کیا اسیران کربلا شام سے کربلاء آیے تھے؟
مقدمہ:
تاریخ میں شھادت کےبعد اربعین کا مناناصرف حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کےساتھ مختص ہے،اوریہ ایک شعائرالھی ہےکیونکہ اس دن کچھ خاص واقعات رونماہوئے جوکسی اور معصوم(ع)کےاربعین کےدن رونما نہیں ہوے،عصرعاشور جب اہل بیت علیہم السلام میدان کربلا میں واردہوئےاورشھداءسےوداع کررہےتھےتوانکےجنازےدفنایے نہیں گیےتھے۔
1:لیکن اربعین کےدن شھداء کربلاکیلیے ایک عظیم مجلس عزامنعقد کی جاتی ہے،جس میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام جناب ام المصائب زینب کبراء سلام اللہ علیہا اور جناب جابر بن عبداللہ انصاری وعطیہ مصائب پڑھنے والےہیں اور گریہ کرنےوالےو رونےوالے بھی ہیں۔
2:حضرت سیدالشھداءاور انکے جانثار اصحاب کے مقدس سروں کوجوانکے پاک جسموں سے چالیس دن سے جدا تھےاور دشمنوں نے کوچہ وبازارتماشایی کےلیے پھرایے تھے اربعین کےدن دفن کیے جاتے ہیں۔
3:روزاربعین امام حضرت زین العابدین(ع)و اھلبیت علیہم السلام خاص کر جناب زینب کبراء سلام اللہ علیہا اور اصحاب خاص رسول خدا(ص)جناب جابرنے مرقد مطھرسیدالشھداءپرمصائب پڑھے اورگریہ کیے۔
لھذا شیعیان عالم اپنے امام حضرت زین العابدین(ع)اور اھلبیت علیہم السلام کی پیروی میں اور جناب جابر صحابی خاص رسول(ص)کی سنت پر چلتے ہوے اربعین کے دن کی تعظیم کرتے ہیں شعائراللہ سمجھ کر اور روایات کی روشنی میں علامت مؤمن گردانتےہوےامام مظلوم کی زیارت کو چلتے ہیں ۔
یہاں ہمیں یہ بات ذھنشین کرنے کی ضرورت ہے دور حاضرمیں کیاہم حقیقت میں امام مظلوم کی زیارت کی نیت سے گھر سےنکلتے ہیں اور زیارت اباعبداللہ علیہ السلام کو لقاءاللہ کےلیے واسطہ قرار دیتے ہیں؟اگر ایسا ہے تو الحمدللہ خداکا شکرادا کرنا چاہیے کہ اس ذات اقدس نے یہ توفیق عطاکی۔لیکن اس زمانےمیں یہ بھی دیکھنے کو ملتاہے کہ کچھ حضرات یا یوں کہے کہ کچھ تنظیمیں اربعین حسینی کواپنے مادی مقاصد کے حصول کاذریعہ قرار دیتی ہیں اورراہ حسینی میں ڈھال بچھاکرآنکھوں سے مظلومیت امام (ع)پر اشکبار ہونےکی بجای اس انتظار میں ہوتی ہیں کہ کوی پیسہ والا تو نہیں آرہا ہے؟شکار کرنے کے تیار رہتی ہے ہر کوئی کبھی کسی ڈاکٹر کو پکڑتاہے تو کبھی کسی انجنیرکوتوکبھی خوجہ سیٹ کو شکارکرتا ہےتوکبھی کسی عربی کوتو کبھی اماراتی کوتو کبھی یورپ امیریکہ سے آنےوالےپیسہ والوں کوشکار کرتے ہیں اسطرح وہ حصول مقصد حسینی کی بجای نفسی یا تنظیمی مقاصد کو حاصل کرکے واپس آکرزائرحسینی کہلواتاہے۔
خداوند ہمیں سیدے راستہ کی طرف ہدایت فرما!اپنے تمام اموال اور اپنی جان کو راہ حسینی میں فدا کرنے کی توفیق عطافرما!
اسیران اھل بیت علیہم السلام کا قیدوبند سےرہای پانےکےبعدکربلا میں وارد ہونےکامسئلہ امکان پذیر ہےبلکہ غیرقابل انکارہے۔کیونکہ ممکن ہونے کےعلاوہ واقعہ ورود اھلبیت درکربلابہت ساری تاریخی کتابوں میں بھی ذکر ہوا ہے۔
1:ابن نما(م645)
نے اپنی کتاب مثیرالاحزان میں لایاہے:(ولمّا مرّ عيال الحسين عليه السلام بكربلا وجدوا جابربن الانصاري رحمة الله عليه ةجماعة من بنم هاشم قدموا لزيارته في وقت واحدٍ،فتلاقوا بالحزن والاكتىًاب والنوح على هذالمصاىُب المقرح لأكبادالاحباب)۔ ) مثیرالاحزان،ص107(
جب اھل بیت حسین علیہ السلام کربلاء پہونچے،توجابربن عبداللہ انصاری اوربنی ھاشم کے ایک گروہ کووہاں پایا جواباعبداللہ علیہ السلام کی زیارت کے لیے ایک ساتھ پہونچے تھے۔وہ لوگ سب اس دل کوتڑپادینےوالی اس مصیبت پر حزن وملال کےساتھ نوحہ کنان جمع ہوگئےاور عزاداری برپا کیے۔
2:ابن طاووس(664)
ابن طاووس علیہ الرحمہ اپنی کتاب لھوف میں فرماتاہے:فوصلوا الى موضع المصرع،فوجدوا جابر بن الانصاري وجماعة من بني هاشم ورجال من آل الرسول صلى الله عليه وآله،قد وردوا لزيارة قبر الحسين عليه السلام فوافوا في وقت واحدٍ،وتلاقوا بالحزن واللطم۔ (اللھوف،ص225)
پس جب اھل بیت اطھارعلیھم السلام قتلگاہ پہونچے تو دیکھاکہ جابربن عبداللہ انصاری،بنی ھاشم کا ایک قافلہ اور آل رسول اللہ ص کے کچھ افراد مرقد مطھرسیدالشھداء کی زیارت کےلیےگریہ وبکاء کےساتھ سینہ زنان وارد ہورہےتھے۔
3:شیخ صدوق رحمۃ ا۔۔۔
شیخ صدوق علیہ الرحمہ جناب فاطمہ بنت علي علیہا السلام سے شام میں اسیران اھل بیت علیہم السلام کے بارے ایک روایت نقل فرماتے بیں:
الى ان خرج علي بن الحسين عليه السلام بالنسوة وردّ رأس الحسين عليه السلام الي كربلاء۔ ( الآمالي)
یہاں تک کہ علي بن حسین مخدرات عصمت کے ساتھ شام سے خارج ہوئےاور سرمقدس حسین علیہ السلام کوکربلاء پہونچادیا۔
4:مرحوم آیۃ اللہ حاج میرزامحمدی اشراقی فرماتے ہیں:
وہ دل شکستہ قافلہ جس نےقتلگاہ سے گزرتےہوےمیدان کربلا میں اپنے عزیزوں کے اجساد مطھرہ کو خاک وخون غلطاں تبتی زمین پر دیکھاتھااور دشمن نے ان شھدا کےماتم میں رونے تک نہیں دیا تھا،لھذا بعید ہے کہ یہ قافلہ اپنے شھداء کے حالات وقبورمقدسہ کےبارے میں جانےبغیر اوربدون زیارت قبورشھداء مدینہ منورہ واپس گیےہوں۔ ( الاربعین الحسینیہ،ص207)
یہاں ذھن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیوں بعض بزرگ علماء نے اھلبیت علیہم السلام کے کربلاء وارد ہونےکے واقعہ کی تصریح نہیں کی ہے؟
اس سوال کے جواب میں یہ کہا جا سکتاہے کہ :
اولا:بہت سارے دانشمندوں نے اھلبیت علیہم السلام کے کربلاء وارد ہونے کےواقعہ کوصراحت کےساتھ ذکر کیے ہیں۔
ثانیا:بعض مؤرخین اور علماء کے اس واقعہ کو اپنی کتابوں میں ذکر نہ کرنےکا یہ معنی نہیں نکلتا کہ اصلا تاریخ میں یہ واقعہ رونما ہی نہیں ہوا ہو،اور ذکر نہ کرنے کو واقعہ سے انکار قرار نہیں دے سکتے ہیں ۔
وہ علمای کرام جنہوں نے اھلبیت (ع)کےشام سے مدینے کی طرف نکلنے کو بیان فرمایے ہیں لیکن ورود کربلاءکےبارے میں کوی اشارہ نہیں کیا ہیں۔
1:شیخ مفید رحمۃاللہ علیہ لکھتےہیں:
و في العشرين منه (الصفر) كان رجوع حرم سيدنا مولانا ابي عبدالله عليه السلام من الشام الي مدينة الرسول صلي الله عليه وآله۔ ( مسار الشیعۃ،ص46)
اسیران اہل بیت ع کی شام سےمدینہ کی طرف واپسی ماہ صفر کی بیسویں تاریخ کوتھی۔
2:شیخ طوسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
وفي العشرين منه (الصفر) كان رجوع سيدنا ابي عبدالله الحسين بن علي بن ابي طالب عليه السلام من الشام الي مدينة الرسول صلي الله عليه وآله۔ ( مصباح المتہجد،730؛بحارالانوار،ج101ص334)
حرم اباعبداللہ حسین بن علي بن ابی طالب علیہ السلام صفر کے مہینہ کی بیس تاریخ کو شام سے مدینہ رسول ص کی طرف واپس آیے۔
3:شیخ رضي الدین علي بن یوسف بن مطھر حلي نے اس طرح لایاہے:
وفي اليوم العشرين من صفرسنة احدي وستين اواثنين وستين على اختلاف الرواية به في قتل مولاناالحسين عليه السلام،كان رجوع حرم مولانا أبي عبدالله الحسين عليه السلام من الشام الي مدينة الرسول ص. ( العدد القوية،ص219)
روایات کے اختلاف کے ساتھ سن61یا62 ( بنابر قول مشھور بلکہ قول متواتر61ھجری قمری سال شھادت امام حسین علیہ السلام ہے لھذا اس تردد کےلیے محل نہیں ہے ) ھجری میں شھادت امام حسین علیہ السلام کےبعدحرم اباعبداللہ علیہ السلام صفر کی20 تاریخ کو شام سے مدینہ آیے۔
4:شیخ کفعمی اپنی کتاب المصباح میں لکھتے ہیں:
وفي العشرين منه(الصفر)كان رجوع حرم الحسين بن علي عليه السلام الي المدينة. ( المصباح,ص510)
حرم امام حسین علیہ السلام بیس صفر کو مدینہ کی طرف واپس گئے۔
ان علمای عظام کےاقوال سے معلوم ہے کہ ان کا مقصد اھلبیت علیہ السلام کے شام کی طرف نکلنے کے دن کو معین کرنا تھا کربلاء میں اھلبیت ع کے وارد ہونے یا وارد نہ ہونا اختلافی مسئلہ نہیں تھا،اگرچہ حرم حسین علیہ السلام کے کربلاء میں وارد ہونےکی بنیاد کو ہم حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی اس درخواست سے حاصل کرسکتے ہیں جو آپ ع نے یزید سے شھداءکے سروں کربلاء واپس پہنچانےکو فرمایا تھا۔
بھرحال علما کرام کے اقوال سے یہ نتیجہ حاصل کرسکتے ہیں:
1: ان علماء کو ہم اھلبیت علیہم السلام کے کربلاء وارد ہونے کےمسئلہ کے مخالف شمار نہیں کرسکتے۔
2:مذکورہ علماءکےاقوال کے مطابق صفر کی 20تاریخ اھلبیت علیہم السلام کا شام سے مدینہ کےلیے نکلنے کا دن ہےیہ بات انکے کربلاء ورود کے ساتھ منافات نہیں رکھتی کیونکہ مدینہ جانے کے قصد کے ساتھ کربلاء سےگزر کے جانا کوئی ناممکن نہیں ہے بلکہ قابل جمع ہے۔
3:سید ابن طاووس نے شیخ طوسی رحمۃاللہ کی عبارت سے یہ مطلب لیا ہے کہ شیخ کامقصد یہ ہے کہ 20 صفرکو اھلبیت علیہم السلام مدینہ پہونچے ہیں،یہ بات ظاھر عبارت شیخ کے خلاف ہے؛کیونکہ ظاھر عبارت یہ ہے کہ 20تاریخ کو اھلبیت علیہ السلام شام سے نکلے نہ کہ مدینہ پہونچے اس لیے کہ کلمہ(رجوع)کا معنی کچھ ہے اور(وصول) کا معنی کچھ اور ہے،بس اس بیان سے واضح ہوتاہےکہ ابن طاووس نے شیخ کی عبارت سے جو مطلب لیا ہے حقیقت سے دور ہے۔
منابع:
1:ابن نما،جعفربن محمد بن نما الحلی(ت680ھ) مثیرالاحزان ومنیرسبل الاشجاع،ناشر: المطبعۃ الحیدریۃ،قم، مدرسۃ امام مھدي عجل اللہ تعالی فرجہ شریف 146ھ۔
2:الحلي،رضی الدین،علي بن یوسف بن مطھر برادر بزرگ علّامہ حلّي(ت703ھ)،العددالقویۃ لدفع المخاوف الیومیۃ، قم، مکتبۃ آیۃاللہ مرعشي النجفي۔
3:الطوسي،ابي جعفرمحمد بن الحسن الطوسي المعروف الشیخ الطائفۃ (ت460ھ)،مصباح المجتھد،بیروت، مؤسسۃ الاعلمي للمطبوعات۔
4:الصدوق،ابوجعفر،محمدبن علي بن بابویہ القمي (ت381ھ)،الآمالي،بیروت،مؤسسۃالاعلمي للمطبوعات۔
5:الکفعمي،تقي الدین ابراھیم بن علي بن حسن بن محمد بن صالح العاملي (ب840-905ھ) المصباح الکفعمي ،بیروت،مؤسسۃ الاعلمي للمطبوعات۔
6:المجلسي،محمد بن باقر بن محمد تقي المجلسي(10371110ھ) بحارالانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء۔
7:میرزا محمد ارباب قمي،(1273-1341ھ) الاربعین الحسینیۃ،ناشر:اسوۃ۔
8:المفید،محمد بن محمد بن نعمان (ت413ھ) مسار الشیعۃ فی مختصر توارخ الشریعۃ،قم،کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشي النجفي۔
مترجم: احمدعلي تبّتی
09372239609
ترجمہ از کتاب: دانستنی ھای اربعین حسینی
دیدگاهتان را بنویسید