تازہ ترین

آخوند محمد ولد آخوند علی

شرح حال آخوند محمد ولد آخوند علی فو   اہل بگے 

  نام :محمد ۔

  لقب:آخوند۔

  والد:علی فو(عرف آخوند علیفو)۔

  والدہ:خواہر عبدالرّحیم ،ہیمپہ وا تھنگ۔

  ولادت:

  وفات:۱۳۹۳ ق،ھ

شئیر
25 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4061

 شکل  و شمائل :

آخوند صاحب کی شکل و صورت ان کے پوتے آخوند غلام حیدر  جیسی تھی۔پتلا  ،لمبا اور سفید مائل بہ سرخ تھے ۔ان کی  نواسی خدیجہ کے مطابق آخوند نہایت  خوبصورت  تھے ۔

  ولادت :آخوند محمد کی ولادت کندوس محلہ ،،بگے،، میں ہوئی ،یہاں ان کا پروان چڑھا ۔

آخوند محمد کی تعلیم وتربیت :

ابتدائی تعلیم اپنے والد آخوند علی فو سے حاصل کی ۔اپو آخوند علیفو بھی بقول حاجی حیدر :عالم ،خطیب  اور امام جمعہ تھے۔ جمعہ پڑھاتےتھے،مجلسیں بھی اچھی طرح سے پڑھتےتھے۔مجلس پڑھنے میں اتنےماہر تھےکہ معمولی باتوں سے بھی حاضرین کو رلاتےتھے۔

چنانچہ ایک دن وہ مجلس پڑھ رہے تھے اتنے میں ان کی زوجہ کو گھر کی چابی نہیں مل رہی تھی تو وہ ماتم سرا یعنی امام بارگاہ کے دروازے پر آئی اور آخوند سے گھر کی چابی کے بارے میں ہاتھ کے اشاروں سےپوچھاتو آخند نے منبر ہی سے یوں جواب دیا:’’لے مومن کن لمیک پو تھلسس پینگ یود‘‘یعنی اے مومنوـ چابی راگھ کے نیچے رکھی ہوئی ہے ۔جب  عوام اور حاضرین ِمجلس نے آخوند کا یہ جملہ سنا تو سب رو پڑے۔

  قرآن و دعوت ختم کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے وہ ’’خپلو‘‘ اور  ’’غورسے ‘‘گئے۔ اور برجستہ و بزرگ علماء جیسے سیّد عباس موسوی  خپلوی،اوربرکنپہ آخوند کثیرغورسے والااورسیدسعدجان سینووالاسے کسب فیض کیا۔  نیز انہوں نے سیّد مختار کریسی سے بھی کسب فیض کیا  تھا ۔  آخوند محمد نے مذکورہ بالا اساتید سے مندرجہ ذیل کتابیں پڑھی تھی:

 ۱۔عروۃ الوثقی ؍حضرت آیۃ اللہ سیّد محمد کاظم یزدی اعلی اللہ مقامہ۔(یہ شیعہ فقہ کی مشہور اور معروف کتاب ہے جس میں ہر مسئلہ کے مختلف  فروعات  مذکور ہیں   )

  ۲۔ بیست دو باب ؍

۳۔مشکات؍

۴۔ فقہ احوط ؍سیّد محمد نور بخش علیہ الرّحمہ۔(جو نوربخشیہ فقہ کی مشہور و معروف کتاب ہے )

۵۔ گلستان سعدی؍شیخ سعدی شیرازی۔

 ۶۔پند نامہ؍

 ۷۔منھاج ؍

۸۔ روضۃ الشّھداء؍ملّا حسین کاشفی۔(مجلس کی کتاب ہے اس میں آل رسول کے مصائب بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے)

۹۔ الرّبذۃ؍

۱۰۔کورس ؍تقریبا یہ علم فقہ کی ایک کتاب تھی ۔آخوند مرحوم کے اکثر شاگردوں نے آپ کے پاس یہی کتاب  پڑھےتھے ۔

  آخوند محمد کی تدریسی اورتعلیمی سرگرمیاں:

آخوند محمد نے زندگی کا زیادہ تر حصہ درس تدریس میں گزارا۔وہ شاگردوں کو مختلف کتابوں کی تدریس کیا کرتے تھے۔ان کا طریقہ ٔ  تدریس بہت اچھاتھا۔وہ شاگردوں کو بہترین انداز میں پڑھاتے  تھےکہ سب سمجھ جاتے تھے۔حاجی حیدر کہتا ہے کہ  :آخوند صاحب کی روش تدریس بہت اچھی تھی۔ان کے پاس  چھو ٹے بڑے سب پڑھنے کے لیے آتے تھے ۔

ممتاز حسین ولد حیم کے مطابق آخوند صاحب کی عمر کا زیادہ تر حصہ تدریس وتعلیم میں گزرا ہے۔جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں سانس کی تکلیف میں مبتلا ہوا تھے۔

حاجی حیدر مزید کہتا ہے  :کہ آخوند صاحب نے بہت ساروں کو علم سکھایا۔حاجی حیدر یہ بھی کہتا ہے کہ  :اپو آخوند نے بہت سے لوگوں کو علم سکھایا ہے ۔  آخوند نے عنفوان جوانی سے لیکر مرنے تک تدریس و تعلیم کا سلسلہ نہیں چھوڑا ۔مختلف کتابوں کی تدریس کرنے کے علاوہ چریس (ٹی بریک )کی باری رکھ کر مختلف اسلامی قصّے اورکہانیاں بھی مومنین کے لیے بیان کیا کرتے تھے ۔ 

  آخوند محمد کے تلامذ:

  جیسا کہ ذکر ہوچکا ہےکہ آخوند محمد مرحوم ہمیشہ تدریس میں مشغول رہتےتھے۔حاجی ممتاز حسین اور حاجی حیدر کے مطابق کندوس میں آخوند محمدکے بہت سے شاگرد ہیں ۔ان میں سے بعض نے آخوند سے قرآن و دعوت اور بعض نے بیست ودو باب ،بعض نے کورس ،بعض نے منتخب المسائل ،اور بعض دوسرے حضرات نے عروۃ الوثقی وغیرہ  سیکھا۔

 کندوس والوں اوراسلام کے لئے  آخوند   کی یہ خدمت سب سے بڑی خدمت ہے  کہ انہوں نے بہت سے شاگردوں  کی تربیت   کی  ۔ یہاں ہم ان کے چند شاگردوں کا نام درج کرتے ہیں:

 ۱۔آخوند ابراہیم ایپہ خورکنڈو سے۔(اخوند ایپہ خرکنڈو کے امام جمعہ و جماعت تھے ،مجالسیں پڑھتے تھے ،بچوں کو قرآن   سیکھاتے تھے )۔

 ۲۔نُلّی حاجی غلام خورکنڈو سے۔

 ۳۔بکا حسین   خورکنڈو سے ۔

 ۴۔ علی مد پہ مہدی  خورکونڈو  سے ۔

 ۵۔ اپو روزی  یولفوا خورکونڈو سے ۔(اپوروزی خرکنڈو کا سربراہ ،بزرگ اور بانفوذ شخص تھا انہوں نے خرکنڈو کے معاشرے کے لئے خاص قوانین وضع کیا  جو اب تک جاری اور نافذ ہیں  ۔)

۶۔  غلام حسین کرمنی  سے ۔

۷۔ کھڑوق علی (آخوند علی )  کرمنی سے ۔

 ۸۔ محمد  ( باکو ) کرمنی سے ۔(آخند محمد باکو ہلوا قوم سے تھا کرمنی جاکر بسا ۔وہ شاعر اہل بیت تھا ۔ان کے صوفیانہ کلام جو اہل بیت کی مدح میں ہے کتاب کی صورت میں چھپی ہے۔آخوند چند عرصہ قبل فوت ہوچکا ہے وہ اچھے اخلاق کا مالک تھا ۔)

۹۔ بلا کو ے علی فو کرمنی سے ۔

۰۱۔ عیسی کو ے سلام کرمنی سے ۔

۱۱۔ عیسی کو ے علی کرمنی سے ۔

۱۲ ۔ ایپی حسین  بگے سے ۔(قصیدہ اورمرثیہ خوب پڑھتے تھے ۔مجالس عز ا آغاز  آخوند  ایپی حسین ہی کرتے تھے  ۔)

۱۳۔ حاجی حیدر  بگے سے ۔(حاجی حیدر  فقہی اور تاریخی مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں وہ ہمیشہ دعا ،تلاوت اور عبادت میں مشغول رہتے ہیں ۔ وہ نہایت سخی اور خوش خلق شخص ہیں ۔مہمان کی از حد تواضع کیا کرتے ہیں  ۔اس وقت کہولتِ سن کی وجہ گھر میں بیٹھے رہتے ہیں۔ )

 ۱۴۔ حسین ولد حلیم بگے سے  ۔انہوں نے  اپو آخوند سے  جامع المسائل اور کورس نامی  دو کتابیں سیکھی ہے۔نہایت متین ،عقلمند اور باوقار شخص ہیں۔ وہ کہولت سن کے باوجود حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے ہیں ۔انہوں نے شیخ سجاد حسین جیسی عظیم عالم دین کی تربیت فرمائی ہیں )۔

 ۱۵ ۔ اپو  حسین نقلو فو  شخمہ سے ۔(اپو حسین بھی شرعی مسائل سے کسی حد تک آگاہ ہے۔وہ نڈر ،عقلمند اور باوقار شخص ہے ۔ان کی عمر اس وقت (۲۰۱۴ء)میں ۱۰۰ سال سے زیادہ ہے ۔ قدیم  حکمت  اور طبابت  میں بھی  مہارت رکھتا  ہے ، ٹوٹے ہوئے ہاتھ ،پیر  اور ہڈیوں  کا  مہارت سے علاج کرتا ہے ۔)

 ۱۶۔ انینی ژھو  بگے سے ۔

۱۷۔ روزی علی  ولد  ایپہ  بگے سے ۔

۱۸۔  حسن ولد حلیم  پدر شیخ غلام علی بگے ۔

۱۹۔ اپو محمد علی  ولد  سودے  شخمہ سے ۔(وہ شرعی مسائل  میں بہت دلچسپی رکھنے والے تھے ،علماء سے ہمیشہ سوالات کیا کرتے تھے ،خوش خلق اور نہایت باادب شخص تھے صوم و صلات کے نہایت پایبند تھے )۔

 ۲۰۔ محمد ولد کریم (اپو لدورووا الغد کی قوم )  شخمہ سے ۔

 ۲۱۔ کریم ولد سودے (کنگٹوق) شخمہ سے ۔سمجھدار اور  بزرگ شخص تھا ۔سید جعفر شاہ مرحوم جب بھی تھگس سے کندوس تشریف لاتے تو انہی کے گھر میں  رہائش پزیر  ہوتے تھے  ۔

۲۲۔ کریم ولد عبدالرحیم  تلچو سے ۔(مرحوم اپو کریم دعائیں زیادہ پڑھا کرتے تھے۔ ان کی جیب میں دعا کی ایک چھوٹی کتاب ہمیشہ ہواکرتی تھی،اپوکریم مرحوم خوش خلق تھے، ہر ایک سے گرم جوشی سے پیش آتے تھے ۔وہ امام رضا علیہ السلام اور حضرت معصومہ قم کی زیارت سے بھی شرفیاب ہوئے تھے )

۲۳ عیسی ولد حلیم  ( پدر وفو حسین ) تلچو سے ۔(صوم وصلات کے پائبند اور شریف شخص تھے ۔)

۲۴۔ محمد علی ولد نونو  تلچو سے  انہوں نے آخوند کے پاس  بیست ودو باب سیکھا ہے ۔

۲۵۔ حسن ولد احمد تلچو سے  انہوں  فقہ ،منتخب الرسائل (فارسی) نامی کتاب پڑھی ہے۔ 

۲۶۔ غلام ولد نونو  تلچو سے انہوں نے اپو آخوند سے قرآن کریم سیکھا ہے ۔

۲۷۔ کھیفرو ولد عبدو ا   تھنگ سے  انہوں نے دعوات  امامیہ  آخوند سے سیکھا ہے (آخوند کا ممتاز اور ذہین شاگرد تھا)۔

۲۸۔ آخوند عبداللہ  تھنگ سے ۔(آخوند کے ممتاز اور ذہین شاگردوں میں شمار ہوتا ہے۔آخوند مرحوم ذاکر اہل بیت تھے ،مجالس عز ا پڑھنے میں خاص مہارت رکھتے تھے ۔مشہد  اور قم کی زیارتوں سے بھی  شرفیاب ہوئے ۔کچھ عرصہ اپنے بیٹے شیخ غلام مہدی کے ساتھ قم میں مقیم رہے ۔آخون عبد اللہ مرحوم  مرثیہ خوانی ،نوحہ خوانی ،قصیدہ خوانی ،دعا اور تلاوت قرآن کے علاوہ شکار کرنے میں بھی مہارت تام رکھتے تھے  بھائی عیسی فو کے مطابق  وہ کبھی کبھار مارخوروں کو ڈور کر فائرینگ کرتے تھے ،تھنگ ،چھغوگرونگ وغیرہ میں محرم  کے دس روزہ مجالس  پوری آب تاب سے پڑھتے تھے ،اکثر وہ  کتاب سے پڑھتے تھے ،ان کی آواز میں ایک خاص سوز و گداز  تھی ۔

 اس کے علاوہ وہ مختلف  فنون اور ہنر سے بھی آگاہ تھے ۔وہ تھق بھی   لگاتے تھے چھرہ  بھی  بناتے تھے ۔علاوہ ازین وہ قد وقامت اور شکل شمائل میں بھی  اپنی مثال آپ تھی ۔آخوند عبد اللہ مرحوم بلند قامت ،سفید مائل بہ سرخ  ،خوش مزاج ،اور اچھی آواز کا  مالک تھے نیز وہ عرصہ تک محلہ والوں کا نقیب  اور ذمہ دار بھی رہے ۔کندوس والوں کے لئے  بالعموم اور تھنگ والوں کے لئے بالخصوص آخوند عبد اللہ  مرحوم کی   بڑی دینی خدمات  ہے  ،جس کے مقابلے میں کندوس والوں کی طرف سے ان کی کوئی خاص  خدمت نہیں تھی ۔البتہ اللہ تعالی ان کو  ان کے دینی  اور سماجی خدمات کا صلہ ضرور عطا کرے گا ۔)

۲۹ ۔ محمد علی کشو  تھنگ سے ۔

۳۰۔ اپو دربیس (پدر مامو حسین ) تھنگ سے ۔

ان کے علاوہ  بھی ان کے  بہت سارے شاگرد تھے ۔ان کے شاگردوںمیں سے  ایک ممتاز  شاگرد  آخوند عبداللہ  ،اور آخوند ابراھیم ،( ایپہ) مرحوم بھی ہیں  یہ دونوں  واعظ اور ذاکر  اہل بیت  تھے ، بہت اچھی طرح سے مجلس پڑھتے تھے ۔

 آخوند محمد اورقرآن خوانی کا مقابلہ :

  حاجی حیدر کے مطابق سب سے پہلے آخوند محمد نے یہ کام کندوس میں متعارف کرایا۔  انہوں نے  مومنین کو  قرآن خوانی کا مقابلہ اور روخوانی  قرآن کریم پر آمادہ کیا ۔ قرآنی خوانی کے مقابلے  میں چند افراد شریک ہو کر ہر ایک باری باری قرآن کریم کی تلاوت کرتا جا تا ہے اور دوسرے لوگ غلطیوں کی اصلاح کرتے جاتے ہیں ۔

آخوند محمد صاحب مجلس عزا  نہیں پڑھتے تھے ۔انہوں نے زندگی بھر ایک مجلس   عزابھی نہیں پڑھی۔بوا مرتضی مرحوم ان کو مجلس پڑھنے کی دعوت دیتےتھے اور فرماتے تھے :’’اتا لے ،،مجلس پڑھنے کی عادت کیا کرو۔ 

 خورکونڈو  میں تبلیغ :

 حاجی حیدر کے مطابق اپو آخوند محمد تقریبا دو سال تک خورکنڈو  میں تبلیغ  و وعظ و نصیحت  کے سلسلے  میں مقیم  رہے ۔ان دوسالوں میں وہ تشیع کی تبلیغ کرتے رہے یہاں تک کہ تمام خورکنڈو  والوں کو شیعہ امامیہ اثنا عشریہ میں داخل کیا ۔

 آخوند محمد اور سید مرتضی :

 آخوند محمد سید مرتضی کا  دائیں بازو تھا ۔ آخوند فقہی اور دوسرے علمی مسائل سےواقف تھے  ۔لہذا سید مرتضی کی سیاست اور تدبیر یہ تھی کہ نوربخشیوں کو شیعہ کی طرف  مائل کرنے کے لیے  ان کی علمی خدمات حاصل کیا جائے ۔اس خاطر سید مرتضی صاحب سب سے پہلے سوالات اٹھاتے اور خفتہ  اذہان کو جھنجوڑتے اور بیدار کرتے پھر ان کو اپو آخوند کے پاس بھیج دیتے تھے تاکہ وہ ان کو تقلید اور دوسرے مسائل سے آگاہ کردے ۔

  چنانچہ آخوند محمد صاحب  مستبصرین کو اچھی طرح سے مسائل و معارف کی تفہیم کرتے تھے ۔اور لوگ یکےبعد دیگری  شیعہ مذہب قبول کرتے جاتے تھے  ۔حاجی حسین پدر شیخ سجادصاحب کہتا ہے کہ :کندوس کے اکثر نوربخشیوں کو آخوند محمد صاحب نے شیعہ مذہب کی طرف راغب کیا تھا ۔ 

 حاجی حیدر کے مطابق کندوس کے چند اہم شخصیات جناب مرحوم و مغفور آغا سیّد جعفر شاہ صاحب کی مساعی جمیلہ اور ان کے زہدوتقوی اور سادہ زیستی کو دیکھ کر مستبصر ہوچکے تھے۔جب آغا چھوڑبٹ سے تھگس اور کندوس تشریف لائے تویہاں ایک زبردست انقلاب آگیا ۔ کیونکہ سید جعفر شاہ مرحوم  جید عالم دین ،زہد و تقوی اور علم و عمل کے زیور سے آراستہ  تھے ۔

   آخوند صاحب کا حسن خلق:

  آخوند محمد اچھے اخلاق کے مالک تھے ۔وہ منکسر المزاج اور فرو تن تھے ۔حاجی حیدر کہتا ہے :میں نے اپو آخوند پر بارہا بار اعتراض کیا کہ آپ ایک عالم دین ہوتے ہوئے کیوں اس طرح کا معمولی لباس پہنتے ہو؟آخوند صاحب جواب میں فرماتے تھے کہ :بیٹا مجھے سب جانتے  اور پہچانتے ہیں کہ میں اسی گاؤں اور محلہ میں پیدا ہوا ہوں اور یہیں پر ہی زندگی گزار رہا ہوں  

آخوند محمد کا اخلاص :

حاجی ممتاز حسین کے بقول :آخوند محمد صاحب  بڑا مخلص اور ایمان کے جذبے سے سرشار تھے ۔اس لیے کہ انہوں نے جتنی تبلیغ اور تدریس کی خدا کے خاطر کی ۔کیونکہ عوام کی طرف سے ان دینی خدمات کے صلے میں کچھ نہیں ملتا تھا ۔تا ہم یہ چیز آخوند کو اس کی مذہبی سرگرمیوں  سے باز نہیں رکھ سکتی تھی ۔اس کے باوجود بھی آخوند نے اپنی دینی خدمات کو تا دم ارتحال جاری رکھا۔

شاگردوں  پر شفقت :

آخوند محمد اپنے شاگردوں  کو چاہتے اور ان پر شفقت کرتے تھے ،ان کا خیال رکھتے تھے چنانچہ علی ولد حلیم کے مطابق آخوند کے پاس تعلیم حاصل کر نے کے لیے دور دور سے ان کے شاگردروزانہ صبح کو آتےاور شام کو  واپس جاتےتھے۔ آخوند صاحب ہر صبح ان کے لیے آگ جلاتے تھے۔تاکہ شاگردوں کو سردی نہ لگے۔لیکن ان کے اس کام سےہماری نانی فاطمہ کو غصّہ آتا تھا۔اور آخوند صاحب کو ٹوکتی رہتی تھی۔ 

آخوند محمد کے بارے میں حاجی حسین شخمہ والے سے انٹریو:  

سوال:آخوند محمد مرحوم زندگی میں کن کن امور میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے؟

 جواب: مرحوم موصوف کبھی بھی فارغ نہیں رہتے تھے ۔وہ ہر وقت مطالعہ کرنے میں مصروف رہتے تھے۔اس کے علاوہ مقامی اوردور دراز سے آئے ہوئے شاگردوں کو پڑھانے میں مصروف رہتے تھے۔اس کے علاوہ تعویذات بھی لکھتے تھے ۔میں نے بذات خود مرحوم سے کئی تعویذات لیئے اور میری مشکلات حل ہوئے۔ 

 سوال :اس دور میں اکثریت نوربخشیہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔تو کیا مرحوم شیعہ ہونے کے ناطے ان پر ذہنی یا دیگر وجوہات کی بناء پر دباؤ پڑتے تھے یا نہیں؟

 جواب :آخوند مرحوم چونکہ ان کا عقیدہ مظبوط تھا۔ لہذا وہ کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ جوشخص ان کے پاس جاکے اعتراض کرتا تو 

 آخوند صاحب منہ توڑ جواب دیتے تھے ۔اور اپنی عقیدے کا بھر پور اظہار کرتے تھے۔اس طرح سب کے دلوں کو اپنی طرف موڑ لیتے تھے۔اور دوسروں کے عقائد کو متزلزل کرتے تھے۔اکثر لوگ شرعی مسائل سے نا آگاہ تھے ۔جب وہ کوئی نیا مسئالہ بیان کرتے تو ہم لوگ بہت ہی تعجّب کرتے تھے۔ہم آخوند کے بیانات کو حقّ سمجھتے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیں آخند محمد کے ذریعے حقیقی دین مل گیا۔

 سوال : آخوند مرحوم کے ہاں کتنے شاگرد پڑھنے آتے تھے ؟کیا یہ سب مقامی شاگرد تھے یا دور دراز سے بھی آتے تھے ؟۔

 جواب :آخوند صاحب کے ہاں تقریباً ۵۰ سے زائد شاگرد پڑھنے آتے تھے۔ ان میں سے بعض مقامی تھے اور بعض غیر مقامی۔

 ان کی خاصیت یہ تھی کہ پڑھائی سے جب فارغ ہوتے تھے تو لوگوں کے اخلاقیات کی درستگی کے لئے درس اخلاق دیتے تھے۔

  اور جو مطالب زیادہ قابل فہم ہوتے تھے ان کو زبانی یاد کرواتے تھے۔نیز شاگردوں کے ساتھ نرم مزاجی سے پیش آتے تھے۔

 سوال : جب سید مرتضی یہاں کندوس تشریف لائے تو آخوند کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ تھا ؟

  جواب: آخونداور مرحوم سید مرتضی کے مابین کوئی اختلاف اور رنجش نہیں تھابلکہ یہ دونوں آپس میں خفیہ مشورے سے کام کرتے تھے۔ سید مرتضی کے کلام میں فصاحت اور بلاغت پائی جاتی تھی۔ اور سید  مرتضیٰ مرحوم خود کو تقیہ کے طور پر نوربخشیہ کہتے تھے۔

اورجب بھی کوئی مجلس ہو یا محفل  سید مرتضی  مرحوم شیعہ عقیدے کے مطابق مطالب بیان کرتے تھے۔اور کہتے تھے کہ یہ جو باتیں میں نے آپ لوگوں سے کہا ہے  ہماری کتابوں میں نہیں ہے۔بلکہ شیعوں کی کتابوں سے بیان کی ہے۔ہمارے مسلک میں کوئی ٹھوس کتاب نہیں ہے۔اس طرح وہ لوگوں کو پریشان کرتے تھے ۔

  جب لوگ سید مرتضیٰ سے پوچھتےکہ شیعوں کا عقیدہ کیا ہے ؟تو جواب میں فرماتے تھے کہ آپ آخوند محمد صاحب کے پاس جاؤ کہ وہ مجھ سے زیادہ وضاحت سے  تمہیں جواب دینگے۔

  سوال: آخوند صاحب کی زندگی میں اگر کوئی واقعہ پیش آیا ہو تو بیان کریں؟

 جواب : آخوند صاحب کو زندگی میں کوئی خاص پریشانی نہیں تھی۔تاہم ان کے بھائی کے طرف سے کچھ دکھ پونہچا ہے ۔کیونکہ جب یہ دونوں بھائی الگ ہوگئے تو ان کے بھائی نے وہ تمام کتابوں کو بھی تقسیم کر کے لے گئے جو آخوندصاحب کے تھیں،حالآنکہ وہ آخوند کی نسبت ان پڑھ تھا۔آخوند نے اصراربھی کیا کہ یہ کتابیں نہ لے جائیں لیکن وہ نہ مانے اور کتابیں لے ہی گیا۔اس کی اس روش پر آخوند صاحب کو رونا آیا۔اس واقعہ کے علاوہ کوئی دوسرا واقعہ مجھے یاد نہیں ہے۔

 سوال : غریب،یتیم اورمجبور لوگوں کے ساتھ مرحوم کا سلوک کیسا تھا؟۔

 جواب : مرحوم ایک عالم دین ہونے کے حوالے سے دلسوز تھے۔غریبوں کا خیال رکھتے ،یتیموں سے شفقت سے پیش آتے تھے۔

 سوال : یہاں کے مقامی لوگوں کا آخوند کے ساتھ کیسا سلوک تھا ؟۔کیا کسی نے کبھی ان کی بی عزّتی کی؟۔

 جواب : علاقے کے لوگ آخوند صاحب کا بہت احترام کرتے تھے۔کسی نے ان کی بی عزّتی نہیں کی ۔بلکہ بسا اوقات ہم لوگ انکے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ 

 سوال : کیا مذہب حقّہ کی ترویج میں کسی نے آخوند صاحب کے ساتھ مدد کی؟۔

 جواب :ہم سب نے تعاون کیا ہیں منجملہ مرحوم حسن ولد احمداور بعض دیگر سرکردگان نے ان کی پشت پناہی کی ہیں۔

 سوال :کیا آخوند صاحب کسی خاص بیماری میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے وہ انتقال کر گیا ہو ؟۔

 جواب : آخوند مرحوم طبیعی موت مرا ہے وہ کسی خاص بیماری میں مبتلا نہیں تھا۔

 سوال : آخوند مرحوم کی نماز جنازہ میں کتنے لوگوں نے شرکت کی؟

 جواب : سب لوگوں نے  لیکن آخوند صاحب کا فرزند جعفر کا کہنا ہے کہ آخوند صاحب کو سانس کی بیماری تھی اور اسی بیماری کی وجہ سے انتقال کرگیا تھا۔ حاجی حسین کے مطابق  آخری ایام  میں آخوند محمد  کے چہرے  اور پیروں میں سوجن رہتی تھی ۔وہ آخری  دنوں میں  پیشاب کی تکلیف  میں  مبتلا تھے اور اسی وجہ سے اس دار فانی سے انتقال کر گئے ہیں۔

 آخوند صاحب کی عبادت اورشب بیداریاں:

 حاجی حیدر بار بار کہا کرتا ہے کہ :آخوند محمد مرحوم واجبات کے علاوہ مستحبات کو بھی بہت اہمیّت دیتے تھے۔اور سال کے مخصوص ایام اورراتوں کے اعمال مستحبّہ کو بجالاتے تھے ۔چنانچہ وہ  رمضان المبارک کے شبہائے قدر کے علاوہ،۱۸ ذی الحجہ،۱۵ شعبان المعظم ،۲۴ ذالحجہ، ۱۰ محرّم الحرام کی راتوں میں بھی شب بیداری کیا کرتے تھے ۔

آپ کو بہت سی دعائیں زبانی یاد تھی ۔اور ان کاورد کرتے رہتے تھے۔وہ معمولاً دعائے کمیل،دعائے صباح ،دعائے مجیر ،دعائے جوشن کبیر پڑھا کرتے تھے۔حاجی حیدر    کے مطابق آخند مرحوم مستجاب الدعوۃ بھی تھے۔ 

حاجی حید ر کہتا ہے :میں  خود آخوند صاحب کی دعا اور تعویذ کے اثرسے  پیدا ہوا  ہوں   ۔قوم ِالغوڈپا جو آخوندمرحوم کے رشتہ دار بھی تھی۔ آخوند   کو ستاتی رہتی تھی ۔آخرکارآخوند کی آہ کے نتیجہ میں ان کے تمام محصولات آگ کے نذر ہو گئی جسے وہ راگ میں بدل گئیں  ۔

آخوند محمد مرحوم کی اولاد :

آخوند محمد کی شادی فاطمہ دخترِ ایپہ  کے ساتھ ہوئی جس کے نتیجے میں ان کے ہاں دوبیٹے اور چار بیٹیاں پیداہوئیں :آخوند موسی ،آخوند جعفر ،بیجن سکینہ ،کریمہ ،زوبی ۔آخوند موسی کے دو اولاد ذکور ہیں آخوند فضل علی اور آخوند غلام ۔اول الذکر  نے سید جعفر شاہ سے کسب فیض کیاہے ۔وہ ایک زمانے میں بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتے رہے اور بہت سے بچے اور بچیوں نے ان کے پاس قرآن پاک ختم کر لیا ۔

آخوند فضل علی صاحب  عرصہ ٔدراز سے محرم الحرام اور دوسرے مناسبتوں میں مجلس عزا بھی احسن طریقے سے پڑھتا ہے ،ان کی آواز میں سوز وگداز ہے ،ان کے اندازِ بیان میں ایک خاص میٹھاس ہے ،وہ کبھی گھنٹوں تک مجلس پڑھاتا رہتاہے اور عوام شوق سے سنتی ہیں ۔آخوند نمازِ جمعہ وجماعت بھی اقامہ کرتا ہے ۔خوش خلق اور مزاح طبع کا شخص ہے ۔کندوس کے ہر چھوٹے بڑے  آخوندصاحب کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔

آخوند موصوف مرثیہ اور قصیدہ بھی خوبصورت طریقہ سے پڑھتا ہے ۔آخوند بہت متواضع شخص ہے وہ اپنے گھر کے چھوٹے بڑے کام خود انجام دیتے ہیں۔

آخوند غلام نے بھی پرائمری تعلیم کے علاوہ قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے وہ فوجی ریٹائرد بھی ہے ۔نہایت متین ،سنجیدہ اور صبر وحوصلہ کا مالک شخص ہے ۔ان دو بھائیوں میں سے ہر ایک کےہاں کئی اولاد ذکور اناث پیدا ہوئی ہیں ۔

آخوند محمد کے دوسرے بیٹےجعفر کو پہلی بیوی سے ایک لڑکا عون علی پیدا ہوا ۔اور دوسری بیوی سے ایک لڑکی پیداہوئی ۔

آخوند محمد مرحوم کے بھائی آخوند حسین ہیں وہ بھی پڑھا لکھا تھا ۔ان کی اولاد میں حیدر علی ،مریم وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔

آخوند محمد کی بیٹیوں میں سے زوبی کے علاوہ باقی سب کی اولادہیں ۔

۔بیجن : اپور جوجور  حلیم  سے  مہدی ،خدیجہ ،محمد اور روقی پیدا ہوئی ۔

سکینہ : کو حاجی حیدر بگے سے غلام علی  ،محمد حسین ،شیخ ابراہیم اور صفیہ پیدا ہوئی ۔

کریمہ : اس کو  حاجی ابراہیم ولد عبدوا تھنگ سے محمد علی ،خادم ،نبی ،حسن وغیرہ پیدا ہوئے ۔

زوبی : اس  کو اپو بغتہ سے کوئی اولاد  نہیں ہوئی ۔

——–

1. حاجی حیدر سے گفتگو ہسپتال ایریا سکردو ۲۰۰۷ء ۔

2. حاجی حیدر ۔۱۸؍۸؍۲۰۱۳ء۔کندوس چھغوگرونگ ۔

3. حاجی ممتاز حسین پدرِ شیخ سجاد حسین صاحب  سے گفتگو مورخہ ۲۷؍۴؍۲۰۱۳ء۔نیز حاجی حیدر سے گفتگو سکردو ہسپتال ایریا ۲۰۰۷ء ۔

4. حاجی حیدر اور آخند جعفر پسرِ آخوند محمد سے گفتگو ۱۸؍۸؍۲۰۱۳ء۔

5. حاجی صاحب  نے مارچ ۲۰۱۵ میں وفات پائی ۔ حالت احتضار میں بھی خدا اور محمدوآل محمد  کو یاد کررہے تھے  ۔وہ مولا علی ؑ کی مدح  میں قصیدہ پرھتے ہوئے وفات پاگئے ۔خدا ان کو محمد وآل محمد کے ساتھ محشور فرمائے ۔

6. حاجی حیدر سے انٹریو ۔۱۸؍۸؍۲۰۱۳ء۔کندوس چھغوگرونگ۔

7. حاجی حیدرسے گفتگو،سکردوہسپتال ایریا۲۰۰۷ء۔

8. حاجی ممتاز حسین ولد حلیم بگے والے سے گفتگو۔مورخہ ۲۷؍۴؍۲۰۱۳ء۔

9. حاجی حیدر ۱۸؍۸؍۲۰۱۳ء۔کندوس ۔

10. حاجی حیدر سے گفتگو سکردو ہسپتال ایریا ۔۲۰۰۷ء۔

11. علی ولد حلیم سے گفتگو مورخہ ۸؍۵؍۲۰۱۳۔سکردو۔

12. انٹریو  لینے والا شیخ ابراہیم ولد حاجی حیدر بگے والا ۔اپو حاجی حسین نقلفو  آخوند محمد کے شاگردوں  میں بھی شمار ہوتا ہے ۔

13. یہ انٹریو شیخ ابراہیم بہشتی صاحب نے آخوند محمد مرحوم کے ایک شاگرد حاج حسین عرف نقلفو سے کیا ہے ۔

14. حاجی حسین صاحب عرف نقلفو سے انٹریو،شخمہ کندوس ۔۲۷؍۵؍۲۰۱۳ء۔

15. اخوند جعفر ولد آخوند محمد کندوس ۲۰۱۳۔

16. حاجی حیدر سے انتریوکندوس چھغوگرونگ مورخہ ۱۸؍۸؍۲۰۱۳ء۔

17. حاجی حیدر سے انتریوکندوس چھغوگرونگ مورخہ ۱۸؍۸؍۲۰۱۳ء۔

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *