تازہ ترین

روایات کی روشنی میں حضرت غریب الغرباء علیہ السلام کی شہادت

حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت ہے کہ فرمایا:’’میرے فرزند موسيٰ کاظم(علیہ السلام) کی نسل سے ایک فرزند دنیا میں آئیں گے،جنہیں خراسان جانا پڑے گا،وہ وہیں مسموم ہوکر شہید ہوں گے‘‘۔
شئیر
43 بازدید
مطالب کا کوڈ: 3150

روایات کی روشنی میں حضرت غریب الغرباء علیہ السلام کی شہادت
اس موضوع کی روایات کی طرف رجوع کرنے سے جو کہ تاریخ کے اہم منابع و مآخذ میں ذکر ہوئی ہیں اور تاریخی مستندات کی حیثیت رکھتی ہیں،غریب الغرباء حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں بہت اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ان روایات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱)وہ روایات جو معصومین (حضرت پیغمبرِ اسلام اور آئمہ) علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں۔

(۲)وہ روایات جو خود حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہیں۔

(۳)وہ روایات جو قابل اعتماد عینی شاہدوں کی زبانی امام علیہ السلام کی شہادت کی کیفیت او ر تفصیلات کے بارے میں تاریخ میں محفوظ ہیں۔

بعض روایات ملاحظہ ہوں:

حضرت امام صادق علیہ السلام سے ابو بصیر نقل کرتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا:ایک دن میرے والد بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے جابر بن عبد اللہ انصاری کو بلایا اور فرمایا:

’’یا جابر!اَخبِرنی عَنِ اللَّوحِ الَّذِی رَأَیتَہ فی يَدِ امّی فَاطِمَۃ‘‘۔

اے جابر! اُس لوح کے بارے میں مجھے بتاؤ جو تم نے میری ماں فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے دستِ مبارک میں دیکھی۔

جابر نے کہا:حضرت امام حسین بن علی(علیہما السلام) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارکباد عرض کرنے کیلیے آپ کی ماں فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)کی خدمت میں حاضر ہوا،حضرت کے دست مبارک میں سبز رنگ کی ایک لوح دیکھی جو زمرّد سے بنی ہوئی لگ رہی تھی،میں نے اُس لوح کے بارےمیں حضرت سے سوال کیا،انہوں نے میرے جواب میں فرمایا:یہ لوح خداوند متعال کی طرف سے میرے والد بزرگوار کیلیے ہدیہ ہے جس میں میرے والد بزرگوار،شوہر نامدار اور میری اولاد سے آنے والے آئمہ(علیہم السلام)کے اسماء گرامی تحریر ہیں۔ میرے والد بزرگوار نے مجھے خوش کرنے کیلیے بشارت کے طور پر یہ لوح مجھے دی ہے،اس لوح کے ایک حصے کی تحریر میں جو آٹھویں امام علیہ السلام سے متعلق ہے،یوں ذکر ہے:

’’یقتلہ عفریت مستکبر‘‘یعنی اُنہیں ایک قدرت طلب و مستکبر عفریت شہید کرے گا۔

طریحی نے مادۂ ’’حفد‘‘کے تحت حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:’’تُقتَلُ حفدتی بِاَرض خُراسان‘‘یعنی’’میری نسل سے ایک میرا فرزند خراسان میں شہید کیا جائے گا‘‘۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت ہے کہ فرمایا:’’میرے فرزند موسيٰ کاظم(علیہ السلام) کی نسل سے ایک فرزند دنیا میں آئیں گے،جنہیں خراسان جانا پڑے گا،وہ وہیں مسموم ہوکر شہید ہوں گے‘‘۔

حضرت امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں اس طرح ذکر ہے کہ فرمایا:’’خدا کی قسم ہم سے کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو شہادت کے بغیر دنیا سے جائے‘‘حضرت سے سوال کیا گیا:آپ کو کون شہید کرے گا؟امام علیہ السلام نے فرمایا:‘‘میرے زمانے کا بدترین شخص مجھے زہر دے کر شہید کرے گا‘‘۔

حضرت امام رضا علیہ السلام اور مأمون خلیفہ کے درمیان ولایتعہدی کے مسئلہ پر ہونے والی گفتگو کے دوران ولایتعہدی کو قبول نہ فرمانے کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ تھی کہ فرمایا’’میرے والد بزرگوار نے اپنے والد بزرگوار اور اجداد گرامی سے نقل فرمایا ہے کہ ہمارے جد بزرگوار رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے بارے میں جو فرمایا ہے اس کی روشنی میں اے مامون!میں تمہارے مرنے سے پہلے مظلومیت کی حالت میں زہر سے شہید ہو جاؤں گااور اگر مجھے اجازت ہوتی تو میں یہ بھی بتادیتا کہ میرا قاتل کون ہے‘‘

آخر ی دفعہ جب امام علیہ السلام نے اپنی شہادت کے بارے میں خود گفتگو کی،وہ شہید ہونے سے کچھ دیر پہلے تھی کہ اپنے دو مَحرَمِ اَسرار اصحاب’’اَبا صَلت ھروی اور ھرثمہ بن اَعيُن‘‘کے سامنے فرمایا’’اِس وقت میراخداوندمتعال کی طرف واپس لوٹنے کا موقع آن پہنچاہے،اب وہ وقت آگیا ہے کہ میں اپنے جدبزرگوار حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر اجداد گرامی کی خدمت میں پہنچوں،میری زندگی اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے،اس طاغوت (سرکش خلیفہ)نے ارادہ کرلیا ہے کہ مجھے زہرآلود انگور اور انار کے ذریعے شہید کردے‘‘

ابونو اس نے اپنے قصیدے میں یوں تذکرہ کیا ہے:

باؤا بقتل الرضا من بعد بیعتہ

وابصروابعضھم من رشدھم وعموا

عصابۃ شقیت من بعد ما سعدوا

ومعشرھلکوا من بعد ما سلموا

یعنی بعض لوگوں نے حضرت امام رضا علیہ السلام کی بیعت کے بعد حضرت کو شہید کرنے میں جلد بازی کی اور بصیرت و آگاہی کے بعد دل کے اندھے ہوگئے،ایسے لوگ جو خوشبختی کے بعد بدبختی کا شکار ہو گئے ،ایسی جماعت جو سلامتی کے بعد ہلاکت و نابودی کی لپیٹ میں آگئی!!

مشہور شاعر دعبل نے بھی اس سواگواری کی اپنے اشعار میں یوں عکاسی کی ہے:

الا ما لعین بالدّموع استھلت

ولو نفرت ماء الشؤون لقلت

عليٰ من بکتہ الارض و استرجعت لہ

رؤوس الجبال الشامخات و ذلت

وقد اعولت تبکی السماء لفقدہ

وانجمھا ناحت علیہ وکلت

فنحن علیہ الیوم اجدد بالبکاء

لمرزئہ عزت علینا وجلت

رزئنا رضی اللہ سبط نبيّنا

فاخلفت الدنیا لہ و تولت

وما خیر دنیا بعد آل محمّد

الا لابتالیھا اذا ما اضمحلت

یعنی:یہ کیا وجہ ہے کہ آنکھیں کم کم برس رہی ہیں اور تھوڑا تھوڑا رو رہی ہیں جبکہ (اس جانسوز حادثے پر)اگر آنکھوں کے اشک ختم ہو جائیں اور آنسو بہتے بہتے خشک ہو جائیں تو پھر بھی کم ہے۔ایسی ہستی کی مصیبت پر کہ جس پر زمین نے گریہ کیا اور بلند و بالا پہاڑوں نے اس کے سوگ میں آہ و فغاں کیا،آسمانوں نے جس کے فراق میں عزاداری کی اور ستاروں نے نوحے پڑھے اب شائستہ تر یہی ہے کہ ہم اس پر روئیں کیونکہ ہم پر بہت بڑے مصائب آپڑے ہیں،سبطِ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی بہت بُری مصیبت ہے،ایسی مصیبت جو نہ ہم پر بلکہ تمام اہل عالم پر بہت سخت ہے اب خاندانِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فقدان اور جدائی کے بعد دنیا اور اس کی زندگی میں خیر و برکت نہیں ہے،اب خوشی کی کوئی بات نہیں رہی اور دنیا میں زندہ رہنے کی ہماری اب کوئی آرزوباقی نہیں رہی۔

تاریخ شہادت

غریب الغرباء حضرت امام رضا علیہ السلام کے سالِ شہادت کے معيّن ہونے میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں ایک قول کے مطابق ۲۰۲ ہجری قمری اور ایک دوسرے قول کی رو سے سالِ شہادت ۲۰۳ ہجری قمری ہے۔

ان دونوں نظریوں یا اقوال میں سے دوسرا نظریہ یا قول صاحب نظر اہل علم کے ہاں زیادہ شہرت رکھتا ہے یعنی مشہور قول کے مطابق حضرت کا سالِ شہادت ۲۰۳ ھ۔ق ہے ۔شیخ کلینيؒ نے اسی قول کو درست شمار کیا ہے اور مسعودی نے بھی یہی قول نقل کیا ہے۔

بعض معاصر تاریخ نگاروں نے حضرت کا سال شہادت ۲۰۴ ھ۔ق خیال کیا ہے،ان کے اس قول کی دلیل ان کے نزدیک یہ ہے کہ امام علیہ السلام کے اسم مبارک کے سكّوں پر یہ سال درج ہے لہٰذا سالِ شہادت یہی ہے لیکن جیسا کہ علامہ سید محسن امین نے ذکر کیا ہے کہ سكّوں پر یہ تاریخ درج ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ یہ سکے حضرت امام رضا علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ میں ہی بنے ہوں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں نے امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد بطورِ تبرک بنائے ہوں۔

حضرت امام رضا علیہ آلاف التحیۃ والثناء کی تاریخ شہادت کے بارے میں بھی اتفاق نظر نہیں بلکہ تاریخ کی ورق گرادانی سے متعدد تاریخیں ملتی ہیں؛ملاحظہ فرمائیں:

۲۳ذیعقدہ

ذی الحج کی آخری تاریخ

یکم صفر

۱۷ صفر صفر کی آخری تاریخ

مندرجہ بالا منقولہ تاریخوں میں مشہور ترین اور قابلِ اعتماد ترین تاریخ شہادت یہی آخری نقل یعنی ماہِ صفر المظفر کی آخری تاریخ ہے اور یوم شہادت کے لحاظ سے اکثر تاریخوں میں جمعہ کا دن مولا غریب الغرباء علیہ السلام کی شہادت کا دن لکھا گیا ہے۔

پس معلوم ہوا کہ حضرت کی تاریخ شہادت کے بارے میں قابل قبول قول ماہ صفر کی آخری تاریخ۲۰۳ھ۔ق اور یوم شہادت کے لحاظ سے جمعہ کا دن ہے۔

شہادت کے وقت حضرت امام ہشتم علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ۵۵ برس تھی۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کی جائے شہادت اور آرامگاہ

غریب الغرباء حضرت امام رضا علیہ السلام ایران۔خراسان۔ کے طوس شہر میں شہید ہوئے اور جیسا کہ خود حضرت نے پیش گوئی اور وصیت فرمائی تھی،اس کے مطابق حضرت کو سناباد(محلہ)کی ایک مشخص جگہ پر دفن کیا گیا یہ مقام بعد میں مشہد الرضا علیہ السلام کے نام سے معروف ہوگیا۔

گویا مقدر اسی طرح سے تھا کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذریتِ طاہرہ اور پاک و پاکیزہ نسل سے اور اسی طرح بارہ معصوم و منصوص آئمہ علیہم السلام میں سے ایک امام عالیمقام علیہ السلام’’مدینۃ الرسول‘‘(ص) سے بہت دور ایک سرزمین (خراسان۔ طوس۔ سناباد)کے صدف میں گوہر تابناک بنے،اور اس غریب الوطنی میں مسموم ہوکر شہادت پائے اور پھر اس کی ملکوتی بارگاہ اور نورانی مرقد سےجہان بھر کی کروڑوں توحید پرست عاشقوں کے دلوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے کوثرِ ولایت کی طرف کھینچے اور وہ بارگاہ اہل محبت و لایت کی وسیع سرزمین میں تھکے ہارے دلوں کی ڈھارس اور ہر بے پناہ آہو کی محکم پناہ گاہ ثابت ہو،ایسے آہو جو گناہ و معصیت کے صیادوں کے ہاتھوں سے فرار کرتے ہوئے وليِ خدا کے امن بخش دامن میں آنا چاہیں؛ان کیلیے ہمیشہ ہمیشہ تسکینِ دل فراہم کرتے ہوئے‘‘ضامنِ آہو’’ ثابت ہوتا رہے۔

سلام ہوں اُس ہستی پر جب اُس کے نور کا ہم خاکیوں کی نجات کیلیے ظہور ہوا،اور جب مظلومیت و غریب الوطنی کے عالم میں اپنے خاندان سے کوسوں دور مسموم ہو کر شہادت پائی،اور جب انتہائی عظمت،شکوہ اور جلالت کے ساتھ دوبارہ حکمِ خدا سے زمین کو منوّر کرے اور آفتاب عالم تاب بن کر اپنے شیعوں کی جانوں اور دلوں کو اپنے نورِ ولایت و رأفت سے گرمائے ،اس معصوم، مظلوم اور مسموم ہستی پر ہر چاہنے والے کی ہرسانس کی تعداد سے کئی گنا لاکھوں درود اور لاکھوں سلام۔

اسلامی فرقوں میں سے بعض اس بات کے معقتد ہیں کہ حکمرانوں کی اطاعت واجب ہے،کسی طور بھی ان سے مخالفت ہرگز جائز اور درست نہیں ہے اور اسی طرح ان کے خلاف قیام کرنا بھی صحیح نہیں ہے،ان فرقوں کے نزدیک حکمران کی خصوصات مہم نہیں ہیں یعنی ان کے نزدیک حاکم چاہے جیسا بھی ہو لیکن اس کی اطاعت ضروری اور واجب ہے؛اگرچہ بڑے بڑے گناہوں میں بھی مبتلا ہو یا مقدّسات کی ہتكِ حرمت بھی کرتا ہو(نعوذ باللہ من ذلک)اس عقیدے کا مطلب یہ بھی ہے کہ حاکمِ وقت اگرچہ اولادِ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے کسی بے گناہ کو بھی قتل کردے تو پھر بھی چونکہ حکمران ہے لہٰذا اس کی اطاعت واجب اور اس حکم سے سرپیچی حرام ہے۔اسلامی فرقوں میں سے بعض جیسے اہلِ حدیث،اہلسنت حضرات خواہ امام اشعری سے پہلے والے ہوں یا بعد والے،سب اس عقیدے کو قبول کرتے ہیں اور ان کے امام اشعری کا بھی یہی نظریہ و عقیدہ تھا۔

اپنے اس نظریے و عقیدے کی تائید میں یہ لوگ چند احادیث سے تمسک کرتے ہیں جن کی نسبت پیغمبر اکرم (ص) کی طرف دیتے ہیں لیکن ان لوگوں کی توجہ اس حقیقت کی طرف نہیں ہے کہ ایسا سست عقیدہ نہ فقط قرآن مجید کی واضح و صریح نص کے خلاف ہے بلکہ عقل اور وجدان بھی ایسے نظریے کی مذمت کرتے ہیں۔

اس عقیدے کا گہرا اثر ان کے تاریخ نگاروں اور حتی ٰعلماء و فقہاء پر بھی نظر آتا ہے کہ جو اس عقیدے کو درست اور قابل قبول قرار دینے کی وجہ سے اپنے آپ کو اس بات کیلیے مجبور سمجھتے تھے اور اپنے اوپر ضروری جانتے تھے کہ حکمرانوں کی جنایتوں،جرائم اور لغزشوں پر پردہ ڈالیں اور چھپادیں یا ان کی توجیہ و تأویل کرنے کی کوشش کریں۔

ان حکمرانوں کی ایک پالیسی یہ تھی کہ اس عقیدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جرائم کے باوجود اپنے آپ کو گناہکار ظاہر نہ ہونے دیں لہٰذا ان کی خواہش یہی رہی کہ آئمہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں موجودہ حقائق کو لوگوں کی نظروں کے سامنے جلوہ گرنہ ہونے دیں یا ان حوادث و واقعات کو ایسے انداز میں بیان کریں کہ وہ لوگوں کے سامنے مجرم ثابت نہ ہوتے ہوں اور افسوس کی بات کہ اس بارے میں ان کے علماء اہل قلم اور تاریخ نگاروں نے بھی کسی بھی کوشش میں کمی نہیں آنے دی اور حاکمِ وقت کے ارادے کو جاری ونافذ کرنے کیلیے ہر ممکنہ کوشش کرتے رہے کیونکہ ان کے اپنے خود ساختہ اور مَن گھڑت عقیدے کی رو سے حاکمِ وقت کا ارادہ،(نعوذ باللہ) خداوندمتعال کا ارادہ ہے،یہی وجہ ہے کہ بہت زیادہ تاریخی کتب میں نہ فقط یہ کہ ہمارے آئمہ علیہم السلام کے حالاتِ زندگی دیکھنے میں نہیں آتے بلکہ ان برحق ہادیوں اور پیشواؤں کے نام نامی بھی نظر نہیں آتے۔

اکثر تاریخی کتب میں آئمۂ ہديٰ علیہم السلام کے نام نامی ذکر نہ ہونے کی دلیل اور وجہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ آئمہ مثلاً گمنام یا غیر معروف افراد تھے یالوگوں کی ان کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی تھی بلکہ یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ یہ ہستیاں دوستوں اورتمام لوگوں میں نہایت مشہور و معروف تھے،دوستوں میں عقیدت،ارادت اور شدید چاہت کی بناء پراور دشمنوں میں بغض و عداوت اور حسادت کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے جیسا کہ یہ تاریخی عمل آج بھی قابل مشاہدہ ہے اور شروع سے اسی طرح رہا ہے اور یہ بھی عالمی اور تاریخی حقائق میں سے ہےکہ جس دور میں بھی دشمنوں کی دشمنی اور عداوت میں اضا فہ ہوا ۔ بلا فاصلہ چاہنے والوں کی قلبی چاہتیں بھی جوش میں آنے لگیں ۔ جیسا کہ بعض محدود تاریخوں میں یہ حقائق سینہ تاریخ پر ثبت وضبط بھی ہیں لیکن افسوس کہ اس کے باوجود اکثر تاریخی کتب اس بارے میں ساکت اور گنگ نظر آتی ہیں جبکہ با لکل بے اہمیت مطالب و واقعات سے یہی تاریخی کتب بھری پڑی ہیں ۔ گا نے اورناچنے والی عورتوں کے بارے میں کس قدر قصے ،داستانیں اور واقعات تاریخ کی کتابوں میں ملتے ہیں اسی طر ح ڈاکووں اور راہزنوں وغیرہ کی کہانیاں بھی کثرت سے تاریخی کتا بوں میں موجود ہیں۔

من گھڑت عقیدے کی پاسداری و پر ستش کرنے والے تاریخ نگاروں کے نزدیک یہ تلخ حقیقت خیانت شمار نہیں ہوتی اگرچہ ایسے تاریخ نگار آئندہ نسلوں کے سامنے اور وجدانوں کی عدالتوں میں بھی خائن قرارپاتے ہیں۔ جو امانت کابار ان کے کندھوں پر تھا انہوں نے تاریخ نگار ہونے کے ناطے وہ تاریخی اوراق کے حوالے نہیں کیا اور آنے والی نسلوں تک پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔

ایسے احوال و اوضاع میں آئمۂ ہدایت علیہم السلام سے متعلقہ حقائق ذکر کرنے کیلیے شیعیان اہلبیت کے پاس زیادہ سہولیات نہیں تھیں کیونکہ ہمیشہ ظالم و جابر غیر شیعہ حکمران ان پر سختی کرتے تھے،کڑی دیکھ بھال کی جاتی تھی اور ان کی جانیں ہمیشہ خطرات میں رہی ہیں۔

یہاں آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اگر صورتحال اس طرح سے ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ صاحبانِ حکومت خلفاء ’’علماء کی اس قدر تعظیم و تکریم کرتے تھے؟‘‘کیا وجہ تھی کہ وہ علماء کو دور ترین نقاط سے بھی مدعو کرکے اپنے نزدیک لے آتے تھے،کیا یہ بات عجیب نہیں ہے کہ ایک طرف تو ایسے نام نہاد خلفاء اہل بیتِ رسالت علیہم السلام کے مقابلے میں معاندانہ موقف و کردار اپناتے ہوں اور دوسری طرف علماء دین کو اپنے قریب بلا کر رکھتے ہوں؟؟۔

اس سوال کا جواب واضح ہے حقائق کی روشنی میں دی گئی وضاحت کو سامنے رکھتے ہوئے غور کریں:

۱:صاحبان حکومت خلفاء کی آئمۂ اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ دشمنی اور برے سلوک کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود اس بات کی طرف متوجہ تھے اور جانتے تھے کہ خداوند متعال کی جانب سے حکومت و حکمرانی کا حق آئمہ ہديٰ علیہم السلام کو ہے لہٰذا ان کی بھرپور کوشش یہی ہوتی تھی کہ ان حقیقی حکمرانوں کا کسی طرح سے بھی خاتمہ کرسکیں تاکہ یہ حق انہیں نہ مل پائے بلکہ پائمال ہوتا رہے اور نتیجے میں ان کی غاصبانہ حکومت و حکمرانی باقی رہے۔

۲:آئمہ اہلبیت علیہم السلام ایسے حکمرانوں کی ہرگز تائید نہیں فرماتے تھے اور کبھی بھی ان کے کردار و عمل سے خوشنودی اور رضایت کا اظہار نہیں فرماتے تھے۔

۳:آئمہ علیہم السلام اپنے اسوۂ حسنہ،قابل تقلید شخصیت اور بہترین و عمدہ ترین کردار کی بنیاد پرنام نہاد خلفاء اور ان کی غاصبانہ حکومتوں اور طاقتوں کے مقابلے میں سب سے بڑا خطرہ شمار اور ثابت ہوتے تھے۔

ان وجوہات کی بناء پر وہ حکمران ایسے علماء کی اس قدرتشویق کیا کرتے تھے تاکہ اپنے معین سیاسی اہداف حاصل کرتے رہیں اور علماء کی مخالفت کی فضاء میں ان اہداف کے حصول سے ہاتھ دھونہ بیٹھیں،البتہ واضح ہے کہ یہ تشویق و حمایت حکمرانوں کی طرف سے فقط اس حد تک ہوا کرتی تھی جب تک ان کی حکومتوں کا دفاع ہوتا رہے اور ان کیلیے کوئی خطرہ اور نقصان و زیان لاحق نہ ہو۔پس معلوم ہوا کہ ان حکمرانوں کی سیاسی چالوں کی رو سے ایسا علم اور ایسے عالم ان کی خدمت کے آلات اور آلۂ کار شمار ہوا کرتے تھے۔ وہ حکمران چاہتے تھے کہ اس راستے سے اپنے بہت زیادہ اہداف تک پہنچتے رہیں جیسے:

۱:اہل علم حضرات جو کہ معاشرے کا آگاہ طبقہ حساب ہوتا تھا وہ حکمرانوں کی نظارت و نگرانی اور کنٹرول میں ہو۔

۲:ایسے علماء کے ہاتھوں اپنی خصوصی چالوں کے جال بچھا سکیں اور تاریخ کو بھی اپنی حمایت میں شاہد بناسکیں۔

۳:سادہ عوام کی نظروں میں اپنے آپ کو کلی طور پر علم و علماء کے طرفدار ظاہر کرنا چاہتے تھے تاکہ لوگ ان پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کرتے رہیں اور اس طرح ان کے خیال میں اہلبیت(علیہم السلام) کوچھوڑنے اور ان کی مخالفت کرنے کا ایسے علماء کی قرابت کے ذریعے جبران ہو جائے۔

۴:ایسے علماء کی تشویق کرنا ان کے نزدیک آئمۂ اہلبیت علیہم السلام کا لوگوں سے چہرہ چھپانے کا باعث تھا اور اس طرح سے چاہتے تھے کہ ان برحق ہادیوں کی یاد اور ان کا تذکرہ لوگوں میں تازہ نہ رہے اور لوگوں کی توجہ ان کی طرف نہیں رہے۔

پس معلوم ہوا کہ علم و علماء کا مقام و احترام ان ظالم و غاصب حکمرانوں کے نزدیک،جو کہ اپنے آپ کو خلفاء امت کے طور پر ظاہر کرتے تھے؛انہیں اہداف کے حصول کا ایک ذریعہ،آلہ اور وسیلہ تھا ورنہ حقائق گواہ ہیں کہ جب کبھی بھی یہ نام نہاد خلفاء کسی شخصیت کو اپنی حکومت کیلیے خطرہ محسوس کرتے تھے تو اس سے نجات و چھٹکارا پانے کیلیے ہر ممکنہ کاروائی کیا کرتے تھے۔

احمد امین نے منصور خلیفہ کے بارے میں لکھا ہے:’’خلیفہ جب بھی ضروری سمجھتا تھا معتزلیوں کو اپنے پاس بلالیتا تھا،اسی طرح محدثین اور علماء کو بھی مدعو کرلیتا تھا،البتہ یہ طرزِ عمل اس وقت تک ہی تھا جب تک وہ لوگ حکومتِ وقت کی مخالفت نہیں کرتے تھے ورنہ حکومت کی کیفری مشینری مخالفین کو سرکوب کرنے کیلیے اپنا کام شروع کردیتی تھی‘‘۔

جی ہاں! یہی منصور ہی تھا جس نے ابو حنیفہ کو بھی مسموم کیا اور حضرت امام صادق علیہ السلام،ان کے خاندان اور شاگردوں پر سختیوں میں اُس نے اضافہ کردیا تھا کیونکہ وہ اس کے کہنے پر محمد بن عبداللہ علوی کی بیعت کرنے سے انکار فرمارہے تھے۔

بہرحال ہماری بحث اس بارے میں تھی کہ حکام کی بہت کوشش رہی کہ آئمہ علیہم السلام کے بارے میں حقائق کا کھلم کھلا تذکرہ نہ ہو بلکہ یا تو ان کے بارے میں گفتگو ہی نہ ہو اور یا حقائق سے ہٹ کر ان کی شناخت و تذکرہ ہو اور اسی سلسلہ میں معاشرےمیں ایسے دانشمند اور اہل علم افراد کی خدمات حاصل کرنے کے درپے رہتے تھے جو ان کے اہداف کے حصول کیلیے مصروفِ عمل رہ سکیں اور ان کی حکمرانی کے دوام و بقاء کیلیے ان کی مدد کرسکیں۔

لہٰذا یہ درست ہے اگر ہم کہیں کہ ابن اثیر،طبری،ابوالفدا،ابن العبری،یافعی اور ابن خلکان کا شمار ایسے ہی دانشمند اور اہل علم گروہ میں ہوتا ہے جنہوں نے حقیقت اور تاریخ میں خیانت کی اور تاریخ نگار ہوتے ہوئے رونما ہونے والے حوادث و واقعات تاریخ کے صفحات کے حوالے کرتے ہوئے منصف اور غیر جانبدار نہیں رہے بلکہ ان کے قلم غیر منصفانہ اور وقت کے حکمرانوں کی جانبداری و طرفداری میں حرکت میں رہے۔

مثال کے طور پر اسی سلسلے میں ان تاریخ نگاروں کے واضح تعصب ،حکمرانوں کی اندھا دھند بے جا حمایت و طرفداری اور حقیقت و تاریخ کے حق میں خیانت کا ایک لغزش والا افسوسناک نکتہ یہی غریب الوطن، معصوم، برحق ہادی و پیشوا حضرت امام رضا علیہ آلاف التحیۃ والثناء کی مسمومانہ شہادت کا جانسوز واقعہ ہے جو ایسے تاریخ نگاروں کے نوشتہ جات کے مطابق(نعوذ باللہ) امام رضا علیہ السلام کے زیادہ انگور کھالینے کی وجہ سے ان کی طبیعت کی خرابی اور پھر زندگی کے طبیعی اختتام کی صورت میں رونما ہوا۔(۲)

ابن خلدون ظاہراً ایک اموی مشرب کا شخص تھا جس نے ایسے ہی تاریخ نگاروں کی پیروی کرتے ہوئے اپنی تاریخ کی کتاب میں یوں لکھا:’’جب مأمون خلیفہ طوس میں داخل ہوا،امام رضا انگور کھانے کی وجہ سے ناگہانی طور پر دنیاسے چل بسے۔۔۔۔‘‘(۳)

انصاف کی بات یہ ہے کہ یہ تحریریں عجیب ہیں کیونکہ عام انسان کے بارے میں بھی اس حد تک پرخوری کی بات ماننا بہت مشکل ہے کہ کھاتے کھاتے مرنے کی حد تک پہنچ جائے تو ایک امام کے بارے میں کیسے کوئی سالم ذہن ایسی بات قبول کرسکتا ہے کہ جس کی علم و دانش ،حکمت ،زہد و تقوی اور تمام نیک صفات میں اپنے زمانے میں مثال نہیں ملتی۔

کیا ایک عقلمند انسان ایسی بات قبول کرسکتا ہے کہ امام کی طرح کا ایک عاقل،عالم اور حکیم و طبیب شخص نعوذ باللہ پرخوری کرسکتا ہے اور پر خوری بھی اس حد تک کہ خود کشی پر منتہی ہو؟

کیا امام علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ میں کبھی،کہیں کوئی ایسا واقعہ ملتا ہے کہ امام نے کوئی چیز کھانے میں زیادہ روی کی ہو؟

کیا علم اور زہد و تقويٰ کے باوجود ایک انسان اس حد تک ناپسند اقدام کرسکتا ہے؟جبکہ خلیفۂ وقت کو تاریخ کی گواہی کی روشنی میں وہ خود حکمت و طب کا درس دیتے نظر آتے ہوں اور آداب خورد و نوش سمجھاتے ہوں !!

یہ سب باتیں جو متعصب تاریخ نویسوں کی حکام کی اندھا دھند تقلید اور ان سے بے جا دفاع پر دلالت ہیں،ان سے ایسے مؤرخوں کی حقیقت و ماھیت کا اچھی طرح سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ خاکی غاصب حکمرانوں کی ناپائیدار اور بے خاصیت خوشنودی کی خاطر معصوم و مسموم برحق امام علیہ السلام کے بارے میں ناروا مطالب لکھ کر بحرِ عصیان میں غوطہ ور ہوئے اور خداوند متعال کی ناراضگی خرید لی،ایسے لوگ ہمیشہ وجدانوں کی عدالت میں بھی منفور رہیں گے۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *