حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت

مورخین کااتفاق ہے کہ امام حسن اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نیشین ہوگئے تھے ،لیکن امیرمعاویہ آپ کے درپئے آزاررہے انہوں نے باربار کوشش کی کسی طرح امام حسن اس دارفانی سے ملک جاودانی کوروانہ ہوجائیں اوراس سے ان کامقصدیزیدکی خلافت کے لیے زمین ہموارکرناتھی، چنانچہ انہوں نے ۵/ بارآپ کوزہردلوایا ،لیکن ایام حیات باقی تھے زندگی ختم نہ ہوسکی ،بالاخرہ شاہ روم سے ایک زبردست قسم کازہرمنگواکرمحمدابن اشعث یامروان کے ذریعہ سے جعدہ بنت اشعث کے پاس امیرمعاویہ نے بھیجا اورکہلادیاکہ جب امام حسن شہدہوجائیں گے تب ہم تجھے ایک لاکھ درہم دیں گے اورتیراعقد اپنے بیٹے یزید کے ساتھ کردیں گے چنانچہ اس نے امام حسن کوزہردے کرے ہلاک کردیا،(تاریخ مروج الذہب مسعودی جلد ۲ ص ۳۰۳ ،مقاتل الطالبین ص ۵۱ ، ابوالفداء ج ۱ ص ۱۸۳ ،روضةالصفاج ۳ ص ۷ ، حبیب السیر جلد ۲ ص ۱۸ ،طبری ص ۶۰۴ ،استیعاب جلد ۱ ص ۱۴۴) ۔
روایات کی روشنی میں حضرت غریب الغرباء علیہ السلام کی شہادت


اس موضوع کی روایات کی طرف رجوع کرنے سے جو کہ تاریخ کے اہم منابع و مآخذ میں ذکر ہوئی ہیں اور تاریخی مستندات کی حیثیت رکھتی ہیں،غریب الغرباء حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں بہت اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ان روایات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱)وہ روایات جو معصومین (حضرت پیغمبرِ اسلام اور آئمہ) علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں۔
پیغمبر کی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ/ انصاریان

اس نوشتہ کا اصلی مقصد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آپ کی ازواج کے ساتھ ساز گاری موافقت کو بیان کرنا ھے تاکہ روشن ھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کے ساتھ کس طرح رھتے تھے کہ وہ آپ سے راضی تھیں اور آپ کا زیادہ وقت نہیں لیتی تھیں، تاکہ آپ عبادت و تہجد، تبلیغ دین، رسالت الٰھی کی ادائیگی اور لوگوں پر حکومت و نظارت کے فرائض کو باحسن وجہ انجام دے سکیں۔
مبادا کوئی تصور کرے کہ پیغمبر کی ساری بیبیاں اچھی تھیں اور ان کے درمیان آپس میں کوئی نزاع نہیں تھا بلکہ دست بدست فرائض کی تکمیل اور وظائف کی انجام دھی میں آپ کی مدد کرتی تھیں، پہلی اور دوسری فصل میں ازواج پیغمبر کی ناسازگاری کے واقعات بیان ھوئے اور معلوم ھوا کہ اچھی بیوبیاں جیسے زینب بنت جحش جو پیغمبر کے لئے شھد کا شربت تیار کرتی تھیں اور دوسری بیویوں پر افتخار کرتی تھیں کہ خدا نے ان کا عقد پڑھا ھے جب کسی سفر میں جناب صفیہ کا اونٹ چلنے سے انکار کردیتا ھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب سے درخواست کرتے ھیں کہ وہ جناب صفیہ کو اپنے اونٹ پر سوار کرلیں تو جواب دیتی ھیں کہ کیا میں آپ کی یہودی بیوی کو اپنے اونٹ پر سوار کرلوں؟ ایسا ھرگز نہیں ھوگا۔ 1
