شخصیت پرستی .. ایک مہلک بیماری!/ تحریر: محمد حسن جمالی
پوری دنیا میں لوگ اپنی علمی شخصیات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، وہ ان کی تعظیم کرتے ہیں، ان کو ملت کا سرمایہ سمجھتے ہیں، اپنی علمی مسائل اور مشکلات کے حل کے لئے ان کے مرجع ہونے کا وہ عقیدہ رکھتے ہیں، یوں عوام اور خواص کے دلوں میں ان کا ایک خاص مقام ہوتا ہے اور لوگ اپنی عملی زندگی کے مختلف میدانوں میں ان شخصیات کی زندگی کو اپنے لئے آئیڈیل قرار دینے کی تگ ودو کرتے رہتے ہیں ـ یہ سوچ نہ فقط قابل مزمت نہیں بلکہ لائق داد وتحسین ہے، جس سے قوموں کو کمالات کی جانب پڑھنے میں مدد ملتی ہے، بلندی کی طرف پرواز کرنے کے لئے توانائی ملتی ہے، اچھے لوگوں کی ہمنشینی نصیب ہوتی ہے اور وہ انسانیت کی تکریم کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہوتے ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ لوگ شخصیات سے متاثر ہوکر ان کو ہی سب کچھ سمجھنے لگ جائیں تو پھر ان کا زوال شروع ہونا قطعی ہے ـ

شخصیت پرستی خطرناک مہلک بیماری ہے، کیونکہ یہ سوچ وبچار تفکر اور تعقل کی راہیں مسدود کرتی ہیں ،انسان کو اندہی تقلید کے تاریک کنویں میں گرادیتی ہے ، اسے منصفانہ قضاوت کرنے سے روک دیتی ہے ،اسے غفلت کی نیند میں سلادیتی ہے، دوسروں کے علم معلومات اور تجربات کے حصول سے محروم کردیتی ہے، خود بینی اور خود خواہی کی منفی صفات انسان میں پروان چڑھادتیی ہے، تکبر عجب جیسے روحانی امراض میں اسے مبتلاکردیتی ہے ـ
آج پاکستان میں خواص عوام سے کہیں ذیادہ اس مرض میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں ـ آپ پاکستان کے تعلیمی اداروں کا سروے کرکے دیکھ لیں آپ کو اکثر جگہوں پر اساتذہ اور سٹوڈنس شخصیت پرستی کی بیماری میں مبتلا نظر آئیں گے ـ وہ کسی نہ کسی علمی شخصیت سے متاثر ہوکر اسی کی مدح اور تعریف کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کررکھی ہوتی ہیں ،صبح شام ان کی زبان پر اسی کا ہی تذکرہ جاری رہتا ہے، اسی کی باتوں کو وہ حرف آخر سمجھتے ہیں، علمی سیاسی اور سماجی موضوعات میں اسی کے تجزیہ وتحلیل کو وہ من وعن قبول کرتے ہیں ، نظریاتی میدان میں وہ بغیر کسی تحقیق کے اسی کے نظرئیے کو مبنی بر صداقت جان کر تسلیم کرتے ہیں اور اس کے مقابل والے نظریات کو ٹھکرانے میں دیر نہیں لگاتےـ
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر کچھ مدارس ایسے ابھر رہے ہیں کہ جن میں پڑھنے والے طلباء ایک دوسال ان میں وقت گزارنے کے بعد شخصیت پرستی کا مجسم بن کر نمایاں ہوجاتے ہیں ـ جس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان مدارس میں طلباء کو فقط علوم کا ذائقہ چکھاتے ہیں، وہ ان کو مختلف علوم کا خلاصہ پڑھاکر ان کی علمی پیاس بجھانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ـ منطق ،اصول فقہ، ادبیات وغیرہ کا مختصر دورہ کرواکر انہیں آگے لے جاتے ہیں، در نتیجہ ان میں کسی قسم کی علمی پختگی پیدا نہیں ہوتی، وہ علمی مسائل کو سمجھ کر ان پر برھان کے ذریعے تجزیہ وتحلیل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں لہذا وہ اپنی پسندیدہ شخصیت کی آنکھیں بند کرکے تقلید کرنے میں ہی اپنی عافیت تلاش کرتے ہوئے اسی کے نظریات کا پرچار کرتے ہیں ، اسی کی تقریروں کا رٹا لگاکر اسی کے لب ولہجے میں محفلوں اور مجلسوں کو گرمانے کی کوشش کرتے ہیں ، فکری اور نظریاتی طور پر وہ اسی کے غلام مطلق بن جاتے ہیں ـ ظاہر سی بات ہے نظریاتی انسان فقط دوسال مدارس میں پڑھنے سے نہیں بن جایا کرتا، اس کے لئے انسان کو اپنے اندر علمی ٹھوس قابلیت پیدا کرنا ضروری ہےـ اس کے لئے علمی بنیاد مستحکم ہونا لازم ہےـ
لہذا ہماری نظر میں شارٹ کورس کرکے یا مختصر نصاب پڑھ کر دو تین سال کے بعد جاکر معاشرے میں دینی خدمات سرانجام دینے کا قصد رکھنے والے نیم ملا خطرہ ایمان کا مصداق کامل ہیں اور بہت بڑا اشتباہ ـ تعجب کی بات یہ ہے کہ حوزے میں ۲۵، تیس سال پر محیط وقت علمی تحصیل میں گزارنے والے پاکستان جاکر طلباء کی علمی بنیادیں اچھی طرح مضبوط اور پختہ کرنے کے بجائے اپنے لیکچرز اور تقریروں سے متاثر کرکے دو تین سال میں مبلغ بناکر وارد معاشرہ کرنا چاہتے ہیں آج کل ایک پرائمری اسکول میں بطور ٹیچر پڑھانے والوں کے لئے بھی کم از کم میٹرک پاس ہونا ضروری ہے کیا ایک دینی مبلغ کی ذمہ داری پرائمری اسکول کے ٹیچر کی ذمہ داری سے کم ہے؟ ہمارے شفیق استاد آقای فدا مطہری حفظہ اللہ کی زبان سے بارہا یہ جملہ کلاس میں ہمیں سننے کو ملا ہے کہ ایک مبلغ دین کے لئے بھی اجتہادی صلاحیت کا مالک ہونا ضروری ہے ـ استاد محترم کے اس جملے میں بڑا وزن ہے ،لیکن اس کا اندازہ فقط انہی افراد کو ہوگا جو غور وخوض کی عادت رکھتے ہیں ـ
شخصیت پرستی کی بیماری فقط تعلیمی درسگاہوں کی حد تک محدود نہیں بلکہ سیاست میں بھی پوری طرح یہ سرایت کرچکی ہے، اس حوالے سے ہم مرزا شہباز حسنین بیگ کے کالم سے ایک اہم اقتباس یہاں نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں: مذہب کے بعد یہی شخصیت پرستی سیاست میں بھی آ چکی ہے۔ہر سیاسی جماعت کا کارکن اپنے رہنما کی ہر قسم کی بونگیوں کا دفاع کرنا عین فرض سمجھتا ہے۔کوئی کارکن اپنی عقل کو استعمال کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔جبکہ فقط اتنی معمولی بات سمجھنے سے نجانے کیوں قاصر ہے ۔کہ لیڈر بھی محض انسان ہے فرشتہ ہر گز نہیں ۔غلطی کبھی بھی کسی سے بھی سر زد ہو سکتی ہے۔مگر یہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار شخصیت پرستی کے اس حد تک شکار ہیں کہ اپنے اپنے رہنماؤں کی ہر خطا کا دفاع کرتے وقت اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں،اور رہنما ان جاہلوں کے دست و گریباں ہونے سے لطف اٹھاتے ہیں ۔بنیادی اصول تو یہی ہے کہ اگر کسی اکابر سے غلطی سرزد ہو جائے تو اس کو تسلیم کر لینا چاہیے ۔مگر یہاں اس غلطی کو غلطی تسلیم کرنے کی بجائے شخصیت پرستی کے اسیر اپنی تمام توانائیاں اس غلطی کی تاویلات تلاش کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں صَرف کردیتے ہیں ۔
شخصیت پرستی نے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔شخصیت پرستی کے فروغ میں معاشی مفادات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔معاشی اور سماجی مفادات کے حصول کے لیے سرگرم کچھ لوگ شخصیات کو ماورائی مخلوق بنا کر پیش کرتے ہیں ۔شخصیت پرستی نے معاشرے کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو زنگ آلود کر دیا ہے۔ہمارے معاشرے میں بہتری کیسے ممکن ہے ؟ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کیوں قرار دیا۔انسان اور دوسری مخلوقات میں بنیادی فرق عقل ہے۔خدا نے انسان کو آگاہ کیا کہ ہم نے تم کو عقل سلیم اور شعور سے نوازا ۔چنانچہ خدا کی عطاء کردہ نعمت یعنی عقل کو استعمال کرنے میں ہرگز کوئی مضائقہ نہیں ۔شخصیات کے فرمودات کو حرف آخر ماننے کی بجائے قدرت کی عطا کردہ عقل کو استعمال میں لایا جائے ۔ انسانی ذہن پر اثرانداز ہونے والی بنیادی چیز دلیل ہے ۔دلیل اور منطق کی بنیاد پر استدلال کرنے میں ہی ہم سب کی فلاح اور بقاء کا راز پوشیدہ ہے۔ بے شک شخصیت پرستی ایک مہلک بیماری ہے
دیدگاهتان را بنویسید