تازہ ترین

تقلید عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں

تقلید کیوں ضروری ہے؟
عقلی دلیل
تقلید کا ضروری اور واجب ہونا عقلی اعتبار سے بھی ثابت ہے اور نقلی اعتبار سے بھی۔
جب آپ مریض ہوتے ہیں آپ کی عقل کیا کہتی ہے کہ آپ کس کے پاس رجوع کریں انجینئر کے پاس، بقال کے پاس یا ڈاکٹر کے پاس؟

شئیر
37 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5532

ظاہر ہے کہ عقل ڈاکٹر کے پاس جانے کا حکم کرتی ہے۔
آپ نے گهر بنانا ہے تو کس کی طرف رجوع کرینگے؟
حتی آپ بال بنوانے اور لباس سلوانے کیلے کس کی طرف رجوع کرینگے؟؟؟
جب انسان خود شریعت سے واقف نہ ہو اور جہنم میں جانے سے بچنے کے لیے شریعت پر عمل کرنا چاہتا ہو تو مسائل پوچھنے کے لیے کس کی طرف رجوع کرے؟
عالم دین کی طرف یا جاہل کی طرف؟
عقل سلیم یہی کہتی ہے کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے جو دین کے احکام میں واقف ہو اور عالم دین ہو۔
وہ عالم دین یا خود دین میں اسپیشلسٹ ہو گا یا کسی اسپیشلسٹ کے نسخے کو بتائے گا اسی اسپیشلسٹ کو مجتہد کہتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے کو تقلید۔
نقلی دلیل:
امام حسن عسکری (ع) نے بھی اپنی حدیث میں فرمایا:*
فاما من کان من الفقہا:
حافظا لدینہ،:
مخالفا لہواہ:
مطیعا لامر مولاہ،:
فللعوام ان یقلدوہ۔
ترجمه:فقہا میں سے جو اپنے دین کا محافظ ہو اپنی ہوائے نفس کا مخالف ہو اپنے مولا کا مطیع ہو عوام پر ضروری ہے کہ اس کی تقلید کریں۔
اس حدیث سے واضح طور پر فقیہ جامع شرائط کی تقلید ثابت ہے۔
عام طور سے انسان دو وجہ سے مجتہد کی تقلید کرتا ہے:
۱ -عقلی دلیلیں:
عقلانی روش یهی ہے جب کسی چیز میں گهری معلومات کی ضرورت ہو اور اس شخص کے پاس اس سلسله میں اتنی معلومات نه ہو تو لا محاله وه کسی ماہر شخص سے رجوع کرتا ہے؛ جیسے بیماری کے علاج کے لئے کسی ماہر طبیب کے پاس جانا۔
اسی عقلانی روش کی بنا پر انسان فطری طور سے اور عقل کے حکم کے مطابق، شرعی احکام کو جاننے کے لئے مجتهدین کے پاس جو اس سلسله کے ماہرین ہیں، رجوع کرتا ہے۔
۲ -ہر مسلمان جانتا ہے که اسلام میں واجب و حرام ۔۔۔ کی صورت میں کچه شرعی فرائض پائے جاتے ہیں اور یهی اجمالی اطلاع کافی ہے کی انسان ان فرائض کے سلسله میں خدا کے نزدیک جوابده ہو۔
ان فرائض کے روشنی میں اپنی ذمه داری کو نبهانے کے لئے وه ان تین راستوں میں سے کسی ایک کو اپنا سکتا ہے:
الف: یا خود اجتهاد کے ذریعه واجبات اور محرمات کے تمام احکام سے واقف ہو اور اس پر عمل کرے؛ یعنی یه که خود مجتهد ہو۔
ب: یا اگر دقیق اور عمیق نهیں جانتا تو احتیاط پر عمل کرے که یقین ہوجائے که اپنی ذمه داری نبها دی ہے، مثال کے طور پر اگر کسی مسأله میں شک ہو که جائز ہے یا حرام تو اس سے پرہیز کرے یا اگر شک ہو که واجب ہے یا مستحب یا مباح تو اس پر ضرور عمل کرے۔ اور اسے احتیاط پر عمل کہتے ہیں۔
ج؛ یا کسی ماہر مجتهد کی رائے پر اعتماد کرے اور جسے وه واجب یا حرام قرار دے اس کے اطاعت کرے اسی کا نام تقلید ہے۔
انهیں تین طریقوں سے وه اپنی شرعی ذمہ داری کو نبها سکتا ہے؛
لیکن پهلے طریقے میں زحمت کے ہمراه ایک طویل مدّت بهی در کار ہے اور اجتهاد تک پهنچنے سے پهلے کی مدّت میں وه دو ہی راستوں کا انتخاب کرسکتا ہے” احتیاط” یا “تقلید” دوسرے طریقه میں بهی حلال و حرام کے سلسله میں اجتهاد کی حد تک نه سهی پهر بهی اچهی خاصی معلومات کی ضرورت ہوتی ہے،
اس کے علاوه ہر مسأله میں احتیاطی روش اپنانا بهت سخت اور دشوار اور کبهی کبهی تو ناممکن ہوجاتا ہے جیسے کسی چیز کے واجب یا حرام ہونے میں شک ہو۔
ایسی صورت میں ایک ہی راسته بچتا ہے اور وه تیسرا راسته تقلید کا ہے۔
یه دلیل صرف انهیں مسائل میں تقلید کو لازم قرار دیتی ہے جن کے حرام و حلال یا واجب یا زیاده سے زیاده مستحب ہونے میں شک ہو، باقی مسائل میں لازمی طور سے تقلید کرنا اس دلیل سے سمجه میں نهیں آتا۔
ہاں پهلی دلیل کے مطابق یعنی عقلانی روش کے مطابق تمام مسائل میں تقلید کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
تقلید کے دوسرے جزئی مسائل جیسے میت کی تقلید پر باقی رہنا۔۔۔ و غیره ان مسائل میں ہے جنهیں غیر مجتهد انسان حاصل نهیں کرسکتا اور اس سلسله میں اس کے پاس دو ہی راستے ہیں یا ” احتیاط ” یا ” تقلید “
جواز یا لزوم تقلید کے سلسلہ اور دلائل بهی ہیں جن پر انحصار کرنا ایک مجتهد کا کام ہے اور جن کی بنا پر ایک مجتهد فتوا صادر کرتا ہے۔
دلائل غیر نقلی:
اول:دلیل فطرت
جب کوئی جاہل اس بات کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے کہ خدا کی جانب سے اس پر کچھ احکامات کا بجا لانا ضروری ہے ۔
اس کا ان احکامات کو بجا لانا علم پر موقوف ہے جبکہ وہ اس علم کو حاصل کرنے سے عاجز ہے،
اور دوسری طرف احتیاط پر بھی عمل کرنا اس کیلئے نا ممکن ہے تو اب اس حال میں اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عالم کی طرف رجوع کرے اور اس کا عالم کی طرف رجوع کرنا ایک وجدانی امر ہے۔۔
اگر وہ عالم کی طرف بھی رجوع نہ کرے تو لازم آتا ہے اس کی نسبت علم کا دروازه بند ہو جائے۔
شرعی احکام کو انجام دینے کیلئے جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا ایک وجدانی اقدام ہے یعنی اس کا وجدان عالم کی طرف رجوع کرنے کو جائز قرار دیتا ہے ۔
پس جب یہ ثابت ہو گیا جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا ایک وجدانی امر ہے تو اب اسکے لئے دلیل قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ:
وجدانی امور اولیات میں سے ہیں،
اور اولیات دلیل کے محتاج نہیں ہوتے ہیں کیونکہ ہر دلیل کی غایت اور انتہا اولیات پر ہی ہوتی ہے۔
دوم:سیرت متشرعہ:
سیرت کی دو اقسام :
۱:عرف اور عقلاء کی سیرت،
۲:اور متشرعین(دیندار لوگوں)کی سیرت، ہیں ۔اگر عرف اور عقلاء کی سیرت پائی جاتی ہو تو اس میں شارع کے امضاء(حکم جواز) کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اگر سیرت کی دوسری قسم دیندارلوگوں کی سیرت(سیرت متشرعہ ) کسی چیز پر موجود ہو تو یہ سیرت امام معصوم کی رائے کی بیان بیان گر ہوتی ہے اور یہ اجماع عملی ہے ۔ اس میں شارع کی جانب سے امضاء(یعنی حکم جواز) کی ضرورت نہں ہوتی ہے۔جاہل کے عالم کی طرف رجوع کرنے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جہلاء کو جب اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ خدا کی جانب سے کچھ احکام کا بجا لانا ضروری ہے اور وہ نہ تو ان احکام کی معرفت حاصل کر سکتے ہیں اور نہ وہ احتیاط پر عمل کر سکتے ہیں لہذا ایسے جہلاء اپنے احکام دینی کو انجام دینے میں ہمیشہ علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
سیرت متشرعین کے معاملے میں اس سیرت متشرعہ پر آئمہ معصومین کی تائید کا ادعا بھی کیا گیا ہے ۔ پس اس بات کے پیش نظر تقلید کے جواز پر یہ قوی ترین دلیل قرار پائے گی۔
نقلی دلائل:
اول: آیات:
۱:و‌ما‌کانَ المُؤمِنونَ لِینفِروا کافَّةً فَلَولا نَفَرَ مِن کلِّ فِرقَة مِنهُم طَائِفَةٌ لِیتَفَقَّهوا فِی الدّینِ ولِینذِروا قَومَهُم اِذا رَجَعوا اِلَیهِم لَعَلَّهُم یحذَرون۔
ترجمہ : اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سب کے سب مؤمنین جنگ کیلے نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں ایک جماعت نکلے تا کہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب وہ واپس آئیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں تا کہ وہ ہلاکت سے بچے رہیں۔
یہ آیت احکام شرعی میں تقلید کے وجوب کو بیان کرتی ہے کیونکہ فقیہ جس چیز سے انذار(ڈرائے) کرے اس سے بچنا ضروری ہے اور یہ صرف اس کے انذار اور فتوے پر عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے احکام کو دلیل کے ساتھ جاننے کے لحاظ سے اُس زمانے اور موجودہ زمانے کی فقاہت اور اجتہاد میں کوئی فرق نہیں ہے .
ہان صرف آسانی اور مشکل کے لحاظ سے ان کے درمیان فرق ہے مثلا اہل زبان کی جہت سے اُن لوگوں کو علم لغت سیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی یا انہیں اگر کسی لفظ کا معنی معلوم نہیں ہوتا تھا تو ان کے پاس راہ موجود تھا وہ مستقیم طور پر امام سے سوال کر سکتے تھے ۔
آجکل کے دور میں صرف تعارض روایات ایک ایسا مسئلہ ہے جو مشکل مسائل میں سے ہے لیکن تعارض روایات کا مسئلہ بھی اُس زمانے میں موجود تھا جیسا کہ مختف روایات سے ظاہر ہوتا ہے ۔پس اس بنا پر آیت کی دلالت کو کسی ایک زمانے کے ساتھ مخصوص کرنا درست نہیں ہے ۔
۲:فَسئَلوا اَهلَ الذِّكرِ اِن كُنتُم لاتَعلَمون۔
ترجمہ :پس اگر تم نہیں جانتے ہو تو تم اہل ذکر سے سوال کرو۔
یہ آیت جاہل کے عالم کی طرف رجوع کے جواز پر دلالت کرتی ہے اور اسے ہی تقلید کہا جاتا ہے نیز جاہل کی نسبت فتوائے عالم کی حجیت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اگر عالم کا فتوی جاہل پر حجت نہ ہو تو عالم سے سوال کرنا لغو لازم آئے گا۔
اعتراض :
اس آیت سے یہ مراد ہے کہ جاہل عالم سے رجوع کرے تا کہ اسے علم حاصل ہو جائے اور پھر وہ سائل اس علم کے مطابق عمل کرے ۔پس یہ آیت فتوے کی حجیت کو بیان نہیں کر رہی ہے ۔
جواب: کسی چیز کے علم یا معرفت نہ ہونے کی صورت میں جب سوال کا جواب دیا جاتا ہے تو عام طور پر ایسے مقامات پر سائل کے عمل اور ذمہ داری کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے ۔جیسا کہ ایک مریض علاج کیلئے جب ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو اس مریض کا قصد یہ ہوتا ہے کہ وہ ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق عمل کرے گا اس مریض کا یہ مقصود نہیں ہوتا ہے کہ وہ ڈاکٹر اور اس بیماری کے علاج کا عالم ہو جائے او پھر اس ڈاکٹر کے کہے پر عمل کرے گا۔ معترض کا بیان کردہ معنی فہم عرفی کے خلاف ہے ۔ پس اس بیان کی روشنی میں آیت کا یہ معنی ہے “اگر تم عالم نہیں تو ان سے سوال کرو تا کہ ان کے کہے کے مطابق عمل کرسکو”۔
اعتراض:
روایات میں اہل ذکر سے اہل کتاب یا آئمہ معصومین سے مراد ہیں پس یہ آیت تقلید کے جواز،جاہل کے عالم کی طرف رجوع اور احکام میں فقیہ کی طرف رجوع کرنے سے مربوط نہیں ہے ۔
جواب:
یہ آیت کسی ایک مخصوص مقام سے مربوط نہیں ہے بلکہ وہ ایک قاعدہ کلیہ بیان کر رہی ہے جو مقام کی مناسبت سے کبھی اہل کتاب پر صادق آتا، کبھی آئمہ معصومینؑ پر منطبق ہوتا ہے اور کبھی فقیہ پر صادق آتا ہے۔
جب مقام سوال اعتقادات مثلا نبوت یا نبیؑ کی صفات کے متعلق ہو گا تو علمائے اہل کتاب مراد ہونگے ،اگر مقام سوال احکام فرعیہ سے ہو تو نبی اکرمؐ اور آئمہ معصومین ؑ سے سوال کرنا مقصود ہوگا اور جب معصومینؑ سے ارتباط ممکن نہ ہو تو فقہاء کی طرف رجوع کرنا مراد ہو گا۔
روایات:
وہ روایات کہ جن سے علماء نے گاہے بگاہے تقلید کے جواز کیلئے استناد کیا ہے۔
ان روایات کو چند حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : مثلا
۱:وه احادیث جن میں آئمہؑ نے اپنے شیعوں کو اپنے اصحاب کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے جیسے.
۲:امام زمانہ کی توقیع۔
۳:وہ احادیث جن میں آئمہ نے اپنے مخصوص اصحاب کا نام لے کر ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔
۴:وہ احادیث جن میں آئمہ ؑنے اپنے اصحاب کی فتوی دینے پر حوصلہ افزائی فرمائی ہے ۔
۵:وہ احادیث جن میں علم کے بغیر قیاس اور اور شخصی رائے کی بنا پرفتوی دینے سے منع فرمایا ہے ۔
۶:وہ احادیث جن میں آئمہؑ نے قواعد شرعیہ کی اساس پر فتوی دینے کی تائید فرمائی ہے جیسے.
روایتوں میں آیا ھے کہ:
” لیکن رونما ھونے والے واقعات کے بارے میں ھماری حدیثوں کے راویوں کی طرف رجوع کریں کہ وہ میری طرف سے آپ پر حجت ھیں اور میں آپ پر خدا کا حجت ھوں”
محقق کرکی فرماتے ھیں:
” تمام شیعہ اتفاق نظر رکھتے ھیں کہ عادل، امین، فتویٰ میں جامع الشرائط فقیہ، ائمہ ھدی[ع] کی طرف سے غیبت کے زمانہ میں، قابل مداخلت امور میں، ان کا نائب ھے۔
اس بنا پر مراجع تقلید، فقہ کے ماھر ھیں کہ الھی احکام کو شرعی منابع سے استنباط کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں اور دوسروں پر ضروری ھے کہ دینی مسائل کے سلسلہ میں ان کی طرف رجوع کریں۔
تقلید کے اقسام:
تقلید کی دو قسمیں ہیں جائز و ناجائز۔
۱:ناجائز اجتہاد:
ہمارے نقطہ نظر سے ناجائز اجتہاد کا مطلب قانون سازی ہے یعنی مجتہد اپنی فکر اور اپنی رائے کی بنیاد پر کوئی ایسا قانون وضع کرے جو قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے‘ اسے اصطلاح میں “اجتہاد بالرائے” کہتے ہیں۔
شیعی نقطہ نظر سے اس قسم کا اجتہاد منع ہے‘ لیکن اہل سنت اسے جائز سمجھتے ہیں۔ اہل سنت جب قانون سازی کے مصادر اور شرعی دلیلوں کو بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں‘ کتاب‘ سنت‘ اجتہاد‘ اجتہاد کو… جس سے مراد اجتہاد بالرائے ہے… قرآن و سنت کی صف میں شمار کرتے ہیں۔
اس اختلاف نظر کا سبب اہل سنت کا یہ نظریہ ہے کہ کتاب و سنت کے ذریعے بننے والے قوانین محدود ہیں‘ حالانکہ واقعات و حادثات لامحدود ہیں‘ لہٰذا کتاب و سنت کے علاوہ ایک اور مصدر ضروری ہے جس کے سہارے الٰہی قوانین بنائے جا سکیں اور یہ مصدر وہی ہے جسے ہم “اجتہاد بالرائے” کے نام سے یاد کرتے ہیں‘ انہوں نے اس سلسلے میں رسول اکرم سے کچھ حدیثیں بھی نقل کی ہیں‘ من جملہ یہ کہ:
رسول خدا جس وقت معاذ بن جبل کو یمن بھیج رہے تھے‘ ان سے دریافت فرمایا کہ تم وہاں کیسے فیصلے کرو گے؟ معاذ نے کہا‘ کتاب خدا کے مطابق۔ حضرت نے فرمایا‘ اگر کتاب خدا میں تمہیں اس کا حکم نہ مل سکا؟ معاذ نے عرض کیا‘ رسول خدا کی سنت سے استفادہ کروں گا۔ حضرت نے فرمایا‘ اور اگر رسول خدا کی سنت میں بھی نہ ملا تو کیا کرو گے؟ معاذ نے کہا‘ اجتہد رائی یعنی اپنی فکر‘ اپنی رائے‘ اپنے ذوق اور اپنے سلیقے سے کام لوں گا۔
کچھ اور حدیثیں بھی اس سلسلے میں ان لوگوں نے نقل کی ہیں۔
“اجتہاد بالرائے” کیا ہے؟
اور کس طرح انجام پانا چاہئے؟
اس سلسلے میں اہل سنت کے یہاں خاصا اختلاف ہے۔ شافعی کو اپنی مشہور و معروف کتاب “الرسالہ” میں… جو علوم اصول فقہ میں لکھی گئی‘ پہلی کتاب ہے اور میں نے اسے پارلیمنٹ کی لائبریری میں دیکھا ہے‘ اس میں ایک باب “باب اجتہاد” کے نام سے بھی ہے‘ شافعی کو اس میں… اس بات پر اصرار ہے کہ احادیث میں “اجتہاد” کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس سے صرف “قیاس” مراد ہے۔ قیاس کا مطلب… اجمالی طور پر… یہ ہے کہ مشابہ مورد پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے سامنے درپیش قضیہ میں ان ہی مشابہ موارد کے مطابق حکم کریں۔
لیکن بعض دوسرے سنی فقیہوں نے اجتہاد بالرائے کو قیاس میں منحصر نہیں جانا ہے بلکہ استحسان کو بھی معتبر مانا ہے۔ استحسان کا مطلب یہ ہے کہ مشابہ موارد کو مدنظر رکھے بغیر مستقل طور پر جائزہ لیں اور جو چیز حق و انصاف سے زیادہ قریب ہو‘ نیز ہمارا ذوق و عقل اسے پسند کرے اسی کے مطابق حکم صادر کریں۔ اسی طرح “استصلاح” بھی ہے‘ یعنی ایک مصلحت کو دوسری مصلحت پر مقدم رکھنا ایسے ہی “تاوّل” بھی ہے یعنی اگرچہ کسی دینی نص‘ کسی آیت یا رسول خدا کی کسی معتبر حدیث میں ایک حکم موجود ہے لیکن بعض وجوہات کے پیش نظر ہمیں نص کے مفہوم و مدلول کو نظرانداز کر کے اپنی “اجتہادی رائے” مقدم کرنے کا حق ہے۔ ان اصطلاحوں کے متعلق تفصیلی بحث و گفتگو کی ضرورت ہے اور اس طرح شیعہ سنی کی بحث بھی چھڑ جائے گی۔ اس سلسلے میں یعنی نص کے مقابلے میں اجتہاد کے متعلق متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں اور شاید سب سے اچھی کتاب “النص و الاجتہاد” ہے جسے علامہ جلیل سید شرف الدین رحمتہ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے۔
شیعہ نقطہ نظر سے اس طرح کا اجتہاد ناجائز ہے‘ شیعوں اور ان کے آئمہ کی نظر میں اس کی ابتدائی بنیاد ہی… یعنی یہ کہ کتاب و سنت کافی نہیں ہیں لہٰذا ہمیں اپنی فکر و رائے سے اجتہاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے… درست نہیں ہے‘ ایسی بے شمار حدیثیں پائی جاتی ہیں کہ ہر چیز کا کلی حکم قرآن و سنت میں موجود ہے کتاب “وافی” میں باب البدع والمقائیس” کے بعد ایک باب ہے جس کا عنوان یہ ہے:
باب الرد الی الکتاب والسنة وانہ لیس شئی من الحلال و الحرام وجمیع ماتحتاج الیہ الناس الا وقد جاء فیہ کتاب او سنة(کافی‘ جلد ۱‘ کتاب العلم‘ قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کا باب اور یہ کہ ہر حلال و حرام اور عوام کی ضروریات قرآن و سنت میں موجود ہیں)
قیاس و اجتہاد کو قبول یا اسے رد کرنے کے متعلق دو جہتوں سے بحث و گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ایک یہی جہت جسے میں نے بیان کیا کہ قیاس و اجتہاد بالرائے کو اسلامی قانون سازی کا ایک سرچشمہ و مصدر تسلیم کر لیا جائے اور اسے کتاب و سنت کی صف میں ایک مستقل مصدر مانتے ہوئے کہیں کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جن کا حکم وحی کے ذریعے بیان نہیں ہوا ہے‘ اب یہ مجتہدوں کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی رائے سے ان کا حکم بیان کریں‘ دوسری جہت یہ ہے کہ قیاس و اجتہاد بالرائے کو واقعی احکام کے استنباط کے وسیلہ کے طور پر اسی طرح استعمال کریں جس طرح دوسرے وسائل‘ مثلاً خبر واحد سے استفادہ کرتے ہیں اسے اصطلاحی زبان میں یوں سمجھئے کہ ممکن ہے قیاس کو موضوعیت کی حیثیت دیں اور ممکن ہے اسے طریقیت کی حیثیت دیں۔
شیعہ فقہمیں قیاس و اجتہاد بالرائے مذکورہ بالا کسی بھی عنوان سے معتبر نہیں ہے‘ پہلی جہت اس لئے معتبر نہیں ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس کا حکم (چاہے کلی طور پر سہی) قرآن و سنت نے بیان نہ کیا ہو‘ دوسری جہت اس لئے باطل ہے کہ قیاس و اجتہاد بالرائے کا تعلق گمان و تخمینہ سے ہے اور یہ شرعی احکام میں بہت زیادہ خطا و لغزش سے دوچار ہوتے ہیں۔ قیاس کے بارے میں شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف کی بنیاد وہی پہلی جہت ہے اگرچہ اصولیوں کے یہاں دوسری جہت زیادہ مشہور ہوئی ہے۔
“اجتہاد” کا حق اہل سنت کے یہاں زیادہ دنوں تک باقی نہیں رہ سکا‘ شاید اس کا سبب عملی طور پر پیش آنے والی مشکلیں تھیں‘ کیونکہ اگر یہ حق اسی طرح جاری رہے‘ خاص طور سے نصوں میں تاوّل و تصرف جائز سمجھتے ہیں اور ہر شخص اپنی رائے کے مطابق تصرف و تاوّل کرتا رہے تو دین کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا‘ شاید یہی وجہ تھی کہ رفتہ رفتہ مستقل اجتہاد کا حق چھین لیا گیا اور سنی علماء نے یہ طے کر لیا کہ عوام کو چار مشہور مجتہدوں اور اماموں ابوحنیفہ‘ شافعی‘ مالک بن انس‘ احمد بن حنبل کی تقلید کی طرف لے جائیں اور انہیں ان چاروں کے علاوہ کسی دوسرے مجتہد کی تقلید سے روک دیں۔ یہ قدم پہلے (ساتویں صدی میں) مصر میں اٹھایا گیا اور بعد میں دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی اس طرز فکر نے جگہ بنا لی۔
۲:جائز اجتہاد:
لفظ “اجتہاد” پانچویں صدی ہجری تک اسی طرح مخصوص معنی میں… یعنی قیاس و اجتہاد بالرائے جو شیعہ نقطہ نظر سے ناجائز ہے… استعمال ہوتا تھا۔ شیعہ علماء اس وقت تک اپنی کتابوں میں “باب الاجتہاد” اسے رد کرنے اور باطل و ناجائز قرار دینے کے لئے لکھتے تھے‘ جیسے شیخ طوسی کتاب “عدہ” میں لیکن آہستہ آہستہ یہ لفظ اپنے خصوصی معنی سے باہر آ گیا اور خود سنی علماء نے بھی… جیسے ابن حاجب “مختصرالاصول” میں جس کی شرح عضدی نے لکھی ہے اور مدتوں جامعة الازہر کے درسی نصاب میں شامل رہی ہے اور شاید آج بھی شامل ہو۔
ان سے پہلے غزالی نے اپنی مشہور کتاب “المستصفٰی” میں… لفظ اجتہاد کو اجتہاد بالرائے کے اس مخصوص معنی میں استعمال نہیں کیا ہے جو کتاب و سنت کے مقابلے میں ہے‘ بلکہ انہوں نے شرعی حکم حاصل کرنے کے لئے سعی و کوشش کے اس عالم معنی میں استعمال کیا ہے جسے ان لفظوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ استفراع الوسع فی طلب الحکم الشرعی اس تعریف کے مطابق اجتہاد کا مطلب‘ “معتبر شرعی دلیلوں کے ذریعے شرعی احکام کے استنباط کی انتہائی کوشش کرنا ہے۔” اب رہی یہ بات کہ معتبر شرعی دلیلیں کیا ہیں؟
آیا قیاس و استحسان وغیرہ بھی شرعی دلیلوں میں شامل ہیں یا نہیں؟
یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔
اس وقت (پانچویں صدی) سے شیعہ علماء نے بھی یہ لفظ اپنا لیا کیونکہ وہ اس قسم کے اجتہاد کے پہلے سے قائل تھے۔
یہ اجتہاد‘ جائز اجتہاد ہے‘ اگرچہ شروع میں یہ لفظ شیعوں کی نظر میں نفرت انگیز تھا لیکن جب اس کا معنی و مفہوم بدل گیا تو شیعہ علماء نے بھی تعصب سے کام نہیں لینا چاہا اور اس کے استعمال سے پرہیز نہیں کیا‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ علماء بہت سے مقامات پر مسلمانوں کی جماعت سے اتحاد و یکجہتی اور اسلوب کی رعایت کا بڑا خیال رکھتے تھے‘ مثلاً اہل سنت‘ اجماع کو حجت مانتے تھے اور تقریباً قیاس کی طرح اجماع کے لئے بھی اصالت و موضوعیت کے قائل تھے‘ جبکہ شیعہ اسے نہیں مانتے وہ ایک دوسری چیز کے قائل ہیں‘ لیکن اسلوب اور وحدت کے تحفظ کی خاطر جس چیز کو خود مانتے تھے اس کا نام اجماع رکھ دیا۔ اہل سنت کہتے تھے شرعی دلیلیں چار ہیں‘ کتاب‘ سنت‘ اجماع‘ اجتہاد (قیاس)۔
شیعہ علماء نے کہا‘ شرعی دلیلیں چار ہیں:
کتاب‘ سنت‘ اجماع‘ عقل۔
انہوں نے صرف قیاس کی جگہ عقل رکھ دی۔
بہرکیف اجتہاد رفتہ رفتہ صحیح و منطقی معنی میں استعمال ہونے لگا یعنی شرعی دلیلوں کو سمجھنے کے لئے غور و فکر اور عقل کا استعمال اور اس کے لئے کچھ ایسے علوم میں مہارت ضروری ہے جو صحیح و عالمانہ تدبر و تعقل کی استعداد و صلاحیت کا مقدمہ ہیں۔ علمائے اسلام کو تدریجی طور پر یہ احساس ہوا کہ شرعی دلیلوں کے مجموعہ سے احکام کے استخراج و استنباط کے لئے کچھ ابتدائی علوم سے واقفیت ضروری ہے‘ جیسے عربی ادب‘ منطق‘ تفسیر قرآن‘ حدیث‘ رجال حدیث‘ علم اصول حتیٰ دوسرے فرقوں کی فقہ کا علم۔ اب مجتہد اس شخص کو کہتے ہیں جو ان تمام علوم میں مہارت رکھتا ہو۔
یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن گمان غالب یہی ہے کہ شیعوں میں اجتہاد و مجتہد کا لفظ اس معنی میں سب سے پہلے علامہ حلی نے استعمال کیا ہے۔ علامہ حلی نے اپنی کتاب “تہذیب الاصول” میں “باب القیاس” کے بعد “باب الاجتہاد” تحریر فرمایا ہے‘ وہاں انہوں نے اجتہاد اس معنی میں استعمال کیا ہے جس معنی میں آج استعمال کیا جاتا ہے اور رائج ہے۔
پس شیعی نقطہ نظر سے وہ اجتہاد ناجائز ہے جو قدیم زمانہ میں قیاس و رائے کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ اب چاہے اسے قانون سازی و تشریع کا ایک مستقل مصدر و سرچشمہ مانیں یا واقعی حکم کے استخراج و استنباط کا وسیلہ‘ لیکن جائز اجتہاد سے مراد فنی مہارت کی بنیاد پر سعی و کوشش ہے۔
پس یہ جو کہا جاتا ہے کہ اسلام میں اجتہاد کیا چیز ہے؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اجتہاد جس معنی میں آج استعمال ہو رہا ہے‘ اس سے مراد صلاحیت اور فنی مہارت ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص قرآن و حدیث سے استفادہ کرنا چاہتا ہے اس کے لئے قرآن کی تفسیر‘ آیتوں کے معانی‘ ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ سے واقفیت‘ نیز معتبر و غیر معتبر حدیثوں میں تمیز دینے کی صلاحیت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ صحیح عقلی اصولوں کی بنیاد پر حدیثوں کے آپسی ٹکراؤ کو ممکنہ حد تک حل کر سکتا ہو‘ مذہب کے اجمالی و متفق علیہ مسائل کو تشخیص دے سکتا ہو‘ خود قرآنی آیتوں اور حدیثوں میں کچھ کلی اصول و قواعد ذکر کرتے ہوئے ہیں‘ دنیا کے تمام علوم میں پائے جانے والے تمام اصولوں اور فارمولوں کی طرح ان شرعی اصول و قواعد کے استعمال کے لئے بھی مشق‘ تمرین‘ تجربہ اور ممارست ضروری ہے۔ ایک ماہر صنعت کار کی طرح اسے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مواد کے ڈھیر میں سے کون سا مواد انتخاب کرنا ہے‘ اس میں مہارت و استعداد ہونی چاہئے۔ خاص طور سے حدیثوں میں بہت زیادہ السٹ پھیر اور جعل سازی ہوئی ہے‘ صحیح و غلط حدیثیں آپس میں خلط ملط ہیں‘ اس میں صحیح حدیث کو غلط حدیث سے تشخیص دینے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔
مختصر یہ کہ اس کے پاس اس قدر ابتدائی و مقدماتی معلومات فراہم ہونی چاہئیں کہ واقعاً اس میں اہلیت‘ قابلیت‘ صلاحیت اور فنی مہارت پیدا ہو جائے۔
تشیع میں اخباری گروه:
مکتب تشیع میں اخباریت کا رواج:
یہاں اس خطرناک تحریک کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جو تقریباً چار صدی قبل شیعہ دنیا میں اجتہاد کے موضوع سے متعلق وجود میں آئی ہے اور وہ “اخباریت” کی تحریک ہے۔
اگر کچھ جید و دلیر علماء نہ ہوتے اور اس تحریک کا مقابلہ کر کے اسے سرکوب نہ کرتے تو نہیں معلوم آج ہماری کیا حالت ہوتی۔
دبستان اخباریت کی عمر چار صدی سے زیادہ نہیں ہے‘ اس اسکول کے بانی ملا امین استر آبادی ہیں‘ جو بذات خود بہت ذہین تھے اور بہت سے شیعہ علماء نے ان کا اتباع کیا ہے۔
خود اخباریوں کا دعویٰ ہے کہ شیخ صدوق کے زمانہ تک کے تمام قدیم شیعہ علماء اخباری تھے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اخباریت ایک اسکول اور کچھ معین اصول و قوانین کی شکل میں… جو:
عقل کی حجیت کی منکر ہو‘ قرآن کی حجیت و سندیت کی‘ یہ بہانہ بنا کر منکر ہو کہ قرآن صرف پیغمبر کے اہل بیت ہی سمجھ سکتے ہیں۔
ہماری ذمہ داری فقط اہل بیت علیہم السلام کی حدیثوں کی طرف رجوع کرنا ہے،
اور اجماع سنیوں کی بدعت ہے‘ لہٰذا ادلہ اربعہ یعنی قرآن‘ سنت‘ اجماع‘ عقل میں سے صرف سنت حجت ہے اور وہ تمام حدیثیں جو کتب اربعہ یعنی “کافی”، “من لایحضرہ الفقیہ”، “تہذیب” اور “استبصار” میں بیان ہوئی ہیں‘ صحیح و معتبر بلکہ قطعی الصدور ہیں یعنی رسول خدا اور آئمہ طاہرین سے ان کا صادر ہونا یقینی ہے ان اصولوں کا پیرو اسکول… چار سو سال پہلے موجود نہ تھا۔
شیخ طوسی نے اپنی کتاب “عدة الاصول” میں بعض قدیم علماء کو “مقلدہ” کے نام سے یاد کیا ہے اور ان پر نکتہ چینی کی ہے‘ تاہم ان کا اپنا کوئی اسکول و دبستان نہیں تھا۔ شیخ طوسی نے انہیں مقلدہ اس لئے کہا ہے کہ وہ اصول دین میں بھی روایتوں سے استدلال کرتے تھے۔
بہرحال اخباریت کا اسکول‘ اجتہاد و تقلید کے دبستان کے خلاف ہے‘ جس صلاحیت‘ قابلیت اور فنی مہارت کے مجتہدین قائل ہیں اخباری اس کے منکر ہیں۔
وہ غیر معصوم کی تقلید حرام جانتے ہیں‘ اس اسکول کا حکم ہے کہ چونکہ صرف حدیث حجت و سند ہے اور اس میں بھی کسی کو اجتہاد و اظہار نظر کا حق نہیں ہے‘ لہٰذا عوام پر فرض ہے کہ وہ براہ راست حدیثیں پڑھیں اور ان ہی کے مطابق عمل کریں‘ بیچ میں کسی عالم کو مجتہد مرجع تقلید اور واسطہ کے عنوان سے تسلیم نہ کریں۔
ملا امین استر آبادی نے… جو اس دبستان کے بانی ہیں اور بذات خود ذہین‘ صاحِ مطالعہ اور جہان دیدہ تھے‘ انہوں نے… “الفوائد المدینتہ” نامی ایک کتاب تحریر فرمائی ہے‘ موصوف نے اس کتاب میں مجتہدوں سے بڑی سخت جنگ لڑی ہے‘ خاص طور سے عقل کی حجیت کے انکار کے لئے ایڑی چوڑی کا زور صرف فرمایا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عقل صرف محسوسات یا محسوسات سے قریب مسائل (جیسے ریاضیات) میں حجت ہے‘ اس کے سوا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
بدقسمتی سے یہ فکر اس وقت سامنے آئی جب یورپ میں حسی فلسفہ نے جنم لیا تھا‘ وہ لوگ علوم (سائنس) میں عقل کی حجیت کے منکر ہوئے اور یہ حضرت دین میں انکار کر بیٹھے‘ اب یہ نہیں معلوم کہ موصوف نے یہ فکر کہاں سے حاصل کی‘ ان کی اپنی ایجاد ہے یا کسی سے سیکھا ہے؟
مجھے یاد ہے کہ ۱۹۴۳ء کے موسم گرما میں بروجرد گیا ہوا تھا اور اس وقت آیة اللہ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ‘ بروجرد ہی میں مقیم تھے‘ ابھی قسم تشریف نہیں لائے تھے۔ ایک دن اخباریوں کے طرز فکر کی گفتگو چھڑ گئی‘ آیة اللہ بروجردی نے اس طرز فکر پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ
“اخباریوں کے درمیان اس فکر کی پیدائش یورپ میں حسی فلسفہ کی لہر کے زیراثر عمل میں آئی ہے۔”
یہ بات میں نے ان سے اس وقت سنی تھی‘ جب آپ قم تشریف لائے اور آپ کے درس اصول میں “حجیت قطع” کا موضوع زیر بحث آیا‘ تو مجھے امید تھی کہ آپ دوبارہ وہی بات فرمائیں گے‘ لیکن افسوس! انہوں نے اس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ صرف ان کا خیال و گمان تھا جو انہوں نے بیان فرمایا تھا یا واقعاً ان کے پاس کوئی دلیل موجود تھی۔ خود مجھے ابھی تک کوئی ایسی دلیل نظر نہیں آئی ہے اور بعید نظر آتا ہے کہ اس زمانہ میں یہ حسی فکر مغرب سے مشرق تک پہنچی ہو‘ لیکن آیة اللہ بروجردی بھی کبھی دلیل کے بغیر کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ اب مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ اس وقت میں نے اس سلسلے میں ان سے سوال کیوں نہیں کیا۔
اخباریت کا مقابلہ:
بہرصورت اخباریت عقل کے خلاف ایک تحریک تھی‘ اس اسکول پر عجیب و غریب جمود حکم فرما تھا۔
خوش قسمتی سے وحید بہبہانی… معرف بہ آقا “آل آقا” حضرات آپ ہی کی نسل سے ہیں… آپ کے شاگردوں اور شیخ انصاری اعلیٰ اللہ مقامہ جیسے دلیر و سمجھدار افراد نے اس اسکول کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
وحید بہبہانی کربلا میں تھے اس زمانے میں‘ ایک ماہر اخباری‘ صاحب “حدائق” بھی کربلا میں ساکن تھے‘ دونوں کا اپنا اپنا حلقہ درس تھا۔ وحید بہبہانی اجتہادی اسکول کے حامی تھے اور صاحب حدائق اخباری مسلک کے پیرو۔
فطری طور پر دونوں کے درمیان سخت فکری جنگ جاری تھی۔ آخرکار وحید بہبہانی نے صاحب حدائق کو شکست دے دی۔
کہتے ہیں کاشف الغطا بحرالعلوم اور سید مہدی شہرستانی جیسے وحید بہبہانی کے جید شاگرد‘ پہلے صاحب حدائق کے شاگرد تھے‘ بعد میں صاحب حدائق کا حلقہ درس چھوڑ کر وحید کے حلقہ درس میں شامل ہو گئے۔
البتہ صاحب حدائق‘ نرم مزاج اخباری تھے‘ خود ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا مسلک وہی ہے جو علامہ مجلسی کا مسلک تھا‘ ان کا مسلک اصولی و اخباری کے درمیان کی ایک چیز ہے۔
علاوہ برایں وہ بڑے مومن‘ خدا ترس اور متقی و پرہیزگار انسان تھے‘ باجودیکہ وحید بہبہانی ان کے سخت مخالف تھے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے‘ لیکن وہ اس کے برعکس‘ کہتے تھے آقای وحید کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے کہتے ہیں موصوف نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ ان کی نماز جنازہ وحید بہبہانی پڑھائیں۔
اخباریت کے خلاف شیخ انصاری کی جدوجہد کا انداز یہ تھا کہ آپ نے علم اصول فقہ کی بنیادوں کو محکم بنایا۔
کہتے ہیں‘ خود شیخ انصاری فرمایا کرتے تھے کہ اگر امین استر آبادی زندہ ہوتے تو میرا اصول مان لیتا۔
اخباری اسکول اس مقابلہ آرائی کے نتیجے میں شکست کھا گیا اور اب اس مسلک کے پیرو گوشہ و کنار میں خال خال ہی نظر آتے ہیں‘ لیکن ابھی بھی اخباریت کے سارے افکار… جو ملا امین کی پیدائش کے بعد بڑی تیزی سے پھیلے ہیں‘ لوگوں کے ذہنوں میں داخل ہوئے اور تقریباً دو سو سال تک چھائے رہے… ذہنوں سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ آج بھی آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ حدیث کے بغیر‘ قرآن کی تفسیر جائز نہیں سمجھتے۔ بہت سے اخلاقی و سماجی مسائل بکہ بعض فقہی مسائل میں بھی اخباریت کا جمود طاری ہے‘ فی الحال ان کے متعلق تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔
ایک چیز جو عوام کے درمیان اخباری فکر پھیلنے کا باعث ہوئی وہ اس کا عوام پسند پہلو ہے‘ کیونکہ وہ کہتے تھے ہم تو اپنے پاس سے کچھ بھی نہیں کہتے‘ ہم کلام معصوم۱کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں‘ ہمیں صرف “قال الباقر و قال الصادق” سے سروکار ہے‘ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے معصوم۱کا کلام بیان کرتے ہیں۔
اخباریوں کا طرز فکر:
اب ہم یہاں چند ایک نمونے پیش کر رہے ہیں جس سے اخباریت کے جامہ طرز فکر اور اجتہادی نقطہ نظر کے درمیان فرق واضح ہو جائے گا۔
دو طرز فکر کا ایک نمونہ:
بہت سی حدیثوں میں عمامہ کا تحت الحنک گردن میں لپیٹے رہنے کا حکم دیا گیا ہے‘ صرف نماز میں ہی نہیں بلکہ ہر وقت اور ہر جگہ۔ اس سلسلے کی ایک حدیث یہ ہے:
الفرق بین المومنین و المشرکین التلحی
“مومن و مشرک کا فرق‘ گلے میں تحت الحنک لپیٹنا ہے۔”
کچھ اخباریوں نے اس طرح کی حدیثوں سے تمسک کر کے کہا ہے کہ تحت الحنک ہمیشہ گلے میں پڑا رہنا چاہئے‘ لیکن ملا محسن فیض مرحوم نے… باوجودیکہ اجتہاد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اپنی کتاب “وافی” کے باب “الزی و التجمل” میں اس سلسلے میں ایک قسم کا اجتہاد کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں‘ قدیم زمانہ میں مشرکوں کا شیوہ تھا کہ وہ تحت الحنک عمامہ کے اوپر باندھے رہتے تھے اور اس عمل کو “اقتعاط” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا‘ اگر کوئی یہ کام کرتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ میں مشرکوں کے گروہ میں شامل ہوں‘ چنانچہ یہ حدیث اس عملی و شیوہ کے خلاف مبارزہ کرنے اور مشرکوں کے اس سمبل (Symbol) کی پیروی نہ کرنے کی خاطر ہے‘ لیکن آج جبکہ وہ سمبل ختم ہو چکا ہے تو پھر اس حدیث کا کوئی موضوع باقی نہیں رہا ہے‘ آج چونکہ کوئی شخص تحت الحنک گلے میں نہیں لپیٹتا‘ لہٰذا اب تحت الحنک گلے میں لپیٹنا حرام ہے‘ کیونکہ اس صورت میں وہ “لباس شہرت” کی شکل اختیار کر لے گا اور لباس شہرت حرام ہے۔
یہاں اخباریت کا جمود کہتا ہے کہ حدیث میں صرف تحت الحنک لپیٹنے کا حکم بیان ہوا ہے‘ لہٰذا اس کے بارے میں بحث و اجتہاد کرنا فضول ہے‘ لیکن اجتہادی فکر کہتی ہے ہمیں دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے‘ ایک مشرکوں کے سمبل سے اجتناب اور دوسرے لباس شہرت سے پرہیز۔ جس وقت وہ سمبل دنیا میں موجود تھا مسلمین اس سے اجتناب کرتے تھے‘ گلے میں تحت الحنک لپیٹے رہنا سب پر واجب تھا لیکن آج جبکہ یہ موضوع متنفی ہو چکا ہے۔
اب یہ مشرکوں کا سمبل نہیں رہا ہے اور عملی طور پر اب کوئی بھی تحت الحنک نہیں لپیٹتا‘ لہٰذا اب کوئی شخص یہ عمل بجا لاتا ہے تو وہ لباس شہرت کا مصداق ہے اور حرام ہے۔
ایک نمونہ تھا‘ اس طرح کی مثالیں بہت ہیں۔
وحید بہبہانی سے یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ عید کا چاند تواتر کی حد تک ثابت ہو گیا‘ اتنے زیادہ افراد نے میرے پاس آ کر چاند دیکھنے کی گواہی دی کہ مجھے یقین آ گیا۔ چنانچہ میں نے عید کا اعلان کر دیا‘ ایک اخباری نے مجھ پر اعتراض کیا کہ خود تم نے چاند دیکھا نہیں جن کی عدالت مسلم ہے انہوں نے گواہی بھی نہیں دی‘ پھر تم نے عید کا اعلان کیسے کر دیا؟
میں نے کہا خبر متواتر ہے اور تواتر سے مجھے یقین حاصل ہو گیا ہے۔
کہنے لگے کہ کس حدیث میں ہے کہ تواتر حجت ہے؟
وحید بہبہانی کا بیان ہے کہ
“اخباریوں میں اتناد جمود پایا جاتا ہے کہ اگر بالفرض کوئی مریض کسی امام کے پاس گیا ہو اور امام نے اسے ٹھنڈا پانی پینے کو کہا ہو تو اخباری‘ دنیا کے سارے مریضوں کو ٹھنڈا پانی پینے کا حکم دیں گے اور کہیں گے ہر مرض کا علاج ٹھنڈا پانی ہے۔
وہ یہ نہیں سوچیں گے کہ امام نے یہ حکم اس مریض کے مزاج اور اس کی بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے دیا تھا نہ کہ تمام مریضوں کیلئے۔”
یہ بھی مشہور ہے کہ بعض اخباری میت کے کفن پر شہادتیں اس طرح لکھنے کا حکم دیتے تھے:
اسماعیل یشھد ان لا الہ الا اللہ
“اسماعیل خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے۔”
وحدانیت کی گواہی اسماعیل کے نام سے کیوں دی جائے؟
اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ حضرت امام صادق۱نے اپنے فرزند اسماعیل کے کفن پر یہ عبارت تحریر فرمائی تھی۔
اخباریوں نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کہ اسماعیل کے کفن میں یہ عبارت کی وجہ یہ تھی کہ ان کا نام اسماعیل تھا۔
اب اگر مثلاً حسن قلی بیگ کا انتقال ہوا ہے تو خود ان ہی کا نام کیوں نہ لکھا جائے؟ اسماعیل کا نام کیوں لکھیں؟!! اخباری کہتے تھے یہ ساری باتیں اجتہاد اور عقل کا استعمال ہیں‘ ہم اہل تعبد و تسلیم ہیں‘ ہمیں صرف “قال الباقر و قال الصادق” سے مطلب ہے‘ اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ناجائز تقلید:
تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں‘ جائز و ناجائز۔
ایک وہ تقلید ہے جس سے مراد ماحول و معاشرہ کی اندھی پیروی ہے‘ یہ یقینا ناجائز ہے اور قرآن مجید میں اس کی ان لفظوں میں مذمت کی گئی ہے:
انا وجدنا آباء نا علی امة و انا علی آثارھم مقتدون
“ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔”(زخرف‘ ۲۳)
ہم نے تقلید کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے‘ جائز و ناجائز۔ تو ناجائز تقلید ہے‘ مراد صرف ماحول اور اپنے آباء و اجداد کے رسم و رواج کی یہی اندھی تقلید ہی نہیں ہے بلکہ عالم کی طرف جاہل اور فقیہ کی طرف عوام کے رجوع کرنے والی تقلید بھی دو قسم کی ہے‘ جائز و ناجائز۔
آج کل بعض ایسے افراد سے جو کسی مرجع تقلید کی تلاش میں ہیں‘ یہ سننے میں آتا ہے کہ ہمیں کسی ایسے شخص کی تلاش ہے جس کے آستانہ پر سر جھکا دیں اور خود کو اس کے حوالے کر سکیں‘ لیکن اسلام نے جس تقلید کا حکم دیا ہے وہ سپردگی اور خود کو کسی کے حوالے کرنا نہیں ہے بلکہ آنکھ کھولنا اور کھلوانا ہے‘ تقلید اگر سرسپردگی کی شکل اختیار کر لے تو اس میں ہزاروں برائیاں پیدا ہو جائیں گی۔
اس سلسلے میں ایک طویل حدیث ہے جسے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں:
و اما من کان من الفقہاء صائنا لنفسہ حافظا لدینہ مخالفا علی ھواہ مطیعا لامر مولاہ فللقوام ان یقلدوہ
یہ حدیث تقلید و اجتہاد کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے اور شیخ انصاری اس حدیث کے متعلق فرماتے تھے‘ اس سے صحت و صداقت کے آثار نمایاں ہیں۔
یہ حدیث اس آیہ شریفہ کے ذیل میں ہے:
و منھم امیون لا یعلسون الکتاب الا امانی و ان ھم الا یطنون۔
یہ آیت ان جاہل یہودی عوام کی مذمت کر رہی ہے جو اپنے علماء کی تقلید و پیروی کرتے تھے اور ان آیتوں کے بعد جن میں یہودی علماء کے برے طور طریقوں کا ذکر ہوا ہے‘ ارشاد ہوتا ہے:
“ان میں کچھ ایسے جاہل و نادان افراد تھے جو اپنی آسمانی کتاب کے بارے میں بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے اور وہم و گمان کی پیروی کرتے تھے۔”
ناجائز تقلید اور امام صادق (ع):
مذکورہ حدیث اسی آیت کے ذیل میں ہے:
“ایک شخص نے امام صادق۱سے عرض کیا کہ جاہل یہودی عوام اپنے علماء کی پیروی اور ان کی ہر بات ماننے پر مجبور تھے‘ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہی نہ تھا اس میں ان کی کیا خطا ہے؟ اگر خطا ہے تو وہ یہودی علماء کی خطا ہے۔ قرآن مجید ان بے چارے عوام الناس کی مذمت کیوں کر رہا ہے جو کچھ جانتے ہی نہ تھے اور صرف اپنے علماء کی پیروی کر رہے تھے؟ اگر علماء کی تقلید و پیروی لائق مذمت ہے تو پھر ہمارے عوام کی بھی مذمت کی جانی چاہئے جو ہمارے علماء کی تقلید کرتے ہیں‘ اگر یہودی عوام کو اپنے علماء کی تقلید نہیں کرنی چاہئے تھی تو ان لوگوں کو بھی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔”
۱:معصوم امام علیه السلام کے غیر معصوم نائب:
نُوّاب اَربَعہ،
شیعہ اصطلاح میں غیبت صغری کے زمانے میں امام زمانہ(عج) کے ان چار نمائندوں اور نائبین خاص کو کہا جاتا ہے جو آپؑ اور شیعیان اہل بیتؑ کے درمیان رابطے کا کام سرانجام دیتے رہے ہیں۔
ان کو نواب خاص بھی کہا جاتا ہے۔
ان کے نام بالترتیب یہ ہیں:
۱:عثمان بن سعید،
۲:محمد بن عثمان،
۳:حسین بن روح،
۴:اور علی بن محمد سمری۔
نواب اربعہ، ائمہ معصومینؑ کے با اعتماد اصحاص میں سے تھے جو یکے بعد دیگرے خود امام زمانہؑ یا پہلے نائب خاص کی طرف سے منتخب کئے جاتے تھے۔
یہ چار افراد تقریبا ستر سال تک امام زمانہ ؑ کے نائب خاص کے عنوان سے خدمات سرانجام دیتے رہے اور دور و دراز علاقوں میں اپنی جانب سے وکلاء کو تعیین کرنے کے ذریعے شیعوں کی درخواستیں اور پیغامات امام زمانہ)ع) تک پھر امام علیہ السلام کی طرف سے ان کے جوابات کو لوگوں تک پہنجاتے تھے۔
ان نائبین خاص کی دیگر زمہ داریوں میں امام زمانہؑ کے بارے میں ایجاد ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ اور آپؑ کی محل زندگی اور کوائف کو مخفی رکھنا، شامل ہیں۔
نیابت خاصہ:
نیابت خاصہ سے مراد امامؑ کی طرف سے کسی خاص شخص کو لوگوں کے ساتھ رابطے کیلئے اپنا نمائندہ مقرر کرنا ہے جس وقت خود امام براہ راست لوگوں کے ساتھ رابطہ برقرار نہ کر سکتا ہو۔ اس صورت میں امامؑ بعض مشخص افراد میں سے پہلے شخص کو خود اپنا نمائنده مقرر فرماتا ہے پھر آگے چل کر نئے نائب کو پرانا نائب اپنی زندگی میں ہی مقرر کر کے چلا جاتا ہے۔
نواب اربعہ اور ان کی مدت نیابت:
امام زمانہ کے نائبین خاص کی فعالیت غیبت صغری کے دور یعنی سنہ 260 سے 329 ہجری (تقریباً 70 سال) تک جاری رہی۔ اس عرصے میں شیعہ علماء میں سے چار اشخاص کہ ان میں سے بعض دسویں اور گیارہویں امام کے اصحاب اور شناختہ شدہ افراد میں سے تھے۔ جنہوں نے امام زمانہؑ کی نیابت اور امام زمانہ اور شیعوں کے درمیان رابطے کے فرائض انجام دئے۔ ان کے علاوہ تقریبا تمام اسلامی شہروں میں ان کے وکلاء موجود تھے۔
عثمان بن سعید عمری
(متوفی 267 ھ) امام زمانہ کے پہلے نائب خاص ہیں۔ احادیث میں آیا ہے کہ امام حسن عسکریؑ نے اپنے فرزند ارجمند یعنی امام مہدیؑ کو اپنے اصحاب میں سے چالیس افراد کو دکھاتے ہوئے فرمایا امام زمانہؑ کی غیبت امام زمانہ(عج) کے دوران عثمان بن سعید کی اطاعت کریں۔
اسی طرح امام حسن عسکریؑ نے اہل قم کے ساتھ ملاقات میں عثمان بن سعید کی نیابت کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے انہیں ان کی طرف ارجاع دیا۔
عثمان بن سعید اپنی زندگی کے آخری لمحات تک یعنی (تقریبا 6 سال) امام زمانہؑ کے نائب خاص کے عہدے پر فائز رہے۔
محمد بن عثمان بن سعید عَمری (متوفی 305 ھ)، جو پہلے نائب خاص کے بیٹے تھے، امام زمانہؑ کے دوسرے نائب خاص ہیں۔
جب پہلے نائب خاص وفات پا گئے تو امام زمانہؑ نے ایک توقیع کے ذریعے ان کے بیٹے محمد بن عثمان کو تسلیت و تعزیت کے ساتھ اپنے والد کا جانشین اور اپنا نائب خاص مقرر فرمایا۔
اس سے پہلے بھی امام حسن عسکریؑ نے محمد بن عثمان کو امام زمانہؑ کے نائب خاص کے عنوان سے معرفی کر چکے تھے۔
محمد بن عثمان عمری تقریبا چالیس سال تک امام زمانہؑ کے نائب خاص کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔
حسین بن روح نوبختی (متوفی 326 ھ)، امام زمانہؑ کے تیسرے نائب خاص تھے۔ آپ محمد بن عثمان کے قریبی ساتھیوں اور بغداد میں ان کے وکیل تھے۔ محمد بن عثمان نے اپنی عمر کے آخری ایام میں امام زمانہؑ کے حکم سے آپ کو امامؑ کا نائب خاص مقرر کیا۔
انہیں شروع میں عباسی حکومت میں مقام و مرتبہ حاصل تھا لیکن بعد میں ان کے تعلقات خراب ہوگئے یوں کچھ مدت انہیں مخفیانہ طور پر زندگی گزارنا پڑا یہاں تک کہ پاس سال کا عرصہ انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑا۔
آپ نے تقریبا 21 سال تک نیابت خاصہ کے فرائض انجام دئے۔
۳:معصوم امام کے غیر معصوم نائب:
نواب اربعه کے اقدامات اور فعالیتیں:
تمام نواب اربعہ کے سارے اقدامات اور فعالیتیں امام زمانہؑ کے حکم سے انجام پاتے تھے۔
ان فعالیتوں کو چند گروہ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱:فعالیتوں کو مخفیانہ طور پر انجام دینا:
امام حسن عسکریؑ کی شہادت اور بارہویں امامؑ کی غیبت کے دوران صرف نواب اربعہ شیعوں کے مسائل کو حل و فصل کرتے تھے۔ عباسی حکومت کی کڑی نگرانی کے باعث مخفیانہ فعالیتوں کی انجام دہی اور تقیہ کرنا بطور خاص دوسرے، تنسرے اور چوتھے نائب خاص کے زمانے میں اپنی انتہاء کو پہنچ چکی تھی۔
یہاں تک کہ حسین بن روح کچھ مدت کیلئے روپوش ہوگئے اور آخر کار پانچ سال تک قید و بن کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑا۔ تقیہ اور مخفیانہ طور پر فعالیتوں کی انجام دہی کا فائدہ یہ ہوا کہ شیعہ اثنا عشری بنی عباسی کے سخت ترین دور میں حتی ان کے دارالخلافہ میں بھی موجود رہ کر اپنی حفاظت اور باقاعدہ ایک اقلیت کے عنوان سے عباسی حکومت اور ان کے با اثر اور افراطی سنی درباریوں سامنے اپنا اظہار وجود کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
۲:حکومت وقت کے ساتھ تعلقات:
اس دور میں بعض شیعہ شخصیات، بطور خاص امام زمانہؑ کے نائبین خاص جن حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہوتے تھے اور جسے امام معصوم کی جمایت اور تائید بھی حاصل تھی، وہ حکومت وقت کے دربار تک رسائی اور اگر ممکن ہوا تو کسی خاص عہدے اور وزارت تک پہنچنا تھا۔
حسین بن روح نوبختی اپنی نیابت کے ابتدائی دور میں بنی عباسی کے مقتدر حکمران کے دربار تک رسائی رکھتا تھا۔ خاندان نوبختی اور خاندان ابن فرات جو شیعوں کے حامی تھے، عباسی حکومت کے مختلف عہدوں پر فائز ہونے کی وجہ سے ان کے دربار میں نہایت اثر و رسوخ کے حامل تھے۔
۳:غالیوں سے مقابلہ:
ائمہ معصومین کے حوالے سے غُلوّ کا مسئلہ نواب اربعہ کے دور کے اہم مسائل میں سے ایک تھا یہاں تک کہ ائمہ معصومینؑ کے بعض اولاد جیسے امام ہادیؑ کے بیٹے جعفر جو بعد میں جعفر کذاب کے نام سے مشہور ہوا، اسی طرح بعض شیعہ شخصیات بھی غالیوں کے ساتھ تھے اور ان کی حمایت کرتے تھے۔
غیبت صغری کے دوران نواب اربعہ کے وظائف میں سے ایک ان چھوٹے دعویداروں کو رسوا کرنا اور امام زمانہؑ کی طرف سے ان کے بارے میں لعن و تبری کو لوگوں تک پہنچانا تھا۔
نمونے کے طور پر ایک دو مورد کا ذکر کرتے ہیں: محمد بن نصیر جو فرقہ نُصَیریہ کے مؤسس ہیں، غالی تھا اور ائمہؑ کی ربوبیت کا اعتقاد رکھتا تھا اور محارم کے ساتھ نکاح کے جواز کو معاشرے میں رائج کرنا چاہتا تھا۔ محمد بن عثمان نے ان پر لعن اور نفرین کی اور ان سے بیزاری اختیار کی۔
شلمغانی امام زمانہؑ کے تیسرے نائب خاص حسین بن روح کے دور میں امامؑ کے وکلاء میں سے تھا لیکن اپنی جاہ طلبی اور دوسری وجوہات کی بنا پر اپنے مقام اور منصب سے سوء استفادہ کرتے ہوئے غلو کی منزل تک پہنچ گیا۔ حسین بن روح نے ان کو اپنے سے دور کیا امام زمانہؑ نے بھی ایک توقیع کے ذریعے ان پر لعن فرمایا۔
۴:امام مہدیؑ کے حوالے سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ:
شیخ طوسی کے مطابق ابن ابی غانم قزوینی اور بعض شیعہ حضرات کے درمیان امام حسن عسکریؑ کے صاحب فرزند ہونے اور نہ ہونے پر بحث چھڑ گئی اس بنا پر شیعوں کی طرف سے امام مہدیؑ کے نام ایک تحریر ارسال کی گئی اور ان سے یہ اس اختلاف کے حل و فصل کی درخواست کی گئی تھی۔ امام مہدی ؑ نے ان کے اس خط کے جواب میں اس بات کی تاکید فرمائی کہ خداوندعالم نے گیارہویں امام کے بعد اپنے پسندیدہ دین کو ختم نہیں فرمایا اور اپنے اور اپنی مخلوقات کے درمیان رابطے کو ختم نہیں فرمایا ہے اور قیامت ایسا نہیں کیا جائے گا۔
امام مہدیؑ کی ایک اور توقیع کے بارے میں روایات ملتی ہیں۔ یہ توقیع اس وقت صادر ہوئی جب جعفر کذاب نے امام حسن عسکری ؑ کے جانشین ہونے کا دعوی کیا۔ امامؑ نے اس توقیع میں ائمہ معصومین ؑ کی امامت اور عصمت کو ثابت کرتے ہوئے جعفر کے حلال و حرام سے عدم آشنائی اور حق و باطل میں تشخیص نہ دے سکنے کی طرف اشارہ فرمایا اور یہ سوال مطرح فرمایا کہ آیا ایک ایسا شخص جو خود حلاف و حرام اور حق و باطل کی تشخیص نہیں دے سکتا لوگوں کا امام ہونے کا دعویدار ہے۔؟
محمد بن ابراہیم بن مہزیار جن کا والد خود امام حسن عسکریؑ کے وکلاء میں سے تھا کو بھی بارہویں امام کے بارے میں بعض شکوک و شبہات تھی جو امام زمانہ(عج) کی طرف سے بعض توقیعات کے دریافت ہونے کے بعد برطرف ہوا۔
اسی طرح امام مہدیؑ کی ایک اور توقیع کے بارے میں احادیث میں نقل ہوئی ہے جس میں امامؑ شکاکوں کے مقابلے میں اپنے وجود کو ثابت کرتے ہوئے بعض فقہی مسائل کا جواب دیتے ہیں۔
۵:وکلاء کو منظم کرنا:
دور دراز مناطق میں شیعوں کے ساتھ رابطہ اور ان کے امور کو بطور احسن انجام دینے کی خاطر وکلاء کو معین کرنا تقریبا امام کاظمؑ کے زمانے سے ایک معمول بن گیا تھا۔ امام زمانہؑ کی غیبت کے بعد ان وکلاء کا براہ راست رابطہ آپؑ سے منقطع ہو گیا اور امام مہدیؑ کا اپنے چاہنے والوں کے ساتھ رابطے کا واحد ذریعہ نواب اربعہ تھے جنہیں خود امام تعیین فرماتے تھے۔ وكلاء مختلف مناطق میں لوگوں سے جمع شدہ وجوہات شرعی کسی نہ کسی طرح بغداد میں امام زمانہؑ کے نائب خاص تک پہنچاتے تھے اور وہ ان اموال کو امامؑ کے حکم کے مطابق مختلف امور میں صرف کرتے تھے۔
اہواز، سامرا، مصر، حجاز، یمن اور ایران کے مختلف شہروں جیسے خراسان، ری اور قم وغیرہ میں ایسے وکلاء کے موجود ہونے کی خبر کم و بیش احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
۶:امام مہدیؑ کو مخفی رکھنا:
امام زمانہؑ اور آپ کی نشانیوں کو مخفی رکھنا نواب اربعہ کے وظائف میں سے ایک تھا۔ و مشخصات وی، یکی از وظایف اساسی نایبان خاص بودہ است۔ تاریخ و حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام زمانہ(عج) عراق، مکہ اور مدینہ میں رہتے تھے اور نائبین خاص کسی وقت آپ(عج) سے ملاقات کرسکتے تھے۔
حسین بن روح نوبختی کی نیابت خاصہ کے دور میں ان کے مقام و منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابو سہل اسمعیل بن علی نوبختی کہتے ہیں: اگر محھے امام زمانہ کے بارے میں اتنا علم ہوتا جتنا حسین بن روح کو ہے تو شاید دشمن کے ساتھ مناظرے کے دوران ضرورت پڑنے پر میں دشمن کیلئے امام کا پتہ بتا دیتا حالنکہ حسین بن روح اگر امام کو اپنے دامن کے نیچے چھپا رکھا ہو اور امام کی تلاش میں ان کے بدن کو قیچی سے کاٹ کر ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا جائے تو بھی وہ امام کے بارے میں کسی کو نہیں بتائے گا۔
نوّاب خاص اگرچہ امام زمانہؑ کے وجود کو ثابت کرنے کے درپے ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود شیعوں سے درخواست کرتے تھے کہ وہ امامؑ کی نشانی جاننے کی کوشش نہ کریں اور یہ کام امامؑ کی حفاظت کی خاطر تھا۔
۷:فقہی اور اعتقادی سوالوں کا جواب:
نواب اربعہ شیعوں کو درپیش مسائل شرعیہ کو امام مہدیؑ کی خدمت میں بیان کرتے تھے اور امامؑ کی طرف سے دئے گئے جوابات کو لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ یہ کام صرف فقہی مسائل تک محدود نہیں تھا بلکہ نائبین خاص لوگوں کی علمی اور اعتقادی مسائل نیز عوام الناس کی رہنمائی کیلئے مختلف علمی مباحث اور مناظرات میں بھی شرکت کرتے تھے۔
اسحاق بن یعقوب اور محمد بن جعفر اسدی کے نام لکھے گئے توقیعات جو اہم شرعی مسائل پر مشتمل ہیں نیز حسین بن روح کا علمی اور اعتقادی مناظروں میں شرکت کرنا ان موارد میں نواب اربعہ کی فعالیتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *