تازہ ترین

یوم نکسہ سے مقاومت اسلامی کی فتح تک

حزب اللہ کی دیکھا دیکھی،  فلسطینیوں نے تحریک انتفاضہ کا آغاز کیا اور اسی کے بطن سے حماس نے جنم لیا۔ فلسطین کے غیرت مند مسلمان عربوں نے حزب جہاد اسلامی بھی قائم کی اور فتحی شقاقی جیسے عظیم مجاہد پیدا ہوئے

شئیر
27 بازدید
مطالب کا کوڈ: 358

جنہوں نے جام شہادت نوش کرنا ذلت کی زندگی سے بہتر سمجھا۔شیخ احمد یاسین اور عبدالعزیز رانتیسی جیسے قائدین حماس نے پیش کئے۔ احمد جبریل کی پاپولر فرنٹ نے بھی اپنے شہداء پیش کئے۔ شہداء پیش کرنے میں تنظیم آزادی فلسطین بھی پیچھے نہیں رہی لیکن حزب اللہ، حزب جہاد اسلامی اور حماس نے مقاومت اسلامی کا جو نیا باب لبنان و فلسطین کی تاریخ میں شروع کیا، اس نے یوم نکبہ اور یوم نکسہ کے داغ دھوڈالے۔ مئی 2000ء میں صہیونی قابض افواج کو جنوبی لبنان سے ذلیل و خوار ہو کر نکلنا پڑا کیونکہ اب لبنان میں حزب اللہ کا راج تھا۔

یوم نکسہ سے مقاومت اسلامی کی فتح تک
تحریر: عرفان علی

فلسطین کی تاریخ میں مئی کا مہینہ آفت و مصیبت کے دن یوم نکبہ کی تلخ یادیں ساتھ لاتا ہے تو جون کا مہینہ نکبہ دوم کے المناک ایام کے مناظر فراموش ہونے نہیں دیتا۔ یوم نکبہ، یہ اصطلاح کسی حد تک ہمارے معاشرے میں معروف ہو رہی ہے لیکن کیا یوم نکسہ کی اصطلاح سے بھی عام افراد آگاہ ہیں یا نہیں حالانکہ یہ یوم نکبہ کا ہی تسلسل ہے۔ نکبہ وہ آفت و مصیبت کا دن تھا جب فلسطین کی مقدس سرزمین پر صہیونیوں (یعنی نسل پرست یہودیوں) نے دہشت گردی کے ذریعے ناجائز قبضہ جما کر ایک غاصب نسل پرست یہودی ریاست قائم کی تھی۔ مئی1948ء میں یہ سانحہ رونما ہوا۔ لاکھوں فلسطینیوں کو یا قتل کردیا گیا یا اپنے آبائی وطن کو بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ ٹھیک 19سال بعد 1967ء میں جون کے مہینے میں ناجائز صہیونی دہشت گرد نسل پرست ریاست نے فلسطینیوں پر ہی نہیں بلکہ دیگر تین مسلمان عرب ممالک پر بھی یکطرفہ جنگ مسلط کردی۔

6 روزہ جنگ جو 5 جون کو شروع ہوئی، 10جون کو اس وقت ختم ہوئی جب اسرائیل نامی سرطان نے بیت المقدس سمیت کئی فلسطینی علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور شام، مصر اور اردن کے سرحدی علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ اسی جنگ میں صہیونی ریاست اسرائیل نے غزہ، بیت اللحم، الخلیل، جنین اور نابلس پر بھی قبضہ کیا تھا۔     7 جون کو اسرائیل نے سیز فائر قبول کرنے کا اعلان کیا لیکن اس کے باوجود 9جون کو شام کے علاقے جولان کے محاذ پر جنگ چھیڑی اور اگلے دن یعنی 10جون کو جولان کے پہاڑی علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد سیز فائز قبول کرلی۔یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی ناک کے نیچے ہورہا تھا لیکن سلامتی کاؤنسل اسرائیل سے اپنی ہی قرارداد پر عمل نہ کروا سکی۔ امریکا کا کردار ہمیشہ کی طرح منافقانہ اور شرمناک تھا۔ ناجائز صہیونی ریاست نے امریکی حکومت کو پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ وہ جنگ لڑے گا۔

نسل پرست اسرائیل نے اسی جنگ میں بیت المقدس جو مشرقی یروشلم میں واقع ہے پر ناجائز قبضہ کرلیا۔ مغربی یروشلم پر اس نے 1948ء کی جنگ میں ہی قبضہ کرلیا تھا۔ ناجائز صہیونی ریاست اس پورے یروشلم شہر کو کہ جس میں القدس اور مسجد اقصیٰ بھی واقع ہیں، اپنا دارالحکومت قرار دیتی ہے۔ اس کی نسل پرست کنیسیٹ نامی پارلیمنٹ بھی یروشلم میں ہی ہے۔ اس کے دہشت گرد صدر اور وزیراعظم کے مکانات و دفاتر بھی اسی شہر میں ہیں۔ کہنے کو یہ شہر انٹرنیشنل کنٹرول میں ہونا چاہیئے لیکن انٹرنیشنل کمیونٹی کے نمائندہ ادارے اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل ہو یا امریکا و برطانیہ کے حکمران، یہ سب صہیونی صدر اور وزیراعظم سے اس شہر میں ملاقات کرتے ہیں، یہ عمل بذات خود اس قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے کہ جس قانون کو یہ دنیا پر نافذ کرنا چاہتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے۔

1967ء کی 6روزہ جنگ میں صہیونیوں نے پورے کے پورے فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ فلسطینیوں کو ایک اور نکبہ کا سامنا تھا لیکن آفت و مصیبت کے اس نئے مرحلے کا نام انہوں نے یوم نکسہ رکھا۔ نکسہ یعنی سیٹ بیک۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی عرب تاریخ کا یہ بہت بڑا سیٹ بیک یعنی دھچکا تھا۔ جمال عبدالناصر کی مصری عرب افواج پر شب خون مارنے کے بعد شام اور اردن کے فضائی اڈے چند گھنٹوں میں تباہ کر دیئے گئے تھے لیکن ایک عجیب اتفاق تھا کہ اس کے بعد اسرائیل کے پاس ان ممالک میں قبضے کے لئے کچھ رہ نہیں گیا تھا، بعد ازاں اس نے لبنان کا رخ کیا۔ وہاں بھی ناجائز تسلط جما لیا۔ تنظیم آزادی فلسطین اور الفتح کے ہوتے ہوئے صہیونیوں کی ان کامیابیوں نے جہاں ایک طرف عالم اسلام و عرب کو رنجیدہ کیا وہیں مسلمانان عالم کا ایک طبقہ اس کا توڑ ڈھونڈنے میں مصروف ہوا اور 1982ء کو حزب اللہ نام کی ایک خفیہ مزاحمتی تنظیم بنی۔ اس مزاحمتی گروہ نے امریکا و فرانس کے سامراجی عزائم ناکام کئے، ان کے فوجی اڈوں اور سی آئی اے کے نیٹ ورک کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔

حزب اللہ کی دیکھا دیکھی، فلسطینیوں نے تحریک انتفاضہ کا آغاز کیا اور اسی کے بطن سے حماس نے جنم لیا۔ فلسطین کے غیرت مند مسلمان عربوں نے حزب جہاد اسلامی بھی قائم کی اور فتحی شقاقی جیسے عظیم مجاہد پیدا ہوئے جنہوں نے جام شہادت نوش کرنا ذلت کی زندگی سے بہتر سمجھا۔ شیخ احمد یاسین اور عبدالعزیز رانتیسی جیسے قائدین حماس نے پیش کئے۔ احمد جبریل کی پاپولر فرنٹ نے بھی اپنے شہداء پیش کئے۔ شہداء پیش کرنے میں تنظیم آزادی فلسطین بھی پیچھے نہیں رہی لیکن حزب اللہ، حزب جہاد اسلامی اور حماس نے مقاومت اسلامی کا جو نیا باب لبنان و فلسطین کی تاریخ میں شروع کیا، اس نے یوم نکبہ اور یوم نکسہ کے داغ دھوڈالے۔ مئی 2000ء میں صہیونی قابض افواج کو جنوبی لبنان سے ذلیل و خوار ہو کر نکلنا پڑا کیونکہ اب لبنان میں حزب اللہ کا راج تھا۔ 2006ء کی 33روزہ جنگ میں اسے کوئی کامیابی نہ ملی۔ 2005ء میں اسے یکطرفہ طور پر غزہ سے انخلاء کرنا پڑا۔ 2008ء کی غزہ جنگ میں بھی وہ فلسطینیوں کے خلاف ناکام رہا۔

لمحہ موجود کی اس ناقابل تردید حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ عرب ملک مل کر بھی صہیونی افواج کو شکست نہ دے سکے۔ اس کے برعکس ان جنگوں میں اور معاہدوں میں غاصب و ناجائز صہیونی ریاست نے آج تک فلسطین پر تسلط جما رکھا ہے۔ اوسلو معاہدے کے بعد فلسطینی انتظامیہ کے عنوان سے یونین کاؤنسل کی سطح کی خودمختاری و آزادی مغربی کنارے کے علاقے میں دے رکھی ہے۔ جی ہاں یہ یونین کاؤنسل کی سطح کے اختیارات ہی ہیں جو محمود عباس کی فلسطینی انتظامیہ کے پاس ہیں۔ مغربی کنارے کی 61 فیصد قیمتی زمین آج بھی براہ راست صہیونی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ جس علاقے پر محمود عباس کا کنٹرول ہے وہاں سے بھی فلسطینیوں کو صہیونی افواج گرفتار کرکے قید کرلیتی ہے۔ اس میں نسل پرست یہودیوں کی بستیاں بھی تاحال قائم ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسی کمزوری و نااہلی کی وجہ سے فلسطینیوں نے فلسطینی انتظامیہ کی بجائے مقاومت اسلامی کو حکومت کے لئے منتخب کر لیا تھا۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے دعوے کرنے والی امریکی و یورپی حکومتوں کی منافقت کھل کر سامنے آ گئی کیونکہ انہوں نے فلسطین کے عوام کا جمہوری مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا۔ غزہ کا محاصرہ جاری رکھا گیا اور تقریباً16 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی آبادی غزہ کو کھلے آسمان تلے جیل بنا دیا گیا۔ متواتر حملے کئے گئے۔ رفحہ کراسنگ پر زیر زمین راستے اور سرنگیں مسمار کر دی گئیں تاکہ غذا، دوا اور ایندھن کی ترسیل نہ ہو سکے۔ ان تمام تر مصائب و مشکلات کے باوجود فلسطینی ڈٹے رہے اور تاحال ڈٹے ہوئے ہیں۔ سازشوں کے باوجود لبنان کے محاذ پر حزب اللہ ثابت قدم ہے۔ مقاومت اسلامی کا اتحاد قائم ہے۔ ہم آہنگی متاثر نہیں ہوئی ہے۔

حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ نے درست کہا تھا کہ اب نہ کوئی نکبہ ہوگا اور نہ ہی کوئی نکسہ۔ حزب اللہ کے سربراہ نے کئی سال قبل یہ بات کہی تھی۔ غالباً 33روزہ جنگ میں کامیابی کے بعد جشن کے موقع پر کہی تھی۔ آج تک اس خطے کی صورتحال حسن نصراللہ کے اس عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 6روزہ جنگ میں عرب دنیا کا سورما حکمران جمال عبدالناصر صہیونیت کا تکبر نہ توڑ سکا لیکن مقاومت اسلامی کے مٹھی بھر مجاہدین نے 33روزہ اور 22روزہ جنگوں میں بھی صہیونیت کو سر اٹھانے کا موقع نہیں دیا اور دنیا میں ایک نیا نعرہ گونجا، “تیر تفنگ بمباران، ہیچ اثر ندارد، از قدرت حزب اللہ اسرائیل خبر ندارد، از قدرت حماس، اسرائیل خبر ندارد”۔ تم پر سلام اے سرزمین قدس کی آزادی کی جنگ لڑنے والو؛ اب سیٹ بیک تمہارے دشمنوں کا مقدر ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *