تازہ ترین

علاقہ کواردو کی ترقی و تربیت میں علامہ شیخ محمد جو کبیر کا کردار

سر زمین بلتستان جسے علماء کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے یہاں کئی بلند مرتبہ، درویش صفت علماء کرام نے مکتب اہلبیت علیھم السلام کی نشرواشاعت میں اپنی زندگی صرف کی ہیں۔ انہیں مایہ ناز، بزرگ و بے لوث تبلیغ کرنے والے علمائے کرام میں سے ایک قد آور شخصیت حجۃ الاسلام والمسلمین آیت اللہ […]

شئیر
50 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5643

سر زمین بلتستان جسے علماء کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے یہاں کئی بلند مرتبہ، درویش صفت علماء کرام نے مکتب اہلبیت علیھم السلام کی نشرواشاعت میں اپنی زندگی صرف کی ہیں۔ انہیں مایہ ناز، بزرگ و بے لوث تبلیغ کرنے والے علمائے کرام میں سے ایک قد آور شخصیت حجۃ الاسلام والمسلمین آیت اللہ شیخ محمد جو کبیر مرحوم کی ذات گرامی قدر بھی ہیں۔آپ اپنے ذہد وتقوای اور مقام علمی کی وجہ سے پورے بلتستان میں مشہور و معروف تھے۔ آپ اور مرحوم شیخ غلام حسین نجفی کی شبانہ روز کی محنت و مشقت اور کمر شکن جد و جہد کی وجہ سے ہی علاقہ کواردو کو علماء کی سر زمین کا لقب ملا ہے۔ جہاں بلتستان کے مشہور و معروف صاحب کرامت شخصیت سید علی طوسی المعروف ”اپوچو“ کی ابتدائی تبلیغ و جدوجہد کے بعد ان دو مقدس بزرگ علماء کرام کی صبر شکن تبلیغ، بے لوث جدوجہد کا بہت اہم کردار ہے۔ان کے علاوہ ”مرحوم شیخ علی فاضلی“ ”مرحوم شیخ علی دولتی“ ”مرحوم شیخ حسن شریفی“ اور مرحوم شیخ محمد جو صغیر بھی انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس جہان فانی سے رحلت فرما گئے ہیں۔ جس وقت پورے بلتستان میں اعلٰی دینی تعلیم کا حصول ناممکن تھا یا اس طرف لوگوں کی توجہ ہی نہیں تھیں یا استطاعت نہیں رکھتے تھے،تو حجت الاسلام آیت اللہ شیخ محمد جو کبیر مرحوم نے اپنی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہی حجت الاسلام قبلہ شیخ غلام حسین نجفی مرحوم سے حاصل کی۔ اس کے بعد اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے باب مدینۃ العلم نجف اشرف عراق تشریف لے گئے۔ باب مدینۃ العلم سے طویل عرصہ تک بزرگ مجتہدین کرام سے علم و عمل کی موتیوں سے مزین و آراستہ ہونے کے بعد اپنے مجتہد اساتید کرام کے حکم سے آپ بغرض تبلیغ واپس اپنے آبائی گاؤں کواردو تشریف لائے تھے۔نجف اشرف سے مکمل واپسی کے بعد آپکی مبلغانہ و مجاہدانہ زندگی کو ہم تین مرحلوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
پہلا مرحلہ آپ کی معلمانہ زندگی ہے۔بقول شاعر کے
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
انکی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں،
آپکی واپسی فقط کواردو کے عوام ہی کیلئے نہیں بلکہ پورے بلتستان کے تشنگان علوم آل محمد ﷺ کے لیے نہایت سودمند رہی۔ علاقہ روندو سے خپلو اور شگرسے کھرمنگ تک تشنہ گان علوم دینی انفرادی طور پر آپکے چشمہ علم سے سیراب ہونے کے لیے جوق در جوق علاقہ کواردو پہنچے، اس زمانے میں با قاعدہ دینی درسگاہ و مرکز نہ ہونے کی وجہ سے بعض شاگردان آپکے گھر پر اور باقی شاگردوں نے عالم مسافرت میں کواردو کے دیگر علاقوں میں مختلف لوگوں کے گھروں میں عارضی طور پر رہائش اختیار کیے۔ اور دن بھر شیخ صاحب کے محضر میں رہتے ہوئے کسب فیض کیا کرتے تھے۔علاقہ کواردو کے لوگوں نے بھی شیخ صاحب کے وعظ و نصیحت سے متاثر ہوکر علم دوست و مہمان نواز ہونے کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے تشنگان علوم کو سالوں سال تک اپنے اپنے گھروں میں بھر پور مہمان نوازی کرتے رہے یوں یہ حضرات آپ کے حلقہ درس میں شریک ہو کر خوب مستفید ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج آپ کے شاگرد بلتستان کے دیگر تمام علاقوں کے علاوہ کافی تعداد میں سرزمین قم، مشہد اور نجف اشرف میں بھی موجود ہیں۔ پورے بلتستان میں ابتدائی دینی تعلیم و احکام عملی انجام دینے والے آخوند حضرات میں سے اکثر آپ کے بلاواسطہ یا بلواسطہ شاگرد ہیں۔اس وقت علاقہ کواردو میں بزرگ عالم دین حجت الاسلام والمسلمین قبلہ شیخ اسماعیل نجفی جو کواردو کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار رکھتے ہیں اور معروف ذاکر اہلبیت جناب آخوند حاجی عباس صاحب قابل ذکر ہیں۔قم مقدس میں بھی آپ کے شاگرد خاص حجت السلام والمسلمین قبلہ شیخ محمد طحہٰ قمروی حفظہ اللہ اور کئی دیگر علماء کرام موجود ہیں۔قبلہ شیخ محمد جو کبیر رحمت اللہ علیہ نے کواردو کے علم کی دولت سے ناآشنا عوام کو علم دینی کے ساتھ علم دنیوی کے شعور کی دولت سے بھی مالا مال کیا یہی وجہ ہے کہ آج کواردو کے جتنے علما ء و طلبا پاکستان کے مختلف شہروں اور ایران و عراق کے شہر نجف اشرف، قم المقدس اور ارض بلتستان میں سرکاری اداروں میں علاقہ کواردو کی جتنی شخصیات ا علٰی عہدوں پر فائز تھے یا فائز ہیں ان میں سے اکثر قبلہ شیخ صاحب اور ان کے فرزندوں کے شاگرد رہے ہیں اور ان سے کسب فیض کے سبب اعلٰی دینی و دنیوی عہدوں پر فائز ہوئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہ اعلٰی تعلیم یافتہ شخصیات بھی کافی حد تک دیندار، خوش اخلاق و علما دوست ہیں۔ انکے علاوہ کواردو کے اکثر عوام کا حق گو، دین دار، اور علما ء و سادات دوست ہونا بھی انہیں علماء کرام کی تعلیمات کا مرہون منت ہے۔ دوسرے مرحلے میں آپ نے معاشرے میں غیر دینی اقدار جیسے شادی بیاہ کے دوران منعقد ہونے والی جاہلانہ و شیطانی رسومات، قومی و خاندانی تعصبات کے خلاف صدائے حق بلند کی اور اپنے نفیس، شائستہ و مدلل گفتگو اور بصیرت عملی سے ان سب کی بیخ کنی کی۔اور دینی اقدار جیسے دینداری، ایمانداری، وفاداری، فداکاری، حق گوئی، بھائی چارگی، شریعت مداری، محافل و عزاداری، قرآن شناسی و تعلیمات قرآنی گریہ و زاری و ماتم داری اور اہلبیت علیھم السلام سے عشق و جانثاری کے پاکیزہ و لطیف جذبوں کو معاشرے میں پروان چڑھایا۔اورتیسرے مرحلے میں آپ نے علاقے میں ظلم و استبداد، تعصب پروری، نفاق پسندی، جی حضوری اور حرام خوری کے خلاف عملی میدان میں آواز بلند کی اور عملی جدوجہد کا آغاز کیا یوں آپ نے سینکڑوں قدیمی تنازعات کو نہ فقط حل کیا بلکہ مخالفین میں صلح کرنے کے ساتھ کسی بھی قسم کی حرام خوری یا معاشرے میں کمزور طبقہ پر ظلم و زیادتیوں کی تدارک کیلئے شرعی نکتہ نظر اور سیرت اہلبیت علیھم السلام کی روشنی میں شرعی فیصلہ جات صادر فرمانے لگے۔ چونکہ اکثر فیصلہ جات دو مخالف فریقین کے مابین ہوا کرتی تھیں اس لیے معاشرے میں آج بھی آپکے فیصلوں پر تنقید و تمجید کرنے والے دونوں طبقہ موجود ہیں۔ آپ کا یہ عمل جہاں عوام الناس اور کمزور طبقے میں مقبول و ممدوح ہوا وہیں ظلم و زیادتی کے پاسداروں اور انکے حامیوں پر کافی گراں بھی گزرا، ایسے لوگ آپ کی جرأت و استقامت کے سامنے جب ٹھر نہ سکے تو۔۔۔

 

تحریر: محمد بشیر دولتی

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *