تازہ ترین

اقدار کی پائمالی کا دکھ

 یہ کیسا اسلام آگیا ہے، جس میں بے گناہ بچوں کو بارود کے دھماکے سے اڑا دیا جاتا ہے اور اسے فتح سے تعبیر کیا جاتا ہے

شئیر
56 بازدید
مطالب کا کوڈ: 249

۔۔۔ یہ کیسا اسلام آگیا ہے، جس میں لوگوں کی جانوں کو سب سے زیادہ خطرہ جمعہ کے مقدس دن ہوتا ہے، جمعہ جسے غرباء کا حج کہا گیا ہے، اب موت کا دن بن چکا ہے۔۔۔ اور یہ کونسا اسلام ہے جس میں مسلمانوں کے جنازہ جلوس بھی محفوظ نہیں، نماز جنازہ کی ادائیگی بھی موت کا سبب بن گئی ہے ۔۔۔۔ اور اسے کونسا اسلام کہیں گے کہ مردگان کو قبروں سے نکال کر انہیں صدیاں گزر جانے کے بعد بھی توہین کا سامنا ہے۔۔۔ اور یہ کونسا اسلام ہے جس میں اقلیتوں کو بھی تحفظ نہیں۔
اسلام سلامتی کا دین ہے، یہ اللہ کا پسندیدہ دین ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس کے ذریعے اسلام کے آفاقی و زریں اصول، احکام، ضوابط اور اقدار امت تک پہنچائے گئے۔ اللہ کریم نے آپ (ص) کو آخری نبی بنا کر بھیجا اور انسانوں کی رہنمائی کیلئے ایک نسخہء کیمیا قرآن کی شکل میں نازل فرمایا، جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود باری تعالٰی نے لی۔ اس پاک و منزہ کتاب الٰہی میں ہر خشک و تر کا علم رکھ دیا گیا۔ معاشرہ کی اصلاح اور انسانوں کو راہ راست پر رکھنے اور انھیں رشد و کمال عطا کرنے کیلئے اسلام نے اخلاقی قدروں پر بہت زیادہ تاکید فرمائی۔ زمانہ نبوت میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی اسلام کی تمام اخلاقی صفات اور اعلٰی اقدار کا چلتا پھرتا نمونہ تھی۔
 
آپ (ص) نے گرچہ مشرکوں اور کافروں سے تاریخی جنگیں بھی کیں اور اسلام کو ان جنگوں کے ذریعے فتح و کامرانی بھی ملی مگر اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ نبی آخر الزمان (ص) کی ذاتی شخصیت میں پائی جانے والی اعلٰی صفات، بلند اخلاقی اقدار اور ارفع کردار تسلیم شدہ حقیقت تھیں، جنھیں اپنے تو کیا دشمن بھی تسلیم کرتا تھا۔ آپ (ص) اسلام کے ان اصولوں اور ضابطوں کو ہر لحظہ اہمیت دیتے اور ان پر سختی سے عمل درآمد بھی کرتے۔ اخلاقی اقدار اور اصولوں کی اس پابندی کے باعث ہی عرب کے جاہل اور تنگ و تاریک معاشرے میں بسنے والے بدوؤن کے دلوں کو منقلب کرکے اپنا ہم نوا و ہم قدم بنا لیا تھا۔ آپ جنگیں کرتے تھے مگر جنگی اصولون کو کبھی پامال نہ ہونے دیتے اور اگر کبھی کسی صحابی کی طرف سے جنگ کے دوران جنگی اصولوں کی خلاف ورزی کی جاتی تو اس پر سخت نالاں ہوتے۔ آپ (ص) اسلام کے جنگی اصولوں کے اس قدر پابند تھے کہ اگر کسی موقع پر ان پر عمل کرتے ہوئے نقصان کا اندیشہ بھی ہوتا تو انہیں پائمال نہ ہونے دیتے اور کسی کو اس کی خلاف ورزی کی اجازت نہ دیتے۔
 
صلح حدیبیہ کی شرائط لکھتے ہوئے آپ (ص) نے مخالفین کے اعتراضات اور اشکالات کو دور کرنے اور انکی شرائط کو قبول کرنے میں ذرہ بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیا، درحالی کہ آپ (ص) کے بہت ہی قریبی لوگ اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے تھے اور اس اقدام کو اپنے تئیں حکمت کے خلاف سمجھ رہے تھے۔ ہم یہاں پر اس بحث میں نہیں جاتے کہ اسلام تلوار سے پھیلا یا تبلیغ سے، بلکہ ہمارا مقصد یہ بتانا ہے کہ اسلام نے ہر مسئلہ کا حل بتایا ہے اور ہر حوالے سے احکام واضح کئے ہیں۔ ان اصولوں و ضابطوں کے آفاقی ہونے کے باعث ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات ہے۔

آج جب ہم اسلامی دنیا پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ایک بار تو چکرا سے جاتے ہیں،  اٹھاون اسلامی ممالک میں سے کتنے ایسے ہیں جو دیگر دنیا کیلئے آئیدیل کہلا سکیں۔ ہر طرف افراتفری، بحران، جنگ و جدل، دنگہ و فساد، لڑائیاں، جھگڑے، ہوس اقتدار کے مارے حکمران، بادشاہ اور سیاستدان، پسے ہوئے عوام، جن کا کوئی پرسان حال نہیں، جن کے حالات بدلنے والے نہیں، دنیا کے بہتریں وسائل سے مالا مال پھر بھی محتاج، دست نگر اور غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے۔۔ سسک سسک کر مر رہے ہیں، تڑپ تڑپ کر جانیں دے رہے ہیں، بھوک، ننگ، افلاس اور غربت ان کو زندہ درگور کر رہی ہے۔۔۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیوں ایسا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ازحد ضروری ۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے نبی اکرم (ص) کا لایا ہوا قانوں بھلا دیا ہے۔۔ ہم نے نبی اکرم (ص) کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط فراموش کر دیئے ہیں ۔۔ ہماری نگاہ میں اسلام جز وقتی دین بن گیا ہے کہ جب ضرورت محسوس کی اس کا لبادہ پہن لیا اور جب ضرورت محسوس کی اسے اتار کر پھینک دیا ۔۔۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم نے اسلام کے ہر سنہرے اصول کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کو اسلام قرار دیا ہوا ہے۔۔۔

آپ زیادہ دور نہ جائیں صرف دنیا کے مختلف ممالک میں جاری دہشت گردی اور تخریب کاری کو ہی دیکھ لیں، یہ سب ظلم مسلمانوں کے ساتھ مسلمان ہی کر رہے ہیں اور اسلام کا نام استعمال ہو رہا ہے۔۔۔ باری الٰہ یہ کیسا اسلام آگیا ہے، جس میں کلمہ گویوں کا سر قلم کرتے ہوئے اللہ اکبر کا مقدس شعار بلند کیا جاتا ہے۔۔۔۔ یہ کیسا اسلام آگیا ہے، جس میں بے گناہ بچوں کو بارود کے دھماکے سے اڑا دیا جاتا ہے اور اسے فتح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔۔۔ یہ کیسا اسلام آگیا ہے، جس میں لوگوں کی جانوں کو سب سے زیادہ خطرہ جمعہ کے مقدس دن ہوتا ہے، جمعہ جسے غرباء کا حج کہا گیا ہے، اب موت کا دن بن چکا ہے۔۔۔ اور یہ کونسا اسلام ہے جس میں مسلمانوں کے جنازہ جلوس بھی محفوظ نہیں، نماز جنازہ کی ادائیگی بھی موت کا سبب بن گئی ہے ۔۔۔۔ اور اسے کونسا اسلام کہیں گے کہ مردگان کو قبروں سے نکال کر انہیں صدیاں گزر جانے کے بعد بھی توہین کا سامنا ہے۔۔۔ اور یہ کونسا اسلام ہے جس میں اقلیتوں کو بھی تحفظ نہیں ۔۔۔! اور اسے کونسا اسلام کہیں گے کہ آپ دنیا بھر سے اکٹھے ہو کر اسلامی ممالک کی حدود کو پائمال کریں، دشمنان کی مدد لیں اور مسلمانوں کو الٹا کافر و زندیق بنا دیں۔۔۔۔اور یہ کونسا اسلام ہے جس میں لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے کے بجائے کافر بنایا جائے اور امت اسلامی سے خارج کر دیا جائے۔۔۔ اسلام کے نام پر ان بدنما دھبوں کو دیکھ کر کسی اندھے کنویں میں گر جانے کو جی چاہتا ہے، نہ جانے جس نبی کی امت کہلاتے اتراتے، تھکتے نہیں انہیں کیا منہ دکھائیں گے ۔۔ !؟
 
آج اگر امت اسلامی سخت دشواریوں اور مشکلات سے دوچار ہے، اس پر چاروں طرف سے یلغار، اس کی ترقی اور تعمیر کا سفر رک چکا ہے، اس کو ہر طرف سے گھیرا جاچکا ہے، اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے منصوبے ہیں، اسے ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے، اس کے حکمران بدکار، نااہل اور کرپٹ ہیں، اسے دشمنوں نے اپنا دست نگر اور محتاج بنا لیا ہے، اسے مایوسیوں کے تاریک اندھیرے میں دھکیل دیا گیا ہے، اسے ہر طرف ناامیدیاں دکھائی دیتی ہیں تو اس پر غور کرنا ہوگا۔۔۔ اس سے نکلنے کی تدبیر کرنا ہوگی اس تاریکی سے روشن راستے کی طرف سفر کرنا ہوگا۔ روشن راستہ جسے نبی مرسل (ص) نے اسے دکھایا اور بتایا تھا۔۔ امت کو ایکبار پھر اوج و سربلندی سے سرفراز ہونے کیلئے اپنے پیارے نبی آخرالزمان (ص) کا راستہ اپنانا ہوگا۔ ان کی بتائی ہوئی اقدار اور اعلٰی اخلاق کے نمونوں کو پیش کرنا ہوگا۔۔۔ جنگ کرنا ہے تو جنگ کے اسلامی اصول اختیارکرنا ہوں گے، اپنی کھوئی ہوئی اقدار کو اپنے جسم و جان پر نافذ کرنا ہوگا۔۔۔

اسلام اصولوں کا نام ہے، اسلام سلامتی کا نام ہے، اسلام امن و آشتی کا نام ہے، اسلام احترامِ آدمیت کا نام ہے، اسلام عمل کا نام ہے۔ اسلام صبر و تسلیم کا نام ہے، اسلام قرآن کی شکل میں نازل ہونے والی آخری کتاب کا نام ہے، اسلام پیغمبر آخر (ص) کی عملی سنت اور پیش کردہ اقدار کا نام ہے۔ اسلام کو اسلام کے شارع اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر آخر (ص) سے لینا ہوگا۔۔ اسلام مداریوں اور بیوپاریوں سے نہیں ملتا اور نہ اسے پٹواری الاٹ کرسکتے ہیں ۔۔ شاعر نے کیا خوب ترجمانی کی ہے۔
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *