تازہ ترین

دہشت گردی کا سب سے بڑا دشمن ہوں، ڈاکٹر طاہر القادری

  مرکزی سیکرٹریٹ لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے بیرون ملک سے ویڈیو لنک کے ذریعے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف، وزیراعلیٰ شہباز شریف، بعض وزرا، آئی جی پنجاب، ڈی آئی جی آپریشنز اور دیگر پولیس افسران قتل عام کی منصوبہ بندی اور ہزارہا پولیس اہلکار قتل اور دہشت گردی میں شریک ہوئے۔ ہماری ایف آئی آر، کمیشن، گواہ اور تفتیش الیکٹرانک میڈیا ہے۔

شئیر
25 بازدید
مطالب کا کوڈ: 362

23 جون کو عوام اور سول سوسائٹی کو استقبال میں شریک ہونے سے ڈرایا گیا ہے۔ سیاسی بدمعاشی، دہشتگردی اور ظلم و جبریت کے خاتمے کا وقت قریب ہے۔ ملک کو مقتل گاہ نہیں بننے دیں گے چند افسروں کو او ایس ڈی بنا کر زخمیوں اور شہداء کے میڈیکل ریکارڈ میں رد و بدل کی ذمہ داری دے دی گئی۔ شہداء کے رشتہ داروں کو کروڑوں روپے رشوت کی پیش کش، مرکزی قائدین پر جھوٹی ایف آئی آر کے ذریعے قتل میں نامزد کیا جا رہا ہے۔ ناجائز اسلحہ جھوٹ اور بہتان ہے، الیکٹرونک میڈیا کو موقع پر کیوں نہیں دکھایا گیا۔ دہشت گردی کا سب سے بڑا دشمن ہوں۔ میرے فتوی کو ساری دنیا میں اسلام کا دفاع قرار دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی اسکی منصوبہ بندی وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور بعض دوسرے وزراء کے ساتھ آئی جی پنجاب، ڈی آئی جی آپریشنز اور دیگر پولیس افسران نے کی اور اس دہشت گردی و قتل و غارت گری میں ہزارہا پولیس اہلکاروں نے حصہ لیا۔ جس کے نتیجہ میں سینکڑوں پر امن کارکنوں اور سول سوسائٹی کے افراد کو انتہائی درندگی اور دہشت گردی سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور درجنوں بے گناہ افراد کو شہید کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے بنائے ہوئے کمیشن کو مسترد کرتے ہیں جس کو پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتوں نے بھی مسترد کر دیا ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ہماری ایف آئی آر، کمیشن، گواہ اور تفتیش الیکٹرانک میڈیا ہے اور بہت جلد سرکاری ایف آئی آر کے اندراج کیلئے الیکٹرانک میڈیا اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے ہمراہ تھانے میں جا کر درج کرائینگے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور پاکستان قانون کے مطابق شہداء کا قصاص ہو گا۔ بیرئیر کے حوالے سے ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ آج سے چار سال پہلے جب انہوں نے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دیا تو پنجاب حکومت نے عدالت کے حکم پر خود حفاظتی بیرئیر لگائے اور محلے داروں نے اپنے پیسوں سے دو آہنی گیٹ لگائے۔ اگر ان بیرئیر کے ہٹانے یا پوزیشن تبدیل کرنے کا کوئی معاملہ تھا تو سرکاری افسران ہمارے چیف سیکورٹی آفیسر سے افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بیرئیر ہٹانا ایک بہانہ تھا، اصل میں حکمران 23 جون کو عوام اور کارکنوں کو استقبال میں شریک ہونے سے ڈرانا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ شہداء اور زخمیوں میں آدھی تعداد سول سوسائٹی کے افراد اور ہمارے کارکنوں کی ہے۔ حکومت نے چند افسروں کو او ایس ڈی بنا کر ایک سپیشل ٹاسک دے دیا ہے جس کے تحت شہداء کے رشتہ داروں پر یہ افسران دباؤ ڈال کر اور کروڑوں روپے رشوت کے بدلے عوامی تحریک کی قیادت کے خلاف بیانات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انکی یہ ڈیوٹی ہے کہ شہداء اور زخمیوں کی میڈیکل رپورٹس میں رد و بدل کر کے کارکنوں کو لگنے والی گولیوں کو پتھر اور لاٹھی کے زخم جبکہ پولیس اہلکاروں کو پتھر اور لاٹھی کے زخموں کو گولیوں کے زخم بنوانا چاہتے ہیں۔ ناجائز اسلحہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کا جھوٹ اور بہتان ہے۔ 15 گھنٹے وحشیانہ آپریشن کرنے کے کئی گھنٹے کے بعد بھاری اسلحہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے برآمد ہونے کا موقع پر موجود الیکٹرانک میڈیا کو نہ دکھانا اسکے جھوٹ ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں دہشت گردی کا سب سے بڑا دشمن ہوں۔ میرے سیکرٹریٹ میں اگر کوئی ناجائز اسلحہ برآمد ہوتا تو میں تحریک اور مشن کو بند کر دیتا۔ اسکی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ہماری سٹوڈنٹس تنظیم پر جب مخالف تنظیموں نے تشدد کیا تو ہمارے طلباء نے اپنی حفاظت کیلئے اسلحہ رکھنے کی اجازت مانگی تو میں نے یہ کہتے ہوئے سختی سے انکار کر دیا کہ اگر آج آپ کو حفاظت کیلئے اسلحہ کی اجازت دوں تو کل آپ اس کو جارحیت کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس پر ہم نے اپنی سٹوڈنٹس تنظیم کو پانچ سال تک معطل کر دیا تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ریاستی دہشت گردی کرنے والے پولیس کے غنڈوں نے حفاظتی بیرئیر کو ہٹانے کی آڑ میں میرے گھر میں بیڈ رومز، کھڑکیوں، دروازوں پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ اسکے علاوہ مرکزی سیکرٹریٹ کے اندر کمروں کے دروازوں، کھڑکیوں کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ گوشہ درود کے اندر موجود درود پڑھنے والوں پر بھی گولیاں چلائی گئیں

 

 

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *