آزاد مرد/تحریر: سید بشارت حسین تھگسوی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آزاد مرد

تحریر: سید بشارت حسین تھگسوی

[email protected]

حضرت امام حسین  علیہ السلام نے ایک عظیم مقصد اور ایک عظیم ترین نصب العین کے لئے شہادت کو گلے لگایا اور مقصد کی عظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ امام عالی مقام  نے اپنے آبائی وطن مدینہ کو چھوڑا، تین دن کی بھوک و پیاس برداشت کی ،خود اپنی اور اپنے رفقاء کی قربانی دی یہاں تک کہ اہل حرم کی بے پردگی و اسیری برداشت کرنے کے لئے بھی آمادہ ہوئے۔آپ کے پیش نظر  خدا کی خوشنودی ، دین و شریعت کی بقا اور انسانیت کا تحفظ جیسے اہم مقاصد تھے۔

اما م حسین ؑ کی  طرز زندگی

تحریر سید نثا رحسین

 مقدمہ 

    انسان کے لئے  سب سے اہم چیز اُس کی زندگی  ہے   کہ جس کے لیے انسان  اپنی ہستی کو    وقف کر دیتا ہے   چا ہے   اس کی زندگی   با مقصد ہو یا بے مقصد ۔بہر حال اس نے اپنی زندگی گزار نی ہے  لیکن  ا چھے  لو گ اپنی  زندگی   بے مقصد نہیں  گزارتے،  بلکہ  اس زندگی  کو با مقصد گزارنے کے لئے ہر وقت  تک ودو میں رہتے ہیں   لہذا جتنا بھی  ممکن  ہو سکے اپنی زندگی  کو با مقصد گزار تا ہے۔  اسلام  نے اس سے  بڑ ھ  کر انسان کو  زندگی  گزار نے  کے اصول اور ضوابط  بیان کیے  ہیں    جس کا بہترین  نمونہ  کتاب  خدا ہے  جس میں انسان کو  زندگی  گزارنے کے اصول و ضوابط  بیان کیا ہیں ۔ان میں سے ایک  انسان مسلما ن کے لئے   دستو ر کوبھی   بیان کی ہے وہ   پیغمبر  ﷺ  کی سیرت  طیبہ  پر عمل کرنا ہے  جیسا  کہ فرماتے ہیں: لَقَدْ كانَ لَكُمْ في‏ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الْآخِرَ وَ ذَكَرَ اللَّهَ كَثيرا ۔۱مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔

معرفت امام حسین علیہ السلام

مقدمہ

اس سے پہلے کہ اصلی گفتگو میں وارد ہوں اور شخصیت امام حسین (ع) کے بارے میں کچھ لکھیں اپنے فہم و ادراک کے مطابق سید الشہداء امام حسین (ع) کی معرفت کے سلسلے میں کچھ باتیں مقدمہ کے طور پر پیش کرتے ہیں:

۱: ا س بات میں کسی اسلامی مذہب کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تمام آئمہ معصومین (ع)، مولائے کائنات سے لیکر امام مھدی (ع) تک ایک ہی نور سے ہیں کہ جو حقیقت محمدیہ ہے۔اس بنا پر اصل خلقت کے اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ یہ سب انوار الٰہیہ ہیں اور نور محمدیہ سے ہیں۔ اور کمالات و فضائل میں سب برابر ہیں۔ یعنی جو فضیلت کسی ایک امام کے لئے ثابت ہو دوسرے آئمہ کے لیے بھی خودبخود ثابت ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو امامت میں نقص لازم آئے گا کہ جو عقلا باطل اور محال ہے۔