شیخ طوسی رہ کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر/ تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
شیخ طوسی رہ کی ولادت
پانچویں صدی ہجری کے نامور متکلم، فقیہ، مفسّر، عظیم محدث ، شیخ اعظم، شیخ الطائفہ، شیخ ابو جعفر محمد بن حسن بن علی بن حسن طوسی ماہ مبارک رمضان سنہ ۳۸۵ قمری کو امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کے جوارشہر خراسان میں متولد ہوئے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی یہاں تک کہ اپنی نوجوانی کا زمانہ بھی طوس میں ہی بسر کیا۔آپ کی کنیت ابو جعفر ہے اور کبھی کبھار آپ کو شیخ کلینی اورشیخ صدوق کے مقابلے میں چونکہ ان کی کنیت بھی ابو جعفر ہیں آپ کو ابوجعفر ثالث کہا جاتا ہے۔
بغداد کی طرف ہجرت
شیخ طوسی رہ سنہ ۴۰۸ ہجری قمری کو ۲۳ سال کی عمر میں اس عصر کےبزرگ اساتید جیسے شیخ مفید ،سید مرتضی وغیرہ سے علوم اور کسب فیض حاصل کرنے کے لئے بغداد تشریف لےگئے۔انہوں نے پانچ سال تک شیخ مفید کی شاگردی کا شرف حاصل کیا اسی دوران وہ اپنے استاد کا توجہ اپنی طرف جلب کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ آپ شیخ مفید کے علاوہ حسین بن عبداللہ غضائری و نیز ابن حاشر بزاز، ابن ابی جید اور ابن الصلت کے شاگرد بھی رہے ہیں۔ شیخ طوسی شیخ مفید کی( ۴۱۳ سال قمری ) رحلت کے بعد ان کے برجستہ ترین شاگرد سید مرتضی کے درس میں حاضر ہوئے کیونکہ شیخ مفید کی رحلت کے بعد شیعیان جہان کے دینی اور علمی زعامت سید مرتضی کی طرف منتقل ہوگئے تھے ۔ انہوں نے اسی سال سے سنہ ۴۳۶ قمری تک یعنی ۲۳ سال سید مرتضی کے علم بیکراں جیسے کلام ،تفسیر،لغت اور دیگرادبی علوم، فقہ ،اصول فقہ وغیرہ سے فیضیاب ہوتے رہے اور ان کے خاص شاگردوں میں شمار ہوتے تھے، چنانچہ سید مرتضی دوسرے شاگردوں کی بہ نسبت ان کی طرف زیادہ توجہ دیتے تھے۔سید مرتضی کی وفات کے بعد، شیخ طوسی نے شیعوں کی زعامت کی عظیم ذمہ داری سنبھالی اور بغداد میں تدریس اور تالیف کے علاوہ اعتقادی اور فقہی شبہات سے متعلق سوالات کا جواب دینے میں مشغول ہوئے
شیخ طوسی رہ کی ذاتی نبوغ اور حیران کن استعداد اورمسلسل علمی جد وجہد کی وجہ سے انہوں نے مختلف علمی مدارج کو بڑی تیزی سے طے کیا اور جوانی کے ایام میں ہی درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ وہ بہت ہی کم عرصہ میں حوزہ بغداد کے نامور افرادمیں شامل ہوگئے اور اپنے اساتید شیخ مفید اور سید مرتضی کے بعد علم و عمل کے میدان کے تنہا شہسوار بنے۔ شیخ طوسی نے علم فقہ کے تمام ابواب میں کتابیں تألیف کی ہیں اور ہر شعبے میں انکی کتابیں متأخرین کیلئے مرجع علمی ہوا کرتی تھی کیونکہ ان سے پہلے موجود بہت سارے منابع کرخ میں شاپور لائبریری کی آگ لگنے کے وقت جل کر راکھ ہو گئی تھیں۔
شیخ طوسی رہ کی کم نظیرعلمی عظمت کی وجہ سے بہت عرصہ تک شیعہ فقہاء ان کے دیدگاہ سے متاثر رہے یہاں تک کہ وہ شیخ طوسی کی رحلت کے بعد سو سال تک ان کے مقلد تھے اور ان کی فتوا اورنظریے کے مطابق ہی فتوا دیتے تھے۔ آپ کتب اربعہ میں سے دو کتابوں، تہذیب الاحکام اور الاستبصار کے مؤلف ہیں۔
شیخ طوسی رہ نے مشہور کتاب ” تہذیب الاحکام”کو جوانی میں ہی تالیف کیا ہے۔ اور یہ بذات خود ان کی جوانی میں اجتہاد کے درجہ پر فائز ہونے کی ایک محکم دلیل ہے۔بہت سے محققین شیخ طوسی کو، اسلامی ثقافت و تمدن میں تشیّع کے آئین اور لائحہ عمل کو تدوین کرنے والا سمجھتے ہیں۔علامہ حلّی رہ اس حوالے سے فرماتے ہیں:
شیخ طوسی رہ شیعہ دانشوروں کے پیشوا، رئیس طائفہ امامیہ، علوم اخبار، رجال، فقہ، اصول، کلام اور ادب میں صاحب نظر تھے۔ انھوں نے شیعہ عقائد کو اس کے اصول و فروع میں طبقہ بندی کرکے اس کی اصلاح کی ہے۔
نجف اشرف کی طرف ہجرت
پانچویں صدی قمری کی ابتدائی سالوں میں جب سلجوقی ترکیوں نے بغداد فتح کیا اور سنہ ۴۴۷ میں طغرل بیک سلجوقی( جو ایک متعصب سنی تھا) بغداد میں آئے اور اس نے شاپور لائبریری کو جلا ڈالا۔ اس نےنے بغداد پر قابض ہو کرآل بویہ کے خاندان کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا چاہا۔ طغرل بیک نے ۴۴۹ قمری تک کئی مرتبہ شیخ طوسی کی کتابوں کو ملا عام میں جلایا۔ اس قسم کے اذیت و آزار باعث بنا کہ بغداد میں اہل تشیع کا علمی مرکز کمزور اور ختم ہو جائے اور یہی چیز شیخ طوسی کا نجف اشرف کی ہجرت کرنے کا بھی باعث بنا ۔ابن جوزی کہتے ہیں انہی حوادث کے دوران شیخ طوسی بغداد سے چلے گئے اور سنہ ۴۴۹ میں آپ کا گھر مسمار کیا گیا۔ اس کے بعد آپ نجف اشرف چلے گئے اورحوزہ علمیہ نجف کی بنیاد رکھی اگرچہ کہا جاتا ہے کہ یہ حوزہ ان سے قبل بھی موجود تھا۔
نجف اشرف اس زمانے میں ایک چھوٹا سا محلہ تھا جس میں صرف امام علی علیہ السلام کے بعض زائر زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ کےنجف اشرف میں تشریف لانے کے بعد آپ کے بہت سارے شاگرد اور دیگر علماء نے بھی نجف اشرف کا رخ کرنا شروع کیا۔
شیخ طوسی اپنے کتابخانہ اور قلمی نسخوں کو آتش سوزی میں کھوچکے تھے اس لئے وہ اپنی باقی ماندہ زندگی سے پورا پورا استفادہ کرنے کے لئے بیشتر سنجیدگی کے ساتھ علوم اسلامی کے بارے میں تحقیق و تدریس میں لگ گئے۔ نجف اشرف کے علمی مرکز کے وجود کو شیخ طوسی جیسے استاد کی موجودگی نے اس قدر اہمیت بخشی کہ، صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس وقت اس کی پائیداری اور استحکام مشہود ہے۔شیخ طوسی رہ دوسرے اسلامی علوم جیسے رجال، کلام اور اصول فقہ وغیرہ میں بھی صاحب نظر تھے اور ان علوم میں بھی ان کی کتابیں کافی شہرت کی حامل ہیں۔ انہوں نے شیعوں کے طریقہ اجتہاد میں ایک تحول ایجاد کیا اور اس کے مباحث کو وسعت دی اور اہل سنت کے اجتہاد کے مقابلے میں اسے الگ تشخص اور استقلال عطا کیا۔
شیخ طوسی رہ کے اساتید
شیخ طوسی رہ کے اساتید بہت زیادہ ہیں اوربعض نے ۳۷ تک کا ذکر کیا ہے جن میں سے مہمترین اساتید درج ذیل ہیں:
۱۔ابن الحاشر
۲۔ابن عبدون
۳۔ابن صلت اہوازی
۴۔ابن الغضائری
۵۔شیخ مفید
۶۔سید مرتضی
۷۔ابن صفار
۸۔ابو طالب بن غرور
۹۔قاضی ابو طیب حویری۔
شیخ طوسی رہ کے شاگرد
شیخ طوسی کوبہت زیادہ شاگرد وں کی تربیت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی جن میں کئی سو افراد علمائے اہل سنت تھے جنہوں نے ان سے علمی استفادہ کیا ہے۔ ان کے بعض شاگرد حسب ذیل ہیں:
۱۔سید ناصر بن رضا حسینی
۲۔شہید شیخ محمد ابن قتال نیشاپوری
۳۔شیخ ابو فتح محمد کراجکی
۴۔شیخ بوخیر برکہ اسدی
۵۔شیخ حسن بن حسین بن بابویہ قمی
۶۔شیخ حسن بن مظفر حمدانی
۷۔شیخ حسن بن مہدی سلیقی
۸۔شیخ حسین بن فتح واعظ جرجانی
۹۔شیخ سعد الدین بن براج
۱۰۔ آدم بن یونس بن ابی مہاجر نسفی
۱۱۔ احمد بن حسین خزاعی نیشابوری
۱۲۔عبدالجبار بن عبداللہ مقرری رازی
۱۳۔ابو عبداللہ حسین بن مظفر ابن علی حمدانی
۱۴۔قاضی ابن برّاج طرابلسی
۱۵۔ابن شہر آشوب مازندرانی
۱۶۔جمال الدین محمد بن ابوالقاسم طبری آملی۔
۱۷۔شیخ محمد بن علی طبری
۱۸۔شیخ منصور بن حسن آبی
شیخ طوسی رہ کے آثار
شیخ طوسی رہ کے تمام علوم جیسے حدیث ،رجال،فقہ ،اصول فقہ،تفسیر وغیرہ میں بہت ہی قیمتی آثار پائے جاتے ہیں۔ قزوینی رازی ان کی تالیفات، مختلف علمی موضوعات پر دوسو جلد کتابیں بتاتے ہیں۔ ہم ان کی بعض مشہور کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ تہذیب الاحکام
۲۔الاستبصار فیما اختلف من الاخبار
۳۔کتاب آمالی
۴۔الابواب:یہ کتاب رجال شیخ طوسی کے نام سے مشہور ہے۔
۵۔الفہرست
۶۔اختیار معرفۃ الرجال
۷۔التبیان فی تفسیر القرآن
۸۔المسائل الدمشقیہ فی تفسیر القرآن
۹۔المسائل الرجبیہ فی تفسیر آیہ من القرآن
۱۰۔النہایہ فی مجرد الفقہ و الفتوی
۱۱۔ المبسوط فی الفقہ
۱۲۔الجمل و العقود فی العبادات
۱۳۔ الخلاف فی الاحکام
۱۴۔الایجاز فی الفرائض
۱۵۔مناسک الحج فی مجرد العمل
۱۶۔المسائل الحلبیہ فی الفقہ
۱۷۔المسائل الجبنبلائیہ فی الفقہ
۱۸۔المسائل الحائریہ فی الفقہ
۱۹۔مسالۃ فی العمل بخبر واحد و بیان حجیۃ الاخبار
۲۰۔تلخیص الشافعی فی الامہ
۲۱۔تمہید الاصول
۲۲۔الاقتصاد الہادی الی طریق الرشاد
۲۳۔المفضح فی الامامۃ
۲۴۔ما یعلل و ما لا یعلل
۲۵ الغیبۃ
۲۶۔مصباح المتجہد و سلاح المتعبد
۲۷۔انس الوحید
۲۸۔ہدایۃ المسترشد و بصیرۃ المتعبد فی الادعیہ و العبادات
۲۹۔ النہایہ
۳۰۔عدۃ الاصول
۳۱۔تلخیص الشافی
شیخ طوسی رہ بزرگان کی نظر میں
شیخ طوسی رہ کی ذاتی خصوصیات کے بارے میں ہم صرف بعض بزرگان کے کلام کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
علامہ حلی)متوفی 726)
علامہ حلی رہ فرماتے ہیں : شیخ طوسی شیعہ امامیہ مذہب کے دانشمندوں کے پیشوا ،سرادر اورقابل اعتماد عالم دین تھے ۔ وہ علوم حدیث،رجال،فقہ، ادب ، اصول اور کلام میں صاحب نظر تھے ۔ انھوں نے شیعہ عقائد کو اس کے اصول و فروع میں طبقہ بندی کرکے اس کی اصلاح کی ہےاسی لئے تمام فضیلتیں اسی کے ساتھ منسوب ہیں۔
علامہ بحر العلوم رہ
علامہ بحر العلوم رہ فرماتے ہیں:شیخ طوسی ائمہ معصومین علیہم السلام کے بعد شیعہ مذہب کے موسس ،علمبردار اور تکیہ گاہ تھے۔
شیخ نجاشی رہ(متوفی 450ھ ق)
شیخ نجاشی رہ فرماتے ہیں :وہ امامیہ علماء میں سے اور ہمارے زمانہ کے قابل اعتماد اور سرشناس شخصیت ہیں ۔وہ ہمارے استاد شیخ مفیدکے شاگردوں میں سے تھے۔ان کی بہت زیاد ہ تالیفات ہیں جن میں سے ایک کتاب تہذیب اللاحکام ہے جو بہت عظیم کتاب ہے اور دوسرا الاستبصار ہے۔
خواجہ نصیر الدین طوسی رہ
خواجہ نصیر الدین طوسی رہ فرماتے ہیں:شیخ طوسی راتوں کو مسلسل بیدار اورمطالعہ میں محو رہتے تھے۔وہ اپنے پاس بہت زیادہ کتابیں رکھتے تھے جب ایک موضوع کا مطالعہ کر کے تھک جاتے تو دوسرے موضوع کا مطالعہ شروع کرتے تھے۔وہ ہمیشہ اپنے پاس پانی کا ایک برتن رکھتے تھے تا کہ اس کے ذریعہ نیند سے چھٹکارا حاصل ہو اورزیاد ہ مطالعہ کرسکے۔جب سحر کے اوقات اکثر علمی مشکلات حل ہوجاتے تھے تو یہ کہتے تھے کہاں ہے بادشاہیں اور کہاں ہیں ان کے اولادیں جو اس عظیم لذت کو ذرا چکھ لیں۔یعنی ان کو یہ لذت ہر گز نصیب نہیں ہے۔
شیخ عبدالجلیل قزوینی رہ
شیخ عبدالجلیل قزوینی رہ کے بارے میں فرماتے ہیں: شیخ طوسی کا فضل و زہد اظہر من الشمس تھا۔
علامہ وحید بہبہانی رہ
علامہ وحید بہبہانی فرماتے ہیں:شیخ طوسی اپنے زمانے کے عظیم دانشمندوں میں سے تھے۔ میں نے اپنے اساتید سے بھی سناہے اور میں نے خود بھی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ شیخ طوسی کے درس میں تین سو سے زیادہ شیعہ و سنی مجتہد شرکت کیا کرتے تھے۔
آیۃ اللہ بروجردی رہ
آیۃ اللہ بروجردی شیخ طوسی کے اس قدر عظمت کے قائل تھے کہ جہاں بھی شیخ طوسی کافتوا موجود ہوتا وہ وہاں توقف اور احتیاط کیاکرتے تھے ۔وہ فرماتے تھے کہ اگر دلیل نہ ہوتے تو حتما شیخ طوسی فتوا نہ دیتے۔۔۔ بنابریں اگر شیخ طوسی کے مخالف فتوا دینا چاہتے تو احتیاط کیا کرتے تھے اور وہ شیخ طوسی کے فتوا اور کتابوں کو خاص اہمیت دیتے تھے۔
آقای خوئی رہ
آقای خوئی رہ فرماتے ہیں: میں نے اسلام کے نامور علماء میں شیخ طوسی کی شخصیت سے بالاتر کسی شخصیت کو نہیں دیکھا ہے۔ اگر انہیں شیخ الطائفہ کہا ہے تو واقعا یہی نام انہیں کو ہی ججتا ہے۔
امام خمینیرہ
امام خمینیرہ فرماتے ہیں:شیخ طوسی ۵۲ سال کی عمر میں بھی تحصیل علم کے درپے تھے درحالیکہ ۲۳ سال کی عمر میں انہوں نے بعض کتابیں تالیف کی ہے جن میں سے ایک کتاب الاستبصار ہے ۔وہ ۵۲ سال کی عمر میں بھی سید مرتضی کے درس میں حاضر ہوتے تھے جس کی وجہ انہیں یہ بلند و بالا علمی مقام حاصل ہوا ہے۔
شہید علامہ مرتضی مطہری رہ
شہید علامہ مرتضی مطہری فرماتے ہیں:شیخ بزرگوار ابو جعفر محمد بن الحسن طوسی جہان اسلام کے درخشان ستاروں میں سے تھے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دن تک دین اسلام کی خدمت کرتے ہوئے گزار دئیے۔ ان کا شمار اسلام کے طراز اول کے فقہاء میں ہوتا ہے۔انہیں اسلام کی کماحقہ شناخت حاصل تھی اس لئے عقل کے لئے بھی خاص احترام کے قائل تھے۔
خلاصہ یہ کہ شیخ طوسی، فقہ، اصول، حدیث، کلام، رجال، حدیث، تفسیر اور ادبیات میں متبحّر اور صاحب نظر تھے۔وہ گرچہ عرب زبان نہیں تھے، لیکن اپنے سرشار استعداد اور ذوق و شوق کے پیش نظر عربی ادبیات میں ایک بلند مقام حاصل کرچکے تھے جس کا جلوہ اُن کی گراں قیمت تفسیر” تبیان” میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
شیخ طوسی رہ کی رحلت
شیخ طوسی اپنے عمر کے آخری دن تک نجف اشرف میں رہے اوربہت سارے قیمتی علمی آثار یاد گار کے طور پر چھوڑکر دار بقای کی طرف چلے گئے۔ شیعہ فقہاء میں شیخ طوسی کو ایک خاص مقام حاصل ہے یہاں تک کہ انہیں شیخ الطائفہ یعنی فقہاء کا استاد کہا جاتا تھا۔ انہوں نے علم فقہ اور اصول میں مطلق اجتہاد کی بنیاد رکھی۔ علم فقہ میں جب بھی لفظ “شیخ” استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد شیخ طوسی ہوا کرتا ہے۔
آخر کار شیخ الطائفۃ ۷۶ سال کی عمر میں سوموار کی رات ۲۲ محرم سنہ ۴۶۰ قمری کو نجف اشرف میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق اپنے گھر میں ہی دفن کیا گیا جو مرور زمان مسجد میں تبدیل ہو گئے اور آج مسجد طوسی کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے شاگرد حسن بن مہدی سلیقی، حسن بن عبدالواحد عین زری اور ابوالحسن لولوی نے انہیں غسل دیا اور انکے گھر میں ہی انہیں سپرد خاک کیا گیا۔
حوالہ جات:
1. ابن شهر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، معالم العلماء، ص 114، نجف اشرف، منشورات المطبعه الحیدریه، 1380ق.
2. ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج 12، ص 97، بیروت، دار الفکر، 1407ق.
3. اسدار اسلام، شماره یکم.
4. اعیان الشیعه، ج 9، ص 159؛ موسوعه طبقات الفقهاء، ج 5، ص 279 – 280؛ فهرس التراث، ج 1، ص 525.
5. آقا بزرگ تهرانی، محمد محسن، الذریعه الی تصانیف الشیعه، ج 4، ص 504، قم، تهران، اسماعیلیان، کتابخانه اسلامیه، 1408ق.
6. آقا بزرگ تهرانی، محمد محسن، الذریعه الی تصانیف الشیعه، ، قم، تهران، اسماعیلیان، کتابخانه اسلامیه، 1408ق.
7. امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعه، ج 9، ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1406ق؛ موسوعه طبقات الفقهاء، ج 5، ص 282.
8. بحرالعلوم، محمد، الدراسه و تاریخها فی النجف، ج 1، ص 11، بیروت، مؤسسه الاعلمی للمطبوعات 1407ق
9. جواد بغدادی، مصطفی، نظرات فی الذریعه الی تصانیف الشیعه، مجله البیان، ج 1، ص 133، سال اول، شماره 5، 1365ق.
10. حسینی جلالی، سید محمد حسین، فهرس التراث، ج 1، ص 525، قم، انتشارات دلیل ما، 1422ق
11. خوانسارى، میر محمدباقر؛ روضات الجنات، ترجمه شیخ محمدباقر ساعدى، تهران: نشر اسلامیه.
12. دوانی، علی، سیری در زندگی شیخ طوسی، (هزاره شیخ طوسی؛ مقالهها و خطابههایی به مناسبت هزارمین سال ولادت شیخ طوسی)، ص 49 – 60، تهران، مؤسسه انتشارات امیرکبیر، 1386ش.
13. الذریعه الى تصانیف الشیعه، ج 2، ص 134؛ اعیان الشیعه، ج 3، ص 196.
14. ذهبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، ج 30، ص 490، بیروت، دار الکتاب العربى، طبع دوم، 1413ق.
15. ذهبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج 18، ص 335، بیروت، مؤسسه الرساله، طبع سوم، 1405ق۔
16. زرکلی، خیر الدین، الاعلام، ج 6، ص 84، بیروت، دار العلم للملایین، طبع هشتم، 1989م.
17. سبحانی، جعفر، موسوعه طبقات الفقهاء، ج 5، ص 279، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1418ق؛
18. شمسالدین، محمدرضا، بهجه الراغبین، ج 1، ص 67 – 68، بیروت، 1424ق.
19. شیخ طوسی، محمد بن حسن، فهرست کتب الشیعه و اصولهم و اسماء المصنّفین و اصحاب الاصول، مقم، مکتبه المحقق الطباطبائی، طبع اول، 1420ق.
20. صدر حاج سید جوادی، احمد، دایره المعارف تشیع، ج 10، ص 169 – 177.
21. عسقلانی، ابنحجر، لسان المیزان، ج 5، ص 135، بیروت، مؤسسه الاعلمی للمطبوعات، طبع دوم، 1390ق.
22. عقیقی بخشایشی، عبدالرحیم؛ فقهاى نامدار شیعه، قم: کتابخانه عمومی حضرت آیت الله العظمی مرعشی نجفی.
23. علامه حلی، حسن بن یوسف، خلاصه الاقوال فی معرفه الرجال، ص 148، نجف، دار الذخائر، طبع دوم، 1411ق.
24. علوی، راہنمای مصور سفر زیارتی عراق،
25. غروی، سید محمد، الحوزه العلمیه فی النجف الاشرف، ج 1، ص 19 ـ 30، بیروت، دارالاضواء، طبع اول، 1414ق.
26. فهرست اسماء مصنّفی الشیعه، ص 403
27. قزوینی رازی، عبدالجلیل، نقض، ص 40، تهران، انتشارات انجمن آثار ملى، 1358ش.
28. گلبرگ، شماره هفتاد و دوم.
29. محقق حلّى، جعفر بن حسن، نکت النهایه(النهایه و نکتها)، مقدمه آقابزرگ تهرانی، محمد محسن، قم، دفتر انتشارات اسلامى، طبع اول، 1412ق.
30. مدرس خیابانی تبریزی، محمدعلی؛ ریحانة الادب، تهران: انتشارات علمی.
31. نجاشی، احمد بن علی، فهرست اسماء مصنفی الشیعه (رجال نجاشی)، ص 403، قم، دفتر نشر اسلامی، طبع ششم، 1365ش.
دیدگاهتان را بنویسید