زینب بنت علی سلام اللہ علیہا فاتح کوفہ وشام/تحریر:محمدلطیف مطہری کچوروی
کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے درس ملتا ہے یہاں تک ہندو ،زرتشتی،مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں ،گاندی اپنے انقلاب کو حسینؑ کی مرہون منت سمجھتا ہے یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی ؑ نے کربلا میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا،یہی وجہ تھی کہ حر کی آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹایا گیا تو یہ کہتے ہوئے فوج یزید سے نکل گئے:
میں حر ہوں لشکر ایمان میں پہچان ہے میری
میرا ہونا غلام حضرت شبیرؑ ہونا ہے

کربلا کے ریگستان میں جب مردوں نے اپنےوظیفے پر عمل کیا تو وہاں آخری باری علی ابن ابی طالب ؑ کی شیر دل بیٹیوں کی آئیں اس لئے کہ واقعہ کربلا کو دنیا تک پہنچانا زینب و ام کلثوم کی ذمہ داری تھی علیؑ کی شیردل بیٹی زینب نے اپنے آنکھوں سےبھائی کے سر قلم ہوتے دیکھا لیکن ذرہ برابر بھی اپنے وظیفے میں کوتاہی نہیں کی ،اسی لئے کربلا ، کربلا کےمیدان تک محدود نہیں رہے بلکہ قصر ظالم میں پہلی مرتبہ زینب کبری علیہا السلام نے ظالم کوشکست دی اور لوگوں تک اپنے خطبوں کے ذریعے پیغام کربلا کو پہنچایا اور کربلا قیامت تک سرخرو ہو گئے ۔شاعرکہتا ہے:
حدیث عشق دوباب است کربلا و دمشق
یکی حسین ؑ رقم کرد و دیگری زینبؑ
اس مقالہ میں ہم حضرت زینب کبریس کو بعنوان فاتح کوفہ و شام معرفی کرنے کی کوشش کرینگے اورمختصرا چندپہلوئوں پر بحث کریں گے۔
۱۔ولادت باسعادت:
حضرت زینب سلام اللہ علیہا ۵ جمادی اول ہجرت کے پانچویں یا چھٹے سال یا شعبان کے مہینے میں ہجرت کے چھ سال بعد مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں اور ۱۵ رجب ۶۲ ہجری میں ۵۶ یا ۵۷ سال کی عمر میں رحلت کر گئیں۔
بعض لوگ ان کی سال وفات کو ۶۵ ہجری بتاتے ہیں اس اعتبار سےآپ۶۰ سال کی عمر میں وفات پا گئیں ۔آپکی آرمگاہ کے بارے میں محقیقین کے درمیان اختلافات ہیں لیکن معروف ترین قول دمشق ہے ۔ محمد بحر العلوم کہتا ہے :اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ سورج کہاں غروب ہو جائیے ، جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہےکہ اس سورج کی شعائیں جو روشنی بخش ہیں اور قیامت تک غروب نہیں ہو گی ، اس کی روشنی سے دنیا کے لوگ ان شعاعوں سے مستفیذ ہوتے آرہے ہیں ۔ ان کا مشہور ترین نام زینب ہے جو لغت میں “نیک منظر درخت” کے معنی میں آیا ہے[2] اور اس کے دوسرے معنی “زین أَب” یعنی “باپ کی زینت” کے ہیں۔متعدد روایات کے مطابق حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا نام پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا؛ البتہ آپؐ نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ زہراعلیہما السلام کی بیٹی کو وہی نام دیا جو جبرائیل خدا کی طرف سے لائے تھے۔[3] جب رسول اللہ(ص) نے ولادت کے بعد انہیں منگوایا تو ان کا بوسہ لیا اور فرمایا:میں اپنی امت کے حاضرین و غائبین کو وصیت کرتا ہوں کہ اس بچی کی حرمت کا پاس رکھیں؛ بےشک وہ خدیجۃ الکبری(س) سے مشابہت رکھتی ہے۔[4]
2۔شریک حیات اور اولاد
شرم و حیا عبداللہ بن جعفر کی راہ میں رکاوٹ تھی اور وہ حضرت علی علیہ السلام کی بیٹی سے شادی کرنے کے ارادہ ظاہر نہیں کرسکتے تھے؛ بالآخر ایک شخص نے عبداللہ کا پیغام حضرت علی علیہ ا لسلا م کو پہنچایا اور کہا: رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جعفر بن ابی طالب سے کس قدر محبت کرتے تھے اور ایک روز آپؐ جعفر طیار کے بچوں کی طرف دیکھا اور فرمایا: “ہمارے لڑکے ہماری لڑکیوں کے لئے ہیں اور ہمارے لڑکے ہماری لڑکیوں کے ہیں؛ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی بیٹی زینب(سلام اللہ علیہا ) کا نکاح عبداللہ بن جعفر سے کرائیں اور بیٹی کا مہر ان کی والدہ حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا ) کے مہر کے برابر 470 درہم قرار دیں۔ علیؑ نے رشتہ قبول کیا اور یہ رشتہ اور نکاح سنہ 17ہجری کو انجام پایا اور بہت جلد عبداللہ بن جعفر علی(ع) کی دعا سے فراواں مال و دولت کے مالک ہوئے اور جود و سخا کی بنا پر جواد کریم کے لقب سے مشہور ہوئے”۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے شرط لگائی کہ آپ حسین(علیہ السلام) سے شدید محبت کی بنا پر ہر روز آپ کا دیدار کرنے جائیں گی اور سفر کی صورت میں بھائی کے کے ہمراہ جائیں گی اور عبداللہ نے دونوں شرطیں مان لیں۔[5] خدا نے حضرت زینب(سلام اللہ علیہا ) اور عبداللہ کو پانچ اولادیں عطا فرمائیں: چار بیٹے (علی، عون، عباس اور محمد) اور ایک بیٹی (ام کلثوم)۔[ 6]
3۔فضائل :
خاندان پیامبر ص و علی ؑ میں پلنے والے تمام مرد و عورت صاحب فضیلت ہیں اور ہر ایک دوسروں کے لئے نمونہ ہیں ان افراد میں سے ایک زینب کبری ہے جنہوں نے پیغمبر اکرم ص و علیؑ و زہراء سلام اللہ علیہا کی آغوش میں پرورش پائی ان کی فضیلت اس مختصر مقالے میں ذکر کرنا ممکن نہیں لیکن کچھ فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
1۔:علم
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرف سے کوفہ، ابن زياد کے دربار نیز دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار عالمانہ کلام و خطبات، سب آپ کی علمی قوت کے ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد حضرت علیؑ اور والدہ حضرت زہرا س سے احادیث بھی نقل کی ہیں۔ [7]علاوہ ازیں والد ماجد امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خلافت کے دور میں کوفی خواتین کے لئے آپ کا درس تفسیر قرآن بھی حضرت زينبسلام اللہ علیہا کی دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ [8]حضرت زينب سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی و زہراءعلیہما السلام کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسول(ص) تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت و بیان حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔[9]
2۔ فصاحت و بلاغت:
حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کی فصاحت و بلاغت کا شاہکار ان کے خطبوں سے نظر آتا ہے مخصوصا ًجو خطبہ ابن زیاد کی مجلس میں آپ نے دیا اس سے اسی وقت کے لوگ بھی انگشت بہ دنداں ہوئے تھے اور یہ کہتے ہوئے نظر آرہے تھے کی آج علی ابن ابی طالب علیہ السلام زندہ ہو کر خطبہ دے رہا ہے ۔ سی اثناء میں ایک ماہ و سال دیدہ مرد نے روتے ہوئے کہا: میرے ماں باپ فدا ہوں ان پر جن کے بوڑھے بہترین بوڑھے، ان کے اطفال بہترین اطفال اور ان کی خواتین بہترین خواتین اور ان کی نسل تمام نسلوں سے والاتر و برتر ہیں۔[10}
3۔زہد و عبادت:
حضرت زینب كبری س راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں کبھی بھی تہجد کو ترک نہيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں۔[11] آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی۔ فاطمہ بنت الحسین س کہتی ہیں:شب عاشور پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں اور نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے۔ [12] خدا کے ساتھ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا: یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل”۔ (ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا ۔ [13 }
4۔تدبیر اور مدیریت:
کاروان حسینی کی مدیریت و سرپرستی واقعہ عاشورا کے بعد آپ کے ذمہ پر ہی تھی اور امام حسین علیہ السلام نے آخری وداع میں اسی صلاحیت اور مدیریت کے پیش نظر اہل حرم کو آپ کے سپرد کیا تھا۔
5۔شجاعت و حماسہ:
اس بات کی شاہد حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی وہ مقاومت ہے جو حیوان صفت دشمنوں کے مقابلے میں آپ نے کی تھیں ۔
6۔صبر و استقامت:
آپ کی صبر واستقامت کو ملا حظہ کر نے کے لئے وہی حوادث و مشکلات کافی ہیں جو عاشورا کے دن پیش آئے حضرت زینب(سلام اللہ علیہا ) صبر و استقامت کی وادی میں بےمثل شہسوار تھیں۔ جب بھائی حسین(علیہ السلام) کے خون میں ڈوبے ہوئے جسم کے سامنے پہنچیں تو رخ آسمان کی طرف کرکے عرض کیا:بار خدایا! اس چھوٹی قربانی اور اپنی راہ کے مقتول کو ہم آل رسول(ص) سے قبول فرما۔[14}
ایک محقق کا کہنا ہے کہ: زینب(س) کے القاب میں سے ایک “الراضية بالقدر والقضاء” ہے اور اس مخدَّرہ نے شدائد اور دشواریوں کے سامنے اس طرح سے استقامت کرکے دکھائی کہ اگر ان کا تھوڑا سا حصہ مستحکم پہاڑوں پر وارد ہوتا تو وہ تہس نہس ہوجاتے، لیکن یہ مظلومہ بےکسی، تنہائی اور غریب الوطنی میں “كالجبل الراسخ…” (مضبوط پہاڑ کی مانند) تمام مصائب کے سامنے استقامت کی۔[15}
آپ نے بارہا امام سجّادعلیہ السلام کو موت کے منہ سے نکالا؛ منجملہ ابن زیاد کی مجلس میں، جب امام سجّادعلیہ السلام نے عبید اللہ بن زياد سے بحث کی تو اس نے آپؑ کے قتل کا حکم دیا۔ اس اثناء میں حضرت زینب(س) نے اپنے ہاتھ بھتیجے کی گردن میں ڈال دیئے اور فرمایا: “جب تک میں زندہ ہوں تم کو، انہیں قتل نہيں کرنے دونگی۔[16]
7۔مالکہ کرامت:
عاشور کے دن کرامت و شخصیت انسان کی پاسداری اور شجرہ طیبہ کا دفاع انجام پائے ،واقعہ کربلا کے بعد دشمن نے کوشش کی کہ کاروان حسینی کو تحقیر کرے اور ان کا مذاق اڑائے تا کہ ان سے انتقام لے لیں لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا پیامبر انقلاب و عاشورا نے ان کے اس قصد کو ناکام بنا دیا اور حقیقی معنوں میں شخصیت و کرامت انسانی کی پاسداری کی اور سپاہ یزید میں بارہا آپ نے یہ اعلان کیا اس واقعہ میں ہم نے عزت و کرامت کے سوا کچھ نہیں دیکھا ۔
8۔: حجاب و پاکدامنی
آپ ؑکے حجاب و پاکدامنی کے بارے میں تاریخ میں منقول ہے:جب بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا مسجد النبی(ص) میں اپنے جد امجد رسول اللہ ص کے مرقد انور پر حاضری دینا چاہتیں تو امیرالمؤمنین ؑ حکم دیتے تھے کہ رات کی تاریکی میں جائیں اور حسن ؑ و حسین ؑ و ہدایت کرتے تھے کہ بہن کی معیت میں جائیں چنانچہ ایک بھائی آگے ایک بھائی پیچھے اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا درمیان میں ہوتی تھیں۔ 17}
یحیی مازنی کہتے ہیں: میں مدینہ میں طویل عرصے تک امیرالمؤمنین علیہ السلام کا ہمسایہ تھا؛ خدا کی قسم اس عرصے میں، مجھے کبھی بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا نظر نہ آئیں اور نہی ہی ان کی صدا سنائی دی۔[18}
9۔ روای حدیث:
اندیشہ اسلامی کی حفظ و انتقال کے اہم کاموں میں سے ایک نقل روایت ہے اور روای حدیث کی خاص شرایط ہوتی ہیں حضرت زینب سلام اللہ علیہا تمام فضائل کے ساتھ اس فضیلت کے بھی حامل تھیں آپ ؑنے اپنی والدہ گرامی سے اور اپنے بابا اور بھا ئیوں سے روایات نقل کی ہیں ۔
بعد از عصر عاشور اورحضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا
عصر عاشور جب سیدہ زینبس نے دیکھا کہ امام حسینؑ خاک کربلا پر گرے ہوئے ہیں اور دشمنان دین نے آپ کے جسم مجروح کو گھیرے میں لیا ہوا اور آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ خیمے سے باہر آئیں اور ابن سعد سے مخاطب ہوکر فرمایا:
يابن سَعد! أَیُقتَلُ اَبُو عبد اللهِ وَأَنتَ تَنظُرُ اِلَيهِ؟۔ ترجمہ: اے سعد کا بیٹا! کیا ابو عبد اللہ کو قتل کیا جارہا ہے اور تو تماشا دیکھ رہا ہے!)۔[19} ابن سعد خاموش رہا اور زینب کبری سلام اللہ علیہا نے بآواز بلند پکار کر کہا: آہ میرے بھائی! آہ میرے سید و سرور! آہ اے خاندان پیغمبر(ص)! کاش آسمان زمین پر گرتا اور کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر صحراؤں پر گرجاتے)۔[20]حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یہ جملے ادا کرکے تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا۔ آپ اپنے بھائی کی بالین پر پہنچیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہ رب متعال میں عرض گزار ہوئیں: “بار خدایا! یہ قربانی ہم سے قبول فرما![21] آپ نے اس کے بعد صحرا میں شہداء کی شام غریبان کو دل دوز الفاظ اور جملات اور عزیزوں کی عزاداری اور یتیموں کی تیمارداری نیز نماز شب اور بارگاہ پروردگار میں راز و نیاز و مناجات کے ساتھ، بپا کردی اور اس غم بھری رات کو صبح تک پہنچایا۔
امام وقت کی حفاظت:
آپؑ نے کئی مواقع پر امام سجاد ؑ کی جان بچائی اور دشمنوں کے شر سے اس آفتاب امامت کو غروب ہونے سے بچایا ۔جب امام حسین ؑ نے شہادت سے قبل صدائے استغاثہ بلند کیا تو سید سجاد ؑ بستر بیمار سے اٹھے اور ہاتھ میں تلوار لے کر عصا کے سہارے بابا کی مدد کے لئے خیمے سے نکلے تو امام حسینؑ نے بہن سے خطاب ہو کر فرمایا :بہن میرے عزیز کو سنبھالو کہیں دنیا نسل محمدی سے خالی نہ ہو جائے ۔ جب اسیروں کا قافلہ ابن زیاد کے دربار میں داخل ہو ا تو امام سجاد علیہ السلام اور ابن زیاد کے درمیان گفتگو ہوئی تو اس بدبخت نے امام سجاد علیہ السلام کو قتل کرنا چاہا تو علی کی شیر دل بیٹی نے سید سجاد علیہ السلام کو اپنے حلقے میں لیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا :اے ابن زیاد بس کر جتنے خون تم نے بہایا ہے کیا وہ کافی نہیں ہے ؟خدا کی قسم میں ان کو قتل ہونے نہیں دوں گی یہاں تک تومجھے قتل نہ کرے ۔
پیغام عاشورا کی تبلیغ اور دفاع:
آپ ؑمناسب مواقع پر عاشورا کے پیغام کو پہنچاتیں رہیں اور مردہ ضمیروں کو جنجوڑتی رہی اور سب کو حقیقت سے آگاہ کرتیں رہیں ۔اس حوالے سے آپ نے تین کام انجام دئیے:
۱۔اہل بیت علیہم السلام کا تعارف ۲۔دشمنان اہل البیت علیہم السلام کی تذلیل ۳۔کوفہ والوں کی بےوفائی اور خیانتوں کی مذمت۔
بُشربن خُزیم اسدی حضرت زینبس کے خطبے کے بارے میں کہتا ہے:اس دن میں زینب بنت علی کو دیکھ رہا تھا؛ خدا کی قسم میں نے کسی کو خطابت میں ان کی طرح باصلاحیت نہیں دیکھا؛ گویا امیرالمؤمنین علی ؑ کی زبان سے بول رہی تھیں۔ آپ ؑ نے لوگوں کو جھاڑا اور فرمایا: “خاموش ہوجاؤ”، تو نہ صرف لوگوں کا وہ ہجوم خاموش ہوا بلکہ اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز آنا بھی بند ہوگئی۔[22] خطبے کے بعد حکومت کے خلاف عوام بغاوت محسوس ہونے لگی چنانچہ لشکر کے سپہ سالار نے ظالمین کے خلاف انقلاب کا سد باب کرنے کے لئے روانہ کیا۔[23]حضرت زینبس دیگر اسیروں کے ہمراہ دارالامارہ میں داخل ہوئیں اور وہاں کوفہ کے [یزیدی حکمران] عبید اللہ بن زياد کے ساتھ مناظرہ کیا۔[24]حضرت زینب(س) کی تقریر نے عوام پر گہرے اثرات مرتب کئے اور خاندان اموی کو رسوا کردیا۔
حضرت زینبسنے یزید سے مخاطب ہوکر فرمایا: تو جو بھی مکر و حیلہ کرسکتا ہے کرلے، اور [خاندان رسول(ص)] کے خلاف جو بھی سازشین کرسکتا ہے کرلے لیکن یاد رکھنا تو ہمارے ساتھ اپنا روا رکھے ہوئے برتاؤ کا بدنما داغ کبھی بھی تیرے نام سے مٹ نہ سکے گا، اور تعریفیں تمام تر اس اللہ کے لئے ہیں جس نے جوانان جنت کے سرداروں کو انجام بخیر کردیا ہے اور جنت کو ان پر واجب کیا ہے؛ خدا سے التجا کرتی ہوں کہ ان کی قدر و منزلت کے ستونوں کور رفیع تر کردے اور اپنا فضل کثیر انہيں عطا فرمائے؛ کیونکہ وہی صاحب قدرت مددگار ہے۔[25]۔
یزید نے ایک مجلس ترتیب دی جس میں اشراف اور عسکری و ملکی حکام شریک تھے۔[26] اس نے اسیروں کی موجودگی میں [وحی، قرآن، رسالت و نبوت کے انکار پر مبنی] کفریہ اشعار کہے اور اپنی فتح کے گن گائے اور قرآنی آیات کی اپنے حق میں تاویل کی۔[27] آپ کی نظر قصر یزید میں بھائی کے سر پر پڑی تو آپ نے بھائی حسین(علیہ السلام) کو پکارا ہی نہیں بلکہ حاضرین سے آپ کا تعارف بھی کرایا؛ فرمایا: اے حسین! اے رسول اللہ(ص) کے پیارے! اے مکہ و منی’ کے بیٹے! اے فاطمہ زہراء سیدة نساء کے بیٹے، اے مصطفی کی بیٹی کے نور چشم!، [راوی کہتا ہے] پس خدا کی قسم! آپ نے رلایا ہر اس شخص کو جو مجلس میں موجود تھا؛ اور یزید خاموش بیٹھا تھا۔ [28]
یزید نے اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی سے فرزند رسول(ص) کے سر مبارک کی بےحرمتی کی۔[29] اور پیغمبر خدا(ص) کی نسبت اپنی عداوت اور دشمنی کو آشکار کردیا۔ صحابی رسول(ص) ابو برزہ اسلمی نے یزید کو جھڑکتے ہوئے کہا: تو یہ چھڑی فاطمہ سلام اللہ علیہا ) کے فرزند کے دانتوں پر مار رہا ہے! ميں نے رسول اللہص کو حسین اور ان کے بھائی حسن کے ہونٹوں اور دانتوں کے بوسے لیتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ کہ ان دو بھائیوں سے مخاطب ہوکر فرماتے تھے: “أَنْتُما سَيِّدا شَبابِ أهْلِ الْجَنَّةِ، فَقَتَلَ اللهُ قاتِلَكُما وَلَعَنَهُ، وَأَعَدَّ لَهُ جَهَنَّمَ َوساءَتْ مَصيراً”۔: تم دونوں جوانان جنت کے سردار ہو ، جو تمہیں قتل کرے، خدا اس کو قتل کرے اور اس پر لعنت کرے اور اس کے لئے جہنم کا ٹھکانا آمادہ کرے اور کیا برا ٹھکانا ہے جہنم کو آمادہ کرے اور وہ بہت خراب جگہ ہے۔ [30] اس کے کہے ہوئے اشعار کا مضمون و مفہوم یہ تھا:
كاش میرے قبیلے کے سردار جو بدر میں مارے گئے، آج زندہ ہوتے اور دیکھ لیتے کہ خزرج کا قبیلہ کس طرح ہماری شمشیروں سے بےچین ہوکر آہ و نالہ پر اترے آیا؛ تا کہ وہ خوشی کے مارے چیخ اٹھتے اور کہتے اے یزید تیرے ہاتھ شلّ نہ ہوں! ہم نے بنو ہاشم کے بزرگوں کو قتل کیا اور اس کو جنگ بدر کے کھاتے میں ڈال دیا اور [ان کی] اِس فتح کو اُس شکست کا بدلہ قرار دیا۔ ہاشم حکومت سے کھیلا ورنہ نہ آسمان سے کوئی خبر آئی تھی اور نہ اس وحی نازل ہوئی تھی!۔[31] میں خُندُف[32] کی نسل نہ ہونگا اگر احمد کے فرزندوں سے انتقام نہ لوں۔
اچانک سیدہ زینب(سلام اللہ علیہا ) مجلس کے گوشے سے یزید کی گستاخیوں کا جواب دینے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور بلیغ انداز سے خطبہ دیا اور اس خطبے نے یزید کے قصر خضرا میں امام حسینؑ کی حقانیت اور یزیدی اعمال کے بطلان کو واضح و آشکار کردیا۔
خطبے کے بعض اقتباسات
سیدہ زينب(س) نے حمد و ثنائے الہی و رسول و آل رسول پر درود وسلام کے بعد فرمایا:اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنا دامن برائیوں سے داغدار کیا، اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا اور ان کا مذاق اڑایا۔
اے یزید کیا تو سمجھتا ہے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے لیپٹ سمیٹ کرکے ہمارے لئے تنگ کردیئے ہیں؛ اور آل رسول(ص) کو زنجیر و رسن میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو درگاہ رب میں سرفراز ہوا ہے اور ہم رسوا ہوچکے ہیں؟ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کرکے تو نے خدا کے ہاں شان ومنزلت پائی ہے؟ تو آج اپنی ظاہری فتح کے نشے میں بدمستیاں کررہا ہے، اپنے فتح کی خوشی میں جش منا رہا ہے اور خودنمایی کررہا ہے؛ اور امامت و رہبری کے مسئلے میں ہمارا حقّ مسلّم غصب کرکے خوشیاں منارہا ہے؛ تیری غلط سوچ کہیں تجھے مغرور نہ کرے، ہوش کے ناخن لے کیا تو اللہ کا یہ ارشاد بھول گیا ہے کہ: “بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ “وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْماً وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ”: اورخبردار یہ کفار یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں کوئی بھلائی ہے ۔ہم تو صرف اس لئے دےرہے ہیں کہ جتنا گناہ کر سکیں کر لیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔[33]۔[34]
اس کے بعد فرمایا : اے طلقاء (آزاد کردہ غلاموں) کے بیٹے کیا یہ انصاف ہے کہ تو اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کو پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے اور رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کی۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسول(ص) کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے لوگ سب ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں۔ آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے۔
اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہی کیا ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں حمزہ بن عبدالمطلب(ع) کا جگر چبایا ہو۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے۔
اے یزید! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ “آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں! اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی(علیہ السلام)) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی شان میں بے ادبی کر رہا ہے! اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہوگا اور تو فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھےگا جبکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندان کے ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں پر لگے زخموں کو گہرا کردیا ہے اور کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے! تو نے اولاد رسول کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لئے ہیں۔تو نے خاندان عبد المطلب کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں۔آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔ تو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نه کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں سے جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا۔
اس کے بعد آسمان کی طرف رخ کرکے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا!
أَللّهُمَّ خُذْ بِحَقِّنا، وَ انْتَقِمْ مِنْ ظالِمِنا، وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِماءَنا، وَ قَتَلَ حُماتَنا، فَوَاللهِ ما فَرَيْتَ إِلاّ جِلْدَكَ، وَلا حَزَزْتَ إِلاّ لَحْمَكَ، وَ لَتَرِدَنَّ عَلى رَسُولِ اللهِ بِما تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِماءِ ذُرِّيَّتِهِ، وَ انْتَهَكْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِي عَتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ، حَيْثُ يَجْمَعُ اللهُ شَمْلَهُمْ، وَ يَلُمُّ شَعْثَهُمْ، وَ يَأْخُذُ بِحَقِّهِمْ (وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ). [35] وَحَسْبُكَ بِاللهِ حاكِماً، وَ بِمُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَ سَلَّمَ خَصِيماً، وَ بِجَبْرَئِيلَ ظَهِيراً، وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوّى لَكَ وَ مَكَّنَكَ مِنْ رِقابِ المُسْلِمِينَ، “بِئْسَ لِلظّالِمِينَ بَدَلاً”[33]، وَأَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً، وَأَضْعَفُ جُنْداً۔ [36] اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق اور ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے؛ اے پرودگار! تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ۔ اور اے خدا! تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کیا۔ اے یزید ! (خدا کی قسم) تو نے جو ظلم کیا ہے یه تو نے اپنے اوپر کیا ہے؛ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کر دی ہے؛ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹ رکھا ہے۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا!؟
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا ۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا ۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں ۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں ۔ “اور انہیں جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں، ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں ، اپنے پروردگار کے یہاں رزق پاتے ہیں”۔اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے ۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے ۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعه تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے ۔
عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا ۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ “کیا برا بدل (انجام) ہے یہ ظالموں کے لیے” ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں۔
خطبے کے فوری اثرات
مجلس یزید میں حاضرین بہت زيادہ متاثر ہوئے یہاں تک کہ یزید اسیروں کو کچھ مراعات دینے پر مجبور ہوا اور رد عمل کے خوف سے کسی قسم کا سخت جواب دینے سے پرہیز کیا۔[37]یہاں تک کہ اس وقت تک استبدادیت کے ساتھ آل رسول(ص) کے ساتھ بدترین سلوک کرنے والے] یزید نے اپنے حاشیہ برداروں سے اسیروں کے بارے میں صلاح مشورے شروع کئے۔ گوکہ بعض امویوں نے کہا کہ “ان سب کو یہیں قتل کردو” لیکن نعمان بن بشیر نے مشورہ دیا کہ “ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرو”۔[38]
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نیز امام سجادع کے حقائق سے بھرپور خطبے کے بعد یزید نے مجبور ہوکر اپنے تمام جرائم کی ذمہ داری اپنے گورنر ابن زیاد پر ڈال دی اور اس پر لعنت و نفرین کردی؛[39] لیکن مشہور سنی مؤرخ کی روایت کے مطابق ان واقعات کے بعد يعني ابن زیاد کو اپنے پاس بلایا اور اس کا رتبہ بڑھایا اور اس کو اموال کثیر عطا کئے اور بیش بہاء تحائف سے نوازآ اور اس کو قرب منزلت دیا اور اپنی عورتوں کے پاس بٹھایا اور اس کے ساتھ بیٹھ شراب نوشی میں مصروف رہا۔۔۔{40]
بہرحال یزید نے مجبوری میں اہل بیت(علیہم السلام) کو شام میں اپنے شہیدوں کے لئے عزاداری کی اجازت دی۔ آل ابی سفیان کی عورتیں منجملہ یزید کی زوجہ ہند بنت عبد اللہ (بن عامر) خرابہ میں اہل بیت(علیہم السلام) کے ہاں حاضر ہوئیں۔ وہ اہل بیت(ع) کی خواتین کے پاؤں کے بوسے لے رہی تھیں اور گریہ و زاری کررہی تھیں اور تین دن تک عزاداری میں مصروف رہیں۔[41]
مختصرایہ وہ خطبات تھے جن کے ذریعے زینب سنے دشمن کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قصر دشمن میں ہی دشمن کو شکست دی۔ثانی زہراءس کے خطبات کا اثر اتنا جلدی ہوا کہ یزید نے شام میں مجلس برپا کرنے کی اجازت دے دی۔ بنابرین خواتین کی اسیری اور ثانی زہرا ءس کے خطبات نے حادثہ کربلا میں روح پھونک دی اور بنی امیہ کے مظالم اور امام حسین ؑکی فدا کاری کو واضح کر دیا اور اگر یہ اسیری نہ ہوتی تو آل محمد کے دشمن کربلا کے مظالم کولوگوں سے بے خبر رکھتا ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ زینب کبری کی اسیری اسلام کی نئی حیات کی ضامن بنی۔
غرض بنت علی نے ایسا کردار اداکیا کہ عام انسانوں کے لئے کبھی بھی ایسا کردار ادا کرنا ممکن نہیں اسی لئے شاعر کہتاہے :
کربلا در کربلا می مانند اگر زینب نبود نینوا در نینوا می مانند اگر زینب نبود
اگر زینب بنت علیس نہ ہوتیں توکربلا،کربلا کے ریگستان میں ہی دفن ہو جاتا ،یہ زینب بنت علی س کا کردار تھا کہ کربلا کو رہتی دنیا تک زندہ کر دیا اور ظلم اور ظالم کومختصر عرصے میں ہی شکست دی اور دنیا کو ان فاسق و فاجر افراد کا اصلی چہرہ دکھا دیا ۔زنیب بنت علی نے کوفہ و شام فتح کر نے کے بعد ہی مدینہ کا رخ فرمایا۔
[حوالہ جات و منابع جامعہ روحانیت کے دفتر میں محفوظ ہے ]
دیدگاهتان را بنویسید