تازہ ترین

قم کے ہزاروں ملاقاتیوں سے امام خامنہ ای کے خطاب کا مکمل ترجمہ

 بسم الله الرّحمن الرّحیم  و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدییّن سیّما بقیةالله فی الارضین. بہت بہت خوش آمدید عزیز بھائیو، عزیز بہنو، قم کے شجاع اور دلاور عوام، اور محترم و مکرّم علماء۔ نو جنوری کا دن ہر […]

شئیر
28 بازدید
مطالب کا کوڈ: 3534

 بسم الله الرّحمن الرّحیم

 و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدییّن سیّما بقیةالله فی الارضین.

بہت بہت خوش آمدید عزیز بھائیو، عزیز بہنو، قم کے شجاع اور دلاور عوام، اور محترم و مکرّم علماء۔ نو جنوری کا دن ہر سال بندہ حقیر کے لئے یہ نوید لے کر آتا ہے کہ آپ با ایمان، شجاع اور شریف عوام سے یہاں ملاقات تازہ کروں گا۔  

قم عزم سے بھرپور، امید سے مالامال ہے، پر امید ہے اور امید بخش بھی ہے۔ قم ایک سرخیل شہر ہے جس کے عوام قطعی طور پر ہمارے ملک میں راہنما اور نقیب ہیں۔ نو جنوری 1978عسے ـ جب ہم نے قم کے واقعات کی خبریں دور سے سن لیں جبکہ ملک کے دوسرے حصوں میں خاموشی تھی ـ عوامی اجتماعات اور عوامی جذبات ی خبریں، قم اٹھ کھڑا ہؤا اور قم نے قیام کیا، سینہ سپر ہؤا، قم نے شہیدوں کی قربانی دی؛ آج تک، کہ اسلامی انقلاب کو چالیس سال ہوچکے ہیں، قم صراط مستقیم پر گامزن ہے اور اپنی مسلسل حرکت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سال بھی آپ نے سنا کہ 30 دسمبر کو ملک بھر کی رسم کے مطابق ـ جب دوسرے شہروں کے عوام نے جلوس نکالے ـ اہلیان قم نے ریلیاں نکالیں لیکن ان ریلیوں پر اکتفا نہیں کیا اور تین جنوری کو بھی عظیم ترین اور پر ولولہ مظاہرے کئے۔ 

ہماری بات سرتسلیم خم نہ کرنا

ہماری ملت کی دائمی ابدی بات یہی ہے؛ ہماری ملت عزیز کی بات، مختلف طبقات کی بات، ہمارے مختلف شہروں کی بات، ہمارے نوجوانوں کی بات، ہمارے انقلاب اور اسلامی نظام کی بات، اور یہ بات جبر و استکبار کے سامنے استقامت اور طاقتوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے سے عبارت ہے۔ ہماری ملت کی بات ان طویل برسوں کے دوران یہی ایک بات تھی اور آج ـ جبکہ 40 سال کا عرصہ گذر رہا ہے ـ ہماری ملت اسی منطق کے ساتھ، اسی رستے پر، اسی ہدف کے حصول کے لئے کوشاں ہے؛ تاہم آج ہماری ملت زیادہ مستحکم اور زیادہ پختہ اور زیادہ تجربہ کار اور زيادہ ماہر ہے۔ عزم کے لحاظ سے اگر ہم نہ کہیں کہ ہمارے نوجوان اُس دن سے زیادہ پرعزم ہیں، تم کم از کم اُسی طرح کے عزم کے مالک ہیں؛ علاوہ ازاں آج ان کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ ہے؛ یعنی آج ہمارے ان مؤمن نوجوانوں کی تعداد، جو میدان میں آکر سینہ سپر ہونے کے لئے تیار ہیں، انقلاب کی آمد کے برسوں اور انقلاب کے ابتدائی برسوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے؛ یہ اس ملک کا مسلسل اور جاری و ساری مکتب ہے۔ 

دشمن کی سازش کے نشانیاں روشن تھیں

میں البتہ ہمیشہ یہ حقائق بیان کرتا ہوں، ہمیشہ کچھ شواہد ہوتے ہیں اور کچھ نشانیاں ہوتی ہیں، لیکن جو واقعات حالیہ ایام میں دکھائی دیئے، ان کے ضمن میں اس حقیقت کے کچھ زیادہ واضح اور روشن شواہد اور اشارے تھے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، ملت ایران نے تمام بڑے اور چھوٹے شہروں میں 20 دسمبر سے ـ جب یہ آتش بازیاں اور بعض افراد کی شیطنتیں ـ جن کی طرف اشارہ کروں گا ـ تازہ شروع ہوئی تھیں ـ اس حرکت کا آغاز کیا تھا، اور جب قوم نے دیکھا کہ دشمنوں کے ایجنٹ باز نہیں آرہے تو پے در پے اور کئی روز تک مسلسل ریلیوں کا اہتمام ہؤا اور یہ ریلیاں دہرائی گئیں، تین جنوری کو قم میں، اہواز میں، ہمدان میں اور کرمانشاہ میں، اور پھر چار جنوری کو، پانچ جنوری کو، چھ جنوری کو، اور سات جنوری کو مختلف شہروں، بڑے شہروں اور پھر مشہد میں، شیراز میں، اصفہان میں اور تبریز میں۔ یہ معمولی واقعات نہیں ہیں؛ یہ سب دنیا میں کہیں بھی نہیں پایا جاتا۔ میں یہ معلومات کی بنیاد پر عرض کررہا ہوں۔ دشمن کی سازش کے مقابلے میں یہ عظیم، عوامی اقدام، اس نظم و بصیرت، جوش و ولولے اور اس عزم و حوصلے کے ساتھ، دنیا کے کسی نقطے پر بھی نہیں ہے؛ اور یہ چالیس سال سے اس ملک میں جاری ہے، ایک سال یہ دو سال اور پانچ سال کی بات نہیں ہے؛ یہ قوم کی جنگ ہے قوم کے دشمن کے ساتھ؛ ایران کی جنگ ہے ایران کے دشمن کے ساتھ، اسلام کی جنگ ہے اسلام کے دشمن کے ساتھ؛ یہ جنگ جاری رہی ہے اور یقیناً اس کے بعد بھی جاری رہے گی؛ مگر ملت ایران کی جدوجہد اور استقامت میں مصروفیت زندگی کے دیگر شعبوں سے غفلت کا سبب نہیں بنی ہے بلکہ ہمارے نوجوانوں، آپ [ملت] کے فرزندوں، نے سائنسی میدانوں میں ترقی کی چوٹیاں سر کرلی ہیں؛ یہی آپ کی طرف کے مامورین نے ملت ایران کی عزت و آبرو کے لئے اندرون ملک اور خطے کی سطح پر عظیم کارنامے رقم کئے ہیں۔ یعنی ملت نے ثبت کرکے دکھایا ہے کہ ایک زندہ ملت ہے، ایکن پرنشاط اور پرولولہ ملت ہے، ایک خدائی ملت ہے، اور خدا بھی مدد فرماتا ہے۔ 

دشمن کی تمام تر سازشیں انقلاب اسلامی کے جواب حملے کے زمرے میں 

یقیناً جتنے بھی اقدامات دشمن نے این چالیس برسوں کے دوران ہمارے مقابلے پر آکر کئے ہیں، درحقیقت انقلاب کے جوابی حملے کا مصداق ہیں۔ انقلاب نے ملک کے اندر دشمن کی جڑیں سیاسی لحاظ سے اکھاڑ پھینکیں اور دشمن اب مسلسل جوابی حملے کررہا ہے اور ہر بار شکست سے دوچار ہوتا ہے؛ اقدام کرتا ہے لیکن کچھ کر نہیں سکتا؛ آگے نہیں بڑھ سکتا؛ استقامت کے بموجب، اس مستحکم اور [ملت] اس عوامی اور قومی بند اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے بموجب اپنی پوری قوت کے ساتھ امریکہ اور برطانیہ اور لندن نشینوں سے مخاطب ہوکر کہتی ہے: اس بار بھی تم کچھ نہ کرسکے، پھر بھی کچھ نہیں کرسکوگے۔ اربوں ڈالر خرچ کئے ـ یہ ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے اربوں ڈالر خرچ کئے ـ برسوں تک نیٹ ورک قائم کئے، ایجنٹ اور کٹھ پتلی پالے، تاکہ اندر سے مشکل آفرینی کریں، اس سے پہلے کچھ کہتے نہیں تھے؛ امریکہ کے آج کے حکام ـ جن کی سادہ لوحی سیاسی معاملات میں اظہر من الشمس ہے ـ رسوا کر گئے اپنے آپ کو اور کہا: “باہر سے ایران کا مقابلہ ممکن نہیں ہے، اسے اندر سے خراب کرنا چاہئے”، یعنی یہی کام جو وہ حالیہ چند برسوں سے کررہے ہیں، نیٹ ورک بنانا، کرائے کے ایجنٹ پالنا؛ اور پھر [سبوتاژ کی] ان سازشوں کے اخراجات کے لئے اپنے سے وابستہ حکومتوں کو دھمکی دے کر لوٹنا؛ یہاں آتے ہیں اور خلیج فارس کی فلاں صاحب ثروت حکومت کو دھونس دھمکیاں دے کر سازشوں کے اخراجات کی غرض سے لوٹتے ہیں تا کہ اپنے اخراجات یہاں سے اور بعض دیگر جگہوں سے وصول کرسکیں؛ ایران سے فرار ہونے والے فضلے کو بازیافت (Recycle) کرتے ہیں، انہیں دوبارہ میدان میں اتارتے ہیں، بشرطیکہ وہ بازیافت ہونے کے قابل ہوں! ہزاروں سائبر نیٹ ورکس بنا دیئے، درجنوں سیٹلائٹ چینلز کھول دیئے، دہشت گردی اور دھماکوں کے لئے ٹکڑیاں (Squads) قائم کیں اور سرحدوں میں داخل کرا دیں، خواہ جنوب مشرق سے، خواہ شمال مغرب سے؛ اس ملت پر جھوٹ، تہمت اور تشہیری مہم کے ذریعے زبردست بمباریاں کیں، کہ اس طرح شاید ان لوگوں ـ اور بالخصوص نورسیدہ نوجوانوں ـ کے افکار کو بدل سکیں۔ ہمارے عزیز نوجوان کو ـ جس نے نہ امام خمینی کو دیکھا ہے، نہ انقلاب کو دیکھا ہے، نہ دفاع مقدس کو دیکھا ہے اور نہ ہی ہمارے نامدار اور عظیم شہیدوں کو دیکھا ہے، بمباری کا نشانہ بنا کر، اس کے ذہن پر اثرانداز ہونا چاہتے تھے، نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ نتیجہ ہوتا ہے شہید حُجَجی؛ یہ نجف آباد کا حالیہ شہید اور دیگر شہدا جو ان دو تین دنوں کے دوران شہید ہوئے، یہ سب یہی نوجوان تھے۔ اور کچھ لوگوں کو اندرون ملک لالچ دلوا کر، بعض مراکز میں نفوذ کرکے، البتہ وہ خود براہ راست بھی کام کرتے ہیں، آپ نے دیکھا ـ میں بعد میں عرض کروں گا ـ ان چند دنوں کے دوران ان ہی انٹرنیٹ نیٹ ورکس کے ذریعے امریکی حکام کی مداخلتوں کو؛ لیکن پھر بھی ناکام رہے، ان تمام تر کوششوں کے باوجود ناکام رہے۔ 

ملت کا شکریہ 

ضروری ہے کہ میں اپنی عزیز ملت کا شکریہ ادا کروں، ہزار بار شکریہ ادا کروں، نہ ایک بار۔ ہماری ملت واقعی ایک پختہ اور رشید، وفادار، پرعزم، وقت شناس، لحظہ شناس ملت ہے جس کو معلوم ہے کہ اقدام اور حرکت کہ لمحہ کب ہے۔ جمعرات [28 دسمبر2017] کو مشہد میں ان مسائل کا آغاز ہؤا، اور ہفتے [30 دسمبر] کے دن وہ عجیب ریلیاں منعقد ہوئیں، کہ شاید مشہد میں حالیہ چند سالوں کے دوران اتنی پرجوش ریلیاں نہیں نکلی تھیں؛ پھر ایک دو روز بعض متفرقہ اقدامات ہوئے جن سے آپ آگاہ ہیں، اور پھر تین جنوری سے 7 جنوری تک کم از کم پانچ روز مسلسل عوام میدان میں آئے۔ حقیقتاً ملت کی وفاداری، ملت کی موقع شناسی، یہ کہ جان لے کہ کس وقت اسے کیا کرنا چاہئے، قابل تشکر ہے۔ 

ملت کے اقدامات اثر رکھتے ہیں 

بےشک دوسرے ان پیغامات کو وصول کرتے ہیں، درست ہے کہ وہ اپنی تشہیری مہم میں چند سو بلوائیوں اور تخریب کاروں کو ہزاروں افراد بنا کر پیش کرتے ہیں اور کروڑوں عوام کے مظاہروں کو چھوٹا کرکے چند ہزار افراد کے طور پر پیش کرتے ہیں؛ تشہیری مہم میں ان کا رویہ یہ ہے لیکن سب کچھ سمجھتے ہیں؛ ان کے پالیسی ساز دیکھتے ہیں، لیکن ظاہر نہیں کرنے دیتے؛ یعنی ملت اپنا کام کر دیتی ہے، اپنا اثر مرتب کرتی ہے، دشمن کے پالیسی سازوں میں اپنی ہیبت جما لیتی ہے، اس عظیم حرکت کے ذریعے جو وہ انجام دیتی ہے۔ ملت نے اپنی بصیرت کو عروج تک پہنچایا، اور ان چند دنوں میں اپنے عزم اور ارادے کو خوب ظاہر کیا۔ 

تجزیہ

ان دنوں کے دوران مختلف اشخاص اور مختلف جماعتوں نے اخبارات اور اینٹرنیٹ نیٹ ورکس پر ان واقعات کی نسبت اپنے تجزیئے پیش کئے؛ ان تجزیوں میں ایک مشترکہ نقطہ پایا جاتا تھا جو درست اور بجا ہے اور وہ یہ ہے کہ عوام کے صحیح اور سچے مطالبات اور ایک ٹولے کی وحشیانہ اور تخریبی کاروائیوں کو الگ کرنا چاہئے۔ یہ کہ فلان انسان ایک حق سے محروم ہوجائے اور احتجاج کرے، یہ الگ بات ہے، یہ کہ احتجاج کرنے والے، سو افراد یا پانچ سو افراد آکر ایک جگہ اکٹھے ہوجائیں اور اپنی بات کریں، یہ ایک موضوع ہے اور یہ کہ ایک ٹولہ اس اجتماع سے اور اس محرک سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور قرآن کی شان میں گستاخی کریں، اسلام کو گالی دے، پرچم کی توہین کریں، مسجد کو نذر آتش کریں، تخریبکاری کریں، آگ لگائیں، یہ الگ موضوع ہے۔ یہ دو الگ الگ موضوعات ہیں، انہيں گڈمڈ نہيں کرنا چاہئے؛ وہ عوامی خواہشیں، عوامی احتجاجات یا عوامی مطالبات ہمیشہ سے تھے اور اب بھی ہیں۔ بےشک ان مسئلوں سے بھرے نجی بینکوں، یا مسائل سے بھرپور مالی اداروں، یا بعض مسائل پیدا کرنے والے اداروں نے بعض لوگوں کو ناراض کردیا ہے؛ گذشتہ ایک سال سے یا شاید ایک سال سے زائد عرصے سے ہمیں ان کی خبر ہے؛ خبریں عام طور پر ہمیں پہنچتی ہیں؛ فلاں شہر میں فلاں ادارے کے سامنے، گورنر ہاؤس کے سامنے، پارلیمان کے سامنے یہاں [تہران میں]۔ یہ ان ہی احتجاجات میں سے ہیں، ہمیشہ سے تھے، اور ہیں۔ کوئی بھی ان کا مخالف نہیں ہے؛ بےشک ضرورت ہے کہ ان کی باتوں کو سنا جائے، اور حتی الوسع اور اپنی قوت کے مطابق ان کا جواب دینا چاہئے؛ گوکہ ممکن ہے کہ دس درخواستوں میں سے دو درخواست نادرست بھی ہوں، لیکن جو درست ہیں، ہم سب کو ان کا حل تلاش کرنا چاہئے۔ میں نہیں کہتا کہ دوسرے حل تلاش کریں، میں بھی جوابدہ ہوں، ہم سب کو ان کا حل تلاش کرنا چاہئے۔ البتہ میں حکام سے اپنے خطاب میں ان کچھ عرض گذاریاں کروں گا۔ یہ ایک موضوع ہے لیکن ان کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ کچھ لوگ آکر ملک کے پرچم کو نذر آتش کریں، یا کچھ لوگ آکر عوامی اجتماع سے غلط فائدہ اٹھائیں؛ عوامی اعتقادات کے خلاف بات کریں، قرآن کے خلاف، اسلامی کے خلاف اور اسلامی جمہوری نظام کے خلاف نعرہ بازی کریں۔ 

ایک مثلث / دشمن احمقوں میں سے ہے

میں آپ سے عرض کرنا چاہوں گا ایک مثلث ان واقعات میں مصروف عمل تھا، آج اور کل کی بات نہیں ہے؛ ایک منصوبہ سازی ہوئی تھی۔ جو کچھ عرض کررہا ہوں، معلوماتی شواہد پر مبنی ہے۔ کچھ باتیں آشکار ہیں اور ان کی اپنی باتیں ہیں اور بعض باتیں معلوماتی راستوں سے ہم تک پہنچی ہیں۔ ایک مثلث مصروف عمل تھا: منصوبہ امریکیوں اور صہیونیوں کا ہے، منصوبہ بندی انھوں نے کی تھی۔ کئی مہینوں سے منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ یہ “چھوٹے شہروں سے شروع کریں، اور پھر مرکز کی طرف آگے بڑھیں، لوگوں کو ان کے اپنے مطالبات کی نسبت فعال کریں، اور انہیں جوش دلائیں”، یہ ایک نقشہ ہے جو تیار کیا گیا ہے اور حالیہ چند مہینوں سے اس نقشے کے اوپر کام کررہے ہیں۔ یہ نقشہ امریکیوں اور صہیونی ریاست کے عناصر کا ہے۔ پیسہ خلیج فارس کے اطراف کی بعض ارباب زر حکومتوں کا ہے۔ بےشک ان سازشوں کے لئے رقم کی ضرورت ہے، انہیں پیسہ دینا پڑتا ہے؛ امریکی پیسہ خرچ کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہیں جب تک یہ ارباب زر علاقے میں موجود ہیں؛ پیسہ انھوں نے دیا، یہ ہوئے مثلث کے دو اضلاع ہیں اور تیسرا ضلع اردلیوِں کا تھا اور یہ کردار منافقین [نام نہاد MKO] کے ٹولے نے ادا کیا؛ منافقین کے قاتل ٹولے کے افراد ان کے اردلی اور پیدل گماشتے تھے۔ یہ کئی مہینوں سے تیار تھے؛ منافقین کے ذرائع خود ہی ان چند دنوں کے دوران اس کا اعتراف کیا؛ کہا: ہم کئی مہینوں سے امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھے اس کام کے سلسلے میں۔ یہ اس لئے کہ یہ نوکروں چاکروں کے طور پر ادھر ادھر کو دوڑیں، منظم کریں، جاکر مختلف لوگوں سے ملیں، کچھ لوگوں کو اندرون ملک متعین کریں اور تلاش کریں کہ ان کی مدد کریں، اور لوگوں کو بلائیں۔ ان ہی نے بلاوا دیا اور ابتدائی نعرہ “مہنگائی نامنظور” ہو؛ بےشک یہ نعرہ سب کو پسند آتا ہے؛ وہ اس نعرے کے ذریعے کچھ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتے تھے؛ تاکہ بعد میں خود میدان میں اتریں اور اپنے منحوس مقاصد کے لئے کام کرنیں اور لوگوں کو بھی اپنے پیچھے کھینچ لیں؛ مقصد یہ تھا۔ 

جو کچھ عوام نے کیا وہ یہ ہے: ابتداء میں کچھ لوگ آگئے، البتہ ان کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی، لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ ان کے مقاصد کچھ اور ہیں، اور ان کے نعرے سامنے آئے تو لوگوں نے اپنی صفیں الگ کرلیں۔ وہی لوگ جنہوں نے جمعرات اور جمعہ کو “مہنگائی نامنظور” وغیرہ کے اجتماعات میں شرکت کی تھی، وہ لوگ 30 دسمبر کو عظیم عوامی مظاہروں میں شریک ہوئے اور ان کے خلاف نعرہ بازی کی۔ امریکہ کے خلاف، منافقین کے خلاف۔ عوام نے اپنی صفیں الگ کرلیں۔ 

دو کمانڈ روم انھوں نے ایران کے پڑوس میں قائم کئے۔ یہ ان کے اپنے اعترافات ہیں۔ یہ اعترافات وہ نہیں ہیں جو انھوں نے یہاں کئے ہیں، بلکہ ان لوگوں کے اعترافات ہیں جو ذرائع ابلاغ میں فاش کردیتے ہیں بعض رازوں کو، انٹرویو دیتے ہیں، ان ہی نے کہا کہ دو اڈے اور دو ہیڈکوارٹرز قائم امریکیوں اور صہیونیوں نے ایران کے پڑوس میں قائم کئے تھے: ایک کو سائبر اسپیس کی نگرانی کرنا تھی اور دوسرے کو بلؤوں کا انتظام چلانا تھا۔ یہ ان کے اپنے اعترافات ہیں۔ یعنی یہ کہ انھوں نے یہ سب تیاریاں پہلے ہی سے کرلی تھیں؛ [منصوبہ بندی کچھ اس طرح تھی کہ] انھوں نے ابتداء ہی سے اپنی کامیابی کو یقینی سمجھ لیا تھا؛ الحمدلله الّذی جعل اعدائنا من الحمقاء؛ (1) خدایا تیرا شکر! اس قدر پے در پے حوادث کے باوجود، انھوں نے ہماری ملت کو نہیں پہچانا؛ ابھی تک نہیں سمجھ سکے ہیں کہ اس ملّی استقامت اور ملّی شجاعت کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے معنی کیا ہیں؟ وہ اس کی گہرائی کا ادراک نہیں کرسکے ہیں۔ اور پھر دشمن کے دھوکے میں آنے والے وہ بےچارے، اور بدبخت و روسیاہ افراد ایک طرف سے کہتے ہیں “میری جان ایران پر فدا ہو” اور دوسری طرف سے ایران کے پرچم کو نذر آتش کرتے ہیں؛ یہ بےعقل نہیں سمجھ سکے کہ یہ دو آپس میں سازگار نہیں ہیں۔ کہا: “جانم فدائے ایران”، چلئے قربان ہوجاؤ ایران پر تم، لیکن تم کب ـ ان حلیوں اور ان شکلوں کے ساتھ ـ ایران کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہوئے ہو؟ ایران کے دشمنوں کے سامنے یہی حزب اللہی اور انقلابی نوجوان سینہ سپر ہوتے رہے ہیں۔ دفاع مقدس کے تین لاکھ شہداء کون لوگ تھے؟ اس کے بعد ہمارے جو شہداء تھے، وہ کون لوگ تھے؟ یہی مؤمن اور انقلابی نوجوان تھے جنہوں نے ملک کا دفاع کیا، انقلاب دشمنوں کے سامنے، بیرونی یلغاریوں کے سامنے، امریکہ کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ تم کب ایران پر قربان ہوئے ہو کہ جو آج کہہ رہے ہو “فدائے ایران”؟ آتا ہے کہتا میں ایران پر فدا ہوجاؤں اور پھر آکر ایران کے پرچم کو جلا دیتا ہے۔ کیا واقعی یہ بےعقلی کی علامت نہیں ہے؟ یہ خامی اور ناپختگی کی علامت نہیں ہے؟ 

امریکہ

امریکہ غیظ میں مبتلا ہے، بہت زیادہ غصے میں مبتلا ہے۔ کہاں سے غضبناک ہے؟ صرف مجھ حقیر سے غضبناک نہیں ہے، ملت ایران سے غضبناک ہے، حکومت ایران سے غضـبناک ہے اور انقلاب ایران سے غضبناک ہے؛ کیوں؟ اس لئے کہ شکست کھا چکا ہے، اس عظیم اقدام اور عظیم حرکت سے شکست کھا گیا ہے۔ اب امریکی حکمران مہمل گوئیاں اور ہرزہ سرائیاں کرنے لگے ہیں۔ 

امریکی صدر کہتا ہے: “ایرانی حکومت عوام سے ڈرتی ہے”، نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ یہ حکومت ان ہی عوام سے ابھر کر قائم ہوئی ہے، ان ہی عوام کی اپنی حکومت ہے، ان ہی عوام کے توسط سے معرض وجود میں آئی ہے، اس کہ سہارا یہی عوام ہیں؛ ڈرے گی کیوں؟ اگر یہ عوام نہ ہوتے تو حکومت ہی نہ ہوتی؛ یہ جو یہ حکومت چالیس سال کے عرصے سے تمہارے سامنے کھڑی ہے، ان ہی عوام کے سہارے کھڑی ہے، جنہوں نے حکومت کو مدد بہم پہنچائی تا کہ تمہارے سامنے استقامت کے ساتھ کھڑی ہوسکے۔ 

کہتے ہیں “ایرانی حکومت امریکہ کی طاقت سے خائف ہے”، اچھا، اگر ہم تم سے خائف ہیں تو 1970 کی دہائی میں ہم نے تمہیں کیونکر ایران سے باہر پھینک دیا اور 2010 کی دہائی میں تمہیں پورے علاقے سے باہر پھینک دیا؟ 

کہتا ہے: “ایرانی عوام بھوکے ہیں اور خوراک کے محتاج ہیں”، حالانکہ امریکہ کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں پانچ کروڑ بھوکے ہیں جو رات کی ایک روٹی کے محتاج ہیں۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ ایرانی عوام بھوکے ہیں! ایرانی عوام نے عزت و شرف کے ساتھ زندگی بسر کی ہے، ان شاء اللہ اللہ کی توفیق سے، اللہ کی مدد سے، روز بروز بہتر بھی ہوجائیں گے۔ ان کے معاشی مسائل بھی ـ تمہاری دل ارزؤوں کے برعکس ـ حل ہوجائیں گے۔ 

امریکی صدر تشویش کا اظہار کرتا ہے، ان پانچ چھ دنوں کے عرصے میں ہر روز تقریبا کوئی اظہار خیال اس نے کر ہی دیا ہے؛ فکرمندی ظاہر کرتا ہے بلوائیوں کے ساتھ طرز سلوک کے سلسلے میں، کہ ایرانی حکومت معترضین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتی ہے، تمہیں شرم نہیں آتی؟ تمہاری اپنی پولیس نے گذشتہ ایک سال کے دوران 800 افراد کو گولی مار کر قتل کیا ہے! ایک ملک میں اسی ملک کی پولیس، جو عوام کی سلامتی کی ضامن ہے، 800 افراد کو قتل کردے؟ تم وہی لوگ ہو کہ جب تمہارے ملک میں وال اسٹریٹ تحریک شروع ہوئی تو تم نے وہ سب کچھ عوام کے ساتھ روا رکھا جو تم روا رکھ سکتے تھے۔ لوگوں کو روندا، زدوکوب کیا؛ کوئی تہمت لگا کر یا کوئی امکان ظاہر کرکے عوام کو قتل کیا؛ ایک خاتون کا ایک ڈرائیور ہوتا ہے، جو گاڑی چلا رہا ہوتا ہے، پولیس گاڑي میں بیٹھی خاتون پر شک کردیتی ہے اور گولی مار کر چھوٹے بچے کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیتی ہے!!! یہ امریکہ کے پے درپے [اور روزمرہ کے] واقعات ہیں جو رونما ہوئے [اور ہورہے ہیں]۔ 

برطانیہ

خبیث برطانیہ کے حکام بھی اظہار تشویش کرتے ہیں، [حالانکہ] ایک برطانوی جج نے “مسلمانوں پر حملوں اور مسلمانوں کی طرف دفاعی اقدام” کے سلسلے میں ـ جو حال ہی کا واقعہ ہے ـ فیصلہ دیا کہ اگر کوئی مسلمان زمین پر پتھر اٹھائے اور نہ پھینکے تو اس کے لئے چار سال قید کی سزا ہے اور اگر پتھر پھینک دے تو سات سال قید کی سزا ہے! یہ تمہارا [برطانویوں کا] جج ہے۔ یہ حضرات جو ہالی ووڈ کی فلموں میں ہونے والے ججوں کے فیصلوں کا بھروسہ کرتے ہیں کہ مثال کے طور قاضی یہ فیصلہ سنایا اور پولیس نے یہ کیا اور وہ کیا، اور سمجھ بیٹھتے ہیں کہ گویا مغرب کے عدالتی ادارے اس طرح عمل کرتے ہیں، وہ یہ باتیں سن لیں: برطانوی جج نے فیصلہ دیا کہ اگر تم نے پتھر اٹھایا اور پھینکا نہیں تو چار سال قید کی سزا پاؤگے اور اگر پھینکو تو سات سال کی سزا؛ اور اگر تم نے دستی بم اٹھایا اور پھینکا نہیں تو سات سال قید کی سزا پاؤگے اور اگر پھینکا تو 15 سال قید کی سزا۔ ان کا طرز سلوک یہ ہے، اور پھر یہی لوگ ایران کے اندرکے مظاہرین کے ہمدرد بنے ہوئے ہیں کہ کہیں ان پر ظلم نہ ہونے پائے!

ان کا اصل مقصد معلوم ہے؛ البتہ سابق امریکی انتظامیہ اسے ظاہر نہیں ہونے دیتی تھی۔ اس کی بات موجودہ انتظامیہ کے برعکس تھی۔ لیکن اس کا مقصد بھی یہی تھا: جمہوری اسلامی نظام کا خاتمہ۔ سابق انتظامیہ اصرار کررہی تھی اور دہراتی رہتی تھی کہ “ہم اسلامی جمہوریہ کو تسلیم کرتے ہیں، کئی بار میرے لئے خطوط روانہ کئے اور ان خطوط میں مسلسل دہرایا جاتا تھا کہ “ہم اسلامی جمہوریہ کو مانتے ہیں” لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے تھے، انسان کی آنکھیں کھلی ہیں، بھانپ لیتا ہے، سمجھ لیتا ہے۔ ان کی روش بھی اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کی سمت تھی۔ اب تو یہ نئے حکمران لاپروا ہوکر سب کچھ کہہ رہے ہیں، کہتے ہیں “ہم اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ کردینا چاہئے” ان کا ہدف و مقصد یہ ہے۔ 

وسیلہ کیا ہے؟

اب دیکھنا یہ ہے وسیلہ اور اوزار کیا ہے؟ اس نکتے کی طرف صحیح توجہ فرمائیں! ان کا وسیلہ یہ ہے کہ ملکی قوت کے اوزاروں کو اسلامی جمہوریہ سے چھین لیں۔ ملّی قوت اور طاقت کے کے وسائل اور اوزار ہوتے ہیں: قومی طاقت و قدرت کا ایک وسیلہ عوامی جذبات اور عوامی رائے عامہ ہے جو عوام اور حکومت کی مصلحت و حکمت کی راہ پر گامزن ہے؛ یہ رائے عامہ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کو اسلامی جمہوریہ سے چھین لیں۔ 

ہماری ملّی قوت و قدرت کا ایک وسیلہ ـ میں یہاں نام لے کر بتاتا چلوں کیونکہ وہ اس کو زیادہ دہراتے ہیں ـ علاقے میں ہماری موجودگی ہے؛ علاقے میں اسلامی جمہوریہ کی طاقتور موجودگی، ہماری قومی قدرت و طاقت کا ایک وسیلہ ہے؛ جو ملت و طاقتور ظاہر کرتا ہے، یقیناً اسلامی جمہوریہ طاقتور ہے بھی؛ وہ اس موجودگی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اب فلاں یورپی صدر (2) ـ امریکی تو مذاکرات کا تذکرہ کرنے کی جرأت نہیں رکھتے ـ کہتا ہے کہ “ہم علاقے میں ایران کی موجودگی کے بارے میں مذاکرات کرنا چاہتے ہیں”، ہم کہتے ہیں کہ ہم اس علاقے میں تمہاری موجودگی میں بحث کرنا چاہتے ہیں، تم یہاں کیوں موجود ہونا چاہتے ہو؟ یہ ملّی قدرت کا ایک وسیلہ ہے، وہ چاہتے ہیں کہ یہ وسیلہ چھین لیں اسلامی جمہوریہ سے۔ 

ملّی قدرت اور طاقت کا ایک وسیلہ ملک کی دفاعی قوت ہے؛ وہ اس قوت کو اسلامی جمہوریہ سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس قدر میزائلوں کے مسئلے پر اصرار کررہے ہیں، اور شور مچا رہے ہیں، جنجال آفرینی کررہے ہیں، یہ اسی لئے ہے۔ اگر ایک ملت کسی ایسی قوت کا طویل فاصلے سے مناسب جواب دینے پر قادر ہو جو طویل فاصلے سے نشانہ بنانے کے لئے میزائل داغتی ہے، تو ایک طاقت ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے پاس آج یہ قوت موجود ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کے پاس یہ قوت نہ ہو؛ وہ ہماری قومی قدرت کے اوزاروں کو ہم سے چھیننا چاہتے ہیں۔ 

ملّی قدرت کے اہم ترین وسائل میں سے ایک “ہمارا صاحب ایمان نوجوان” ہے، جو جوہری مسئلے میں، سائنسی ترقی کے شعبے میں، نانو ٹیکنالوجی کے رویان انسٹٹیوٹ کی تحقیقات کے شعبے میں، اور دوسرے سائنسی شعبوں میں راتوں کو جاگے رہتے ہیں اور محنت کرتے ہیں، مشکلات برداشت کرتے ہیں کہ ایک سائنسی پیشرفت کو انجام تک پہنچائیں؛ یہ مؤمن نوجوان ہے، یہ ہمارے مؤمن بچے ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو ہم قریب سے جانتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس ایمان کو اس نوجوان سے چھین لیں، اس نوجوان کا عزم و حوصلہ چھیننا چاہتے ہیں۔ 

میں کچھ موضوعات عرض کرتا چلوں کہ تقریر بہت زیادہ طویل نہ ہو۔ 

اے امریکیو!

ہماری ایک بات کا رخ امریکیوں کی طرف ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ 

امریکی گورننگ بورڈ کے حضرات! اس بار [بھی] تمہارا سر پتھر سے جا لگا ہے؛ ممکن ہے کہ پھر بھی دہراؤ لیکن جان لو کہ تمہارا سر پھر بھی پتھر سے جا لگےگا [اور کچھ پا نہ پاؤگے]۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ تم نے ان چند دنوں کے دوران ہمیں نقصان پہنچایا ہے، ممکن ہے کہ مستقبل میں بھی نقصان پہنچاؤ لیکن جان لو کہ تمہارا کوئی بھی اقدام بدلے کے بغیر نہ رہ سکے گا۔ 

تیسری بات یہ ہے کہ یہ شخص جو ان دنوں امریکی انتظامیہ کی چوٹی پر بیٹھا ہؤا ہے، اگرچہ ایک متوازن شخص نہیں ہے اور ان ہی دنوں امریکہ میں ہی کہا جارہا ہے کہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہے اور اس کے لئے نفسیاتی ماہرین اور نفسیات کے ڈاکٹر کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ؛ یہ سب ہم نے بھی سن لیا ہے اور امریکی حکومت کے اراکین نے بھی اور اس شخص کے حاشیہ برداروں نے بھی، تاہم یہ پاگلے پن کی یہ نمآشیں جواب کے بغیر نہیں رہیں گی۔ 

اسلامی جمہوریہ اپنے مبانی اور اصولوں پر استوار رہے گی، ان اصولوں کا دفاع اور تحفظ کرے گی، اپنی قوم کا دفاع کرے گی، اور جبر اور اس قسم کے رویوں کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرے گی۔ یہ ان لوگوں کے بارے میں؛ یہ ہمارا خطاب امریکیوں سے تھا۔ 

وہ لوگ بھی جن کی آرزو یہ کہ امریکیوں کے ساتھ نشست و برخاست کریں، شب نشینیاں کریں اور ان کے ساتھ ربط و پیوند قائم کریں، ـ چاہے وہ جو ایران سے باہر ہیں، خواہ وہ بعض لوگ جو افسوس کے ساتھ، ممکن ہے کہ اس طرح کی سوچ کے حامل ہوں اور اسی طرح کے اقدامات کریں ـ سن لیں اسی بات کو جو ہم امریکیوں سے کہہ چکے، جان لیں کہ یہ ملت ڈٹ کر کھڑی ہے، اور یہ نظام پوری قوت کے ساتھ کھڑا ہے، اور اللہ کی توفیق سے تمام نقائص کا ازالہ کرے گا؛ یہ نظام اس کام کی قوت و صلاحیت رکھتی ہے اور ان شاء اللہ یہ ساری مہمات سر کرکے رہے گا۔ یہ ہمارا خطاب امریکیوں [اور ان کے حبداروں] سے۔ 

ایرانی حکام سے خطاب

میرا ایک خطاب ہمارے اپنے حکومتی ذمہ داروں سے ہے ـ جن میں، میں خود بھی شامل ہوں ـ اور سیاستدانوں سے، وہ افراد جو سیاست کے شعبے میں سرگرم عمل ہیں، سوچتے ہیں، لکھتے ہیں، بولتے ہیں، اقدام کرتے ہیں، ان سے بھی اور حکومتی ذمہ داروں سے بھی: 

پہلی بات کہ ہم نے بیرونی دشمن کے بارے میں بات کی، جو کچھ ہم نے کہا یہ ایک تجزیہ نہیں تھا بلکہ سب حقائق تھے، یہ سب خبریں تھیں، اطلاعات و معلومات تھیں؛ بیرونی دشمن موجود ہے لیکن یہ سبب نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اپنی کمزوریوں سے غافل ہوجائیں، ہم میں بھی کمزوریاں ہیں، بعض امور میں ہمارے کام میں بھی بعض نقائص ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ہم میں کوئی نقص نہ ہو، اور ہمارے کام میں کوئی نقص اور کوئی مسئلہ نہ ہو اور صرف بیرونی دشمن ہے جو مشکلات پیدا کررہا ہے؛ نہیں، مکھی زخم پر آ کر بیٹھتی ہے، زخم کا علاج کرو، زخم کو پیدا نہیں ہونے دو۔ اگر ہمارے یہاں اندرونی مسائل نہ ہوں، تو نہ تو ٹی وی چینلز اور پروپیگنڈا نیٹ ورکس اثرانداز ہوسکتے ہیں اور نہ ہی امریکہ ہمارا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ ہمیں اپنے مسائل کو خود ہی حل کرنا چاہئے؛ اندرونی مسائل کو حل کرنا چاہئے، اپنے نقائص اور کمزوریوں کا ازالہ کرنا چاہئے، ہم میں کچھ کمزوریاں ہیں۔ مظلوموں کے حقوق کا دفاع ہم سب کا فریضہ ہے۔ بالخصوص کمزروں کے حقوق اور ملت کے حقوق کا تحفظ ہمارا فریضہ ہے، بالخصوص قوم کے کمزور طبقوں کا دفاع؛ ہم سب کو ہوشیار اور محتاط ہونا چاہئے۔ کچھ طبقے خوشحال اور صاحب حیثیت ہیں، زندگی کے مسائل ان پر دباؤ نہیں ڈالتے؛ لیکن ملک ایک اہم اور بڑا طبقہ ایسا ہھی ہے کہ زندگی کا دباؤ ان کو ستاتا ہے۔ ہماری پوری  اور پورا عزم یہ ہے کہ ان کو دباؤ سے نکال دین، ہماری پوری کوشش یہی ہو۔ 

تین بنیادی اداروں سے خطاب

ایک بات یہ ہے کہ تینوں بنیادی ادارے [انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ] ملکی مسائل کو جان لیں اور سمجھ لیں اور ہر مسئلے کے اوپر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ اگر ہم موجودہ مسائل کی فہرست تیار کریں تو فرض کریں کہ 10 سے 15 تک مسائل ہونگے اور انہیں ایک کاغذ پر لکھ لیں؛ فرائض کو تقسیم کریں، اس مسئلے پر توجہ مرکوز کریں، اس کے حل میں وقت لگانا چاہئے، اور اسے حل کرنا چاہئے۔ میں نے کئی اجلاس منعقد کئے ہیں، سماجی زد پذیریوں کے سد باب کے لئے؛ دو یا ڈھائی برسوں سے وقتاً فوقتاً سماجی ضرب پذیریوں کے سد باب کے سلسلے میں تبادلۂ خیال کے لئے ـ ملک کے بنیادی اور پہلے درجے کے حکام، وزراء اور اداروں کے نمائندوں اور تین اداروں کے سربراہوں کی موجودگی میں اجلاس منعقد کررہے ہیں اور معاشرتی زد پذیریوں پر بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ وہاں میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ ان سب زدپذیریوں کے سد باب کے لئے کام کو آپس میں تقسیم کریں۔ البتہ انصاف کا تقاضا ہے کہ یہ بھی بتاتا چلوں کہ بعض شعبوں میں انھوں نے اچھی خاصی پیشرفت کی ہے۔ ان حضرات نے بعض مسائل پر توجہ مرکوز کی ہے، کام کیا ہے، آگے بڑھے ہیں۔ ہمارے ملک کے مسائل ناقابل حل نہیں ہیں، کہ کہہ دیں کہ یہ مسئلہ قابل حل نہیں ہے اور یہ گرہ نہ کھلنے والی ہے؛ ہمارے یہاں ایسی کوئی چیز اور ایسی کوئی بات نہیں ہے؛ اس بات کو سب جان لیں۔ یہ ساری گرہیں کھلنے والی ہیں۔ جس بات کی کمی ہے؛ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کچھ تیاری کریں، اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ تیار کریں، زیادہ پا بہ رکاب ہوجائیں، زیادہ کام کریں اور زيادہ توجہ اور باریک بینی سے کام کریں۔ 

اگلا نکتہ یہ ہے کہ ہم سب ساتھ رہیں؛ ملکی حکام ساتھ رہیں، ہاں، ملک کے ہر شعبے کے پاس خاص حصے کی ذمہ داری ہے اور اسی شعبے میں وہ جوابدہ بھی ہیں؛ اس کا دوسرے شعبوں سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ اس مسئلے کو ہم جانتے ہیں۔ پارلیمان، عدلیہ اور انتظامیہ اور دوسرے شعبوں اور اداروں کے فرائص کی اپنی حدود ہیں، دوسرے شعبوں سے ان کا تعلق نہیں ہے، اور دوسرے شعبوں کے بارے میں وہ جوابدہ نہیں ہیں۔ لیکن یہ حدود اس وقت تک ہیں جب تک کہ حالات بالکل معمول کے مطابق ہوں۔ لیکن جب آپ دیکھتے ہیں کہ دشمن دھمکی دے رہا ہے، خطرات پیدا کررہا ہے، ضدی اور ہٹ دھرم دشمن مشکلات پیدا کررہا ہے، اور ملک کے اندر انھوں نے کچھ اقدامات کئے ہیں، تو سب کو کندھے سے کندھا ملا کر ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ یہ میں سب سے عرض کررہا ہوں؛ ملک کے حکام سے بھی، ملک کے تمام سیاسی مجموعوں سے۔ سب کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے اشتراک عمل سے کام لینا چاہئے، کوشش کریں، ایک دوسرے کی قوت کو کمزور نہ کریں، یہ ایک بات کرے، وہ ایسا جواب دے کہ اس کی قوت کو کمزور کردے، ایسا نہیں ہونا چاہئے، کہ ایک فرد کوئی بات کرے اور دوسرا بھی ایک بات کرے اور اس کی قوت کو کمزور کرے۔ ایک دوسرے کو تقویت پہنچائیں۔ ہمارا نظام متحد اور ہمآہنگ ہے؛ اسلامی جمہوری نظام ایک متحد اور ہمآہنگ و مربوط نظام ہے۔ درست ہے کہ تمام شعبوں کے الگ الگ فرائض ہیں، لیکن ہمارا نظام ایک ہی نظام ہے۔ انتظامیہ بھی اس نظام کے لئے ہے، عدلیہ بھی اسی نظام کے لئے ہے، مقننہ بھی اسی نظام کے لئے ہے، مسلح افواج بھی اسی نظام کے لئے ہیں، امن و سلامتی کی افواج اور ادارے بھی اسی نظام کے لئے ہیں، علمی اور سائنسی ادارے بھی اسی نظام کے لئے ہیں اور سب ساتھ ہیں۔ 

معیار قانون ہے

اگلا نکتہ یہ ہے کہ سب قانون کو معیار سمجھ لیں؛ ہمیں لاقانونیت سے نقصان پہنچتا ہے، ہم پر زد پڑتی ہے۔ 2009 میں آپ نے دیکھا؛ یہ جو 2009 میں ملک کو نقصان اٹھانا پڑا، مادی لحاظ سے بھی نقصان اٹھانا پڑا، بین الاقوامی سطح پر ہماری آبرو خطرے میں پڑ گئی، اس کی کیا وجہ تھی؟ وجہ لاقانونیت تھی۔ ہم نے ان سے کہا کہ آؤ قانون کے مطابق عمل کرتے ہیں؛ قانون واضح ہے، کہتے ہو کہ انتخابات میں خرابیاں ہوئی ہیں، اچھا دیکھتے ہیں جہاں انتخابات میں خرابی ہوئی ہے، قانونی ذمہ داری واضح ہے کہ کس طرح اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ تو آؤ اسی کے مطابق عمل کریں لیکن نہ مانے، قانون کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے، لاقونیت پر ڈٹے رہے، واضح ہے کہ انھوں نے مسائل کھڑے کئے، ملک کے لئے مسائل پیدا کئے، اپنے لئے مسائل پیاد کئے، عوام کے لئے مسائل پیدا کئے۔ سات آٹھ مہینے مسلسل بدامنی پھیلائے رکھی اور مشکلات و مسائل پیدا کئے۔ یہ محض اس لئے ہے کہ وہ قانون ماننے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ میری تلقین، میری سفارش، میری تأکید، میرا تقاضا، میری خواہش تمام اداروں سے یہ ہے کہ سب قانون کے آگے سرتسلیم خم کئے رکھیں۔  

منصفانہ تنقید کی ضرورت

ایک نکتہ یہ ہے کہ تنقید بہت اچھی چیز ہے، اور ضروری ہے، یاددہانی بہت اچھی اور ضروری ہے، لیکن یاددہانی اور تنقید کو افسانہ سرائیوں اور مبالغہ آرائیوں کی صورت میں بیان نہ کریں۔ ہماری انتظآمیہ میں کئی ہزار منتظمین ہیں، ممکن ہے کہ مثال کے طور پر دس بارہ افراد بدعنوان ہوں۔ لیکن اگر ہم اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں، اس کو موٹا (Bold) کریں، اس کو عام کریں اور کہیں تمام منتظمین بدعنوان ہیں؛ تو ہمارا نوجوان اگر یہ بات میری اور آپ کی زبان سے سن لے، تو اسے یقینا گھبرانا چاہئے، اور کہنا چاہئے کہ “عجیب ہے ہمارے تمام منتظمین اس مسئلے سے دوچار ہیں!”، اور یہ کہنا اس کا حق ہوگا۔ نہیں جناب! اب اگر عدلیہ کے چند سو یا چند ہزار اہلکاروں کے درمیان چند افراد غلط ہیں تو اسی عدلیہ میں کتنے محنتی اور شریف النفس قاضی (جج) ہیں۔ بے شک قطعی طور پر چند غلط قاضی بھی ہیں، ہم جانتے ہیں؛ تمام زمانوں میں تھے اب بھی ہیں، ان کے خلاف انضباطی کاروائی بھی ہوتی ہے؛ طے بھی یہی ہے کہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے؛ اور انتظامیہ میں بھی طے یہی ہے کہ بدعنوان اہلکاروں کے خلاف انضباطی کاروائی کی جائے۔ مقننہ اور پارلیمان میں بھی فرض کرتے ہیں کہ ۔ دو تین سو اراکین میں سے یک یا دو اراکین اپنے فرائض پر عمل نہ کریں، یا ان کا رویہ کچھ مختلف ہو، تو ان کی خرابی کو سب پر حاوی نہیں کیا جاسکتا۔ 

تو اگر ہم یاددہانی کراتے ہیں، تنقید کرتے ہیں، تو ہماری یاددہانی اور تنقید کو منصفانہ ہونا چاہئے؛ ایسا نہ ہو کہ مبالغہ آرائی کریں، چند افراد کی خرابی کو عمومی خرابی قرار دیں، ہر چیز کو سیاہ اور بدنما قرار دیں، اور ان کی نسبت ناامیدی کو ہوا دیں۔ یہی تنقید کے افسانے بنا کر اور یاددہانیوں میں مبالغہ کرکے پیش کرنا، یہی بدنما اور بدصورت پیش کرنے کا مترادف ہے۔ 

روزگار اور صنعتی پیداوار

اگلا نکتہ یہ ہے کہ ملکی حکام روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے مسئلے کو ـ جبکہ ہم نے جاری ہجری شمسی سال [1396] کو روزگار اور اندرونی پیداوار کا سال قرار دیا تھا ـ اہمیت دیں؛ یہ کلیدی مسائل ہیں۔ اس نکتے کا خطاب زیادہ تر انتظامیہ کے اہلکاروں سے ہے، گوکہ شاید دوسرے حکام بھی کردار ادا کررہے ہوں۔ ہم نے البتہ درآمدات کی مشکل کا تذکرہ انتظامیہ سے کردیا ہے۔ 

میں بھی یاددہانیاں کراتا ہوں

“بعض لوگ گلہ کرتے ہیں کہ “فلاں شخص [رہبر] یاددہانی کیوں نہیں کراتا”، نہیں جناب، میں بہت زیادہ یاددہانی کراتا ہوں۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ کبھی کبھاری میں اعلانیہ کچھ کہہ دیتا ہوں، یہ جنابان کو میری غیر اعلانیہ یاددہانیوں، جھگڑوں اور انتباہات کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں ہے۔ میں حکومتی اجلاسوں میں عام طور پر یاددہانی کراتا ہوں، بہت زيادہ خبردار کرتا ہوں اور مطالبہ کرتا ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم مسائل سے بےخبر ہوں۔ اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں مسائل کی خبر نہیں رکھتا؛ [حالانکہ میرے فریضے کا تقاضا ہے کہ] جن سماجی، عمومی اور بنیادی مسائل سے عوام آگاہ ہوجاتے ہیں، ان کی نسبت دس گنا آگاہ ہوتا رہوں، اور اللہ کے فض سے ہوں بھی۔ بےشمار رپورٹیں، مختلف جگہوں سے ـ خواہ عوامی حلقوں کی طرف سے، خواہ سرکاری اداروں کی طرف سے، خواہ سرکاری ذرائع سے، خواہ غیر سرکاری ذرائع سے ـ ہم تک پہنچتی ہیں، جنہیں ہم دیکھتے ہیں، سمجھتے بوجھتے ہیں، مسائل کو، مشکلات کی طرف پوری طرح متوجہ ہیں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مذکورہ بالا کلیدی نقاط کی طرف توجہ دی جائے، ان کو اہمیت دی جائے۔ روزگار کا مسئلہ ان ہی مسائل میں سے ایک ہے۔ بہت سی سماجی برائیاں اور معاشرتی ضرب پذیریاں ـ روزگار کے مواقع ہونے کی صورت میں ـ ختم ہوکر رہ جائیں گی؛ ان میں سے بہت سی برائیاں نوجوانوں کی بےروزگاری کی وجہ سے ہیں۔ اگر ہم چاہیں کہ روزگار کے مواقع فراہم ہوں تو ہمیں پیداوار کے مسئلے کی طرف توجہ دینا ہوگی اور اندرونی پیداوار کو صحیح روشوں اور ضابطوں کے تحت، صحیح اور دقیق پالیسیوں کے ذریعے آگے بڑھائیں۔ بےحساب زرپاشی کرنے اور پیسہ لٹانے سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا؛ حساب کتاب ہونا چاہئے؛ جان بوجھ کر صحیح عمل کرنا چاہئے۔ 

الحمد للہ انتظامیہ کے اعلی عہدیداروں کا مجموعہ ان مسائل کے حل کے درپے ہے، مسائل کے حل کی طرف جارہے ہیں، ان شاء اللہ، ہم بھی ان کی مدد کرتے ہیں جہاں تک ممکن ہو، ان شاء اللہ، تاکہ یہ سب نتیجہ خیز ثابت ہو۔ 

سیکورٹی اداروں کا شکریہ 

بلؤوں میں شریک افراد ایک جیسے نہیں ہیں

اگلا نکتہ یہ ہے کہ ہماری سیکورٹی حکام، ہمارے امن و امان کرنے والے اداروں اور ہماری سپاہ، ہماری بسج کے حکام نے حالیہ مسائل میں اپنے فرائض کو بخوبی نبھایا، خوب عمل کیا، ملک کے اعلی حکام نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا، میں بھی ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ تاہم ایک مسئلے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ: وہ لڑکا یا نوجوان جو سائبر اسپیس پر کسی انٹرنیٹ نیٹ ورک کے القائات اور تلقینات سے جذباتی طور پر متأثر ہوجاتا ہے اور کہیں کوئی اقدام کرتا ہے یا کوئی بات کرتا ہے، اس شخص سے بالکل مختلف اور جدا ہے جو سمجھ بوجھ کر باقاعدہ اداروں سے وابستہ ہوتا ہے اور ان کے پیادہ گماشتوں میں شامل ہے۔ ان کو ایک ہی کھاتے میں نہیں ڈالنا چاہئے۔ بعض لوگ البتہ جامعات کے طلبہ کا نام لیتے ہیں؛ تو بات یہ ہے کہ طلبہ اور غیر طلبہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ہماری جامعات کا ماحول الحمد للہ بہترین اور صحتمند ترین ماحولوں کے زمرے میں شامل ہے۔ ہمارے یہاں کئی ملین طالبعلم ہیں جو پڑھ رہے ہیں، تحقیق کررہے ہیں، کام کررہے ہیں، ہماری جامعات میں کوئی مسئلہ نہیں تھا اور نہیں ہے؛ اب چند افراد اگر آگئے ہوں ان واقعات میں اپنے آپ کو الجھا چکے ہوں؛ وہ طلبہ کو اس قضیئے میں ملوث نہ کریں۔ اگر کوئی واقعی مجرم ہو، چاہے وہ جامعات کا طالعلم ہو، چاہے حوزہ علمیہ کا طالبعلم ہو، عمامہ بہ سر ہو، یا بغیر عمامے کو ہو، پڑھا لکھا ہو، یا ان پڑھ ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم متعلقہ حکام فرق کے قائل ہوجائیں اور جدا سمجھیں اس شخص کو، جو میں نے عرض کیا کہ سائبر اسپیس کی طاری کردہ ہیجانی کیفیت سے جذباتی ہوکر کوئی کام کرتا ہے یا کوئی بات کرتا ہے، اس شخص سے جو امریکیوں کے پیادوں اور منافقین سے متعلق نیٹ ورک سے وابستہ ہے؛ یہ دو ایک جیسے نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے۔ اول الذکر گروہ کے افراد سے ابتداء میں بات چیت کرنے کی ضرورت ہے، ان کے لئے مسائل بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن جو شخص انسانوں کو قتل کرتا ہے، جو شخص شہر “دورود” میں، شہر “تویسرکان” میں، “خمینی شہر” میں تخریبی قتل کا ارتکاب کرتے ہیں، تخریباری کرتے ہیں، ان کی بات الگ ہے، یہ دو ایک جیسے نہیں ہیں، یہ میرا خطاب عہدیداران مملکت سے۔ 

چند جملے عوام کے لئے

مجھے عزیز عوام سے بھی دو تین جملے عرض کرنا ہیں۔ البتہ میری تمام باتوں کا خطاب عوام سے بھی تھا۔ عوام سے عرض کرتا ہوں کہ اللہ آپ سے راضی و خوشنود ہو؛ آپ نے خوب عمل کیا؛ ان چند برسوں کے دوران جہاں بھی ملک کو ضرورت تھی، آپ میدان عمل میں اترے؛ کوئی منت واحسان جتائے بغیر، کوئی توقع رکھے بغیر، بصیرت کے ساتھ میدان میں آئے۔ ہماری ملت نے بہت خوب عمل کیا۔ خداوند عالم [سے التجا ہے کہ] اپنی توفیقات، اپنی رحمت اور اپنا فضل اس ملت پر نازل فرمائے۔ آپ سینہ سپر ہوئے، آپن نے اس ملک کو نجات دلائی، ملت ایران نے نجات دلائی۔ دفاع مقدس کے واقعات میں بھی ملت نے نجات دلائی، سیاسی قضایا میں اور علمی و سائنسی امور میں بھی۔ علم و سائنس کو بھی آپ کے نوجوانوں نے آگۓ بڑھایا۔ جیسا کہ میں نے اشارہ کیا، جن شعبوں میں سائنسی ترقی ہوئی ہے، ان میں عوام ہی کے نوجوان کام کررہے ہیںع آپ کے بچے ہیں جو سائنسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ آپ کی موجودگی [اور فعالیت] نے ملک کو عزت و آبرو عطا کی۔ جہاں بھی عوام کی موجودگی کی ضرورت ہو ـ خواہ 22 بہمن [11 فروری] کا دن ہو، خواہ یوم القدس ہو، خواہ 20 دسمبر وغیرہ جیسے امور ہوں ـ لوگ میدان میں آتے ہیں؛ آپ نے آبرو عطا کی ملک کو۔ انتخابات میں، ریلیوں میں، جہاں بھی عوام کی موجودگی کی ضرورت تھی، عوام نے اپنا اثر دکھایا ہے۔ ملک کی عزت و آبرو کو آپ نے تحفظ دیا۔ 

ہوشیار

جس چیز کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ ہے کہ آج ہمارے دشمنوں کی ایک اہم ترین چال افواہیں پھیلانے سے عبارت ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا رائے عام ملکی طاقت کا سرمایہ ہے۔ اس رائے کو تبدیل کرنے کے لئے وہ آ کر کیا کرتے ہیں؟ جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں، پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ آپ خود دشمن کی افواہوں کو آگے نہ پھیلائیں۔ وہ یوں کہ ہم ایک بےبنیاد بات کسی سے سنیں اور پھر خود جا کر پانچ، چھ مقامات پر نقل کریں؛ جان لیں کہ آپ کا یہ کام وہی ہے جو دشمن چاہتا ہے؛ لہذا یہ کام آپ نہ کریں۔ دشمن کی پھیلائی ہوئی افواہوں کو ہم آگے نہ پھیلائیں۔ دوسری بات یہ کہ ہم دشمن کی افواہوں پر یقین نہ کریں، جب تک کہ ایک صحیح ثبوت و سند، ایک منطقی بات ہمارے سامنے نہ ہو۔ دشمن کی بات کا تو کبھی بھی یقین نہیں کرنا چاہئے۔ 

حکومت کام کررہی ہے

ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ سب جان لیں کہ ملک کے اعلی حکام کام کررہے ہیں۔ یہ کہ ہم سوچ لیں کہ اعلی حکام سورہے ہیں، کام نہیں کررہے ہیں، یہ غلط بات ہے؛ میں قریب سے دیکھ رہا ہوں کہ اعلی حکام اپنی قوت کی حد تک کام کررہے ہیں؛ البتہ بعض جگہوں قصور (کوتاہی) ہے اور تقصیر (جان کر قصورواریاں) ہیں، ہم ان کے منکر نہیں ہیں؛ بندہ حقیر میں بھی قصور و تقصیر ہے، خدا ہمیں بخشے۔ لیکن ذمہ دار اہلکار کام کررہے ہیں، محنت کررہے ہیں۔ یہ کہ افواہ پھیلائی جائے کہ “جناب کوئی فائدہ نہیں ہے، کام کرنا ممکن نہیں ہر چیز پر تالے لگے ہوئے ہیں”، بات یہ نہیں ہے؛ بعض مسائل حل ہورہے ہیں، بعض مسائل قابل حل ہیں اور بعض مسائل کے لئے وقت چاہئے؛ ان باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 

بہت سے مسائل کو انسان جب دور سے دیکھتا ہے، تو سادگی سے انہیں حل کردیتا ہے!! لیکن جب ان مسائل کے قریب پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اتنے سادہ نہیں ہیں [جتنے کہ دور سے نظر آرہے تھے]، مجھے یاد ہے کہ حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی حیات میں بعض ان کے پاس آتے تھے شکایت کرتے تھے کہ مثلاً فلاں حکومتی عہدیدار ـ میں سے وقت صدر تھا، میری یا وزیر ا‏عظم یا کسی وزیر کی شکایت لگاتے تھے ـ کہ اے امام! مثلاً ان کو فلاں کام انجام دینا چاہئے تھا لیکن انھوں نے نہیں کیا۔ امام سن لیتے تھے، اور جب ان کی بات مکمل ہوجاتی تھی تو فرماتے تھے: ملکی انتظام و انصرام بہت مشکل ہے؛ یقیناً ایسا ہی تھا۔ بہت مشکل ہے، بہت سخت کام ہے، آسان کام نہیں ہے؛ کوشش اور محنت کی ضرورت ہے، تخلیقی اقدامات کی ضرورت ہے، حالات حاضرہ سے مطابقت اور [Up to date) ہونا لازم ہے، موقع و محل سے مطابقت لازم ہے، جسمی لحاظ سے تیار رہنا لازم ہے، اعصاب اور ذہن کے لحاظ سے تیار ہونا لازم ہے؛ اور ہاں! ایسے بہت سے حکام ہیں جنہیں بہر حال عوام نے بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر خود ہی منتخب کیا ہے، کام بھی کررہے ہیں؛ مدد کرنے کی ضرورت ہے؛ سب کو چاہئے کہ حکومت کی مدد کریں تا کہ معاملات کو بخوبی سلجھائیں۔ 

میں بھی جھگڑا کرتا ہوں، مداخلت نہیں کرتا

میں بھی البتہ یاددہانیاں کراتا ہوں، میں نے عرض کیا کہ جتنا کچھ میں حکومت سے اعلانیہ کہتا ہوں، وہ ان یاددہانیوں کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے جو میں غیر اعلانیہ اجلاسوں میں میرا معمول ہے، کبھی انتباہ کرتے ہیں، خبردار کرتے ہیں، کبھی جھگڑا کرتے ہیں، معمول کے مطابق مختلف مسائل کے حوالے سے سرکاری عہدیداروں کو یاددہانیاں کراتے ہیں؛ تاہم جہاں تک ہوسکے۔ مجھے یہ بھی عرض کرنا چاہئے کہ میں دینی جمہوریت کو پوری صداقت سے قبول کرچکا ہوں؛ ہم یقیناً دینی جمہوریت کو مانتے ہیں؛ جس کسی کو بھی یہ عوام منتخب کریں ہم اسی کو رئیس سمجھتے ہیں، ذمہ دار سمجھتے ہیں، اس کی مدد کو ضروری سمجھتے ہیں، اور اپنا فرض سمجھتے ہیں؛ تمام حکومتوں کے ساتھ ہمارا رویہ یہی تھا، اس حکومت کے ساتھ بھی یہی ہے۔ میں نے تمام حکومتوں کی مدد کی ہے۔ گوکہ میں ان کے جزوی کاموں میں مداخلت نہیں کرتا؛ ان کی خاص ذمہ داریوں میں مداخلت نہیں کرتا لیکن ان کی مدد کرتا ہوں۔ ساری حکومتوں کی بندہ نے مدد کی ہے۔ اس محترم حکومت کی اسی طرح مدد کررہا ہوں۔ 

مستقبل روشن ہے

اور اس ملک کے مستقبل کے سلسلے میں میری امیدیں اور میری نگاہیں بہت روشن ہیں۔ جانتا ہوں کہ خداوند متعال نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس ملت کو بلندترین درجات تک پہنچا دے اور جان لیں کہ ان شاء اللہ ملت ایران اسلام کی برکت سے، اسلامی جمہوریہ کی برکت سے، بلا شک و شبہ، ایک ملت کے اعلی ترین درجات کو حاصل کرلے گی جو ملت ایران کے شایان شان ہیں، اور جان لیں کہ دشمن کی سازش، دشمن کی تخریب کاری، دشمن کی یلغار، دشمن کی ضرب و زد، کا کوئی اثر نہ ہوگا، اور حقیقی معنوں میں دشمن ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے گا۔ 

والسّلام علیکم و رحمۃاللہ

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمارے دشمنوں کو احمقوں اور نادانوں میں سے قرار دیا ہے۔ 

 2۔  امینیول میکخواں (صدر فرانس)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مترجم: فرحت حسین مہدوی

بشکریہ اہل بیت نیوز ایجنسی

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *