تکفیری گروہ اور پس پردہ حقائق
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کہنا ہے کہ القاعدہ سے منسلک نیٹ ورکس افغانستان کے لئے طویل مدتی خطرہ ہیں اور پاکستان میں موجود گروپ افغانستان جاکر فورسز پر حملے کرتے ہیں۔ یہ بات ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے جو طالبان کے خلاف پابندیوں کی نگرانی کرنے والے ماہرین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو دی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ سے منسلک کالعدم تحریک طالبان پاکستان، لشکر طیبہ اور لشکر جھنگوی مشرقی اور جنوبی افغانستان میں افغان فورسز پر حملوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ شمالی افغانستان میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کی طاقت بڑھ رہی ہے اور یہ تنظیم کئی صوبوں میں متحرک ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد یہ طویل مدتی خطرہ پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتا ہے اور اسکے اثرات جنوبی اور وسطی ایشیاء تک پھیل سکتے ہیں۔ افغان اور بین الاقوامی حکام یہ سمجھتے ہیں کہ القاعدہ سے منسلک ان جنگجو گروپوں کا مستقبل قریب میں افغانستان سے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اس رپورٹ کے حوالے سے عرض یہ ہے کہ القاعدہ سے منسلک نیٹ ورکس صرف پاکستان میں ہی نہیں پائے جاتے کہ جن کا افغانستان سے نکلنے کا امکان نہیں اور اس کے اثرات جنوبی اور وسطی ایشیاء تک پھیل سکتے ہیں بلکہ القاعدہ سے منسلک نیٹ ورکس کا سلسلہ اب پاکستان، جنوبی ایشیاء اور مرکزی ایشیاء سے نکل کر مشرق وسطی سے ہوتا ہوا افریقی ممالک تک پنہچا ہوا ہے لیکن اقوام متحدہ کی کونسل ایک خاص ہدف کے تحت اسے صرف افغانستان کے لئے طویل مدتی خطرے کے طور پر پیش کرتی ہے تاکہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے لئے طویل مدتی قیام کے لئے ایک بہانہ تراشا جائے۔ البتہ چاہے کوئی بہانہ ہو یا نہ ہو امریکہ بہادر سے کون پوچھنے والا ہے کہ تم کیوں افغانستان کی جان نہیں چھوڑ رہے ہو، تو یہ رپورٹیں صرف دکھلاوے کے لئے ہیں تاکہ رائے عامہ کو ورغلایا جاسکے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی پائی جاتی ہے اس سے نمٹنے کے لئے امریکی افواج کا ہونا ضروری ہے حالانکہ کون نہیں جانتا کہ القاعدہ اور اس سے منسلک نیٹ ورکس کس کی پیداوار ہیں اور اسلام اور جہاد کے نام پر کام کرنے والے ان تکفیری گروہوں کا اصل خالق کون ہے۔
جن مقاصد کے لئے یہ شدت پسند اور تکفیری گروہ بنائے گئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:
١: یہ تکفیری گروہ جو بظاہر جہاد اور اسلام کے محافظ ہونے کا نعرہ لگاتے ہیں درحقیقت اسلام کی مخالفت بلکہ دشمنی پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ گروہ پاکستان سے لے کر افغانستان، مشرق وسطٰی اور افریقی ممالک تک اسلام کے نام پر جو کاروائیاں کرتے ہیں اسلام انکی ہرگز اجازت نہیں دیتا اور ان کے کام اسلامی احکامات کے سراسر منافی ہیں۔ اسلام نے کہاں پر بےگناہ انسانوں کو قتل کرنے اور بالخصوص جانوروں کی طرح ان کو ذبح کرنے کی اجازت دی ہے۔ اسلام میں کہاں پر اس بات کی اجازت ہے کہ جنگ میں فورسز، حتی معصوم غیر عسکری افراد کو قید کرنے کے بعد بے دردی سے مارا جاۓ، جانورں کی طرح ذبح کیا جاۓ اور ان کا سینہ چیر کر کلیجہ چبایا جائے۔ اسلام نے اس بات کی کب اجازت دی ہے کہ ننھے ننھے بچوں پر رحم نہ کیا جائے اور ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین کو بیدردی سے قتل کیا جائے۔ رسول خدا (ص) کے کس غزوے میں لڑکیوں اور شادی شدہ عورتوں کو اجازت دی گئی تھی کہ میدان جنگ میں جا کر مجاہدین کی شہوانی ضرورتوں کو پورا کریں اور اس پر مستزاد یہ کہ اس کو جہاد بالنکاح کا نام دیا جائے، یعنی اسلامی احکامات کو بدنام کرنے کی ایک اور گھناؤنی سازش۔ شاید ان کاموں کا امریکی اور وہابی اسلام سے تعلق ہو، پر اسلام اور شریعت محمدی (ص) سے انکا کوئی تعلق نہیں ہے۔ تو اسلام کے دشمن ان تکفیری گروہوں کے ذریعے یہ سب کچھ اس لئے کروا رہے ہیں کہ اسلام کو بدنام کیا جائے اور مغرب میں اسلام کی طرف تیزی سے رغبت اور رجحان کا جو سلسلہ شروع ہو چکا ہے اس کو روکا جائے۔
٢: مغربی سامراج کی طرف سے ان تکفیری گروہوں کی خلقت کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ سامراجی قوتیں بجائے اس کے کہ خود اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لڑیں، ان تکفیری گروہوں کو لڑایا جائے جیسا کہ آج کل عملی طور پر ہو رہا ہے کہ یہ گروہ پاکستان سے لے کر افغانستان، عراق، شام ، لیبیا اور دوسرے افریقی ممالک میں مغربی سامراج کے سپاہی بن کر مسلمانوں کے قتل عام پر تلے ہوئے ہیں اور سامراجی قوتوں کو خود مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہی نہیں۔
٣: تیسرا مقصد یہ ہے کہ مشرق وسطٰی اور اسلامی دنیا کے قلب میں کینسر کے دانے یعنی اسرائیل کو خطرات سے نجات دلانے کے لئے ان ہی تکفیری گروہوں کو استعمال کیا جارہا ہے۔ ان تکفیری گروہوں نے مسلمانوں کی توجہ اسرائیل سے ہٹا کر ان کو آپس کی لڑائی میں مصروف کر دیا ہے بلکہ شام اور لبنان کے محاذوں پر تو اسرائیل اور داعش کی گٹھ جوڑ ہو چکی ہے اور اسرائیل داعش کی مدد کر رہا ہے۔ آج تک کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ القاعدہ کا کوئی رکن اسرائیل کے خلاف لڑا ہو یا فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی کے لئے مارا جا چکا ہو۔
٤: چوتھا مقصد یہ کہ ان ہی دہشت گردوں اور تکفیریوں سے مسلمانوں، یورپ اور امریکہ کے عوام کو ڈرایا جا رہا ہے اور ان سے نمٹنے کے لئے امریکی افواج کو اتارنے کے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی سامراجی قوتوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے کسی ملک اور علاقے میں جانے کا ارادہ کیا ہے تو پہلے ان تکفیری گروہوں کو وہاں بھیجا گیا ہے اور ساتھ ہی پٹھو حکومتوں کو امریکا سے امن معاہدوں کے لئے مجبور کیا جاتا ہے اور یہ سوال بہت سے ذہنوں میں موجود ہے کہ امریکہ نے داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی کو جیل سے کیوں رہا کیا تھا جو 2005ء سے 2009ء تک عراق میں امریکی جیل میں قید تھا۔
تحریر: عاشق حسین طوری
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید