تازہ ترین

امام باقرؑ کی زندگی پر ایک طائرانہ نگاه

امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت باسعادت یکم رجب المرجب ۵۷ ہجری مدینہ منورہ میں ہوئی آپ خاندان عصمت و طہارت کی وہ پہلی کڑی ہیں جنکا سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں کی طرف سے مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے جا کر ملتا ہے ۔

امام محمد باقر (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت یکم رجب المرجب ۵۷ ہجری قمری مدینہ منورہ میں ہوئی آپ خاندان عصمت و طہارت کی وہ پہلی کڑی ہیں جن کا سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں کی طرف سے مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب (علیہما السلام) سے ملتا ہے۔
والدہ کی طرف سے آپ کا شجرہ امام حسن (علیہ السلام) سے اور والد کی طرف سے امام حسین سے ملتا ہے۔آپکی کنیت ابو جعفر اور القاب، ہادی ،وشاکر ہیں باقر آپ کا سب سے معرو ف لقب ہے آپکو باقر اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ علوم انبیاء کے شگافتہ کرنے والے ہیں۔
آپکےاس لقب کے سلسلے میں جابر ابن عبد اللہ انصاری سے یہ روایت ملتی ہے کہ رسول اللہؐﷺ نے آپکو یہ لقب عنایت فرمایا تھا اور مجھ سے کہا تھا کہ انکا نام میرے نام سے شبیہ ہے اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہیں تم انہیں میرا سلام کہنا آپکے علمی مرتبے کا عالم یہ ہے کہ آپ کے لئے تاریخ میں الفاظ ملتے ہیں کہ ” تفسیر قرآن، کلام اور حلال و حرام کے احکام میں آپ یکتائے روزگار تھے اور مخلتف ادیان و مذاہب کے سربراہوں سے مناظرہ کرتے تھے۔

شئیر
51 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4554

آپکے علمی مرتبے کے لئے اتنا کافی ہے کہ ” اصحاب کرام، تابعین اور تبع تابعین اور عالم اسلام کے عظیم الشان فقہا نے دینی معارف اور احکامات کو آپ سے نقل کیا ہے آپ کو علم کی بنیاد پر اپنے خاندان میں فضیلت حاصل ہے۔
آپ نے اپنی عمر کے چار بابرکت سال اپنے جد امام حسین (علیہ السلام) کے سایہ شفقت میں گزارے اور ۳۸ سال اپنے والد گرامی علی ابن الحسین سید سجاد(علیہ السلام) کے زیر سایہ بسر کئےآپکا کل دور امامت ۱۹ سال پر مشتمل ہے۔
آپ واقعہ کربلا کے تنہا کمسن معصوم شاہد ہیں جنہوں نے چار سال کی کمسنی میں کربلا کے دردناک حوادث کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے چنانچہ آپ خود ایک مقام پر فرماتے ہیں ” میں چار سال کا تھا کہ میرے جد حسین بن علی (علیہ السلام) کو شہید کیا گیا جو کچھ آپ کی شہادت کے وقت رونما ہوا وہ سب میری نظروں کے سامنے ہے۔

آپکی سیرت:
آپ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے تھے لوگوں میں صادق اور امین کے طور پر جانے جاتے تھے اپنے آباو اجداد کی طرح محنت و مشقت کرتے تھے، چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک دن تپتے ہوئے سورج کے نیچے آپ کھیتی باڑی میں مصروف تھے کسی نے آپ کو شدید گرمی میں بیلچہ چلاتے ہوئے دیکھ تو کہا ” آپ بھی اس گرمی میں طلب دنیا کے لئے نکل آئے ؟ اگر اس حالت میں آپ کو موت آ جائے تو کیا ہوگا ؟ آپ نے جواب دیا اگر میں اس حالت میں مر جاؤں تو اطاعت خداوندی کی حالت میں اس دنیا سے جاؤں گا اس لیے کہ میں اس محنت کے ذریعہ خود کو لوگوں سے بے نیاز کر رہا ہوں “
آپ ہمیشہ ذکر خدا میں مصروف رہتے بخشش و عطا میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
پانچویں امام (علیہ السلام) نے پانچ خلفا( اسلامی بادشاہوں )کا دور دیکھا:
1. ولیدبن عبد الملک ۸۶ ۔ ۹۶ ہجری قمری
2. سلیمان بن عبدالملک۹۶۔۹۹ ہجری قمری
3. عمر بن عبد العزیز ۹۹۔۱۰۱ہجری قمری
4. یزید بن عبد الملک۱۰۱۔۱۰۵ہجری قمری
5. ھشام بن عبد الملک ۱۰۵۔۱۲۵ہجری قمری

مذکورہ اسلامی ممالک کے حاکموں( خلفا) میں عمر بن عبد العزیز جو کہ نسبتاً انصاف پسند اور خاندان رسول اﷲﷺ کے ساتھ نیکی کے ساتھ رفتار کرنے والا منفرد اسلامی بادشاہ (خلیفہ) تھا جس نے معاویہ علیہ ہاویہ کی سنت یعنی” معصوم دومؑ، امام اولؑ اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب (علیہما السلام ) کے نام ۶۹ سال تک خطبوں میں لعنت کرنے کی شرمسار بدعت اور گناہ کبیرہ کو ممنوع کیا۔
امام محمد باقر (علیہ السلام) سے اصحاب پیغمبر اسلامﷺ میں سے جابر بن عبداﷲ انصاری اور تابعین میں سے جابر بن جعفی، کیسان سجستانی، اور فقہا میں سے ابن مبارک، زھری، اوزاعی، ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور زیاد بن منزر نھدی آپ سے علمی استفادہ کرتے رہے۔ معروف اسلامی مورخوں جیسے طبری، بلاذری، سلامی، خطیب بغدادای، ابو نعیم اصفہانی و مولفات و کتب جیسے موطا مالک ، سنن ابی داوود، مسند ابی حنیفہ، مسند مروزی، تفسیر نقاش، تفسیر زمخشری جیسے سینکڑوں کتابوں میں پانچویں امام(علیہ السلام)کے بیش قیمتی احادیث اور جملہ ” قال محمد بن علیؑ” یا ” قال محمد الباقرؑ” دیکھنے کو ملتا ہے۔
حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) دیگر ائمہ ھدی(علیہم السلام) کے مانند تمام علوم و فنون کے استاد تھے۔ ایک دن خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے امام(علیہ السلام) کو اپنی ایک فوجی محفل میں شرکت کی دعوت دی جب امام(علیہ السلام) وہاں پہنچے وہاں فوجی افسران سے محفل بھری تھی کچھ فوجی افسران تیرکمانوں کو ہاتھوں میں لئے ایک مخصوص نشانے پر اپنا اپنا نشانہ سادھتے تھے، چھٹے امام حضرت جعفر صادق (علیہ السلام) اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”جب ہم دربار میں پہنچے توہشام نے احترام کیا اور کہا آپ نزدیک تشریف لائیں اور تیر اندازی کریں میرے والد گرامی نے فرمایا میں بوڑھا ہو چکا ہوں لہٰذا مجھے رہنے دیں،ہشام نے قسم کھائی میں آپ سے ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں۔ میرے والد بزرگوارنے مجبور ہو کر کمان پکڑی اور نشانہ لیا تیرعین نشانے کے وسط میں جاکر لگا آپ(علیہ السلام) نے پھر تیر لیا اور نشانہ پر جاکر تیر مارا جس نے پہلے تیر کے دو ٹکڑے کردیئے اور اصل نشانہ پر جا لگا آپ تیر چلاتے رہے یہاں تک کہ ۹ تیر ہوگئے ھشام کہنے لگا بس کریں اے ابو جعفرؑ آپ تمام لوگوں سے تیر اندازی میں ماہر ہیں”۔
حضرت امام محمد باقر(علیہ السلام) ۴۱۱ہجری قمری میں خلیفہ ھشام بن عبد الملک کے حکم پر سے شہید کردئےگئے۔ آپ(علیہ السلام)۵۷ سا ل تک وحی الہٰی کی ترجمانی کرتے رہے۔ آپ کے بعد آٹھویں معصوم اور چھٹے امام حضرت جعفر صادق(علیہ السلام) آپکی جانشینی پر فائز ہوئے اور آپ(علیہ السلام) کے قائم کردہ اسلامی مرکز علم کو وسعت عطا کرکے اسلام ناب محمدی ﷺ کی توضیح و تفسیر بیان فرمائی اور دینی محفل میں “قال الصادق” ، “قال الصادق” کی گونج سنائی دی اورامام جعفر صادق(علیہ السلام) کی بتائی ہوئی اسلام کی تشریح پر چلنے والوں کو جعفری کہا گیا۔
خداوند ہمیں ان علوم کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

حوالہ جات:
– ابن خلکان ، وفیات الاعیان ، جلد ۴ ص ۴۷۱
– یعقوبی ، جلد ۲ ص ۳۲۰
– ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، الجزء الرابع ، ص ۱۹۵
– شیخ مفید ، الارشاد ، جلد ۲ ص ۱۵۵
– یعقوبی ، جلد ۲ ص ۳۲۰
– شیخ مفید ، الارشاد ، جلد ۲ ص ۱۶۱
– ۔ابن شھر آشوب ج 4 ص 195

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *