تازہ ترین

اے گنبد خضراء!(2) .

تحریر: ایس ایم شاه

گنبد خضریٰ سے چند قدم کے فاصلے پر ہی “بقیع قبرستان” ہے۔ جب آپ باب جبریل سے باہر نکلیں گے تو سامنے ہی بقیع قبرستان دکھائی دے گا۔ مسجد نبوی اور بقیع کے درمیان ایک چھوٹی سی سڑک ہے۔ بقیع ہی وہ پہلا قبرستان ہے، جسے صدر اسلام میں پیغمبر اکرم (ص) کے حکم پر مدینہ منورہ میں بنایا گیا۔ یہاں ازواج مطہرات، اصحاب کرام، پیغمبر اکرمؐ کے چچا جناب عباس، حضرت فاطمہ بنت اسد والدہ ماجدہ حضرت علیؑ، حضرت عباسؑ کی مادر گرامی حضرت ام البنین اور  چار ائمہ؛ امام حسن مجتبٰیؑ، امام زین العابدینؑ، امام محمد باقرؑ و امام جعفر صادق ؑ اور بعض تواریخ کے مطابق حضرت عثمان بن عفان بھی یہاں مدفون ہیں۔ مدینے کی طرف ہجرت کے بعد بقیع مسلمانوں کا واحد قبرستان تھا۔ مدینے کے لوگ اسلام سے پہلے اپنے مُردوں کو “بنی حرام” اور “بنی سالم” اور کبھی اپنے گھروں میں ہی دفناتے تھے۔ سب سے پہلی شخصیت جو رسول مقبولؐ کے حکم سے یہاں دفن ہوئیں، وہ عثمان بن مظنون ؓہیں۔ جو حضرت رسول خدا اور حضرت علیؑ کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔

شئیر
30 بازدید
مطالب کا کوڈ: 1532

 حاکم وقت آل سعود کے حکم پر 8 شوال 1344 ہجری کو یہاں موجود تمام تاریخی نقوش کو مسمار کر دیا گیا۔ یہ دن اب بھی “یوم انھدام” یعنی ویرانی کا دن کے نام سے مشہور ہے۔ اس پر پوری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ اگر دنیا کے کونے کونے سے مسلمان صدائے احتجاج بلند نہ کرتے تو وہ گنبد خضریٰ اور ضریح مقدس کو بھی نہ چھوڑتے۔ اس  دل دہلانے والے واقعے میں رحمت عالم کی والد گرامی حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب، آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ، آپ کے چچا حضرت عباس ، اہل تشیع کے چار ائمہ اور حضرت امام صادقؑ کے فرزند جناب اسماعیل، جن کے پیروکاروں کو آج بھی اسماعیلیہ کہا جاتا ہے، کی قبروں پر بنائی گئی عمارت کو بھی ملیا میٹ کر دیا گیا۔ رسول کی بیٹی حضرت فاطمہؑ مصداق کوثر ہیں، جنہیں رسول اللہ ؐ اپنی امت کے پاس امانت چھوڑ کر گئے، جن کے بارے میں رسول مقبول ؐ کی معتبر روایات کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، خدا اس پر راضی ہے، جس پر فاطمہ راضی ہو اور خدا اس سے ناراض ہے، جس سے فاطمہ ناراض ہو۔ ان کی  قبر اطہر  تو پہلے سے ہی نامشخص رہی، جو اب چودہ سو سال گزرنے کے باوجود بھی اپنی مظلومیت کا منظر پیش کر رہی ہے۔ شیعہ سنی متفقہ روایات سے واضح ہے کہ رسولؐ کی یہ لاڈلی بیٹی دنیا سے جاتے وقت مسلمانوں سے ناراض ہوکر چلی گئیں۔ یعنی دنیا میں بھی آپ مظلومہ رہیں اور شہادت کے بعد آج بھی آپ مظلومہ ہیں۔ اسی کیفیت کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے یوں قلمبند کیا ہے:

اس بات کی گواہ ہے تُربت بتولؑ کی

ناراض کلمہ گو سے ہے بیٹی رسولؐ کی

اقبالؔ جس سے راضی نہیں بنت ِمصطفٰی ؐ

اس کلمہ گو نے ساری عبادت فضول کی

 بعض تواریخ کے مطابق سیدہ طاہرہ کی قبر اقدس بھی اسی قبرستان میں ہے۔ اس قبرستان کا گیٹ صرف دو گھنٹے کے لئے صبح سات سے نو بجے تک کھلتا ہے۔ اس وقت حاجیوں کا جم غفیر وہاں دکھائی دیتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہاں ہر باعظمت ہستی کی قبر کے سامنے کسی شخص کو بٹھایا جاتا، جو حاجیوں کو صاحب قبر کا تعارف کرواتا، لیکن وہاں کی حالت تو ناقابل بیان ہے۔ جونہی آپ گیٹ کراس کرکے اندر کی طرف جائیں گے تو آپ کو وہاں مختلف زبانوں کے ماہر دکھائیں گے۔ آپ ان سے جس کے بارے میں بھی سوال کریں گے، ان سب کا  ایک ہی جواب ہوگا “ھنا عشرۃ آلاف اصحاب” یہاں دس ہزار صحابی رسول مدفون ہیں۔ ان کے بارے میں ہمیں کوئی خبر نہیں۔ ہر حاجی حیرت کی نگاہ سے ان کی طرف دیکھتا رہ جاتا ہے۔ آپ کو شرک و بدعت کی بوچھاڑ یہاں بھی دکھائی دے گی۔ رونے والا بھی مشرک، زیارت نامہ پڑھنے والا بھی مشرک، دعا مانگنے والا بھی مشرک، قبروں پر فاتحہ پڑھنے والا بھی مشرک، وہاں آیات قرآنی کی تلاوت کرنے والا بھی مشرک۔ غرض آپ کو ہر طرف مشرک ہی مشرک دکھائی دیں گے۔ آپ کے ہاتھ میں کتاب ہو تو وہ بھی چھین لیں گے۔ رونے لگیں تو سیاہ پوست پولیس اور مولوی حضرات آپ کی طرف بڑھیں گے اور دھکے دینا شروع کریں گے۔

 پورے مدینے میں آپ جہاں بھی جائیں، کسی جگہ آپ کو تعارف کروانے والا نہیں ملے گا۔ نہ وہ کسی مسجد کا تعارف کروائیں گے اور نہ ہی کسی تاریخی مقام کا۔ اہل تشیع کے چار ائمہ اور پیغمبر اکرمؐ کے چچا کی تو قبروں کے پاس بھی جانے نہیں دیتے۔ ہر حاجی پندرہ بیس میٹر کے فاصلے سے اپنا ہدیہ سلام بھیج رہا ہوتا ہے۔ یہی واقعہ روزانہ تکرار ہوتا رہتا ہے۔ خصوصاً ایام حج میں اس میں مزید شدت آجاتی ہے۔ آل سعود کے خوف سے نہ کوئی لکھاری ان پر قلم فرسائی کرتا ہے اور نہ ہی اسے میڈیا کوریج دی جاتی ہے۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو مسلمانوں کا خدا ہی حافظ ہے۔ صحافی حضرات سے میری گزارش ہے کہ تمام مسلمانوں کے اس درد دل کو پرنٹ، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر اجاگر کریں، تاکہ نام نہاد خادمین حرمین شریفین اپنی ان پست حرکات کو بدلنے پر مجبور ہو جائیں اور تمام مسلمان اپنے اپنے عقیدے کے مطابق دل کھول ان مقامات مقدسہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کرسکیں۔ یہ درحقیقت میں نے اپنے مشاہدات پر مشتمل حج کا سفر نامہ پیش کیا ہے۔ آج بھی جب میں تصورات کی دنیا میں مدینہ منورہ کی سیر کرتا ہوں، تب یہ سارے درد ناک مناظر میرے وجود کو چیرنے لگتے ہیں اور میرا وجود زخموں سے چور چور ہو جاتا ہے، یوں میں تنہائی کے عالم میں  خون کے آنسو روتا رہتا ہوں۔

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *