تازہ ترین

لباس کی اھمیت/ چمن آبادی

لباس عربی زبان کا لفظ ہے اصل میں یہ لبس سے نکلا ہے اور اس کا معنی ہے پہننا ۔

جسم کو ڈھانپنے کا رواج انسانی تاریخ کے ساتھ ہی شروع ہوا، کیونکہ قرآن کریم اس کی گواہی دے رہا ہے کہ جس طرح ہمارے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام نے شجرہ ممنوعہ کا پھل کھایا تو ان کے جسم سے پردہ اور لباس اتر کر عریان ہوگیا تو آپ نے درخت کے پتوں سے اپنے جسم کو چھپایا، قرآن کریم کے کئی مقامات پر لباس کا ذکر آیا ہے، کبھی بیوی اور شوہر کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے تو کبھی تقوی اور پرہیزگاری کو بھترین لباس کہا گیا۔

شئیر
28 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4632

لباس بنی نوع انسان کے امتیازات میں سے ایک ہے، کیونکہ حیوانات اور نباتات لباس کے جھنجٹ سے مبرا ہیں، انسان کو خدا نے عقل اور انتخاب کی صلاحیت سے نوازا ہے تو بعض چیزیں اس کی صوابدید پر چھوڑی ہیں، ان میں سے ایک لباس کا انتخاب ہے، حیوانات کے جسم پر موجود بال اور نباتات کے چھلکے ان کو موسمی حالات کے دگرگونی سے محفوظ رکھتے ہیں، جبکہ انسان پیدائش کے وقت عریان ہوتا ہے اس لیے دوسرے اس کو لباس پہناتے ہیں، تاکہ ایک تو اس کا ظاہری پردہ ہو جائے تو دوسری طرف سے بدلتے موسم کے حالات سے نمٹا جاسکے۔

لباس کسی بھی تہذیب و ثقافت کا ایک اهم حصہ ہے، ہر معاشرے میں لباس کا انداز مختلف ہے، لیکن لباس کے پہننے میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ یہ روز اول سے انسان کے ساتھ ساتھ سفر کرتا آرہا ہے، اسلام میں بھی انسانی لباس کی خاص شرائط کا لحاظ رکھا گیا ہے، اور وہ یہ کہ لباس انسان کے جسم و بدن کو اس طریقے سے ڈھانپے کہ دیکھنے والے کی تیز بین نگاہوں سے محفوظ رہ سکے، کیونکہ گناہ کا پہلا مرحلہ نگاہ ہی کے ذریعے سے شروع ہوتا ہے، اس لیے اسلام نے مرد اور خصوصا خواتین کو لباس کے حوالے سے بہت تاکید کی ہے، کیونکہ انسان کی آزادی وہاں تک ہے جہاں سے دوسرے انسان کی حدود شروع ہو جاتی ہے، جس طرح زمینوں کی حدود ہیں اسی طرح سے انسان کی آزادی کی بھی حدود ہیں، اگر کسی معاشرے میں ان حدود کا لحاظ نہ رکھا گیا تو وہ معاشرہ انسانی کہلانے کا مستحق نہیں بلکہ وہاں جنگل کا ماحول ہوگا، اسی لیے مادی ترقی کے اس دور میں آج مغربی معاشرے کا شیرازہ بکھر چکا ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی ان کی صنعت اور سرمایہ داری کا ایک ادنی سا پرزہ بن کر انکی خدمت کرنے میں لگ جائیں ، اس کے لیے انھوں سب سے پہلے مسلمانوں کے لباس کے حدود و قیود کو ان سے چھیننا شروع کیا، اور آج ہم اس کا نتیجہ گھر گھر تک نفوذ کی صورت میں دیکھ رہے ہیں، اور خصوصا صنف نازک کے حجاب اسلامی،طرز لباس اتارنے کے لیے وہ ایڑی چوٹی کے زور لگا رہے ہیں، پاکستان کے کونے کونے میں کبھی ثقافت کے نام پر تو کبھی جشن کے نام پر مختلف پروگرام منعقد کراتے ہیں اور ان میں کچھ خواتین کو عریان کر کے پیش کرتے ہیں تاکہ دوسرے خواتین بھی ان کی پیروی کرنا شروع کرئے، اور اس طریقے سے لوگوں کو دین اسلام سے دور کر کے مغرب زدہ کیا جاسکے۔

لیکن انسان کی ابدی سعادت اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے میں مضمر ہے، لباس اور پردہ اتارنے والے نہ دنیا میں کامیاب ہیں اور نہ آخرت میں.بلکہ انسان کی عظمت وبزرگی، کامیابی و کامرانی ،سعادت و خوش بختی الہی قانون پر عمل کرنے میں ہے.

 پیشکش: رہنمائے تحریر فورم

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *