقتل ابی مخنف ،ص ٩٧
24 . سوگنامہ آل محمد ،ص ٣٠٠
25 . بحارالانور، ج٤٤ ص٢٩٨، تنقیح المقال، ج٢ ص١٢٨
26 . ایضا
27 . مفاتیح الجنان،زیارت ناحیه
erfan.ir
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید