جناب سیدہ کونینؑ اور تربیت اولاد

مقدمہ
الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ علی محمد وآلہ الطاہرین ولعنۃ اللہ علی اعدائھم اجمعین ۔ اما بعد
بنی نوع بشر کی تربیت کرنا اس قدر مہم ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے کو مربی کے طور پیش کیا ہے اور رسالت مآپ ؐکو پہلی بار تکلم کرنے کا حکم جب دیا تو اپنی تربیت والی صفت کا نام لے کر شروع کرنے کا حکم ہوا:اقراٴ بسم ربک الذی خلق ۔ اور ان ذوات مقدسہ کو مربی اور ہادی بشریت کے طور پر خلق فرمایا۔اسی اہمیت کے پیش نظر یہ مقالہ بعنوان” سیدہ کونینؑ اور تربیت اولاد "لکھا گیا ہے جس میں تربیت اولاد کے کچھ قواعد و اصول اور کچھ واقعات کو رنگ فاطمی میں رقم کرنے کی کوشش کی ہے ،ساتھ ہی تربیت اولاد کی اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے والدین کو کس قدر تلاش اور کیا کیا طریقے اختیار کرنا چاہئے ، سے بحث کی ہے کہ جس کے نتیجہ میں اولاد صالح انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی کے لئے بھی مفید ثابت ہو،اس مدعا کو احادیث معصومینؑ خصوصاً جناب سیدہ ؑکے فرامین کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ مقالہ مختصر ہی سہی لیکن تربیت اولاد سے مربوط فاطمہ ؑ کی زحمتوں کی عکاسی کرتا ہے۔

حضرت امام زين العابدين عليه السلام کی حالات زندگی

آپ کی ولادت باسعادت

          آپ بتاریخ ۱۵/ جمادی الثانی ۳۸ ھ یوم جمعہ بقولے ۱۵/ جمادی الاول ۳۸ ھ یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورہ پیداہوئے (اعلام الوری ص ۱۵۱ ومناقب جلد ۴ ص ۱۳۱) ۔

          علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب جناب شہربانوایران سے مدینہ کے لیے روانہ ہورہی تھیں توجناب رسالت مآب نے عالم خواب میں ان کاعقدحضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ پڑھ دیاتھا (جلاء العیون ص ۲۵۶) ۔ اورجب آپ واردمدینہ ہوئیں توحضرت علی علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے سپردکرکے فرمایاکہ یہ وہ عصمت پروربی بی ہے کہ جس کے بطن سے تمہارے بعدافضل اوصیاء اورافضل کائنات ہونے والابچہ پیداہوگا چنانچہ حضرت امام زین العابدین متولدہوئے لیکن افسوس یہ ہے کہ آپ اپنی ماں کی آغوش میں پرورش پانے کالطف اٹھانہ سکے ”ماتت فی نفاسہابہ“ آپ کے پیداہوتے ہی ”مدت نفاس“ میں جناب شہربانوکی وفات ہوگئی (قمقام جلاء العیون)۔عیون اخباررضا دمعة ساکبة جلد ۱ ص ۴۲۶) ۔

          کامل مبردمیں ہے کہ جناب شہربانو،بادشاہ ایران یزدجردبن شہریاربن شیرویہ ابن پرویزبن ہرمزبن نوشیرواں عادل ”کسری“ کی بیٹی تھیں (ارشادمفیدص ۳۹۱ ،فصل الخطاب) علامہ طریحی تحریرفرماتے ہیں کہ حضرت علی نے شہربانوسے پوچھاکہ تمہارانام کیاہے توانہوں نے کہا”شاہ جہاں“ حضرت نے فرمایانہیں اب ”شہربانوہے (مجمع البحرین ص ۵۷۰)

انقلاب اسلامی ایران کے بنیادی اہداف رہبر معظم کی نظر میں/ تحریر سیدہ معصومہ بتول موسوی

رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی نظر میں انقلاب اسلامی ایران کے بنیادی اہداف
تمہید:
سنہ 1978 عیسوی میں سرزمین ایران پر وقوع پذیر ہونے والے انقلاب اسلامی کی تاریخ اسلام میں مثال نہیں ملتی، کیونکہ اس انقلاب کا اصلی ہدف اور مقصد اسلامی اقدار کے نفاذ کے لئے میدان فراہم کرنا تھا، اور ایرانی قوم ان اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اس طرح حقیقی اسلامی نظام، ولایت فقیہ کی حکومت کی شکل میں پوری دنیا کے لئے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا ، اس نظام میں انسان کےرشدوتکامل کےلئے راہیں ہموار کرنا، عدالت کا قیام اور اقربا پروری کا خاتمہ، کرامت انسانی اور تشخص کا احیاء، اسلام اور اس کے اعلی اقدار کی حاکمیت قائم کرنا، مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مخالفت جیسے اسلامی بنیادی تعلیمات پر بھر پور انداز میں عمل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کے آغاز سے آج تک چار عشرے میں داخلی اور خارجی دشمنوں کی طرف سے انتہائی تخریب کارانہ سازشوں کے باوجود یہ ملک ہر میدان میں ترقی کی منازل بہ آسانی طے کررہا ہے ۔ اس مدت میں دشمن کو ہمیشہ ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔
شہنشاہیت کے دور حکومت میں لوگ ظالم وجابر حکمران کے ہاتھوں پس رہے تھے اور خود حکومت ایک بیگانہ طاقت کی انگلیوں پر کٹ پتلی بنی ہوئی تھی اور اس کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے اس کے اشاروں پہ عمل کررہی تھی۔ اس حکومت نے خود کو بیگانہ طاقت کے آگے کمزور بنا رکھا تھا، مگر دوسری طرف یہ حکومت اپنی عوام کے لئے ظلم و جبر کی تمام حدیں پارکرچکی تھی۔ حتی کہ عوام کو آزادانہ رائے استعمال کرنے کا اختیار بھی نہیں تھا، بظاہرتو ایسی حکومت چل رہی تھی کہ جس میں انتخابات کے ڈھونگ بھی رچاتے تھے، برائے نام کی اسمبلی بھی تشکیل دی جاتی تھی۔ مگر ان سب کے پیچھے ایک بیگانہ قدرت کارفرما تھی۔ ایک طرف حکومت کا یہ حال تھا تو دوسری طرف عوام کے عزم و حوصلے بلند تھے۔ ظالم حکومت کے ظلم سے عوام کے حوصلے دبنے کے بجائے مزید بلند و مضبوط ہوتے جارہے تھے۔