حزب فقط حزب اللہ، رہبر فقط روح اللہ،
عصر امام خمینی میں رہنے والوں کا نعرہ یہ تھا۔ یہ نعرہ اب عصر امام خامنہ ای میں اپ ڈیٹ کر دیا گیا ہے۔ حزب فقط حزب اللہی، رہبر فقط خامنہ ای۔ ایران میں امام خمینی کا ساتھ دینے والے بہت سے افراد کو یاران امام کہا جاتا ہے۔
حال ہی میں امام خامنہ ای نے یوم معلم پر 3 معلمین کا تذکرہ کیا۔ شہید مرتضٰی مطہری، شہید جواد باہنر، شہید رجائی۔ تینوں یاران امام تنظیمی تھے۔ تنظیم، جماعتوں اور گروہوں کے بارے میں پچھلے تین مقالوں میں بہت سی باتیں ہوئیں لیکن ایک صاحب فرماتے ہیں کہ تنظیمی بزرگان کی حمایت کا یہ مطلب نہیں کہ امام خمینی نے ان کی تنظیموں کی حمایت کی۔ امام خمینی نے انقلاب اسلامی سے پہلے جو کچھ کہا اس کا ریکارڈ کتابی شکل میں موجود ہے۔ اس کتاب ’’کوثر‘‘ غالباً 3 جلدوں میں واقعات انقلاب اسلامی کی تشریح کو فرزند انقلابی امام خمینی یعنی سید احمد خمینی کے پیش لفظ کے ساتھ موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (بین الاقوامی امور) نے شایع کیا۔ 1996ء ایڈیشن کے جلد اول میں خطاب نمبر 25 بھی ہے۔
اپنے فرزند مصطفٰی خمینی کی شہادت کے بعد یکم نومبر 1977ء کو مسجد شیخ انصاری نجف اشرف میں علماء کی قوت اور شیعہ علماء کی سیاسی، علمی اور مذہبی خدمات کے موضوع پر طلاب، علماء اور عراق میں مقیم ایرانی حضرات سے خطاب میں امام خمینی فرماتے ہیں: ’’ہر مسلمان کو چاہیے کہ اسلام کے لئے خدمت کرنے والی تمام شخصیتوں اور جماعتوں سے محبت رکھے، جو قلم کے ذریعے اور اپنے عمل سے اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہر مسلمان اور ہر انسان جو ملاحظہ کرتا ہے کہ یہ انسانیت اور اسلام یعنی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ اسلام، ایک انسان ساز مکتب ہے، جب انسان دیکھتا ہے کہ کچھ جماعتیں انسان کی خدمت میں ہیں، انسانیت کی خدمت میں ہیں، اسلام کی خدمت میں ہیں کہ جو انسان ساز ہے، تو اس کے پاس، اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ ان سے شدید لگاؤ پیدا کرے، اس بات مین کوئی حرج نہیں ہے کہ انسان اس کے ساتھ لگاؤ اور محبت رکھتا ہو۔‘‘
اس خطاب کے تعارف میں لکھا ہے: ’’علماء اور یونیورسٹیوں کے درمیان دوری کے پیش نظر امام خمینی سالہا سال تک ملک سے باہر اور ملک کے اندر موجود مسلمان طلباء کی انجمنوں اور علماء کے نام اپنے متعدد پیغامات کے ذریعے اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ان دو طبقوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لائیں۔‘‘ یہ طلباء تنظیموں کے بارے میں امام کی رائے تھی اور غیر اسلامی حکومت کی پارلیمنٹ (قومی اسمبلی) کی رکنیت کے بارے میں امام کا یہ جملہ پڑھیں: ’’میں نے آقا مدرس رحمت اللہ علیہ کو دیکھا تھا۔ وہ بھی ان اشخاص میں سے ایک تھے جنہوں نے ظلم کے مقابلے میں قیام کیا اور پارلیمنٹ میں اس کالے پہاڑ اور ڈکٹیٹر کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے۔ ان کو درجہ اول کے علماء نے پارلیمنٹ میں بھیجا۔‘‘ اسی خطاب میں فرمایا: ’’یہی (یونیورسٹی والے) لوگ ہیں جو (پارلیمنٹ کے) ممبر یا وزیر بنیں گے۔ آپ ان کو اپنے لئے بچاکر رکھئے، ان کو دھتکاریئے نہیں۔ فضول منبر پر جا کر برا بھلا نہ کہیے، دنیا میں برا بھلا کہنے سے کوئی کام بنتا ہے؟ منبر پہ جایئے نصیحت کیجیے۔ آپ اس بڑی جماعت کو ساتھ ملایئے۔ وہ بھی جیلوں میں گئے ہیں، اذیتیں برداشت کی ہیں۔ جلاوطن ہوئے ہیں۔ اپنے ملک سے باہر ہیں اور اپنے ملک میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کرتے۔‘‘
جمعیت ایرانی دفاع از آزادی و حقوق بشر اور کانون نویسندگان ایران اور کانون وکلاء سمیت کئی تنظیمیں اس وقت دستخطی مہم کے ذریعے مطالبہ کر رہے تھے کہ حکومت ملکی آئین پر عمل کرے اور عوام کے حقوق و آزادی کا احترام کرے۔ اس کے بارے میں امام راحل نے فرمایا: ’’آج کل پارٹیوں کے لکھنے والے لکھ رہے ہیں، دستخط کر رہے ہیں۔ وہ لکھتا ہے، اعتراض کرتا ہے، دستخط کرتا ہے۔ آپ بھی لکھیں۔ اگر ایک سو عالم دین دستخط کریں، ان باتوں کو پہنچائیں، اپنے اعتراضات بیان کریں۔‘‘ ’’آپ یہ فرصت ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اکٹھا ہوکر لکھیں، اعتراضات لکھیں۔‘‘ 9 جنوری 1978ء کو قم میں عوام کا قتل عام ہوا تو نجف کی مسجد شیخ انصاری میں (کتاب کوثر کے مطابق خطاب نمبر 26) میں امام خمینی نے فرمایا: ’’ہماری سیاسی پارٹیاں، جداگانہ اور الگ الگ کام نہ کریں بلکہ آپس میں رابطے رکھیں۔ اس طرح جیسے اس تازہ حادثہ کے سلسلے میں سب نے نفرت و بیزاری کا اظہار کیا ہے، اسی طرح بعض سیاسی پارٹیوں نے بھی نفرت و بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ علماء، تاجر برادری اور یونیورسٹی والے، سب کے سب نے نفرت کا اظہار کیا ہے۔‘‘ جن پارٹیوں کے بارے میں وہ اشارہ کر رہے تھے، ان میں حزب زحمت کشان ملت ایران اور اتحاد نیروہائے جبھہ ملی ایران، جنبش مسلمانان سمیت کئی جماعتیں شامل تھیں۔ (کوثر)
شہدائے قم کے چہلم پر امام نے مسجد شیخ انصاری نجف میں خطاب(نمبر27 از کوثر) کیا۔ تعارف خطاب میں حالات، موقع اور نتائج کے عنوان سے کوثر میں لکھا ہے کہ 9 جنوری 1977ء کو علماء کے قیام اور حکومت کی طرف سے تشدد پر ایران کے مختلف شہروں میں وسیع پیمانے پر ردعمل ہوا، مراجع تقلید، پارٹیاں، انجمنیں اور مختلف کاروباری حلقے اس قیام کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ علماء کی تنظیم جامعہ روحانیت ایران نے اس چہلم پر عام سوگ اور ہڑتال کی اپیل کی اور ایرانی قوم نے ان کی اس اپیل پر لبیک کہا۔ امام خمینی کے خطاب نمبر 28 کے تعارف میں اس کی تاریخ 13 مئی 1978ء تحریر ہے جبکہ اندر صفحہ 588 پر اس کی تاریخ 13 اپریل لکھی ہے۔ بہرحال یہ خطاب بھی نجف کی اسی مسجد میں ہوا اور اس کے بارے میں ’’کوثر‘‘ میں یہ پیراگراف موجود ہے کہ: ’’اس تقریر کے نہایت اہم پہلوؤں میں سے ایک دینی علوم کے مراکز میں حکومت کے خلاف جدوجہد سے متعلق امور کو منظم کرنے کی ضرورت نیز علماء اور مراکز علوم دینی کے درمیان انقلابی جدوجہد کو فروغ دینے کے لئے تنظیمی ڈھانچے اور تنظیمی روابط رکھنے کی اہمیت پر امام خمینی کا اصرار ہے۔ امام خمینی کی ان باتوں کے باعث ملک کے اندر حکومت کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھنے کے سلسلے میں جدید طریقوں پر عمل درآمد شروع ہوا۔ امام خمینی اس قیام کے بارے میں فرماتے ہیں، اب جبکہ ایران اٹھ کھڑے ہوا ہے، بدنظمی کی گنجائش نہیں ہے بلکہ حوزہ علمیہ قم، حوزہ علمیہ تہران اور تمام شہروں کے درمیان روابط کا ہونا ضروری ہے۔ ارتباط کی ضرورت ہے، اس قیام کو منظم کیجئے۔‘‘
31 مئی 1978ء کو مسجد شیخ انصاری میں خطاب (نمبر29) میں فرمایا: ’’تمام پارٹیوں اور قوم کے لیڈروں کو آپس میں رابطہ رکھنا چاہئے، یہ الہی فریضہ ہے۔ بزرگ افراد آپس میں انڈر گراؤنڈ روابط رکھیں، ان کو آشکار نہیں ہونا چاہئے۔۔۔۔ اگر کسی وقت مذاکرات کی نوبت آئے تو سبھی شریک ہوں۔۔۔ایسا نہ ہو کہ مثلاً ایک شخص اپنی پارٹی بنائے اور دوسرا اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنائے۔‘‘ اس خطاب میں بعد میں فرمایا: ’’مسلمانوں کے کام کسی منصوبے کے تحت ہونا چاہئیں۔ پارٹیوں کو ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ملانا چاہئے۔‘‘ ’’پارٹیوں اور فوجیوں کے درمیان، فوجیوں اور علماء کے دمیان رابطہ ہونا چاہئے۔‘‘ اس خطاب کی ٹائمنگ ذہن میں رہے اور اس کے آخری جملوں پر بھی کہ :’’اس وقت تو ایران میں اسلام کے احکام ہی نہیں۔ کیا وہاں کی طلاق اسلام کے مطابق ہے،۔۔۔ نکاح اسلام کے مطابق ہے۔۔ وہاں کا کاروبار اسلام کے مطابق ہے۔؟‘‘
یعنی ایران میں پاکستان سے زیادہ بری صورتحال تھی۔ ایک طرف امام خمینی علماء کے مخالفین کو علماء کی اہمیت اور احترام کا درس دے رہے تھے اور ساتھ ہی علماء سے کہہ رہے تھے: ’’اگر عالم دین کہے کہ یونیورسٹی کے بغیر، سیاسی محاذ کے بغیر، یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ اس کے لئے بھی ماہرین کی ضرورت ہے۔ آپ اسلام کے ماہرین ہیں اور اسلامی قواعد سے آگاہ ہیں، لیکن بعض مسائل ایسے ہیں جنہیں آپ حل نہیں کرسکتے۔ آپ ان کے محتاج ہیں۔‘‘ اس خطاب میں بہت وضاحت و صراحت کے ساتھ یہ کہہ کر مسئلہ حل کردیا کہ: ’’یہ بات قابل افسوس ہے کہ کئی سال تک ہم نے زحمت کی، گفتگو کی، تقریریں کیں اور تحریریں لکھیں۔ اس کے بعد بھی بندہ دیکھتا ہے کہ کچھ بے خبر لوگ، بے خبر نوجوان یہ سرگوشی کرتے ہیں، ہم فلاں عالم دین کو، فلاں سید کو مانتے ہیں لیکن دوسرے علماء کو نہیں مانتے۔ یہ غلط ہے، میں انہیں مانتا ہوں، میں ان کا احترام کرتا ہوں۔ سب کو انہیں ماننا چاہئے۔ یا مثلاً کوئی کہے کہ نہیں ہم یونیورسٹی کو نہیں مانتے۔‘‘ اس کے بعد اپنی رائے بیان کی: ’’ہم یونیورسٹی کو مانتے ہیں، ہم ڈاکٹر کو مانتے ہیں، ہم طبیبوں کو مانتے ہیں۔ ہم سیاسی دھڑوں کو مانتے ہیں۔ جناب! آج سب کو متحد ہونا چاہئے۔ ایک پرچم تلے جمع ہوں اور وہ پرچم لا الہ الاللہ ہے۔ یہ ایک پیغام ہے جو میں اس وقت دے رہا ہوں اور انشاءاللہ یہ ایران اور دوسرے تمام ملکوں میں پہنچ جائے گا،جہاں ہمارے بچے رہ رہے ہیں کہ جناب اس خود پرستی اور خود خواہی سے ہاتھ کھینچ لیجئے‘‘ (حوالہ’’کوثر‘‘ جلد سوم خطاب نمبر88)۔
آئین کے سلسلے میں بھی امام خمینی واضح تھے اور پاکستان میں امت حزب اللہ کے لئے ان کا خطاب نمبر 89 مشعل راہ ہے: ’’اس موجودہ آئین میں بھی یہ بات ہے، اس آئین کا تتمہ کہتا ہے کہ جو قانون بھی شرعی قوانین کے برخلاف ہو، وہ قانون نہیں ہے۔‘‘ اب پاکستان کے آئین میں جو اسلامی شقیں ہیں، کیا اس کی روشنی میں علماء کی قیادت میں کام کرنے والی شیعہ جماعتیں یہاں اپنی سیاسی سرگرمیاں کیوں نہیں کرسکتیں۔ اسی خطاب میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’قومی اسمبلی کا یہ معنی ہوتا ہے کہ ملت آزادانہ طور پر نمائندوں کا انتخاب کرے اور وہ بیٹھ کر ملک کے کاموں کے سلسلے میں مشورہ کریں۔‘‘ کیا پاکستان کے شیعوں کو آیت اللہ حسن مدرس اور آیت اللہ کاشانی کی طرح ملک کے کاموں کے لئے ملت کا نمائندہ بن کر پارلیمنٹ میں نہیں پہنچنا چاہئے؟ کیا ایسا کرنے سے انسان شرک ربوبیت تشریعی کا مرتکب ہوجائے گا؟ امام خمینی کی رائے تو ایسی نہ تھی!
خدا کا شکر ہے کہ میں سال 1989ء سے عصر امام خامنہ ای میں زندگی گذار رہا ہوں۔ ایک سیاسی تجزیہ نگار (تحلیل گر) کی حیثیت سے اپنے معاشرے کو دیکھتا رہا ہوں اور اس پر لکھتا رہا ہوں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو ایک غیر جانبدار تحلیل گر کی حیثیت سے رائے دوں گا کہ ہماری ملت کا المیہ یہ ہے کہ اس میں بھی بدقسمتی سے ایک طبقہ ’’عصر لفاظی‘‘ میں رہ رہا ہے۔ انگریزی میں اسے وربل ازم (verbalism) کہتے ہیں۔ انہیں یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ’’عصر امام خمینی‘‘ یا ’’عصر علامہ اقبال‘‘ میں رہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان دو شخصیات کے ’’عصر‘‘ میں رہنے کی نشانیاں اس سلسلے کی 4 تحریروں میں نہایت اختصار کے ساتھ بیان کرچکا ہوں۔ لفظوں کے ہیر پھیر سے اقبال نے منع کیا کہ الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا لیکن نہ صرف الجھا جا رہا ہے بلکہ الجھایا بھی جا رہا ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں خط مستقیم و مقدس امام پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (باتیں بہت لیکن معذرت، تحریر پہلے ہی طویل ہوچکی، التماس دعا)۔
(نوٹ: آیت اللہ محسن الحکیم کی رحلت 1970ء میں ہوئی اور انکے بعد بھی شہید باقر الصدر حزب الدعوۃ الاسلامیہ سے وابستہ رہے۔ آقا حکیم اور امام خمینی کی گفتگو ’’کوثر‘‘ میں ہے، پڑھ لیں سمجھ جائیں گے کہ امام کی رائے کیا تھی؟ تنظیمی بزرگان کے بارے میں پچھلے 3 مقالوں اور ان پر جو رائے دی گئیں، اس میں کافی باتیں لکھی جاچکی ہیں)۔
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید