بھڑیا کو شیر کہنے سے وہ کھبی شیر نہیں بنتا/تحریر: محمد حسن جمالی
سیاسی اور مذہبی دنیا میں لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے بعض مغرض افراد مغالطے کا سہارا لیتے ہیں، وہ حق اور باطل کو اس طرح مخلوط کرکے پیش کرتے ہیں کہ سادہ لوح افراد یہ تشخیص نہیں کرپاتے ہیں کہ حق کونسا ہے اور باطل کس طرف ہےـ یہاں تک کہ مفادات کے اسیر ٹولے بسااوقات ظالم اور ستمگر طبقے کی انتہائی خوبصورت الفاظ اور جملوں میں ایسی مدح اور تعریف لکھ دیتے ہیں کہ خالی الذھن قاری بہت جلد متاثر ہوکر داد دیے بغیر نہیں رہ جاتے ـاگر تھوڑی سی تحقیق کرکے دیکھ لیں تو آج کل میڈیا اور سوشل میڈیا کے میدانوں میں اس کے ہزاروں نمونے مل جائیں گے جہاں انسانوں کی ایک بڑی تعداد کا محبوب مشغلہ ہی مغالطہ کاری کے ذریعے لوگوں کو حقائق سے بے خبر رکھنا بنا ہوا ہے ـ تاریخ اسلام اور تاریخ بشریت کا عمیق مطالعہ کرنے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ گزشتہ ادوار میں بھی لوگوں کی اکثریت کی گمراہی میں مغالطہ کاری کا نمایاں کردار رہا ہے ـ

آج سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال نے اس کے دائرے کو مزید بڑھا دیا ہے ـ حیرت اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی بعض نام نہاد لکھاری قلم کی بے حرمتی کرتے ہوئے ایسے افراد کی تمجید اور تعریف لکھتے ہوئے نظر آتے ہیں جو انسانیت کے قاتل ہیں، جس کی حالیہ مثال جنگ اخبار میں شائع ہونے والی ابو عادل عبد الرشید کی وہ تحریر ہے جس میں رائٹر نے بدنام زمانہ خطرناک دہشگرد مولوی حق نواز جھنگوی کی شان میں فضیلت اور قصیدے لکھ کر اپنی اصلیت دکھائی ہے، جب کہ پورے پاکستانی جانتے ہیں مولوی حق نواز جہنگوی ایک معروف دہشگرد تھا، جس نے اپنی دہشتگردانہ کاروائیوں میں بے شمار مسلمانوں کو بڑی بےدری سے شھہد کردیا ہے اور بہت ساری قیمتی جانوں کو نقصان پہنچایا ہے ـ یہ وہ شخص تھا جو معروف شدت پسندتنظیم( سپاہ صحابہ) کے بانیوں میں شمار ہوتا ہے، اس شجرہ خبیثہ کو پروان چڑھانے میں جہنگوی نے شب وروز ایک کرکے کوشش کی ہے، بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ آج ملک کے طول وعرض میں مختلف ناموں سے دہشتگردوں کی جتنی تنظیمیں فعال ہیں وہ سپاہ صحابہ جس کے بانی حق نواز جہنگوی ہے کی ذیلی شاخیں شمار ہوتی ہے ـ
قصہ مختصر ہم اس حوالے سے یہاں اہلبیت اردو ابناء نیوز پر شائع ہونے والی رپورٹ نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں جس سے مولوی حق نواز جہنگوی کا حقیقی چہرہ نمایاں ہوجاتا ہے ملاحظہ کریں ـ 6 ستمبر 1985ء میں مولوی حق نواز جھنگوی کے زیر قیادت انجمن سپاہ صحابہ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ ابتداء تھی پاکستان کے اندر دوسرے مسلمہ اسلامی فرقوں کو کافر کہنے اور قتل کرنے کی، اور جسے آج تک روکا نہ جاسکا، بلکہ بدقسمتی سے عقیدے کی بنیاد پر بےگناہوں کو قتل کرنے کی اس تحریک کو منظم انداز میں پروان چڑھایا جاتا رہا۔۔ لاہور میں 19 دسمبر 1990ء میں ایران کے کونصلر جنرل آقائی صادق گنجی کو مال روڈ پر قتل کر دیا گیا۔ پھر اسی طرح قتل پر مبنی پنجاب میں کئی کارروائیاں کی گئیں، اور ان مقدمات میں اشتہاری قرار دیئے گئے ـ
سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں پر مشتمل افراد نے 1996ء میں SSP کا ایک عسکری ونگ بنایا، جس کا نام لشکر جھنگوی رکھا گیا، جن کا مقصد آل سعود اور حق نواز جھنگوی کی فکر کو طاقت کے بل بوتے پر پھیلانا اور اُس کا تحفظ کرنا تھا۔ اس کے ابتدائی سربراہوں میں اکرم لاہوری، محمد اجمل الیاس، ریاض بسرا، غلام رسول شاہ اور ملک اسحاق شامل تھے۔ مذکورہ افراد نے پنجاب بھر سے نوجوانوں کو باقاعدہ Training کے لئے بھرتی کیا، اور ان سب کو افغانستان کابل کے قریب ساروبی ڈیم کے پاس قاری اسداللہ اور علی پور مظفرگڑھ کے قاری عبدالحئی الیاس کے زیر نگرانی چلنے والے خالد بن ولید کیمپ میں تربیت دی جانے لگی، اور رہی سہی کسر کشمیر کے جہادی کیمپوں نے پوری کردی، جس میں حرکت المجاہدین اور 2000ء میں بنائی جانے والی مولانا مسعود اظہر کی جیش محمد نے لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کو عسکری تربیت فراہم کی۔ لشکر ی جھنگوی نے پنجاب کے دو زون بنائے، ایک زون کی قیادت 300 معصوم اہل تشیع کے قتل میں ملوث ریاض بسرا نے سنبھالی، اس زون میں لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی اور سرگودھا شامل تھے، جبکہ دوسرے زون کی ذمہ داری 102 معصوم اہل تشیع کے قتل میں ملوث ملک اسحاق کو دی گئی، اور ساتھ ہی 2000ء میں افغانستان کے کیمپ میں موجود کمانڈر قاری عبدالحئی اور اُس کے ساتھیوں نے اپنا مرکز کراچی شہر کو بنایا، جنہوں نے صرف 2 سال کے اندر شیعہ مکتب سے تعلق رکھنے والے 70 ڈاکٹرز، 34 وکلاء، جید علماء کرام، اساتذہ، طالب علم اور سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے سینکڑوں افراد کو بے دردی سے قتل کیا، جو کہ آج تک جاری ہے۔
تو بات ہو رہی ہے پنچاب کی جہاں 15 جنوری 1996ء کو لاہور میں پاکستان کے ہر دل عزیز شاعر محسن نقوی کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ 1996ء میں ہی مومن پورہ کے قبرستان میں قرآن خوانی کرنے والے 25 بچوں اور خواتین کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا، اس کارروائی میں لشکر جھنگوی کے اکرم لاہوری، ریاض بسرا، ہارون منصور، اور عزیز گجر ملوث تھے۔ پھر 1997ء میں ہی مسلم لیگ قاف کے سربراہ چوہدری شجاعت کے قریبی عزیز SSP اشرف مارتھ کو گوجرانوالہ میں لشکرجھنگوی کے دہشت گردوں نے قتل کر دیا، کیونکہ اس نے انتہائی جواں مردی کے ساتھ لشکر کے نیٹ ورک پر ہاتھ ڈالا تھا اور اس کے بعد گیارہ جنوری 1998ء کو کمشنر سرگودھا تجمل عباس کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی پنجاب کے سابق وزیراعلٰی غلام حیدر وائیں بھی ان دہشت گردوں کی کارروائی کا نشانہ بنے۔
3 جنوری 1999ء کو رائے ونڈ اور لاہور کے درمیان پل کو لشکر جھنگوی نے دھماکے سے اُڑا دیا، جس میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف بال بال بچ گئے، تاہم اس وقت کے وزیر خارجہ صدیق خان کانجو ان دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے، اس کے بعد شریف برداران نے لشکر جھنگوی کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا اور پنجاب بھر سے کئی دہشت گرد گرفتار کیے گئے، لیکن اُن کے مقدمات کا فیصلہ سنانے سے عدالتوں کے جج بھی کتراتے نظر آئے، آخر کار خصوصی عدالت کے ایک جج نیر اقبال غوری کو نواز شریف کی طرف سے سکیورٹی کی مکمل یقین دہانی پر اس نے لشکر جھنگوی کے افراد کے خلاف خانہ فراہنگ ایران ملتان کیس کا فیصلہ سنایا۔ اس بیہمانہ واقعہ میں آقای علی رحیمی اپنے چار پاکستانی ساتھیوں سمیت قتل کر دیئے گئے اور یوں ہمسائے ملک ایران کے ان افراد کا قتل پاکستان کے چہرے پر بدنما داغ بن گیا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس کیس کا فیصلہ سنانے والے جج نیئر اقبال غوری فوراً ہی جان کی امان پانے کیلئے امریکہ روانہ ہوگئے۔ ہائی کورٹ کے جسٹس نواز عباسی نے بھی یہ سزا برقرار رکھی۔ تاہم کمزور استغاثہ، شہادتوں کی کمی اور گواہوں کی عدم دستیابی کا بہانہ تراش کر سپریم کورٹ نے اس کیس میں ملوث تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا۔ دنیا جانتی ہے کہ گواہ ہائیکورٹ تک تو آتے رہے، تاہم مسلسل دھمکیوں نے انہیں بھی زندگی چھن جانے کے خوف میں مبتلا کر دیا۔ اس دوران لشکر جھنگوی کے کئی افراد پولیس مقابلے میں مار دئیے گئے۔ جس کا ماورائے عدالت قتل کا مقدمہ سبزہ زار کالونی کے نام سے شہباز شریف پر بھی چلایا گیا۔ لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں نے لاہور میں علامہ غلام حسین نجفی، ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ذوالفقار حسین نقوی ایڈوکیٹ کو اپنی سفاکانہ کارروئیوں کی بھینٹ چڑھایا۔ ملتان میں ہی پاکستان کے انٹرنیشنل پہلوان زاوار حسین ملتانی کو قتل کیا گیا۔ مظفر گڑھ چوک قریشی مسجد میں فائرنگ، کوٹ ادو مجلس عزاء میں فائرنگ، شہر سلطان مسجد میں فائرنگ، خان گڑھ مونڈکا میں رات کو گھر میں سوئے ہوئے افراد پر فائرنگ، خیرپور ٹامے والی بازار میں شیعہ افراد پر فائرنگ، بہاولپور مسجد میں دھماکہ، دوکوٹہ میلسی اور کبیروالا میں فائرنگ، ممبر قومی اسمبلی ریاض حسین پیرزادہ کے والد شاہ نواز پیرزادہ کا قتل، خانپور رحیم یار خان جلوس میں دھماکہ، 2004میں سیالکوٹ مسجد میں دھماکہ، پھالیہ میں سید اعجاز حسین کا قتل، علی پور میں سید ثقلین عباس نقوی کا قتل، چینوٹ اور جھنگ میں ہر روز قتل عام، روالپنڈی میں ہی یادگار حسین مسجد میں دھماکہ، PTV کے Director سید عون رضوی کا قتل، ایرانی پائلٹس کا قتل، چکوال امام بارہ میں دھماکہ، پنڈی میں ڈھوک سیداں امام بارگاہ میں خودکش دھماکہ، ملہووالی اٹک میں فائرنگ اور اس طرح کی درجنوں واردتوں میں ہزاروں بے گناہ شیعہ افراد کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا، لیکن حکومتیں ہر دور میں خاموش تماشائی بنی رہیں۔
لشکر جھنگوی نے ابتداء میں جنوبی پنجاب کے شہر تونسہ اور بھکر کو اپنے اسلحہ اور ایمونیشن کے ڈپو کے طور پر استعمال کیا، جہاں سے دوسرے علاقوں کو فراہمی کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ مرید کے، شیخوپورہ میں ایک اور کبیروالا میں دو ٹرینگ کیمپ باقاعدگی سے چلتے رہے۔ ان دہشت گردوں نے بعض کارروائیاں پنجاب پولیس کی وردیاں پہن کر بھی کیں، رہزنی اور بنک ڈکتیوں میں بھی ملوث رہے، اور کافی سارے علاقوں میں ان دہشت گردوں نے اپنے ہی مسلک کے لوگوں اور ساتھیوں کو مار کر اپنے اوپر بنائے گے قتل کے مقدمات کو کاؤنڑ کرنے کی کوشش میں بے گناہ پرامن شیعہ افراد کو ان مقدمات میں پھنسایا۔، 1996ء میں بھی سابق وزیر داخلہ معین الدین حیدر اور DG ISI جاوید اشرف قاضی نے سپاہ صحابہ اور لشکری جھنگوی کے خلاف واشگاف بیانات سے ان کے کرتوتوں کو آشکار کیا اور انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں کالعدم جماعتیں اپنی عسکری کیڈر میں بھرتی کے لئے جنوبی پنجاب کے زیادہ تر علاقوں کو استعمال کر رہی ہے۔ ان علاقوں میں رحیم یار خاں کے رکن پور، دین پور شریف، ظاہر پیر، سردار گڑھ کے مدراس، بہالپور گھلواں جھنگڑا، جن پور، ٹھل حمزہ، علی پور ضلع مظفر گڑھ میں یاکی والا، تھیم والا، مڑھی کے علاقے شامل ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ جامعہ حسینیہ ہیڈپنچند روڈ کے پرنسپل کا بیٹا خودکش حملے میں ہلاک ہوچکا ہے، کوٹ ادو میں تو تین دہشت گردوں کی Dead Bodies بھی آچکی ہیں، جو وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے کی زد میں آکر مارے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان علاقوں کے مدارس میں ہر روز صج ایک گھنٹے کی کلاس میں طلباء کو کافر کافر شیعہ کافر کا ورد کرایا جاتا ہے اور ان طلباء کے اذہان کو اس غلیظ زہر سے بھرا جاتا ہے کہ شیعہ دنیا کا بدترین کافر ہے اور جن کا قتل جنت کے درجوں اور حوروں کی فراہمی کا باعث بنتا ہے، ساتھ ہی اُن کے غریب والدین کو معاشی فوائد کا جھانسہ بھی دیا جاتا ہے۔ یہ ہے جہنگوی اور اس کے ہمفکر افراد کی جنایتوں کا مختصر خاکہ جس کی تعریف میں ابو عادل عبد الرشید نے قلم اٹھا کر اپنا وقت ضائع کردیا ہے ہم موصوف سے بس اتنا عرض کرنا چاہیں گے کہ جناب والا یہ طے ہے کہ بھڑیا کو شیر کہنے سے وہ کھبی شیر نہیں بنتا
دیدگاهتان را بنویسید