لاہور دھماکہ، خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد/تحریر: ارشاد حسین ناصر
لاہور ایک بار پھر لہولہان، ایک بار پھر ماؤں کے بین، بہنوں کی پکار، سہاگنوں کی آہیں و بکا، ایک بار پھر پولیس کے جوانوں کی قربانی، دو بھائی ایک ہی محکمہ، ایک ہی جگہ ڈیوٹی، ایک ہی جگہ لہو میں نہا گئے، ان جوانوں کی ماں پہ کیا گذری ہوگی، کچھ نہیں کہا جا […]

لاہور ایک بار پھر لہولہان، ایک بار پھر ماؤں کے بین، بہنوں کی پکار، سہاگنوں کی آہیں و بکا، ایک بار پھر پولیس کے جوانوں کی قربانی، دو بھائی ایک ہی محکمہ، ایک ہی جگہ ڈیوٹی، ایک ہی جگہ لہو میں نہا گئے، ان جوانوں کی ماں پہ کیا گذری ہوگی، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کراچی میں بھی پولیس پر حملے اور آئے روز ٹارگٹ کلنگ جاری ہے، بلوچستان بھی لہو میں نہایا ہے، پولیس والے بھی یہاں نشانے پہ اور ہزارہ اہل تشیع کو بھی چن چن کے مارا جا رہا ہے، عالم بیماری میں کوئٹہ سے کراچی علاج کیلئے جانے والی فیملی کی گاڑی پر حملہ کیا گیا، خاتون کو بھی گولیاں ماری گئیں، ابھی پاراچنار کا دکھ اور غم تازہ ہے، ابھی اس کی گتھیاں نہیں سلجھیں، ابھی اس کے قاتل سامنے نہیں لائے گئے، ابھی مال روڑ دھماکہ کی باز گشت اہل لاہور کے کانوں میں گونج رہی تھی کہ آج ایک بار پھر ایک زوردار دہلا دینے والے سانحہ نے خوف و ڈر کا بازار گرم کرنا چاہا، امن کا خواب چکنا چور کرنا چاہا، کہاں سے شروع کریں، نوحہ گری کا کون سا انداز اختیار کیا جائے کہ درد محسوس ہو، کون سے نالے بلند کئے جائیں کہ حکمرانوں اور ذمہ دار اداروں کے ارباب بست و کشاد شدت غم اور الم کی داستان سمجھ پائیں، کون سا طریقہ احتجاج اختیار کیا جائے کہ فیصلہ کرنے والی قوتیں اور عملدرآمد کرنے والے ادارے ایک صفحہ پر نظر آجائیں اور ملک کی گلیوں بازاروں، شاہراہوں پہ بہنے والا بے گناہوں کا خون اپنی قیمت پا سکے اور اس کے بہانے والے اپنے منطقی انجام سے دوچار ہوں، پچھلے دھماکے میں ہم نے ایک اصطلاح سہولت کار کی سنی تھی، نا جانے اب کیا کہا جاتا ہے۔
اگر آپ کو یاد نہیں تو ہم کروا دیتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت آپریشن ضرب عضب کے بعد ہماری افواج نے آپریشن ردالفساد شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، جو لاہور، سیہون، مہمند ایجنسی، پشاور، کوئٹہ میں ہونے والے پے در پے دہشت گردی کے واقعات کے بعد سامنے آیا تھا، اس آپریشن کا اعلان نئے آرمی چیف جناب قمر باجوہ صاحب نے کیا، جو اپنے پیش رو جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس عہدے پر فائز کئے گئے تھے۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے دور میں آپریشن ضرب عضب کا اعلان کیا تھا اور یہ فرماتے چلے گئے کہ انہوں نے اس آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ یاد رہے کہ پنجاب کے دارالخلافہ لاہور کے معروف مال روڑ پر دہشت گردوں نے 13 فروری کی شام کو ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران ایک خودکش دھماکہ کر دیا تھا، جس میں ایک ڈی آئی جی، ایک ایس ایس پی اور پولیس کے کچھ اہلکاروں سمیت بیسیوں لوگ جان گنوا بیٹھے تھے۔ اس کے بعد مہمند ایجنسی، پشاور، شب قدر اور پھر سیہون سندھ میں انتہائی محترم شخصیت لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر دوران دھمال دھماکہ کیا گیا تھا، جس میں نوے کے لگ بھگ لوگ شہید اور تین سو سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ ان دھماکوں اور دہشت گردی کی پے در پے وارداتوں کے بعد افواج پاکستان کی طرف سے آپریشن ردالفساد کے نام سے نیا آپریشن شروع کرنے کا اعلان ہوا تو ملک کے کئی ایک شہروں میں سی ٹی ڈی کی کاروائیوں میں دہشت گردوں کی گرفتاریاں اور پولیس مقابلے شروع ہوگئے، جن میں بیسیوں دہشت گرد ملک کے کئی ایک شہروں میں اپنے انجام کو پہنچائے گئے۔
مگر یہ بات قابل ذکر ہے کہ دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں سے ملنے والی پھانسیوں کا سلسلہ اس طرح نہیں چلایا جا سکا، جس طرح اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی، ہم نے یہ بھی دیکھا کہ دہشت گردوں کے ترجمان احسان اللہ احسان اور لاہور سے پکڑی جانے والی ایک یونیورسٹی کی طالبہ نورین لغاری سے ہمارے اداروں نے کمال مہربانیاں فرمائیں اور انہیں بہت ہی آئیڈیل بنا کر پیش کیا، جبکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بے گناہ اور معصوم دینی طلباء کو اغوا کرکے انہیں ناصرف ٹارچر کیا جاتا ہے بلکہ پورے پاکستان میں ایک قوم کے خلاف خوفزدگی کی فضا کو جنم دیا جاتا ہے، حالانکہ ملکی اداروں اور فورسز پر حملہ آور دہشت گرد بھی ہمیشہ سے انہیں نشانہ بنائے ہوئے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ دہشت گرد تو اپنا ایجنڈا اپنے حساب اور اوقات کے مطابق چلانے میں کامیاب ہیں اور آپ ہیں کہ انہیں روکنے میں بری طرح ناکام، جبکہ بے گناہوں کیساتھ تسلسل سے ظلم و زیادتی اور ناانصافی کی جا رہی ہے، کتنے ہی ایسے نوجوان ہیں، جن کا کوئی قصور نہیں اور انہیں کئی کئی سال ہو چلے ہیں، ان کی کوئی خبر نہیں۔ ان کے ورثاء در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، انہیں کوئی جواب نہیں ملتا، کیا ہمار ے تفتیشی ادارے اور سکیورٹی کے ذمہ داران کے پاس اس ملک کو برباد و تاراج کرنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف اقدامات اٹھانے کا مینڈیٹ نہیں، کیا وہ یہ جرات رکھتے ہیں کہ آئے روز بازاروں، درباروں، بارگاہوں، پولیس، فورسز کو نشانہ بنانے والے شناختہ دہشت گردوں اور ان کے کھلے مددگاروں کے خلاف میدان سجائیں اور انہیں ان کے انجام تک پہنچائیں۔
افسوس کہ موجودہ حکمران اتنی جرات بھی نہیں رکھتے کہ ان کا نام زبان پر لائیں، یہ تو ان کے ساتھ بیٹھ کے میٹنگز کرسکتے ہیں، فوٹو سیشن کرسکتے ہیں، چائے پی سکتے ہیں اور انہیں سرکاری پروٹوکول دے سکتے ہیں، ان کیلئے نہ تو زبان بندی ہے، نہ نظر بندی اور نہ ہی فورتھ شیڈول نامی تلوار، یہ سب بے گناہوں کیلئے ایجاد کئے گئے ہیں، سیاسی و سماجی مخالفین کیلئے بنائے گئے ہتھکنڈے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران تو ہمیشہ سیاسی مجبوریوں کا رونا روتے ہیں، سکیورٹی ادارے بالخصوص افواج پاکستان کو یہ اقدام اٹھانا ہوگا اور حکمرانوں کی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کی بجائے ٹھوس بنیادوں پر، پوری سنجیدگی اور منصوبہ بندی کیساتھ میدان میں آنا ہوگا، اب اس چیز کا لحاظ نہیں ہونا چاہیئے کہ یہ پنجاب ہے اور وہ سندھ ہے یا بلوچستان، پاکستان کے چاروں صوبوں اور قبائلی علاقہ جات سمیت جہاں بھی ملک دشمنوں کی کاروائیاں جاری ہیں، وہاں افواج پاکستان سے امید لگائی جاتی ہے، اس لئے کہ ابھی تک ہمارے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں جو تعصب اور تنگ نظری پھیل چکی ہے اور اس زہر کا اثر حکومتی اداروں اور شخصیات میں بدرجہ اتم دکھائی دیتا ہے، افواج پاکستان میں ایسا معاملہ نہیں ہے، افواج پاکستان کم از کم ملکی سلامتی کے مسائل پر کوئی کمپرومائز نہیں کرسکتیں اور دہشت گردی کا ناسور بلاشبہ ملکی سلامتی سے متعلق ہی ہے، ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ افواج پاکستان نے ہی سب سے زیادہ اور قیمتی جانیں قربان کی ہیں۔
ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ ہمارے سپاہیوں سے لیکر جرنیلوں تک اس ملک کی سلامتی کیلئے اپنے پاک لہو سے داستان وفا لکھ رہے ہیں، پھر کیونکر ایسا ہوسکتا ہے کہ ان مٹھی بھر کہے اور سمجھے جانے والے دہشت گردوں کو چاروں صوبوں اور قبائل میں بار بار موقعہ مل جاتا ہے، ان کی جڑوں کو کیوں ختم نہیں کیا جاتا، کیوں ان کی فنڈنگ کے ذرائع کو بند نہیں کیا جاتا، کیوں ان کے اصل سہولت کاروں کو بے نقاب کرکے عوامی احتساب نہیں کیا جاتا، کیوں ان کو اسلحہ و بارود سپلائی کرنے کے راستوں کو روکا نہیں جاتا، پانامہ کے ہنگامہ میں پھنسی حکومت کا مستقبل چند دنوں میں واضح ہو جائے گا، مگر یہ مسائل ایسے ہی رہینگے، ان کو حل کرنے کیلئے عوام کی نگاہیں بلا شبہ افواج پاکستان کی طرف اٹھیں گی اور اگر کوئی امید بندھی ہے تو انہیں سے ہی ہے، قائد اعظم کے اس پاکستان میں جتنا لہو اس کے قیام اور بنانے میں خرچ ہوا تھا، اب اس سے کہیں زیادہ اس کی بقا و سلامتی و استحکام کیلئے بھی بہہ چکا ہے، اب بے گناہوں کے جسموں کے ٹکڑوں میں بٹنے کی رسم توڑنا ہوگی، اب مسجدوں کی صفوں کو نمازیوں کے خون سے آلودہ ہونے اور ماؤں کے بڑھاپے کی امیدوں کو لہو میں نہلانے کی نوبت کا خاتمہ ہونا چاہیئے اور دہشت گردوں، ملکی سلامتی سے کھیلنے والوں، بے گناہوں کا خون بہانے والوں کو ان کے سرپرستوں سمیت ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کی بسم اللہ شروع کرنا ہوگی۔
کب چمن میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید