تازہ ترین

سانحہ تفتان اور کراچی میں شہید کئے جانے والے شہدا کی یاد میں تعزیتی ریفرنس

کراچی اور تفتان کے حالیہ شہدا کی شہادت کے سلسلے میں جامعہ روحانیت بلتستان کی طرف سے آج بروز بدھ گیارہ جون کو قم المقدس ایران میں ایک تعزیتی ریفرنس منعقد ہویی جس سے آیت اللہ غلام عباس رئیسی نے خطاب کیا

شئیر
56 بازدید
مطالب کا کوڈ: 348

آپ نے شہدا کے چند ایک پیغام بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ شہدا کے مختلف پیغام ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں
1.    شہدا ہمیں پیغام دے رہے ہیں کہ ہم معاشرے کے ہیرو ہیں جنہوں نے اپنی ضروریات کو بالای طاق رکھ کر اپنے خون سے ملت کے خون میں حرارت ایجاد کیا ہے
2.    شہدا ہمیں بزدلی, احساس کمتری, خوف اور احساس غم سے روکتے ہوئے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہمارے جانے سے خلا محسوس نہیں ہوگی بلکہ یالیتنا کنا معک…. کی صدائیں بلند ہونگیں.
3.    شہادت سے ملک و ملت میں استقلال آجاتا ہے
4.    شہید ہمیں آخرت کو دنیا پر, معنویت کو مادیت پر اور اتحاد کو افتراق پر ترجیح اور فوقیت دینے کا درس دے رہے ہیں.
5.    شہید ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ اللہ کے ہاں صرف معیار ایمان, دین اور راہ حضرت امام حسین ہے. علاقائیت, لسانیت, انانیت , پارٹی, مقام, کرسی اور دیگر تمام منصب اور امتیازات جھوٹی اقدار ہیں جو انسان کو اللہ تعالی سے دور کرتی ہیں. آج پاکستان عالم اسلام میں بالخصوص شیعیان پاکستان کے پاس جذبہ شہادت موجود ہے شہادت کا سلاح سے مسلح ہیں لیکن گائیڈ لائن دینے کے لئے حسین ابن علی جیسے لیڈر کی ضرورت ہے. جو قوم مستحب زیارت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے میں پیچھے نہیں ہٹتی تو وہ قوم اگر کسی واجب امر کے انجام دینے میں کیا نہیں کرسکتی
6.    شہید ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہمارے راستے کو بھولنا نہیں چھوڑنا نہیں کمیت اور کیفیت کو نہ دیکھیں بلکہ ہدف پر ایمان رکھتے ہوئے خلیل خدا کی طرح آتش نمرود میں کود پڑیں.
7.    شہادت کو فخر سمجھیں شہادت سے افسوس نہ کرنا.
8.    شہید کا ایک پیغام موت سے نہ ڈرنا ہے آج کی اس مادی دنیا میں خوف کا سب سے بڑا عامل موت ہے موت کے خوف سے بڑے بڑے لوگ گٹھنے ٹیک لیتے ہیں لیکن شہدا ہمیں اس خوف کو اپنی زندگی سے نکال باہر کرنے کا درس دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ خوف نہیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف جانے کا ایک راستہ ہے. آج بنی امیہ کے مانے والے ہمیں قتل کرکے خوف و ہراس پھیلانا چاہتے ہیں لیکن نتیجہ اس کے برعکس ہو رہا ہے جتنے زیادہ مارے جاتے ہیں ہمارے مراسم اور بارونق منعقد ہوتے ہیں
آپ نے فرمایا کہ اسلام کے پاس جو دنیا کی پیشرفتہ ترین ٹیکنالوجی کے مقابلے میں تنہا اسلحہ شہادت ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جذبہ شہادت کو مدیریت کیا جائے.
استکبار جہانی کے پاس عقل ہے لیکن ایمان نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ شکست سے دوچار ہے اور تکفیریوں کے پاس ایمان ہے لیکن عقل نہ ہونے کی وجہ سے اس جذبہ شہادت کو اپنوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں اور ان نا اہل لوگوں کی وجہ سے شہادت جو کہ اسلام کا عظیم سرمایہ ہے کو مغربی دینا ہائی جیک کر رہی ہے. اور اسی وجہ سے تکفیری اس جذبہ شہادت کو مقاومت کے خلاف استعمال کررہے ہیں, جذبہ شہادت کی مثال اس چاقو کی ہے اگر ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہو تو اس کے ذریعے سے مریض کا آپریشن کرکے اس کی جان بچا لیتا ہے لیکن یہی چاقو اگر کسی چور اور ڈاکو کے ہاتھ میں ہو تو شاید اس کے ذریعے کسی مظلوم کا خون بہائے. مہم اس امر کی ہے کہ اس جذبہ کو کیسے استعمال کیا جائے. امام خمینی نے اس جذبہ کو استعمار, شہنشاہیت اور کفر کے خلاف استعمال کیا لیکن تکفیریوں نے اسے خود اسلام کے خلاف استعمال کیا.
اور انہی تکفیریوں کے کرتوت کی وجہ سے آج ہر شخص اسلام سے متنفر نظر آرہا ہے. یہ تکفیری کل تک متعہ پر معترض تھے لیکن آج جہاد النکاح کے نام سے زنا کے مرتکب ہو رہے ہیں.
عالمی استکبار نے اسلام کے خلاف جمہوریت کو رواج دیکر ہر اسلامی ملک جیسے افغانستان, ترکی, عراق , مصر اور دیگر ممالک میں جمہوریت قایم کیا لیکن ان کی پیشنگوئی کے خلاف ہر جمہوریت میں اسلامی فکر کے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی بھاگ دوڑ پہنچ گئی اور سکیولارز کو حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا تو پھر انقلابات کی راہ کو منحرف کرنے کا سوچا اور تکفیری جیسے عوامل کو ہوا دیکر انکو سپورٹ کرکے لوگوں کو اصل انقلاب سے بد ظن کرایا اور یہ سازش آج بھی جاری ہے.
آپ نے تکفیری عناصر کے مقابلے کے لئے پاکستانی شیعوں کے لئے مشترکات پر ملکر کام کرنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح سے عزاداری میں ہم سب متحد ہوکر عملی طور پر اتحاد کا ثبوت دیتے ہیں عزت, مصلحت, حکمت اور امنیت کو مد نظر رکھ کر ہمیں ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے.

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *