مفادات کی جهنگ اور پاکستان/تحریر : محمد حسن جمالی
وہ معاشرے ترقی کی راہ پر گامزن رہ سکتے ہیں جن میں رہنے والے اپنے ذاتی مفادات سے ذیادہ معاشرے کی صلاح اور فلاح کے بارے میں سوچتے ہیں

،وہ اس بات کے معتقد ہوتے ہیں کہ اجتماعی اور معاشرتی مفادات انفرادی مفادات سے کہیں ذیادہ اہم ہوتے ہیں، چنانچہ اگر اجتماعی مفادات کی راہ میں ذاتی مفادات کی قربانی دینا پڑے تو وہ نہایت خندہ پیشانی سے ذاتی مفادات کو قربان کردیتے ہیں -لیکن پاکستان کے معاشرے میں غور سے دیکها جائے تو ہمیں ہر طرف لوگ ذاتی مفادات کے پیچهے دوڑتے نظر آتے ہیں ،تمام شعبوں میں ذاتی مفادات کی جهنگ عروج پر دکهائی دیتی ہے- سیاسی تعلیمی، اقتصادی میدانوں سے لے کر دینی میدان تک میں لوگ ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ترقی کے بجائے تنزلی اور پستی کی طرف جارہا ہے – سیاست کے میدان میں تو سیاست کے نام پر وہ کهیل کهیلا جارہا ہے جو بے نظیر نہیں تو کم نظیر ضرور ہے- پاکستان کا سیاسی میدان عرصہ دراز سے اشرافیہ طبقوں کے ہاتهوں یرغمال بنا ہوا ہے، وہ سیاسی اثر ورسوخ استعمال کرکے اقتدار سنبهالتے ہیں اور پوری طرح ذاتی مفادات تو حاصل کرتے ہیں مگر قومی اور اجتماعی مفادات کی طرف توجہ کرنا گوارا نہیں کرتے، وہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے ملکی اور قومی مفادات قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں- آج انہیں ذاتی مفاد پرست افراد کے برے کردار اور کالے کرتوت کے سبب پاکستان کی حیثیت دنیا والوں کی نظر میں کمزور ہوتی جارہی ہے ،وطن عزیز کی عزت اور توقیر میں کمی واقع ہورہی ہے ،پاکستان کے عوام غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہورہے ہیں، ملک کے پڑهے لکهے جوان بے روزگاری کے سبب زندگی سے نالاں ہیں، اداروں میں میریٹ کے بجائے رشوت اور سفارش سے کام ہورہا ہے، قابل اور باصلاحیت افراد کی حوصلہ شکنی جب کہ ناداں اور نااہل افراد کی بے جا حوصلہ افزائی ہورہی ہے،
کرپٹ اور ہر طرح کے بڑے جرائم میں ملوث لوگ آذاد جب کہ غریب محب وطن افراد کو لاپتہ کیا جارہا ہے ،بڑے بڑے دہشتگردوں چوروں لٹیروں اورآئین پاکستان کی کهل کر مخالفت کرنے والوں کو تو پارلیمنٹ میں رکنیت دی ہوئی ہے ،جب کہ ستر سالوں سے آئینی حقوق کا مطالبہ کرنے والے گلگت بلتستان کے فداکار پاکستان کی حفاظت میں سر من تن کی قربانی دینے والے باسیوں کو اسمبلی میں رکنیت دینا تو کجا ابهی تک انہیں آئینی حقوق سے محروم رکها ہوا ہے، غریب لوگوں کی کہیں پر کوئی شنوائی نہیں ہوتی جب کہ امیر لوگ کے مسائل منٹوں میں حل ہوتے ہیں ،ریاست کے اندر انصاف ناپید ہے، ریاستی طاقت استعمال کرکے حق اور حقیقت کی نشاندہی کرانے والوں کو قیدی بنانا معمول بنتا جارہا ہے ،ذاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہمارے نام نہاد حکمران آئین شکنی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے میں کوئی کسر نہیں چهوڑتے، کچهہ مفاد پرست ٹولے کے ہاتهوں جمہوریہ اسلامی پاکستان میں جمہوریت کا جنازہ نکل رہا ہے ،عملی طور پر ملک میں جمہوریت بادشاہت میں بدلی ہوئی ہے، سیاست داخلی اور خارجی دونوں میں پاکستان کی ناگفتہ بہ حالت ہے-
کون نہیں جانتا کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی،نااہل حکمران اور کرپشن ہے- دہشتگردی اور کرپشن کا سبب حکمرانوں کی نااہلی ہی ہے- سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکمرانوں کی نااہلی ونالائقی میں بہت سارے اسباب دخیل ہیں ،بنیادی سبب تربیت کا فقدان ہے- اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کی فکری تربیت نہیں ہوچکی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے انہیں نہ اقدار انسانی کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اخلاقی اور منصبی فرائض سے کما حقہ آگاہ ہوتے ہیں -وہ جہل مرکب کا مصداق تام بن کر جو من میں آئے کر جاتے ہیں اور عوام کی اکثریت بهی نااہل حکمرانوں کے کالے کردار اور ظلم پرمبنی اقدامات کے خلاف بولنے کی جرات نہیں کرتی، جب کہ حقیقی مسلمان کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ظلم سہتا ہے- اللہ تعالی نے انسان کو عزت وتکریم سے نوازا ہے اور غیرت، شجاعت ،غصہ، تعصب و… جیسی صفات انسان کی فطرت اور سرشت میں رکهی ہے تاکہ اگر کوئی انسان کی جان مال اور ناموس پر تجاوز اور ظلم کرے تو انسان ان قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا بهرپور دفاع کرسکے ،لیکن تعلیمات قرآنی و اسلامی سے دور ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں لوگ ان قوتوں سے منفی راہ میں استفادہ کرتے ہیں اگر ہمارے معاشرے میں لوگوں کو تعلیم کے ساتهہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں فکری تربیت کی غزا بهی ملے تو پرسکون اجتماعی زندگی میسر آجائے گی
صحیح وسالم اجتماعی زندگی وہی ہے کہ افراد ایک دوسرے کے لئے قوانین حدود اور حقوق کا احترام کریں، عدل وانصاف کو ایک مقدس امر جانیں، ایک دوسرے سے مہر ومحبت سے پیش آئیں، جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کے لئے بهی پسند کریں، جسے خود نہیں چاہتے اسے دوسروں کے لئے بهی نہ چاہیں، ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور اطمینان رکهیں، دوسروں کے اعتماد کو ٹهیس پہنچا کر ان کے لئے روحانی تکلیف کا باعث نہ بنیں، ہر شخص اپنے کو معاشرے کا ذمہ دار اور معقول فرد سمجهے ،کهلے بندوں جس تقوی وپاکدامنی کا مظاہرہ کرتا ہے اپنی انتہائی خلوت میں بهی اسی تقوی وپاکدامنی کو تهامے رکهے، سب لوگ بغیر کسی لالچ کے ایک دوسرے کے ساتهہ نیکی کریں ،ظلم وستم کے مقابلے میں اٹهہ کهڑے ہوں ،ظالم اور فاسد لوگوں کو من مانی نہ کرنے دیں ،صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی اپنے اندر جرات پیدا کریں، اخلاقی قدروں کا احترام کریں ،ہمیشہ ایک جسم کے اعضاء کی مانند متفق ومتحد رہیں – ذاتی مفادات کے خول سے باہر نکل کر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے کی کوشش کریں-
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید