تازہ ترین

انقلاب اسلامی ایران کے بنیادی اہداف رہبر معظم کی نظر میں/ تحریر سیدہ معصومہ بتول موسوی

رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی نظر میں انقلاب اسلامی ایران کے بنیادی اہداف
تمہید:
سنہ 1978 عیسوی میں سرزمین ایران پر وقوع پذیر ہونے والے انقلاب اسلامی کی تاریخ اسلام میں مثال نہیں ملتی، کیونکہ اس انقلاب کا اصلی ہدف اور مقصد اسلامی اقدار کے نفاذ کے لئے میدان فراہم کرنا تھا، اور ایرانی قوم ان اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اس طرح حقیقی اسلامی نظام، ولایت فقیہ کی حکومت کی شکل میں پوری دنیا کے لئے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا ، اس نظام میں انسان کےرشدوتکامل کےلئے راہیں ہموار کرنا، عدالت کا قیام اور اقربا پروری کا خاتمہ، کرامت انسانی اور تشخص کا احیاء، اسلام اور اس کے اعلی اقدار کی حاکمیت قائم کرنا، مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مخالفت جیسے اسلامی بنیادی تعلیمات پر بھر پور انداز میں عمل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انقلاب کے آغاز سے آج تک چار عشرے میں داخلی اور خارجی دشمنوں کی طرف سے انتہائی تخریب کارانہ سازشوں کے باوجود یہ ملک ہر میدان میں ترقی کی منازل بہ آسانی طے کررہا ہے ۔ اس مدت میں دشمن کو ہمیشہ ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔
شہنشاہیت کے دور حکومت میں لوگ ظالم وجابر حکمران کے ہاتھوں پس رہے تھے اور خود حکومت ایک بیگانہ طاقت کی انگلیوں پر کٹ پتلی بنی ہوئی تھی اور اس کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے اس کے اشاروں پہ عمل کررہی تھی۔ اس حکومت نے خود کو بیگانہ طاقت کے آگے کمزور بنا رکھا تھا، مگر دوسری طرف یہ حکومت اپنی عوام کے لئے ظلم و جبر کی تمام حدیں پارکرچکی تھی۔ حتی کہ عوام کو آزادانہ رائے استعمال کرنے کا اختیار بھی نہیں تھا، بظاہرتو ایسی حکومت چل رہی تھی کہ جس میں انتخابات کے ڈھونگ بھی رچاتے تھے، برائے نام کی اسمبلی بھی تشکیل دی جاتی تھی۔ مگر ان سب کے پیچھے ایک بیگانہ قدرت کارفرما تھی۔ ایک طرف حکومت کا یہ حال تھا تو دوسری طرف عوام کے عزم و حوصلے بلند تھے۔ ظالم حکومت کے ظلم سے عوام کے حوصلے دبنے کے بجائے مزید بلند و مضبوط ہوتے جارہے تھے۔

شئیر
56 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4721

عوام اپنی آزادی،عزت نفس، سعادت و معنویت کی زندگی اور اپنے دین و دنیا و آخرت کی حفاظت کی خاطر اس میدان میں داخل ہوگئی۔
لوگوں کو اس بات پر ایمان تھا کہ سعادت کی زندگی اور انسان کی روحی و نفسیاتی سکون و آسائش انبیاء کی تعلیمات میں مضمر ہے۔ ان سب باتوں پر یقین رکھنے کے بعد عوام نے ان تمام اعتقادات کو اپنے معاشرے میں قائم کرنا چاہا اور اس کام کے لئے لوگوں کو ایک طویل مدت تک تحریک چلانا پڑی اور یہ ایک ایسی تحریک تھی کہ جس کا مقصد صرف ایک اسلامی حکومت کا قیام نہیں تھا بلکہ ایک حقیقی معنی میں اسلامی معاشره تشکیل دینا تھا جو تعلیمات انبیاء کے عین مطابق ہو اور ہر فرد کے اندر ان خصوصیات کا پیدا کرنا تھا۔ آزادی، امن، دیانت اور معنویت کے ساتھ اچھے اخلاق سے لوگوں کو بہرہ مند کرنا تھا۔ علاوہ ازیں دنیوی سطح پر عالم بشریت کے شانہ بہ شانہ چل کر ہرمیدان میں ان کا مقابلہ کرناتھا
ذیل میں ہم قائد انقلاب اسلامی امام خامنہ ای مد ظلہ العالی کے فرامین کی روشنی میں اسلامی انقلاب کے چند بنیادی اور اہم اہداف بیان کرتے ہیں۔
1: معاشرے میں اسلام کی حاکمیت اور دینی اقدار کو رائج کرنا
جو عظیم انقلاب ایران میں آیا اور جس اسلامی نظام کی یہاں تشکیل ہوئی ،یہی حقیقی اسلام کا پیغام تھا۔ قبل ازیں ایرانی قوم کی بہت بری حالت تھی، ایرانی قوم تاریکیوں میں زندگی گزار رہی تھی، وہ اپنے انسانی مقام و مرتبےسے بہت دور ہو چکی تھی۔ اسلام سے دوری کی وجہ سے اس پر علمی، انسانی، سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے ظلم ہو رہا تھا۔ اسلام سے آشنائی اور اس کی معرفت کی برکت سے اس قوم نے ایک عظيم تحریک کے ذریعے خود کو اسلام کے سرچشمے تک پہنچا دیا، اسلامی احکام پر عمل کیا، ان احکامات پر غور و خوض کا موقع اپنے لئے فراہم کیا، اس سے فائدہ اٹھایا، اسلام کی حقیقت پر گہرائی سے غور کیا اور قرآن کی معرفت حاصل کی۔
2: اغیار کی غلامی سے رہائی
انقلاب سے قبل مشقت، ذلت، بدحالی، امراء اور تسلط پسند طبقے کی جانب سے مختلف قسم کے دباؤ اور غیر ملکیوں کی جانب سے تحقیر و حقارت آمیز رویہ ہی اس ملک میں نظر آئے گا۔ اس ملک میں کافی عرصے تک انگریزوں، روسیوں نے اور پھر برسوں تک دونوں نے اور آخرکار برسہا برس تک امریکا نے جو چاہا اس قوم کے بارے میں فیصلہ کیا۔ قوم یہی قوم تھی اور اس میں یہی صلاحیتیں تھیں کہ جن کی بنا پر وہ آج الحمد للہ مختلف میدانوں میں نوجوانوں کی شکل میں ستاروں کی طرح چمک رہی ہیں اور اپنا لوہا منوا رہی ہیں، لیکن نا اہل حکومتوں کی بے بصیرتی کی وجہ سے انہیں دبایا گیا۔ جب ایک دور میں سماج کے با خبر افراد نے، معزز لوگوں نے، دانشوروں نے اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیات نے میدان عمل میں آنے کا فیصلہ کیا، لوگوں میں بصیرت کی روح پھونکی، لوگوں کو صبر کی تلقین کی «و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر» کو سماج میں رائج کیا، پھر یہ پر تلاطم سمندر وجود میں آیا اور ذلتوں سے بھری تاریخ کا بہاؤ بدلنے اور ملک سے غیر ملکیوں کے تسلط کو ختم کرنے میں آخر کار انہوں نے کامیابی حاصل کی۔
3: معاشرےسےفسادکے عوامل کا خاتمہ اور انسانی تکاملی راہیں ہموار کرنا
وہ بنیادی مسئلہ جو اسلامی انقلاب میں اعلی و برتر ہدف سمجھا جاتا رہا ہے اور اب بھی سمجھا جاتا ہے، انسان کی پاکیزگی ہے۔ سب کچھ انسان کی پاکیزگی کی تمہید ہے۔ معاشرے میں عدل وانصاف اور انسانی معاشروں میں اسلامی حکومت بھی جو ایک بڑا ہدف شمار ہوتی ہے لیکن خود وہ بھی انسان کے رشد و ترقی کی تمہید ہے جو انسان کی پاکیزگی میں پوشیدہ ہے۔ اس عالم کی زندگی میں بھی اگر انسان سعادت تک پہنچنا چاہے تو وہ طہارت و پاکیزگی کا محتاج ہے ساتھ ہی دینوی اور اخروی درجات بھی پاکیزگی پر منحصر ہے۔ یعنی اعلی مقصد تک انسان کی رسائی پاکیزگی سے وابستہ ہے۔ “قد افلح من تذکی، و ذکراسم ربہ فصلّی” جو اپنے نفس کو پاکیزہ کرے اس نے فلاح اور نجات حاصل کرلی۔
اگر دنیا ظلم و جور سے پُر ہے، اگر سامراجی طاقتیں دنیا کے لوگوں کے ساتھ زور و زبردستی کرتی ہیں، ان پر ظلم کرتی ہیں، اگر بہت سی اقوام اپنی خاموشی سے اپنے لئے ذلت مول لیتی ہیں، اگر بہت سی طاقتیں اور حکومتیں اپنے عوام پر ظلم کرتی ہیں، اگر دنیا میں غربت اور اخلاقیات سے عاری جہالت ہے، اگر تباہی مچانے والی جنگیں ہیں، اگر کیمیائی بم ہیں، اگر ظلم و جارحیت، جھوٹ اور فریب ہے تو یہ سب کا سب انسان کے پاکیزہ نہ ہونے کی دین ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ انسانوں نے اپنا تزکیہ نہیں کیا ہے اور اپنے آپ کو سدھارا نہیں۔ انقلاب اس لئے آیا ہے کہ ہمارے نوجوانوں اور ہمارے عوام کو چاہے وہ جس طبقے سے بھی ہوں، اس بات کا موقع ملے کہ خود کو سدھاریں، برائیوں سے خود کو بچائیں اور دنیا و آخرت کے دوزخوں کی آگ سے خود کو محفوظ بنالیں۔
جو معاشرہ پاک ہو، جس کے لوگ اپنی اصلاح کرچکے ہوں، خود کو سدھار چکے ہوں، اپنے آپ سے اخلاقی برائیاں دور کر چکے ہوں، منافقت، جھوٹ، فریب، حرص و طمع،بخل اور دوسری انسانی برائیوں سے خود کو پاک کرچکے ہوں تو یہ معاشرہ آخرت میں بھی کامیاب رہے گا اور اس سے پہلے دنیاوی سعادت بھی حاصل کرے گا۔
اگر انسان کی پریشانیوں کی جڑ کا پتہ لگائیں تو انسان کے نفس کی آلودگی تک پہنچیں گے۔ جہاں بھی کمزوری اور بد نصیبی ہے، اس کی وجہ، یا اختلافات ہیں،یا دنیوی حرص و طمع ہے یا انسانوں کی ایک دوسرے سے بد دلی ہے، یا ڈر، کمزوری اور موت کا خوف ہے یا ہوا و ہوس ہے۔ انسانی معاشروں کی بدنصیبی کی اصل وجوہات یہی عناصر ہیں۔ انہیں اخلاقی تزکیے اور پاکیزگی کے ذریعے برطرف کیا جاسکتا ہے۔
البتہ طاغوتی حکومت میں اخلاقی تزکیہ بہت مشکل ہے۔ بہت کم ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے طاغوتوں کے دور حکومت میں اخلاقی اور معنوی رشد حاصل کیے ہوں تاکہ معنوی اور روحانی درجات حاصل کرسکیں اور امام امت ( امام خمینی) جیسی عظیم ہستیاں وجود میں آئیں لیکن اسلام کی حاکمیت کے دور میں یہ کام آسان ہے۔
جب تک رسول اکرمﷺ اور آپ کی اسلامی رسالت نہیں تھی، ابوذر، مقداد اور عمار جیسی ہستیاں جہالت اور گمراہی میں تھیں۔ دوسرے لوگوں کی طرح حیوانات اور وحشیوں کی زندگی گزار رہی تھیں لیکن خورشید اسلام کے طلوع ہونے نے عمار کو اتنی بڑی شخصیت بنادیا کہ اپنی پوری عمر، (تقریبا نوے سال) ہمیشہ اسلام کی خدمت کرتے رہے اور محض خدا کی خوشنودی کے لئے کام کرتے رہے اور زحمتیں اٹھاتے رہے۔ اسلام نے مقداد، ابوذر اور دیگر عظیم انسانوں کو بھی مثالی شخصیت بنادیا۔
ہمارے نوجوان رشد و تکامل کے مراحل طے کرسکتے ہیں۔ ہماری عورتیں اور مرد بڑے انسان بن سکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اس حد تک رشد کرسکتا ہے کہ ديگر اقوام کو بھی اپنی پیروی کی طرف مائل کرلے۔ یعنی مادی اور معنوی دونوں لحاظ سے ترقی کرسکتا ہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ ماد ی ترقی، معنوی ترقی کے بغیر بے فائدہ ہے۔
آج دنیا کے بڑے ممالک نے مادی ترقی کی ہے۔ زیادہ پیداوار، سائنسی ترقی، پیچیدہ ٹیکنالوجی، مصنوعات کی فراوانی، ہر دن دنیا میں انسان کو ایک سائنسی پیشرفت دکھاتے ہیں۔ لیکن کیا یہ خوش نصیب ہیں؟ کیا ان کی زندگی، انسانی زندگی ہے؟ ہرگز ایسا نہیں ہے۔! نہ خود انسانی خوش نصیبی کا احساس کرتے ہیں اور نہ ہی اقوام کو خوش نصیبی کا ادراک کرنے دیتے ہیں۔ خود ان کے اندر اضطراب، پریشانی، قتل، جرائم، خیانتیں، افسردگی، مادی اور معنوی زندگی سے روگردانی، معنویت اور فضیلت سے دوری، خاندانی شیرازے کا انتشار کے علاوہ اولاد اور والدین کے رشتوں کی نابودی پائی جاتی ہے۔ یہ ان کی مشکلات ہیں۔ کاذب ترقی کے حامل لوگوں نے دنیا کو کیا دیاہے یہ بھی آپ دیکھ رہے ہیں۔ دیگر اقوام کو جنگ، غربت، جہالت، اختلاف، بد نصیبی اور بدبختی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ا ن کے پاس مادی ترقی ہے لیکن معنوی ترقی نہیں۔ جب مادی ترقی معنوی رشد کے بغیر ہو تو نتیجہ یہی ہوتا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ معنوی پیشرفت بھی ہونی چاہیے۔
4: کرامت انسانی اور تشخص کا احیاء
انقلاب اسلامی کا دوسرا اصول عوام کے کردار کے سلسلے میں سچا یقین اور بھروسہ ہے۔ انسان کے بلند مقام اور عوامی ارادے کے فیصلہ کن کردار پر یقین پیدا کرنا انقلاب اسلامی کے اہم اہداف میں شمار ہوتا ہے۔ امام خمینی ؒ کے سیاسی مکتب فکر میں انسانی تشخص کے لئے خاص احترام ہے اور اسے بہت کارآمد اور کارساز بھی قرار دیا گيا ہے۔ انسان کے احترام کا مطلب یہ ہے کہ ایک معاشرے کے مستقبل کے تعین میں عوام کی رائے اور مرضی کو بنیادی رول ملنا چاہئے کیونکہ اسلامی تعلیمات پر استوار امام خمینی ؒ کے سیاسی مکتب فکر میں متعارف کرائي جانے والی جمہوریت، حقیقی اور سچی جمہوریت ہے۔ یہ امریکی جمہوریت کی مانند عوام فریبی اور عوام کے ذہنوں کو یرغمال بنانے سے عبارت نہیں ہے۔ امام خمینی ؒ کی جمہوریت میں عوام اپنے ارادے، اپنی مرضی، اپنی خواہش اور ایمان کی بنیاد پر راستے کا تعین کرتے ہیں۔ اپنے حکام کا انتخاب کرتے ہیں۔ انقلاب کی کامیابی کو دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ امام خمینی ؒ نے انقلاب کی بنیاد پر وجود میں آنے والے نظام کے سلسلے میں عوام کی رائے لی۔ امام خمینی ؒ کے سیاسی مکتب فکر میں عوام کی رائے کا واقعی فیصلہ کن رول ہے۔ دوسری طرف امام خمینی ؒ کا ماننا تھا کہ عوامی رائے کی طاقت اور قوم کے پکے ارادے کی بدولت دنیا کی ہر جارح طاقت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور آپ نے ایسا کردکھایا۔ امام خمینی ؒ کے سیاسی مکتب فکر میں جمہوریت کا سرچشمہ دین ہے۔ اس کا سرچشمہ “اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ” کا اصول ہے۔ امریکی اور جمہوریت کے بلند بانگ دعوے کرنے والے افراد محمد رضا پہلوی جیسے آمروں کو جس نے پینتیس سال ہمارے ملک میں مطلق العنانیت کے ساتھ حکومت کی اور اس سے قبل اس کے باپ نے تقریبا بیس سال تک آمرانہ انداز میں حکومت کرتے رہے۔ امریکی صدر بڑی بے حیائي سے دعوی کرتا ہے کہ دنیا اور مشرق وسطی میں جمہوریت کی ترویج کی ذمہ داری سے ان کے شانے دبے جا رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقی جمہوریت کا تحفہ انقلاب کے ہاتھوں سے ملا ہے۔ جس ملک کی پوری تاریخ میں بہت مختصر وقفوں کے علاوہ، جو بہت جلد گزر بھی گئے، عوامی رائے اور مرضی کو کبھی خاطر میں نہیں لایا گيا، ہم نے اپنی پوری عمر میں کبھی بیلٹ باکس کی شکل نہیں دیکھی تھی، عوام کی رائے اور مرضی کی کوئی اہمیت نہیں تھی، آمر حکمراں عوام کی مرضی کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے تھے، ایسے ملک میں ہمارے امام، ہمارے انقلاب اور اسلامی نظام نے جمہوریت قائم کی۔
5: غیروں کی مداخلت کی نفی
اسلامی انقلاب کے تین اصلی نعرے تھے: خود مختاری، آزادی اور اسلامی جمہوریہ۔ خودمختاری سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی قوم اپنے مستقبل کی خود مالک ہو؛ غیروں کو مداخلت کا موقع نہ ملے اور وہ اس کے مستقبل کا فیصلہ اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق نہ کرنے پائیں۔ یہ ہیں مختاری کے معنی۔ اب اگر کسی قوم سے مختاری چھین لی جائے، یعنی غیر، جو یقینا اس کے ہمدرد نہیں ہو سکتے وہ اس قوم کے مستقبل کے مالک بن بیٹھیں تو وہ قوم دو چیزوں سے محروم ہو جائیگی۔ سب سے پہلے اپنی عزت نفس، غیرت اور تشخص سے محروم ہو جائےگی اور اس کے بعد اپنے مفادات سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ جب دشمن کسی قوم کے سیاہ و سفید کا مالک بن جائے تو وہ اس قوم کا ہمدرد تو ہے نہیں اور اس قوم کے مفادات بھی اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ جو بھی کسی قوم کو اپنی طاقت کے جال میں پھنساتا ہے تو اسے اپنے مفادات کی فکر ہوتی ہے اور جو چیز اس کے لیے ذرّہ برابر بھی اہمیت نہیں رکھتی وہ خودمختاری سے محروم قوم کے مفادات ہیں۔ ہمارے سامنے انیسویں صدی اور اس کے بعد بیسویں صدی میں بھی اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
مغربی سامراج نے جب ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کیا تو انہوں نے ان علاقوں کی قوموں کو ذلیل و رسوا کر ڈالا، ان کی ثقافت، ان کے تشخص، ان کی دولت سب کچھ برباد کرکے رکھ دیا۔ یہاں تک کہ ان کی زبان، ان کے رسم الخط، اور ان کی ماضی اور روایات کو بھی روندھ ڈالا۔ قوموں کو رسوا کیا، انہیں نچوڑ لیا، ان کا سرمایہ لوٹ کر لے گئے، ان کی ثقافت کو برباد کر دیا؛ جب تک ممکن رہا مسلط رہے اور اس کے بعد چھوڑ کر چلے گئے۔
آزادی سے مراد یہ ہے کہ ملت و حکومت ایران کو کوئی مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ ایک بیگانے کی قدرت کو قبول کرے اور اس کی مرضی کے مطابق خود کو قربان کرے۔ ملت ایران نے حکومت پہلوی کے دوران اس چیز کو اپنے جسم و روح و جان کے ذریعے درک کیا ہے کہ کس طرح سے ایک بیگانے کی طاقت کو خود پر مسلط کرکے اسے کھلی آزادی دے رکھی تھی کہ وہ جس طرح چاہے اس ملک میں تجاوز کردے مگر انقلاب اسلامی برپاہونے کے بعد ملت ایران اس طرح سے مستحکم ہوچکی ہے کہ پوری دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو ایران کے معاملات میں مداخلت کرےیا اسے کسی کام پر مجبور کرے۔
آزادی سے مراد یہ ہے کہ اس ملت کی سیاست، اقتصاد اور فرہنگ بھی ہر لحاظ سے آزاد اور خودمختار ہو۔اس ملک کی سیاست کسی مغربی طاقت کی محکوم نہ ہوکہ وہ جس طرح چاہے اس ملک کو استعمال کرئے اورثقافتی اعتبار سے یہ کہ اپنی تہذیب و تمدن کی قیمت اور انمول اہمیت کو جانتے ہوئے خود کو کسی بیگانے کی ثقافت پر اندھوں کی طرح عمل کرنے سے بچانا ہے۔
اقتصادی آزادی سے مراد یہ ہے کہ یہ ملک اپنے پیروں پہ کھڑا ہواورکسی کا محتاج نہ رہے اس سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ ملت ایران دنیاوی سطح پر خرید و فروخت ، معاملات کے تبادلے اور تجارتی مذاکرات کو اقتصاد کی کمزوری سمجھتا ہے، نہیں، ملت ایران ان سب چیزوں کی حامی ہے مگر یہ سب اس طریقے سے انجام پائے کہ کوئی آسانی سے ملت ایران کو بے دخل نہ کرے، آسانی سے اسے محاصرہ نہ کرے اور آسانی سے ملت ایران کو نقصان و دھوکا نہ دے۔ اگر خدا نخواستہ کسی نے ملت ایران کے ساتھ ایسا کیا تو اس وقت ملت ایران میں اتنی طاقت ہو کہ وہ بغیر کسی مشکل سے دوچار ہوئے، اپنی ملکی ضرورتوں کو پورا کرے۔
6: ملک کی معاشرتی زندگی پر اسلامی اعلی اقدار کی حاکمیت قائم کرنا
ملت ایران کا ایک اہم ہدف دینداری ہے لوگ چاہتے ہیں کہ متدین رہیں مگر اس وقت کی طاغوت حکومت نے ہر جگہ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، بازاروں حتی پورے ملک میں بے دینی کی فضا قائم کررکھی تھی۔ اخلاقی اور رفتاری برائیوں سے طاغوت بھری پڑی تھی۔ عوام کے حقوق کو پامال کیا جارہا تھا، لوگوں کی نظروں کے سامنے ان کے چاہنے والوں کی بی حرمتی کی جارہی تھی۔ ان سب چیزوں کے باوجود عوام کے ایمان اور اعتقادات بلند تھے اور ان ہی بنیادی اساسوں کے بل بوتے پر عوام نے اپنی جان و مال اور اولاد کے ذریعے سے جہاد فی سبیل اللہ کا آغاز کیا اور بے حساب قربانیوں کے بعد اپنے مقصد کو حاصل کرلیا۔
آج ہر وہ قوم جس نے ایران کو قریب سے جانا ہے، گواہی دیتی ہے کہ ایرانی قوم اسلامی اعتقادات اور احکام کو انجام دینے کے اعتبار سے بہت ہی متدین قوم ہے۔آج پوری دنیا کے لوگوں پر یہ عیاں ہوچکی ہے کہ اسلام کے سایہ تلے رہ کر کیسے معنوی اور مادی اعتبار سے آزاد زندگی گزاری جاتی ہے۔ لوگوں نے دین اسلام پر ایمان رکھا اور اسی ایمان اور محبت کے بل بوتے پر قیام کیا اور یہ عظیم انقلاب انجام پایا اور حقیقی معنی میں ایک اسلامی حکومت وجود میں آئی۔
7: مادی ترقی اور عوام کو سہولتیں بہم پہنچانا
جب کوئی قوم بیرونی طاقتوں کو اپنے سیاسی شعبے اور ثقافتی محکموں میں دخل اندازی کرنے اور دوسروں کو اثر و نفوذ بڑھانے کا موقع دے دیتی ہے تو ایسی قوم مادی ترقی سے محروم رہتی ہے۔ اگر اسلامی انقلاب نہ آیا ہوتا، اگر قوم امام خمینی کی قیادت میں یہ عظیم تاریخی کارنامہ انجام نہ دیتی،تو آپ جانتے ہیں کہ آج ملت ایران کی کیا حالت ہوتی؟ اس قوم نے مغرب کی کوئی بھی سائنسی ترقی نہیں حاصل کی تھی۔ نہ کہیں کوئی ایجادات و اختراعات، نہ کہیں کوئی تعمیراتی پیشرفت۔ اپنے ذخائر گنوا چکی تھی، اپنا تیل، دریا کے پانی سے بھی سستے داموں بیچ رہی تھی، تیل پر قبضہ انہیں کا تھا، ریفائنریاں انہیں کی تھیں، ان چیزوں کے لئے طولانی مدت معاہدے کر چکی تھی، دشمنوں نے اس قوم کے دیگر ذخائر و معدنیات کے لئے بھی منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ وہ ملک کے بہترین دماغوں کو اپنے ساتھ لے جانا اور ملک کو علمی و سائنسی اعتبار سے بالکل دیوالیہ بنائے رکھنا چاہتے تھے۔
ایران میں امریکا اور برطانیہ کے اثر و رسوخ کے زمانے میں، عوام بڑے سخت دور سے گزر رہے تھے۔ سو سال پہلےتک برطانیہ نے اور پھر امریکا نے اپنے اثر و نفوذ سے اس ملک کو تنزلی کا شکار بنائے رکھا۔ آج ہم جس شعبے میں بھی قدم رکھتے ہیں، ان کی خیانتوں اور منفی اقدامات کا واضح طور پر مشاہدہ کرتےہیں۔
ایک مثال وسیع و عریض خطہ، برصغیر کی ہے۔ سات سمندر پار سے آنے والے انگریزوں نے پہلے جھوٹ اور فریب کے سہارے اور پھر اسلحے اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر سرزمین برصغیر پر قبضہ کیا۔ برسوں تک اس سرزمین پر بسنے والوں پر مسلط رہے، لوگوں کو ذلیل کرتے رہے، عظیم ہستیوں کو ختم کر دیا، ان کی دولت کو برباد کر دیا۔ برطانیہ نے اپنے خزانے کو اپنے سرمایہ داروں کی جیبوں کو برصغیر کی دولت اور قدرتی ذخائر سے بھر لیا، اوربرصغیرکوغربت اور بدحالی میں چھوڑ دیا۔ صرف مادی دولت ہی نہیں بلکہ ان کےمعنوی سرمائےکوبھی لوٹ لیا اور ان پر اپنی زبان مسلط کر دی۔
اسلامی انقلاب نے سب سے بڑا کام یہ کیا کہ امریکا کی ریشہ دوانیوں پر روک لگائی۔ اسلامی انقلاب کا یہ طرہ امتیاز تھا کہ اس نے اس ملک میں امریکا کے اثرونفوذ، امریکا کی جڑوں اور ان کے تسلط کوبالکل ختم کردیا۔
8: آزادی بیان اور قلم
آزادی فکر و بیان، انقلاب اسلامی کے اہداف میں سے ایک ہدف تھا۔لوگ چاہتے تھے کہ آزادانہ فکر کریں، آزادانہ فیصلے کریں اور آزادانہ اپنے معاشرے میں اجتماعی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ مگر اس وقت ان سب چیزوں پر پابندی تھی اور لوگوں کو ظلم و ستم کے زور پر ان سب چیزوں سے محروم رکھا گیا تھا۔
لیکن آج ملت ایران میں آزادی فکر و بیان مکمل طور پر وجود رکھتا ہے، آج ریڈیو پر ایران کے خلاف سننے کو ملتے ہیں کہ وہ کس قدر حکومت ایران کے خلاف ہیں، رہبریت کے خلاف ہیں مگرملت ایران کو ان بیگانوں کی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی وہ ان سے سروکار رکھتےہیں اور اس پر بھی انہیں تکلیف ہے کہ کیوں ملت ایران کو ان کی مخالفت سے سروکار نہیں ہے۔
8: مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مخالفت
انقلاب ایران کے اہداف میں سے ایک اہم ترین ہدف عدالت کا پرچار ہے۔ دنیا کے جس کونے سے عدالت طلبی کی آواز اٹھےگی یا دنیا کے جس کونے میں کسی پر ظلم ہوگا اور ان کی حق تلفی ہوگی، ایرانی قوم اس کی حمایت میں لبیک کہےگی۔
انقلاب کا اصلی ترین مقصد یہ تھا کہ معاشرے میں عدالت برپا ہو یعنی قانون ، قضاوت اور اسلامی نظام کے اجراء میں عدالت قائم ہو۔ حقیقت میں جمہوری اسلامی کی حکومت عدالت کی بنیاد پر قائم ہوئی ہےاور آخر تک اس پر قائم و دائم رہےگی۔
اگر کسی معاشرے میں عدالت نہ ہو تو وہاں امیرلوگ مزید دولتمند ہوتے چلےجاتے ہیں اور غریب لوگ مزید فقیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
عدالت سے مراد یہ نہیں ہے کہ سب امیر و غریب ایک سطح پر پہنچائےجائیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جس کسی میں جتنی استعداد ہوگی، اور جتنی قابلیت ہوگی وہ اسی کے مطابق ترقی کرےگا اور اس کی مالی حالت میں بھی کمی بیشی آئے گی۔
ایرانی عوام نے طاغوتی حکومت کے دوران میں اس ناانصافی کو اپنے جسم و روح و جان سے محسوس کیا کہ کس طرح حکومت طاغوت ان کی حق تلفی کرکے دولت جمع کررہی تھی اور ہربے ایمان انسان اس طاغوتی حکومت کی حمایت کرکے ثروتمند ہوتا جارہا تھا۔ اور ایمان دار اور دین دارلوگ اپنے حق کو قربان کرکے بے چارگی کا شکار ہونا پسند کرتے تھے مگر اس حکومت کی حمایت نہیں کرتے تھے۔
آپ ملاحظہ فرمائیں! مسلم اقوام کی تحقیر، دشمنان اسلام کی موثر ترین چال تھی۔ عرب ملکوں، برصغیر، وسطی ایشیا کے ممالک، ایشیائے بعید کے ممالک، افریقا، یورپ اور امریکا میں اسلامی اقلیتوں کو دیکھیں! ہر جگہ مسلمانوں کی تحقیر کی پالیسی پرعمل ہورہا ہے۔ اچھی طرح توجہ فرمائيں کہ یہ کتنا اہم ہے۔ مسلمانوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ دنیا کی تحریک میں اپنے ارادے کو اسلامی نورانی احکام اور اسلامی جزبے کے بل بوتے پر موثر کرسکتے ہیں۔جیسے ظلم کی مخالفت، برائی اور بدعنوانی سے عدم اطمینان، امر بالمعروف و نہی عن المنکراور جہاد فی سبیل اللہ۔ان تمام جگہوں پر مسلمان مکمل طور پر اپنا موثر کردار ادا کرسکتے ہیں، اور یہی اسلامی احکام کا مجموعہ ہے۔ جہاد، امربالمعروف، برائیوں اور بدعنوانی پر عدم تحمل اور ظلم کو برداشت نہ کرنا اس بات کا موجب ہیں کہ مسلمان فطری طور دنیا میں جہاں بھی ہو اور جس قوم کی شکل میں ہوان احکام کی برکت سے وہ امور دنیا اور اپنے ماحول میں اپنے ارادے کو دخیل قرار دے سکتا ہے۔ یہ مسلمان کی خصوصیت ہے۔ سامراجی طاقتیں اس خصوصیت سے ناراض ہیں اوردنیا کے ظالمین کو اس خصوصیت سے تشویش ہے۔
جب یورپ والے کشتیوں پر سوار ہوکے آئے اور ایشیا، افریقا، مشرق وسطی اور دوسری جگہوں کے ملکوں کوتسخیر کیا تو مسلمانوں کی اسی خصوصیت سے خوفزدہ تھے۔ انہوں نے اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مختلف قسم کی سے منصوبہ بندی کردی انہوں نے دو کام بڑی زیرکی سے انجام دئے ، پہلا یہ کہ مسلمانوں کو اسلامی احکام سے دور کر دیا جائے اور دوسرا یہ کہ ان کی تحقیر کی جائے اور حوصلہ پست کر دیا جائے۔ بنابریں آپ دیکھیں کہ اسلام کے خلاف مہم کے دوران میں جس میں حالیہ ایک دو صدیوں میں زیادہ شدت رہی ہے، دشمنان اسلام کی پالیسیاں دو چیزوں پر متمرکز رہی ہیں:
1. مسلمانوں کو اسلامی احکام سے دور کرنا۔
2. ان کی تحقیر اور ان کی حوصلہ شکنی کرنا۔ ان دو پالیسیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی ممالک دنیا کے تیسرے درجے کے ممالک بن گئے۔ جہاں بھی کوئی اسلامی ملک تھا، وہ یاتو براہ راست دشمنان اسلام اور بیرونی طاقتوں کے زیر اثر تھا یا بیرونی طاقت کا کوئی آلہ کار اس پر مسلط تھا؛ جیسے یہاں منحوس پہلوی خاندان تھا اور بعض دوسرے ملکوں میں ایسے ہی دوسرے خاندان مسلط تھے۔ مسلمانوں کی حالت یہ رہی ہے۔ امام خمینی ؒ آئے اور ٹھیک اسی جگہ پر توجہ دی۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ امام خمینی ؒ کے نام نے طوفان کی طرح پوری اسلامی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس کی وجہ یہی باتیں ہیں۔ تشہیرات اور پروپیگنڈوں کے ذریعے اقوام کے دلوں میں کسی کے لئے اس طرح جگہ نہیں بنائی جا سکتی۔ یہ جو دنیا کے بعض ایسے علاقوں میں بھی جہاں کے لوگوں نے ایران کا نام بھی نہیں سنا تھا، اسی طرح امام خمینی ؒ سے لوگ محبت اور عقیدت رکھتے تھے، اس کی وجہ یہی چیزیں تھیں۔ یہ سنت الہیہ اور اصول خلقت ہے۔ امام خمینی ؒ نے انہیں دو باتوں پر زور دیا۔ اقوام کا ضمیر بیدار ہوا اور انہوں نے دیکھا کہ راہ نجات یہی ہے اور نمونہ عمل ایرانی قوم ہے۔
امام خمینی ؒ نے ایرانی قوم کو اسلام کی جانب واپسی کی دعوت دی اور فرمایا کہ آئیے اسلام پر حقیقی معنوں میں عمل کیجئے۔ صرف مسجدوں میں انفرادی عبادت کی شکل میں ہی نہیں بلکہ مکمل طور پر اسلام پر عمل کیجئے۔ اسی لئے آپ نے اسلامی جمہوری حکومت تشکیل دی۔ اسی کے ساتھ آپ نے اس قوم کے حوصلے کو دوبارہ زندہ کیا۔ ایرانی قوم کو بتایا اور سمجھایا کہ اس کے اندر طاقت و توانائی ہے۔ آپ نے اسی کے ساتھ دنیا کی تمام دیگر مسلم اقوام کو بھی بتایا کہ آپ کے اندر حقیقی طاقت و توانائی موجود ہے، آپ دشمنوں کو جھکا سکتے ہیں۔ ہر جگہ امام خمینی ؒ کی اس ہدایت پر جتنا عمل کیا گیا، اتنا ہی اس کا نتیجہ سامنے آیا۔ ہمارے اپنے ملک میں قوم کمزوری کی حالت سے نکل کے اس مرحلے تک پہنچ گئی ہے کہ آج دنیا کے اہم معاملات میں اس کا ارادہ مؤثر ہے۔ ہمارے دشمن بھی یہی کہتے ہیں۔
منابع و مآخذ
: عید بعثت پر ملک کے حکام اور کارکنوں سے قائد انقلاب کا خطاب17 نومبر 1998۔
: سورہ عصر، آیہ: 3
: سامراج سے مقابلے کے قومی دن اور تیرہ رجب کے موقع پر خطاب3 نومبر 1998۔
: سورہ اعلی، آیات: 14، 15
: مختلف عوامی طبقات سے قائد انقلاب اسلامی کا خطاب23 اکتوبر 1991۔
: سورہ حم، آیہ:38۔
: بانی انقلاب امام خمینی ؒ کے سیاسی مکتب فکر کے اہم پہلوؤں کی توصیف 3 جون 2004۔
: قم کے عوام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب۔ 5 اکتوبر 2000۔
: قائد انقلاب اسلامی کا نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب۔ 13 فروری 2004
: قائد انقلاب اسلامی کا نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب۔ 13 فروری 2004۔
: حکومتی کارکنان اور اساتذہ سے خطاب۔ 5 مئی 1993۔
: قائد انقلاب اسلام کا نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب۔ 12 مئی2000۔
: قائد انقلاب اسلامی کا نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب۔ 25 اکتوبر 1989۔
: قم کے عوام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب۔ 5 اکتوبر 2000۔
: قائد انقلاب اسلامی کا نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب۔ 12 مئی 2000۔
: قائد انقلاب کا نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب۔ 13 فروری 2004۔
: حضرت امام خمینی کی برسی کے موقع پر خطاب۔ 4 جون 1995۔
: نظام اسلامی کے کارکنوں سے خطاب۔ 7 جنوری 1993۔
: قائد انقلاب اسلامی کا نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب۔12 مئی 2000۔
: امام خمینی کی برسی کے موقع پر مختلف عوامی طبقات اور غیر ملکی مہمانوں سے خطاب۔ 5 جون 1996

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *