تازہ ترین

عراق، صوبہ صلاح الدین میں تکفیری دہشتگردوں کیخلاف بڑا آپریشن شروع، اعلٰی سطحی کمانڈرز سمیت 180 سے زائد دہشتگرد ہلاک

عراق میں عالمی استعماری قوتوں کے حمایت یافتہ تکفیری دہشت گرد عناصر اور سابق بعث پارٹی سے وابستہ صدام حسین کی باقیات کے خلاف عراق آرمی اور سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے۔ عراق میں مغربی، عربی، صہیونی اور ترکی سازش کے تحت تکفیری دہشت گرد عناصر کے ذریعے معرض وجود میں آنے والا سکیورٹی بحران تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔

شئیر
30 بازدید
مطالب کا کوڈ: 418

گذشتہ دو روز کے دوران عراق کے تین صوبوں الانبار، صلاح الدین اور نینوا میں آرمی اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 180 سے زائد تکفیری دہشت گرد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ان کی 55 فوجی گاڑیاں بھی تباہ کر دی گئی ہیں۔ ان گاڑیوں پر بھاری اسلحہ نصب کیا گیا تھا۔ تباہ ہونے والی 21 گاڑیوں پر سعودی عرب کی نمبر پلیٹس لگی ہوئی تھیں۔

موصولہ رپورٹس کے مطابق عراق اور شام کی سرحد پر واقع علاقے راوہ، عانہ، الولید اور شہر قائم کا بڑا حصہ عراق آرمی کی فوجی کارروائی کے نتیجے میں تکفیری دہشت گرد عناصر سے آزاد کروا لئے گئے ہیں۔ اس کارروائی میں دسیوں تکفیری دہشت گرد عناصر کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ اسی طرح عراق ایئرفورس نے صحرای جلام اور موصل میں واقع تکفیری دہشت گرد عناصر کے اڈوں کو نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں یہ اڈے مکمل طور پر تباہ اور داعش کے ایک اعلٰی سطحی کمانڈر سمیت 40 دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں۔ اس حملے میں تکفیری دہشت گردوں کی 8 فوجی گاڑیاں بھی تباہ کر دی گئی ہیں جن پر مشین گنیں اور اینٹی ایئرکرافٹ گنیں نصب کی گئی تھیں۔ شام ٹی وی کی رپورٹر نادیہ عبیدی نے بغداد سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ عراق آرمی اور سکیورٹی فورسز نے شام کے ساتھ عراق کے سرحدی علاقوں وادی حوران، قائم، رطبہ، دملق، راوہ اور عانہ میں 6 گھنٹے کے آپریشن کے دوران 86 تکفیری دہشت گرد عناصر کو ہلاک کر دیا ہے جبکہ ان کے پاس موجود 33 فوجی گاڑیاں بھی تباہ کر دی ہیں۔

دوسری طرف عراق ایئرفورس نے تکریت کے علاقے یثرب میں موجود تکفیری دہشت گردوں کے اڈے اور موصل میں انٹیلی جنس ادارے سے وابستہ ایک قدیمی عمارت کو بھی اپنے حملے کا نشانہ بنایا ہے۔ ان حملوں میں 54 تکفیری دہشت گرد ہلاک ہوگئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں آئی ایس آئی ایس یا داعش کا ایک اعلٰی سطحی کمانڈر “حسام صدام” اور اس کے 10 قریبی ساتھی بھی شامل ہے۔

صوبہ صلاح الدین میں بڑے فوجی آپریشن کا آغاز:
برطانوی نیوز چینل اسکائی نیوز کے مطابق عراق آرمی اور سکیورٹی فورسز نے بغداد سامراء ہائی وے کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کیلئے صوبہ صلاح الدین میں ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کر دیا ہے۔ دوسری طرف عراق آرمی کے ترجمان جنرل قاسم عطا نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ 25 جون کو آرمی نے صوبہ صلاح الدین میں کارروائی کرتے ہوئے 45 تکفیری دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے جن میں 8 بعث پارٹی سے وابستہ عراق کے سابق فوجی کمانڈرز بھی شامل ہیں۔ اسی طرح اس حملے میں تکفیری دہشت گردوں کی 5 فوجی گاڑیاں بھی تباہ کر دی گئی ہیں۔ جنرل قاسم عطا نے بتایا کہ یہ حملہ بیجی میں واقع آئل ریفائنری کو محفوظ بنانے کیلئے کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بیجی کی آئل ریفائنری مکمل طور پر عراق آرمی اور سکیورٹی فورسز کے کنٹرول میں ہے۔

اسی طرح السومریہ نیوز کے مطابق عراق کی اینٹی ٹیروریزم فورسز نے 25 جون کو اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے نائب اور بھائی کا فوجی اڈہ عراق ایئرفورس کے حملوں کا نشانہ بنا ہے، جس میں کم از کم 12 تکفیری دہشت گردوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے تین کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ تازہ ترین موصولہ رپورٹ کے مطابق ٹی وی نیوز چینل العراقیہ نے خبر دی ہے کہ عراق ایئرفورس نے تکریت شہر کے مغرب میں تکفیری دہشت گردوں کے ایک فوجی کاروان پر حملہ کیا ہے جس میں ان کی 100 سے زائد فوجی گاڑیاں مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہیں۔ ہلاک ہونے والے تکفیری دہشت گردوں کی تعداد کے بارے میں تفصیلات ابھی تک موصول نہیں ہوئیں۔

عراق کے معروف مصنف اور سیاسی تجزیہ نگار احمد ہاتف نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ، سعودی عرب، قطر اور ترکی کی جانب سے عراق کے خلاف موجودہ منحوس سازش کا مقابلہ تہران سے لے کر بیروت تک اسلامی مزاحمتی بلاک کو متحد کرکے کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کام میں روس اور چین کی مدد بھی حاصل کرنی چاہئے اور امریکہ سے دوری اختیار کرتے ہوئے عراق اور امریکہ کے درمیان منعقدہ اسٹریٹجک معاہدے کو ختم کر دینا چاہئے۔ احمد ہاتف نے کہا کہ یہ اسٹریٹجک معاہدہ کسی کام کا نہیں اور شروع سے ہی اس معاہدے کا بے فائدہ ہونا سب پر اچھی طرح عیاں تھا۔ انہوں نے کہا اس معاہدے سے عراق کو نہ صرف کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا بلکہ الٹا نقصان ہوا ہے اور اس کا نتیجہ دہشت گردی میں اضافے اور عراقیوں کے درمیان اختلافات جنم لینے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *