متعہ کیا ہے اور شیعہ اسے کیوں حلال سمجھتے ہیں؟
جواب:نکاح، مرد اور عورت کے درمیان ایک ارتباط کا نام ہے . بعض اوقات یہ ارتباط دائمی ہوتا ہے اور عقد پڑھتے وقت اس میں زمانے کی کوئی قید ذکر نہیں کی جاتی لیکن بسا اوقات یہی ارتباط ایک معین مدت کے لئے انجام پاتا ہے یہ دونوں ہی عقد شرعی نکاح کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے درمیان صرف ”دائمی” اور ”موقت” کا فرق ہوتا ہے لیکن یہ دونوں باقی خصوصیات میں مشترک ہیں اب ہم یہاں نکاح ”متعہ” کی ان شرائط کا ذکر کریں گے جو نکاح ”دائم” کی طرح معتبر ہیں : ١۔مرد اور عورت کے درمیان آپس میں کوئی نسبی و سببی اور کوئی شرعی مانع نہ ہو ورنہ ان کا عقد باطل ہے . شئیر 31 بازدید
مطالب کا کوڈ: 250
٢۔ طرفین کی رضامندی سے معین کئے جانے والے مہرکا تذکرہ عقد میں ہونا چاہئے . ٣۔نکاح کی مدت معین ہونی چاہئے. ٤۔شرعی طریقے سے عقد پڑھا جانا چاہئے. ٥۔ان دونوں سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ شرعی طور پر ان دونوں کی شمار ہوگی اور جس طرح نکاح دائم سے پیدا ہونے والی اولاد کانام شناختی کارڈ وغیرہ میں درج ہوتا ہے اسی طرح عقد متعہ سے پیدا ہونے والی اولاد کا نام بھی شناختی کارڈ میں شامل کیا جاتا ہے. ٦۔اس اولاد کا نان ونفقہ والد کے ذمے ہے اور یہ اولاد ماں اور باپ دونوں سے میراث پائے گی. ٧۔جس وقت عقد متعہ کی مدت ختم ہوجائے تو اگر عورت یائسہ نہ ہو تو وہ شرعی طور پر عدہ گزارے گی اور اگراثنائے عدت میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ حاملہ ہے تو وضع حمل سے پہلے کسی بھی قسم کا عقد نہیں کرسکتی. اسی طرح نکاح دائم کے باقی احکام بھی متعہ میں جاری ہوں گے ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ چونکہ عقد متعہ چند ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے حلال کیا گیا ہے لہذا اس عورت کا نان ونفقہ مرد کے ذمے نہیں ہے اور اگر عقد متعہ پڑھتے وقت عورت کی طرف سے میراث لینے کی شرط نہ لگائی جائی تو یہ عورت شوہر کی میراث نہیں پائے گی واضح ہے کہ ان دو فرقوں سے نکاح کی حقیقت میں کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہم سب اس بات کے معتقد ہیں کہ اسلام ایک دائمی شریعت اور آخری شریعت ہے لہذا اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ انسانوں کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اب یہاں پر اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ایک ایسا جوان شخص جو کہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے کسی دوسرے شہر یا ملک میں زندگی بسر کررہا ہو اور محدود وسائل کی وجہ سے دائمی عقد نہ کرسکتا ہو اسکے سامنے صرف تین راستے ہیں اور ان میں سے وہ کسی ایک کا انتخاب کرے گا۔ الف:کنوارہ ہی رہے. ب:گناہ اور آلودگی کی دلدل میں دھنس جائے. ج:گذشتہ شرائط کے ساتھ ایک ایسی عورت کے ساتھ ایک محدود اور معین مدت کے لئے شادی کر لے جس سے شرعا عقد جائز ہو . پہلی صورت کے بارے میں یہ کہنا چاہئے اس میں اکثر افراد شکست کھاجاتے ہیں اگرچہ بعض ایسے انگشت شمار اشخاص ضرور مل جائیں گے جو اپنی خواہشات کو دبا کر صبر کا دامن تھام لیتے ہیں لیکن اس روش پر عمل پیرا ہونا سب کے بس کی بات نہیںہے . دوسرے راستے کو اختیار کرنے والوں کا انجام تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا اور اسلام کی نگاہ میں بھی یہ ایک حرام عمل ہے.اس فعل کو فطری تقاضے کا نام دے کر صحیح قرار دینا ایک غلط فکر ہے . اب صرف تیسرا راستہ بچتا ہے جسے اسلام نے پیش کیا ہے اور یہی مناسب اور صحیح بھی ہے پیغمبر خداۖ کے زمانے میں بھی اس پر عمل ہوتا رہا ہے اس مسئلے میں اختلاف آنحضرتۖ کے بعد پیدا ہوا ہے . یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ وہ لوگ جو عقد متعہ سے خوف وہراس رکھتے ہیںانہیں اس بات کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ تمام اسلامی مجتہدین اور محققین نے اس متعہ کو معنوی اعتبار سے نکاح دائم میں بھی اس طرح میں قبول کیا ہے کہ جب مرد اور عورت آپس میں عقد دائم تو کریں لیکن ان کی نیت یہ ہو کہ ایک سال کے بعد یا اس سے کمتر یا بیشتر مدت میں ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے تو وہ طلاق کے ذریعہ جدا ہو سکتے ہیں . واضح ہے کہ اس قسم کی شادی ظاہری اعتبار سے تو دائمی ہے لیکن حقیقت میں معین وقت کے لئے ہے اور اس قسم کے دائمی نکاح اور عقد متعہ کے درمیان صرف یہ فرق ہے کہ عقد متعہ ظاہری اور باطنی ہر دو اعتبار سے معین وقت کے لئے ہوتا ہے جبکہ اس قسم کا دائمی نکاح ظاہری طور پر تو ہمیشہ کے لئے ہے لیکن باطنی طور پر ایک محدود وقت کے لئے انجام پایا ہے. وہ لوگ جو اس قسم کے دائمی نکاح کو جائز سمجھتے ہیںجیسا کہ اس کو تمام مسلمان فقہاء جائز قرار دیتے ہیں تووہ عقد متعہ کو حلال سمجھنے میں کیوں خوف وہراس محسوس کرتے ہیں.یہاں تک ہم نے عقد متعہ کی حقیقت سے آشنائی حاصل کی اب ہم دلیلوں کی روشنی میں اس کے جواز کو ثابت کریں گے اس سلسلے میں ہم دو مرحلوں میں بحث کریں گے: ١۔صدر اسلام میں عقد متعہ کا شرعا جائز ہونا. ٢۔رسول خداۖ کے زمانے میں اس حکم شرعی کا منسوخ نہ ہونا. عقد متعہ کا جواز اس آیۂ شریفہ سے ثابت ہوتا ہے : ( فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ ُجُورَہُنَّ فَرِیضَة)(١) پس جب بھی تم ان عورتوں سے متعہ کرو تو انکی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دو. اس آیہ شریفہ کے الفاظ اچھی طرح اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ آیۂ کریمہ نکاح موقت کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ : اول :اس آیت میں استمتاع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے ظاہری معنی نکاح موقت ہیں.اور اگر اس سے مراد دائمی نکاح ہوتا تو اس کیلئے قرینہ لایا جاتا. دوم:اس آیت میں کلمہ ”اجورھن” (ان کی اجرت) ہے اور یہ اس بات کا گواہ ہے کہ اس آیت سے مراد عقد متعہ ہے کیونکہ نکاح دائم میں لفظ ”مہر” اور لفظ ”صداق” استعمال کئے جاتے ہیں . سوم: شیعہ اور سنی مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیۂ شریفہ عقد متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر درالمنثور میں ابن جریر اور سدی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت عقد متعہ کے بارے میں ہے (٢) اسی طرح ابوجعفر محمد بن جریرطبری اپنی تفسیر میں سدی اور مجاہد اور ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت نکاح موقت کے بارے میں ہے(٣) (١)سورہ نساء آیت:٢٤. (٢)تفسیر درالمنثور جلد٢ ص١٤٠ سورہ نساء کی ٢٤ویں آیت کے ذیل میں. (٣)جامع البیان فی تفسیر القرآن جزء ٥ ص٩. چہارم:صاحبان صحاح و مسانیداور احادیث کی کتابوں کے مولفین نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے بعنوان مثال مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں جابر بن عبداللہ اور سلمہ بن اکوع سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: خرج علینا مناد رسول اللّہ ۖفقال: ن رسول اللّہ قد أذن لکم أن تستمتعوا یعن متعة النسائ.(١) پیغمبر اکرمۖ کے منادی نے ہمارے پاس آکر کہا کہ رسول خدا ۖ نے تم لوگوں کو استمتاع کی اجازت دی ہے یعنی عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی ہے. عقد متعہ سے متعلق صحاح اور مسانید میںجو روایات آئی ہیں ان سب کو اس کتاب میںبیان نہیں کیا جاسکتا البتہ ان سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عالم اسلام کے تمام علماء اور مفسرین نے آغاز اسلام میں اور پیغمبر اکرم ۖ کے زمانے میں عقد متعہ کے جائز ہونے کوتسلیم کیا ہے:(٢)
(١)صحیح مسلم جز ٤ ص ١٣٠ طبع مصر (٢)نمونے کے طور پر ہم ان منابع میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں : صحیح بخاری باب تمتع٢ مسند احمد جلد٤ ص٤٣٦ اور جلد ٣ ص ٣٥٦ الموطا مالک جلد٢ ص ٣٠…… اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس آیت کا حکم منسوخ ہوا ہے یا نہیں؟شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو پیغمبر خداۖ کے زمانے میںمتعہ کے شرعا جائز ہونے کے بارے میں تردید کرے بحث اس بارے میں ہے کہ یہ حکم آنحضرتۖ کے زمانے میں باقی تھا یا منسوخ ہوگیا تھا؟تاریخ اسلام اور روایات کے مطابق خلیفہ دوم کے زمانے تک مسلمان اس حکم الہی پر عمل کرتے تھے اور سب سے پہلے خلیفہ دوم نے چند مصلحتوں کی بنا پر اس حکم پر عمل کرنے سے مسلمانوں کو روکا تھا . مسلم بن حجاج اپنی کتاب صحیح میں نقل کرتے ہیں کہ جب ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان متعة النساء اور متعہ حج کے سلسلے میںاختلاف ہوگیا تو جابر ابن عبداللہ نے کہا : ”فعلنا ھما مع رسول اللّہ ۖ ثم نھانا عنھما عمر فلم نعدلھما”(١)
……..سنن بہیقی جلد٧ ص ٣٠٦ تفسیر طبری جلد ٥ ص ٩ نہایہ ابن اثیر جلد٣ ص ٢٤٩ تفسیر رازی جلد٣ ص ٢٠١ تاریخ ابن خلکان جلد١ ص ٣٥٩ احکام القرآن جصاص جلد ٢ ص ١٧٨ محاضرات راغب جلد٢ ص ٩٤ الجامع الکبیر سیوطی جلد٨ ص ٢٩٣ فتح الباری ابن حجر جلد٩ ص ١٤١ (١)سنن بیہقی جلد٧ ص٢٠٦ اور صحیح مسلم جلد١ ص٣٩٥ ہم رسول خدا ۖ کے ہمراہ متعة النساء اور متعہ حج کو انجام دیتے تھے اور پھر عمر نے ہمیںان دونوں کاموں سے روک دیا اس کے بعد سے ہم نے ان دونوں کو انجام نہیں دیا ہے. جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر میں عبدالرزاق اور ابو داؤد اور ابن جریر سے اور ان سب نے ”حکم” سے روایت کی ہے کہ جب حکم سے آیۂ متعہ کے بارے میں سوال کیاگیا کہ کیا یہ آیت منسوخ ہوئی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا نہیں منسوخ نہیں ہوئی ہے اور حضرت علی ـ نے فرمایا ہے: ”لولا أن عمر نھیٰ عن المتعة مازنیٰ لاّ شق”(١) اگر عمر نے متعہ سے منع نہ کیا ہوتا تو سوائے بدبخت کے کوئی زنا نہ کرتا. نیز علی بن محمد قوشچی کہتے ہیں کہ عمربن خطاب نے منبر پر بیٹھ کر کہا : ”أیّھا الناس ثلاث کنّ علی عھد رسول اللّہ وأنا أنھیٰ عنھنّ و أحرمھن و أُعاقب علیھنّ وھمتعة النساء و متعة الحج و حَّ علیٰ خیر العمل”(٢) اے لوگو! تین چیزیں رسول خداۖ کے زمانہ میں تھیں لیکن میں ان سے منع کرتا ہوں اور انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور جو کوئی بھی
(١)تفسیر درالمنثور جلد٢ ص١٤٠ سورہ نساء کی چوبیسویں آیت کی تفسیر کے ذیل میں. (٢)شرح تجرید قوشچی بحث امامت ص٤٨٤. انہیں انجام دے گا، میں اسے سزا دوں گا وہ تین چیزیں یہ ہیں : متعة النساء اور متعة الحج اور حی علی خیر العمل. عقد متعة کے جائز ہونے کے بارے میں اس قدر روایات ہیں کہ ان کو ذکر کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے.زیادہ معلومات کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں(١) اب یہ مان لینا چاہیے کہ متعہ نکاح ہی کی ایک قسم ہے کیونکہ نکاح کی دو قسمیں ہیں:دائمی اور موقت اور وہ عورت جس کے ساتھ نکاح موقت کیا جائے وہ اس مرد کی
(١)مسند احمد جلد٣ ص٣٥٦ البیان والتبیین جاحظ جلد٢صفحہ ٢٢٣ احکام القرآن جصاص جلد١ ص ٣٤٢ تفسیر قرطبی جلد٢ ص ٣٧٠ المبسوط سرخسی حنفی کتاب الحج باب القرآن زادالمعاد ابن قیم جلد١ ص٤٤٤ کنزالعمال جلد٨ ص٢٩٣ مسند ابی داؤد طیالسی ص٢٤٧ تاریخ طبری جلد٥ ص٣٢ المستبین طبری تفسیر رازی جلد٣ص٢٠٠سے ٢٠٢ تک تفسیر ابوحیان جلد٣ ص ٢١٨ زوجہ شمار ہوتی ہے اور وہ مرد بھی اس عورت کا شوہر کہلاتا ہے اس اعتبار سے فطری طور پر اس قسم کی شادی بھی نکاح سے متعلق آیتوں کے ذیل میں آئے گی مثال کے طور پر قرآن مجید کی یہ آیت ملاحظہ ہو : ( وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ ِلاَّ عَلَی َزْوَاجِہِمْ وْ مَا مَلَکَتْ َیْمَانُہُم)(١) اور مومنین اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنیوالے ہیں علاوہ اپنی بیویوں اور اپنی ملکیت کی کنیزوں کے. اب تمام گزشتہ شرائط کے ساتھ جس عورت سے متعہ کیا جائے وہ ” ِلاَّ عَلَی َزْوَاجِہِم ْ”(سوائے اپنی بیویوں کے)کا ایک مصداق قرار پائے گی یعنی یہ عورت اس مرد کی زوجہ کہلائے گی اور لفظ ” َزْوَاجِہِم ”اس کو بھی اپنے اندر شامل کرے گا.سورہ مومنون کی یہ آیت جنسی عمل کو فقط دو قسم کی عورتوں یعنی بیویوں اور کنیزوں کے ساتھ جائز قرار دیتی ہے اور وہ عورت جس سے متعہ کیا گیا ہو وہ پہلی قسم کی عورتوں (یعنی اپنی بیویوں) میں شامل ہے. یہاں پر بعض لوگوں کا یہ کلام تعجب خیز ہے کہ سورہ مومنون کی یہ آیت سورہ نساء کی چوبیسویں آیت کیلئے ناسخ ہے جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ناسخ آیت کو منسوخ ہونے والی آیت کے بعد نازل ہونا چاہیے اور یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے سورہ مومنون جسکی
(١)سورہ مومنون آیت :٥اور ٦ آیت کو ناسخ تصورکیا جارہاہے وہ مکی ہے (یعنی یہ سورہ آنحضرتۖ کی ہجرت سے قبل مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے) اور سورہ نساء جس میں آیۂ متعہ ہے مدنی ہے (یعنی یہ سورہ مدینۂ منورہ میں آنحضرتۖ کی ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے) اب سوال یہ ہے کہ مکی سورہ میں آنے والی آیت مدنی سورہ میں آنے والی آیت کیلئے کیسے ناسخ بن سکتی ہے؟ اسی طرح رسول خداۖ کے زمانے میں آیہ متعہ کے منسوخ نہ ہونے کی ایک اور واضح دلیل وہ کثیر روایات ہیں جن کے مطابق یہ آیت آنحضرتۖ کے زمانے میں منسوخ نہیں ہوئی تھی ایسی روایتوں میں سے ایک روایت تو وہی ہے جسے جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر درالمنثور میں ذکر کیا ہے اور جس کی وضاحت گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے(١) آخر میں ہم اس نکتے کا ذکر کردیں کہ وہ ائمہ معصومین ٪ جو حدیث ثقلین کے مطابق امت کے ہادی اور قرآن کے ہم پلہ ہیں انہوں نے عقد متعہ کے شرعاجائز ہونے اور اس کے منسوخ نہ کئے جانے کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے. (٢) ساتھ ہی ساتھ اسلام چونکہ ہرزمانے میں انسانوں کی مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا اس نے بھی چند ذکر شدہ شرائط کی رعایت کے ساتھ اس قسم کے نکاح کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ آج کی اس گمراہ کن دنیا میں جوانوں کو تباہی کے دلدل سے نجات دینے کے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے متعہ۔ (١) تفسیر درالمنثور جلد٢ ص ١٤٠ اور ص ١٤١ سورہ نساء کی چوبیسویں آیت کی تفسیر کے ذیل میں. (٢)وسائل الشیعہ جلد١٤ کتاب النکاح ابواب متعہ باب اول ص ٤٣٦. |
دیدگاهتان را بنویسید