فقہي الفاظ اور اصطلاحات کے معني

 

‘ان تمام افراد کےلئے جو فقهی مسائل خصوصا مراجع کرام کی  تو ضیح المسائل کو سمجهنا اور اس پر عمل کرنا چاهتے هیں لیکن بعض فقہي الفاظ اور اصطلاحات کے معني ان کيلئے دشوار بن جاتے هیں لهذا اب کوئی پریشانی کی بات نهيں.آپ بهی مطالعه کیجئے اور دوسروں کو بهی بتائییے.

 

 

فہرست (الف)

آب جاري : بہتا ہوا پاني جيسے چشمہ کا پاني جو زمين سے پھوٹ کر نکلے ،نہروں کا پاني جو پہاڑوں کے اوپر سے جاري ہے، شہري نل (ٹنکي) کا پاني، اس غسل خانہ کا پاني جو ٹينک کے پاني سے متصل ہے وہ بھي جاري پاني کا حکم رکھتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ ٹينک کا خالص پاني يا جو پاني پائپوں ميں موجود ہے اس کے ساتھ ايک کر سے کم نہ ہو .

 

آب قليل : اس پاني کو کہتے ہيں جو کر سے کم ہو اور زمين سے پھوٹ کر بھي نہ نکل رہا ہو.

 

آب کر : احتياط واجب کي بناء پرکر پاني اس مقدار کو کہتے ہيں کہ اگر ايسابرتن ہو جو ساڑھے تين بالشت لمباساڑھے تين بالشت گہراساڑھے تين بالشت چوڑاہو اوراس کوپاني سے بھردياجائے تووہ پاني کربھر ہوگا ?يا اس کاوزن تين سوچوراسي کيلوگرام ہو ?اور بالشت ميں متوسط لوگوں کي بالشت معيار ہے .

 

آب مضاف: وہ ہے جسے تنہاپاني نہ کہہ سکيں (بلکہ اسے کسي دوسري چيزکي طرف نسبت ديکرپاني کہيں(جيسے پھولوں کا عرق، نمک کاپاني وغيرہ.

 

مطلق پاني : وہ پاني ہے جسے عرف عام ميںپاني کہتے ہيں،اور اس کو کسي دوسري چيز کي طرف نسبت نہيں ديتے مثلا اس کو نمک کا پاني يا پھلوں کا پاني نہ کہا جائے اور اس کو خالص پاني بھي کہاجاتا ہے

 

آلات لہو:  عياشي کے ساتھ وقت گزارنے کے نامشروع وسائل جيسے تارساز،بانسري وغيرہ

 

ابن سبيل : وہ مسافر جس کے پاس سفر ميں پيسہ ختم ہوگئے ہوں

 

اتقي:  جو بہت زيادہ متقي اور پرہيزگار ہو

 

اجارہ :  وہ معاہدہ جس کے تحت کسي چيز کي منفعت يا کسي شخص کي محنت ، معينہ اجرت پر کسي دوسرے کے حوالہ کي جائے

 

اجرت المثل : کام کے جيسي اجرت، مثلا کوئي شخص کسي کام کو اس کي اجرت معين کئے بغير انجام دے ، تو اس کي اجرت اس جگہ کے عرف عام کے مطابق دينا ہوگي

 

اجزاء وشرايط: ہر وہ چيز جس کے نہ ہونے کي وجہ سے خود اصل چيز باقي نہ رہ جائے اسے جزء کہتے ہيں اور ہر وہ چيز جس کے نہ ہونے کي وجہ سے کسي چيز کي کوئي صفت يا مخصوص حالت بدل جائے اس کوشرط کہتے ہيں جيسے رکوع اور سجود نماز کا جزء ہے ليکن وضو نماز کے لئے شرط ہے

 

اجير: جو شخص ايک معينہ معاہدہ کے تحت کسي کام کو انجام دينے کي اجرت اور مزدوري لے

 

احتلام: سوتے وقت انسان کي مني نکلنا

امت اسلامیہ کی بیداری

 

 

مصنف:محمد کامل حاتم

 

قرآن و سنت کی روشنی میں امت اسلامیہ کی بیداری

 

اسلامی امۃ کی سب سے بڑی مصیبت بعض مسلمانوں کا بعض مسلمانوں کو کافر قراردینا یا ان کی تکفیر ہے یہ مصیبت فرقوں میں اختلافات اور نظریات کے الگ ہونے اور اسلام کے مفاہیم کا غلط معنی کرنے نیز بے جا تعصب کی بنا پر وجود میں آئی ہے ۔

 

اس مضمون میں قرآنی آیات و احادیث اور علماء کے نظریات سے استفادہ کرکے ثابت کیا گيا ہے کہ مسلمان کی تکفیر جائز نہیں ہے اور مسلمانوں کو اپنے تمام تر ذرایع استعمال کرکے اسلامی ثقافت کو رائج کرنے میں کہ جس میں دوسروں کے احترام پر تاکید کی گئي ہے اور اتحاد قائم کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے ۔

 

ہجرت نبوی کے پانچویں سال میں جنگ خندق پیش آئی اسے جنگ احزاب بھی کہتے ہیں اس جنگ میں مسلمانوں نے کفار کا مقابلہ کرنے کے لۓ سلمان فارسی کی تجویز پر خندق کھودی تھی یہ خندق اسلام و کفر کے درمیان حا‏ئل تھی(1 )،کیا آج ہم کفر کی فوج اور اس کے آلہ کاروں کا مقابلہ کرنے کے لۓ خندق کھود سکتے ہیں؟

 

سورۃ احزاب کے آغاز میں دینی ،اجتماعی ،سیاسی ،اور اخلاقی لحاظ سے دوگانگی یا دو رخی رویے کی نفی کی گئي ہے ارشاد ہوتا ہے ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ خدا نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل پیدا نہیں کۓ یعنی خدا نے انسان کو بیک وقت دو طرح سے سوچنے کی صلاحیت نہیں دی ہے تاکہ وہ دوگانگی کا شکار ہوجاے اس سورہ میں مسلمان کو ایک پاک باز آلایشوں سے پاک اور عہد و پیمان پر باقی رہنے والا انسان قراردیا گیا ہے جس کا دین و ایمان مشکلات میں مزید مستحکم ہوجاتاہے

 

ہمیں اس سورہ میں رسول اسلام صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

 

بہت سی قرآنی آیات اور احادیث میں انسان کو رحمت ،وحدت اور اسلامی و انسانی اخوت ،انصاف ،اور حصول علم کی طرف دعوت دی گئی ہے ان امور کو اسلامی معاشرے کی تعمیر کے لۓ ضروری قراردیا گیا ہے۔

 

اسلام کی ان اعلی و ارفع تعلیمات کے باوجود اسلامی ملکوں میں جھل غربت اور بیماری کا منحوس مثلث دیکھنے کو ملتا ہے اسی طرح سے مسلم ملکوں میں ظلم ،عدم مساوات ،طبقاتی فاصلے ،اور اسلامی اور انسانی ذمہ داریوں کی طرف سے لاپرواہی دیکھی جاسکتی ہے جس کی وجھ سے ان ملکوں میں اکثریت کی زندگی درھم برھم ہوکر رہ گئی ہے۔

 

اسلامی امۃ میں تفرقہ اور تشتت کا سب سے بڑا سبب ایک دوسرے کی تکفیر کرنا ہے ہمیں قرآنی آیات احادیث اور اجتھادات اور ایسے لوگوں کی آرا جو امت کو اتحاد کی طرف بلاتے ہیں ان سے استفادہ کرکے اس بیماری کا علاج تلاش کرنا ہوگا اس طرح سے ہم ایک طرف تو اتحاد کے نظریات کو رائج کریں گے اور دوسری طرف سے بے جا تعصب اور انتہا پسندی پر مبنی نظریات کا ازالہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جن سے اسلام کی بدنامی ہورہی ہے اس سلسلے میں قرآنی آیات اور احادیث اور ان کا مفہوم پیش کرنے سے پہلے جو امت کو بیدار کرنے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں میں بعض علماء اور اسلامی تحریکوں اور عوام کے درمیان عدم اتحاد و انسجام کی طرف اشارہ کرنا چاھتا ہوں۔(2 )

 

 عالم اسلام کے بزرگ علماء عام طور سے اتحاد پر زور دے رہے ہیں ایسے عالم میں کچھ ایسے عناصر بھی پاۓ جاتے ہیں جو الگ ذھنیت کے مالک ہیں اور مذھبی اختلافات و بعض آداب و رسوم کی بنا پر مسلمانوں کو کافر قراردیتے ہیں یہی نہیں بلکہ انہیں واجب القتل بھی قراردیدیتے ہیں (3) جبکہ اسلام میں انسان کی جان اور اس کے تحفظ پر تاکید کی گئي ہے ارشاد خداوندی ہے کہ من قتل نفسا بغیر نفس اور فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا (سورۃ مائدہ 32)جو شخص کسی کو نہ جان کے بدلے میں نہ ملک میں فساد پھیلانے کی سزامیں (بلکہ ناحق )قتل کردے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کرڈالا۔

 

اسی طرح سورہ نساء میں ارشاد ہوتاہے کہ وما کان لمومن ان یقتل مومنا الاّخطاء کسی ایمان دار کے لۓ یہ جائز نہیں کہ کسی مومن کو جان سے مار ڈالے مگر غلطی سے ۔

سوئی کی نوک کے برابر شیعہ سنی اختلاف پھیلانے والا اسلام کا خائن ہے۔آیت اللہ حسینی قزوینی

امامیہ نیوز: عالمی نٹ ورک چینل ولایت کے ڈائریکٹر آیت اللہ حسینی قزوینی نے عالمی مجلس برائے تقریب مذاہب اسلامی کے سربراہ آیت اللہ محسن اراکی کے ساتھ ملاقات میں اسلامی مقدسات کی توہین سے لوگوں کو باز رکھنے پر تاکید کرتے ہوئے کہا: اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرنا بڑا اور ناقبل بخشش […]