تازہ ترین

اما م حسین ؑ کی  طرز زندگی

تحریر سید نثا رحسین

 مقدمہ 

    انسان کے لئے  سب سے اہم چیز اُس کی زندگی  ہے   کہ جس کے لیے انسان  اپنی ہستی کو    وقف کر دیتا ہے   چا ہے   اس کی زندگی   با مقصد ہو یا بے مقصد ۔بہر حال اس نے اپنی زندگی گزار نی ہے  لیکن  ا چھے  لو گ اپنی  زندگی   بے مقصد نہیں  گزارتے،  بلکہ  اس زندگی  کو با مقصد گزارنے کے لئے ہر وقت  تک ودو میں رہتے ہیں   لہذا جتنا بھی  ممکن  ہو سکے اپنی زندگی  کو با مقصد گزار تا ہے۔  اسلام  نے اس سے  بڑ ھ  کر انسان کو  زندگی  گزار نے  کے اصول اور ضوابط  بیان کیے  ہیں    جس کا بہترین  نمونہ  کتاب  خدا ہے  جس میں انسان کو  زندگی  گزارنے کے اصول و ضوابط  بیان کیا ہیں ۔ان میں سے ایک  انسان مسلما ن کے لئے   دستو ر کوبھی   بیان کی ہے وہ   پیغمبر  ﷺ  کی سیرت  طیبہ  پر عمل کرنا ہے  جیسا  کہ فرماتے ہیں: لَقَدْ كانَ لَكُمْ في‏ رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الْآخِرَ وَ ذَكَرَ اللَّهَ كَثيرا ۔۱مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔

شئیر
40 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2127

 

ایک مسلمان شخص کے لیے ضروری  ہے  کہ اس کی زندگی  پیغمبر اکرم ﷺ  کی  زندگی  کی طرح انجام دے دیں ۔ ہمارے لئے   ہمارے  بزر گان دین  نے سکھا یا ہے کہ   کس طرح   با مقصد  زندگی   گزارنا ہے  ان میں   سے ایک    کہ  جس کے بارے  میں  خود رسول  ﷺ نے فر مایا ہے :    حسین  مجھ سے ہیں اور  میں حسین  ؑ سے ہوں   پیغمبر اکرم ﷺ کی  یہ  فرمان   بے  مقصد نہیں  بلکہ اس میں راز ہے جس کی خاطر آپ نے  فر مایا ،جیسا کہ  خود  امام حسین ؑ نے بصرہ والوں کو لکھے گے  خط میں فرمایا: فلكم في‏ اسوة،تمہارے  لیے مجھ میں  نمونہ عمل  ہے   عام طور پر  ہم یہی سمجھتے ہیں  کہ   امام حسین ؑ  کی ذات    کربلا  کے سر زمین پر  جہاد اور شہادت  کی   وجہ سے اہمیت کے حامل ہیں  بلکہ  زندگی کے تمام   شعبوں میں  آپ کی  ذات  ہمارے لئے نمونہ عمل ہے  چاہے اخلاق کی میدان میں  ہو  یا ادب اور  بزرگواری  کے لحا ظ سے ہو  یا عبادت اور بندگی   کی  وجہ  سے،سخاوت  اور  انس با قرآن   کے  لحاظ سے  بہر  کیف  ہر  میدان اور شعبوں میں   ہمارے لیے  نمونہ  عمل  ہے ۔

  یہ  مناسب  سمجھاکہ  آپ کے  طرز زندگی کے اس بحر  بیکراں سے کچھ موتی  لینے  کی کوشش  کروں  تا کہ خود  اپنے لئے اور دوسروں کے لئے  مشعل  راہ بنے   اور اپنی زندگی کو بھی اسی ذات مقدس کے طرز پرگزار دیں ۔ 

1۔فردی   زندگی

1۔ کھانا پینا  

امام  حسین ؑ کی  اپنے جدا مجد اور والدین  گرامی ؑ کی  طرح بہت  پاک اور سادہ  زندگی بسر  کیاکرتے تھے  آپ کی  زندگی کے    رہن سہن بھی   انتہا ئی بزرگوار  تھا   آپ کے کھانے پینے کی چیزیں بہت ہی  سادہ تھیں ۔۲

2،  لباس 

ا ٓپ  کا  لباس بہت ہی سادہ  اور باوقار ہواکرتا تھا   آپ    شہرت والی  لباس  کبھی بھی پسند نہیں کیا کرتے تھے،  جیسا کہ  آپ  فر ماتے ہیں   : جو کوئی ایسا لباس پہنے جس کی وجہ سے وہ  مشہور  ہو جائے  تو اللہ تعالی  قیامت کے دن اس کو  آگ  کا لباس پہنائے گا۔ ۳

3۔   عطر  کا استعمال 

 آپ  ہر وقت  اپنے بدن مبارک کو  ہر حال میں  چاہے سفر ہو یا حضرمیں ، مشک  سے معطر   رکھتے  تھے۔ ۴

4 ۔ سلام  کرنا

آپ اپنے جد امجد کی  طرح   سب کو سلام کیا کرتے تھے   آپ کا یہ شیوہ  اور  روش تھا کہ آپ سب کو سلام  کرنے  میں پہل کیا  کرتے تھے   جیسا کہ آپ فر ماتے ہیں  : بخیل اور کنجوس  آدمی وہ ہے کہ جو سلام کرنے میں  بخل کرے ۔۵

 5۔  سخاوت 

 آپ   کی تربیت  ایسے  گھرانے میں  ہوئی  تھی  جو  جود و سخا میں بے مثال تھا ،  یہی گھرانہ  ہے جن کی جو د و سخا اور  ایثار کی گواہی  خود  اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی ہے   کہ خود  بھوک کی حالت میں رہ کر دوسروں کو عطا کیا کرتے تھے   پس آپ بھی جود و سخا کے پیکر تھے  جیسا کہ بیان  کرتے  ہیں  کہ  امام حسین ؑ  رات کی تاریکی میں  اپنے کاندے پر  کھانا اور پانی لینے  جانے کے علاوہ  کچھ  رقم بھی ساتھ لے کے  جاتے تھے کھانا اور  پانی دینے  کے ساتھ  یہ  رقم بھی  محتاجو ں  تک  پہنچاتے  تھے   یہاں تک  کہ معاویہ بھی آپ کی جو د وسخا کا اعتراف کیا  کر تا تھا   اس نے کچھ رقم   بعض   اہم اور  معروف  اشخا ص  کو بھیج کر کہا   : حسین بن علی ؑ  اپنے باپ کے ساتھ جنگ  صفین  میں آنے والے مقتولین   کے وارثوں سے  شروع کرتے ہیں اگر کچھ بچ گیا تو  اس سے اونٹو ں کو نحر  کرکے  لوگوں میں  کھانا تقسیم کرتے ہیں  اور  ان  کو دودھ  پلاتے ہیں ۔۶

 امام حسین ؑ   انسانیت  کے  اعلی مرتبہ پر  گامزن تھے  کہ آپ محبت اور الفت کے پیکر تھے   ۔ایک  تہنیت  کے بدلے  ایک غلام کو آزاد کیا کرتے جیسا کہ انس کہتا ہے :میں امام حسین ؑ کی خدمت  میں تھا  اتنے  میں ایک   کنیز  ایک  پھول لے کر آئی اور  اس پھول کو  آپ کی خدمت میں ہدیہ   کے طور پر پیش کی  تو   آپ نے  اس کنیز سے فر مایا:  میں نے تجھے  آزاد کیا  ۔ انس کہتا ہے :میں اس حالت کو  دیکھ کر حیران رہ گیا   اور  عرض کیا، آپ فقط  اتنی سی ھدیہ پر  کنیز  کو  آزاد کرتے ہو ؟  تو  آپ نے فر مایا :  ہمیں  اللہ تعالیٰ نے  ایسی تر بیت دی  ہے  کیونکہ خود اللہ تعالی قرآن میں فر ماتا ہے :وَ إِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ حَسيباً۔۷۔اور جب تم لوگوں کو کوئی تحفہ(سلام) پیش کیا جائے تو اس سے بہتر یا کم سے کم ویسا ہی واپس کرو کہ بیشک اللہ ہر شے کا حساب کرنے والا ہے اس لئے  میں نے اس کو آزاد کر دیا ہے۔۸

 6۔  تواضع 

 آپ تواضع اورفروتنی میں بے مثال تھے آپ اپنے نانا حضور اکرم ﷺ کی طرح لوگوں سے  بہت ہی تواضع اور فروتنی سے پیش آتے تھے جیسا کہ  روایت میں آیا ہے : امام حسین ؑ کا گزر  فقرا  کے  ایک  گروہ کےسامنے سے ہوا تو وہ لوگ  کوئی فرش  بچھا کر  روٹیوں کے  کچھ ٹکڑے وہاں پر رکھ کر  کھانے میں مصروف  تھے اُنہوں نے آپ سےعرض کئے :یابن  رسول اللہ تشریف لائیں ہمارے ساتھ کھاناکھائیں ۔امام حسینؑ نے ان کے ساتھ کھانا کھانا شروع کیا اور آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمایا: إِنَّهُ‏ لا يُحِبُ‏ الْمُسْتَكْبِرِينَ۔۹ وہ متکبرین کو ہرگز پسند نہیں کرتا ہے۔ اس کے بعد  آپ نے ان سے  فر ما یا : میں نے تم لو گوں کی دعوت کوقبول کیا  تم لوگ بھی  میری  دعوت کو قبول کریں  ۔انہوں نے کہا: اے فرزند رسولﷺ قبول کر یں گے  ۔وہ لو گ بھی  امام کے ساتھ  آپ کے گھر میں آئے تو  آپ نے اپنے  کنیز سے فر مایا :  جو کچھ ہے وہ سب لائیں ۔۱۰

2۔ عبادت کی زندگی 

عبادت آپ کی فطرت اور وجود میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لئے آپ  ہر وقت  اللہ کے حضورمیں خضوع اورخشوع کےساتھ حاضر ہوتے تھے آپ کا خداکےساتھ جو قلبی رابطہ تھا وہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوتا تھا،آپ  ہروقت خدا کی عبادت میں مصروف رہتے تھے اس لئے آپ نے عبادت کو تین حصوں  میں تقسیم کیا ہے جیسا کہ فر ماتے ہیں : إن قوما عبدوا الله رغبة فتلك عبادة التجار و إن قوما عبدوا الله رهبة فتلك عبادة العبيد و إن قوما عبدوا الله شكرا فتلك عبادة الأحرار و هي أفضل العبادة. بعض لوگ جنت کی رغبت اور لالچ میں آکر خدا کی عبادت کرتے ہیں وہ عبادت تاجروں کی عبادت  ہے ، ایک گروہ  خدا کی خوف سے عبادت  کرتے ہیں وہ غلا موں کی عبادت ہے اور بعض لوگ خدا کی شکرمیں عبادت کرتے ہیں یہ عبادت آ زاد انسانوں کی عبادت ہے یہی عبادت  بہترین عبادات میں سے ہیں۔

آپ نے کربلا میں نومحرم کو جب عمر سعد کی فوج نے حملہ کیا  تو بھائی حضرت عبا سؑ کوبھیج کر اُن سے ایک رات کی مہلت  مانگ لیا تاکہ اس رات کو عبادت اورمناجات میں گزاردوں۔ روای کہتا ہے :میں نے دیکھا کہ امام حسین ؑ اور آپ کے با وفا اصحاب نے  رات بھرعبادت اورمناجات میں گزاردی کہ جس طرح شہد کی مکھی  کی  آواز فضا میں گونجتی ہے اس طرح مناجات اور تلاوت   کی صدا  گونج  رہی تھی۔۱۱

1- نماز  

نماز کے ساتھ آپ  کا گہرا لگاو اورعشق تھاچنانچہ امام سجاد ؑسے روایت ہو ئی ہےکہ آپ فرماتے ہیں:میں  کس طرح حسین ؑ  کا فرزند ہوں جب کہ میرے باپ دن رات میں  ہزار رکعت نماز پڑھا کر تے تھے ۔ ۱۲۔اسی لئے آپ نے ایک رات کی مہلت مانگی کیونکہ مجھے نماز اور دعا و استغفار سے بہت محبت ہے۔  ۱۳۔اسی طرح جنگ وجدال کے اُ س حالت میں بھی جب تیر وں کی بارش ہورہی تھی  کہ آپ نے نماز کو  خوف کی حالت میں ادا کئے۔

2۔  حج 

حج ایسا فریضہ  جس کی اسلام میں بہت   زیادہ  تاکید  ہوئی ہے  اور ساتھ حج وہ  عمل ہے کہ جس میں  مشکلات اور  بہت سی زحمتیں برداشت  کرنا پڑتا ہے  لیکن اللہ کے خاص  بندے  ان  زحمات اور  مشکلات کو دل و جان سے قبول کیاکر تے ہیں اور ان مشکلات کو اللہ کی رضایت اور خوشنودی کے مقا بلے میں  بہت ہی ناچیز سمجھتا ہے  لہذا  امام حسینؑ نے اپنی  زندگی  میں پچیس  دفعہ  پیدل چل کر حج  ادا  کئے۔ ۱۴

 3۔  دعا   

 خدا سے راز ونیاز کرنے کا ایک بہترین ذریعہ  دعا ہے کہ دعا کے ذریعے  انسان خدا سے اپنی رابطہ  کو مستحکم اور مضبوط بنا تا ہے لہذا خدا کے مخلص بندے اس  دعا کے ذریعے سے   جو  مومن کے اسلحہ سے  تعبیر ہوا ہے اپنی مدعا کو اپنے خالق حقیقی  تک پہنچاتے ہیں ۔امام حسینؑ نے بھی ہمیں یہ درس دیا ہے کہ کس طر ح  اپنے معبود حقیقی سے راز ونیاز کرنا ہے جہاں پر  حسین ؑ شہسوار میدان جنگ تھے  راز ونیاز کی منزل  میں اپنے محبوب سے کس طرح  عجز و انکساری سے پیش آتے ہیں کہ اپنے محبو ب سے یو ں التجا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں: إلهي أنا الفقير في غناي فكيف لا أكون فقيرا في فقري‏ إلهي أنا الجاهل في علمي فكيف لا أكون جهولا في جهلي ۔۱۵۔  خدا یا میں اپنے  توانگری میں  فقیر  ہوں تو کیوں اپنے  فقر میں فقیری کا اقرار نہ کروں  میں جب اپنے علم میں جاہل  ہوں تو کیوں اپنی جہل میں لاعلمی کا احساس نہ کروں ۔ 

  4۔ سماجی  زندگی 

 کبھی انسان عبادت اور  اخلاق  کے لحاظ سے  لو گوں میں  مقبو ل ہوتا ہے لیکن  اس کی  سماجی زندگی میں  دوسروں کے  ساتھ  برتاو اچھا نہیں ہوتا اور سماجی زندگی  میں  پیچھے  نظر آتا ہےلیکن بعض لوگ  اگر چہ  عبادت اور دوسرے نیکیوں میں اُ ن کا  کوئی نام نہیں ہو تا لیکن  سماج  میں  اُ نکی کار کردگی  لو گوں میں  بہت ہی چر چا  ہو تا ہے لیکن  ہمارے ائمہ کرام ؑ  وہ لوگ  ہیں  جو عبادات اور اخلاق کے میدان میں سب سے اعلی  مرتبہ پر فائز تھے، ہم سماجی زندگی  میں  لوگوں کے دُکھ سکھ میں اور انسانوں کی خدمت کرنے  میں سب سے آگے نظر آتے ہیں  اُ ن ہستیوں میں سے ایک  حضرت امام حسین ؑ کی ذات گرا می ہے، آپ نہ فقط لوگوں کے سماجی  زندگی سے با خبر تھے  بلکہ لوگوں کے زندگی تمام نشیب وافراز میں اُن کے ساتھ ساتھ تھے  جن کی ہم چند نمایان نمونہ پیش کرتے ہیں  ۔

ا۔   خدا کی راہ میں انفاق کرنا 

 ایک دفعہ  کا ذکر  ہے کہ  ایک فقیر مدینہ  کی گلیوں میں  پھر رہا تھا اورلو گوں کے دروازے  کھٹکٹارہے تھے  اتنے  آپ ؑ کے دوازہ پر پہنچا اور یہ کہا کہ آپ لوگ جودو سخا کے مالک ہیں آپ کے والد گرامی فاسقوں کوقتل کرنے والےتھے   امام ؑ  اُس وقت نماز میں  مشغول تھے  اپنی نماز کو ختم  کرکے  باہر تشریف لائے تو آپ کی نظر اُس فقیر  پر پڑی ۔ آپ کو اُس کی حاجتمندی  کا احساس ہوا تو آپ نے  قنبر  کو بُلا کر فر مایا:  ہمارے  مخارج میں سے  کتنے پیسہ بچا ہو ا ہے ؟  قنبر نے عرض کیا مولا  دو سو درہم  بچا ہوا ہے ۔تو آپ نے فر ما یا : کوئی  آیا ہوا ہے وہ ہم سے زیادہ حقدارہیں وہ  اعرابی  اُس درہم کو  لے کر کہہ رہا تھا اللہ اعلم  حیث یجعل رسالتہ ۔۱۶

2۔  معاف کرنا 

 ایک شخص کہتا ہے: میں ایک دفعہ مدینہ گیا تھا  جب میری نظر  حسین بن  علی ؑ پر پڑی تو اُن کو با وقاراور باعظمت پاکر مجھے تعجب  ہوا تو مجھے  اُن کے باپ سے جوحسدتھی  اُس کی وجہ سے میں  بکھلا اُٹھا  اور کہا تم  ابو تراب کے بیٹے ہو ؟ فرمایا جی  تو میں نے اُن کو اور اُن کے باپ  کوسب وشتم کرنا شروع کیا  تو میری طرف مہربانی کا نظر دوڑا کے فر مایا: خُذِ الْعَفْوَ وَ أْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ أَعْرِضْ عَنِ الْجاهِلينَ۔۱۷ آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں  ۔ میر ےلئے اور اپنے لئے خدا سے عفو و بخشش طلب کریں اگر ہم سے کوئی مدد چاہیے تو  مدد کے لئے تیار ہوں اگر  حمایت چاہتے ہو تو حمایت کے لئے تیار ہوں اگر ہدایت کی ضرورت ہے تو ہدایت کرونگا ۔وہ کہتا ہے:  میں شرم سے  مر رہا تھا فر مایا: شرمانے کی کوئی  بات نہیں اللہ تعالی جو کہ بڑا مہربا ن ہے تجھے  بخش دے گا  تم شام کا رہنے والا ہو ؟عرض کیا  :جی  ۔جو بھی حاجت رکھتا ہو مجھے بتاو امید ہے کہ  اللہ  کے فضل سے تمہاری حاجت کو پورا کر سکوں  وہ کہتا ہے:  زمین میرے لئے تنگ ہو رہا تھا   میں چاہتا تھا کہ زمین مجھے اپنے اندر نگل لیں  اس وقت  میں نے یہ سوچا کہ اس زمین پر اُن سے  اور اُن کے والد گرامی سے بہتر اور محبوب  کوئی بھی  نہیں ہو نگے۔ ۱۸

3۔  لوگوں کی حاجت روائی 

لوگوں کی حاجت  روائی تمام ائمہ اطہارؑ کا وطیرہ رہا ہے۔ اُن میں سے ایک  امام حسین ؑ  کی  ذات گرا می بھی ہے   چنانچہ روایت میں آیاہے  کہ ایک انصاری  امام حسین ؑ کی خدمت میں آکر آپ سے کچھ  مانگنا چاہتے تھے  امام ؑ نے فر مایا: اےمیرے انصاری بھائی اپنی حاجت کو لو گوں کے  سامنے بیان کر کے  شرمندہ  ہو نے  سے بچا کر رکھ  بلکہ اپنی حاجت کو کسی  کاغذ پر  لکھ لائے اللہ کا اگر مدد ہو جائے تو تجھے خوشحا ل کردے گا اُس شخص نے لکھا :اے ابا عبد اللہ میں فلان شخص کا پانچ سو دینار کا مقروض ہوں ،وہ مجھ سےسختی سے پیش آرہا ہے ۔پس آپ  اس سے گفتگو کریں   میرے پاس  مال آنے تک مجھے مہلت دے دیں ۔جب امام حسین ؑنے اُس کے خط کو پڑھ لیا تو اُس کے گھر  میں داخل ہوئے  ہزار درہم  کا ایک تھیلی  اُس کو دے دیا   اور فر مایا اس دس  ہزار درہم میں سے پانچ سو درہم سے  اسکے قرض کو ادا کریں اور  دوسرے پانچ سو  درہم سے زمانے کی حالات سے  مدد لیتے ہوئے  اپنے لئے  خرچ کریں  اور  اپنی  حاجت کو سوائے تین شخص کے  علاوہ  کسی کے پا س پیش نہ کریں  ایک دیندار  دوسرا  غیرت مند شخص  تیسرا خاندانی شخص  اس کے علاوہ کسی کے پاس پیش نہ کریں  کیونکہ  دیندار شخص   اپنے دین کی پاسداری کرے گا  غیرتمند  شخص  اپنی غیرت مندی کی وجہ سے  شرم محسوس کرے گا  خاندانی کو یہ معلوم ہو گا کہ تم نے اسی  حاجت کے خاطر  اپنی عزت  کو کھو دیا ہے لہذا وہ اپنی عزت کو بچانے کی خاطر  تمہاری حاجت کو ضرور پُورا کئے بغیر  نہیں رہے گا ۔۱۹

4۔  معاشرہ کے محروم لو گوں کی  حمایت  

  دین کے پیشوا وں  کی یہ سیرت  ہیں کہ وہ  لوگ ہمیشہ معاشرے کے محروم لو گوں کے  حامی و مدد گار  ہوتے ہیں  ۔امام حسین ؑ بھی اُن  الہی رہبروں میں سے ایک تھے  کہ آپ کا دل مظلوم اور محروم طبقہ  کے لئے  ہمیشہ بے قرار رہتا تھا کہتے  ہیں :جب آپ  مکہ سے کربلا کی طرف سفر کر رہے تھے  جب منزل  تنعیم  پر پہنچے  تو  یمن  کی طرف سے ایک قافلہ شام کی طرف جارہے تھے آپ سے ملاقات ہوئی یہ قافلہ یمن کے والی   بحیر بن یسار کی طرف سے قیمتی  چیزیں سے بھری اُونٹوں  کے پلانوں پر لادہ   کے شام کی طرف یزید بن معاویہ  کے ہاں لے کے  جارہے تھے  امام حسین ؑ نے اُن سے وہ قیمتی  چیزیں چھین کر  لوگو ں میں تقسیم کئے  اور اُن سے مخا طب ہو کر فر ما یا :جو بھی ہمارے  ساتھ عراق کی جانب  جانا چاہتے ہیں  ہم وہاں تک کاروان اور  اُونٹوں کے کرایہ دیں گے اور اس سفر میں  ہم اُن سے اچھی  سلو ک کریں گے  اگر کوئی یہاں سے واپس اپنے وطن کی طرف جانا چاہتے ہیں تو  جہاں سے آئے ہیں یہاں تک کا کرایہ حساب کر کے دیں گے  اور اُن اموال  کے  خرچ  کر نے کاامامؑ   کو حق ہے   کہ ہماری طرف سے  محروم لوگوں کی حق  ہوگا کیونکہ  راستے میں بہت سے غریب اور محروم لو گوں سے ملیں گے  اُن کو دیں گے ورنہ یہ اموال وقت کے طاغوت اپنی چاہت کے مطا بق اپنے لئے اور خد اسے بے خبر اطرافیوں پر خرچ کریں گے۔۲۰

 5 ۔ سیا سی زندگی 

 دین اسلام کے تمام دستور اور آئین سیاست ہے سیاست  تدبیر اور مصلحت اندیشی سے  کام لینے کو کہتے ہیں  لہذا  دین  کے حقیقی رہبراور پیشوا سیا ست مدار ہو ا کرتے ہیں  لہذاہم زیارت  جا معہ میں پڑھتے ہیں – وَ سَاسَةُ الْعِبَادِ،خدا کے  بندوں میں سے سیاست مدار تم لوگ ہو لہذا ائمہ طا ہرین ؑ کا ہر فعل  سیاست سے خالی  نہیں لہذا اگر ہم امام  حسین ؑ  کی زندگی  کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں یہ چیز  سمجھ میں آتا ہے کہ  آپ کی پو ری زندگی  کا محور سیاست الہی سے بھری ہوئی تھی  لیکن اُن میں سے کچھ پہلو زیادہ نمایاں نظر آتےہیں جو کہ مندرجہ ذیل  ہیں  ۔

۱۔  طا غوت سے مبارزہ 

 امام حسین ؑ  کےزمانے  کا طاغوت اپنی ظلم وستم کو لو گوں پر رواج رکھے ہوئے تھے   اُن کے ظلم و ستم میں  لوگ پسپا ہو رہے تھے  نوبت  یہاں تک آگئی تھی کہ  طاغوت  کے مقابلے میں  آپ کو میدان میں  آنا پڑا اور آپ نے  اس طاغوت  کے انکھوں میں آنکھ  ڈال کر   فرمایا : وَ مِثْلِي‏ لَا يُبَايِعُ بِمِثْلِهِ ۔۲۱.مجھ جیسا یزید جیسے کی کبھی بیعت نہیں کر سکتاہے ۔ جب  یزید جیسا شخص اسلام کا ذمہ دار بن جا ئےتواس اسلام پرسلام ہوکیونکہ میں نے اپنے جد امجد پیغمبر اکرم ﷺ سے سُنا ہےکہ فر ماتے ہیں خلافت  آل ابی سفیان پرحرام ہے لہذا  آپ کے طا غوت  کے سامنے   سے تسلیم ہو نے سے زیادہ مرنےکو ترجیح دیا جیسا کہ آپ فر ماتے ہیں فَإِنِّي لَا أَرَى الْمَوْتَ‏ إِلَّا سَعَادَةً وَ الْحَيَاةَ مَعَ الظَّالِمِينَ إِلَّا بَرَماً ۔۲۲.کہ میں موت کوسعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنےکو اپنے لئےعار سمجھتا ہوں  لہذا آپ نے اپنے  تمام ہستی کو قربان کردیالیکن ظالموں کےساتھ رہنےکوگورا نہیں کیا ۔

2۔   عدالت  

اسلام منادی  عدالت ہیں  اور اللہ قرآن میں اسی عدالت کوانبیاءکے  مبعوث  ہونے کے  اسباب میں سے قرار دیتا ہے ۔ امام حسینؑ نے اپنے قیام کے مقاصد میں سے ایک عدالت کو قرار دیتے ہیں جیسا کہ آپ کوفہ والوں کے خط میں لکھتے ہیں: مجھے اپنی جان  کی قسم امام نہیں مگر اینکہ  قرآن پرعمل کریں اورعدالت کے ساتھ رفتار کریں ۔۲۳

3 ۔ امر بہ معروف ونہی از منکر 

   سب سے زیا اہم چیز جو معاشرے میں انسانوں کی زندگی  میں شامل ہے   وہ  دوسروں کو اچھائی کی طرف بُلانا اور  بُرائی سے  روکنا ہے،اگر معاشرے  میں ان دو چیز وں پرعمل ہوجائے  تو وہ معاشرہ کامیابی کی طرف گامزن ہو جاتا ہے ۔ امام حسین ؑ کی  ذات  سے جو ہمیں درس ملتا ہے وہ امر بہ معروف اورنہی از منکر کو زندہ  کرنا ہے  جیساکہ آپ فر ماتے ہیں کہ میری قیام کا مقصد امر بہ معروف ونہی ازمنکر ہے ۔ ۲۴

4۔   اصلاح معاشرہ

معا شرہ لو گوں کے مل جل کر رہنے کا ایک مجموعہ ہے کہ جس میں ہر فکر اور سوچ کے لوگ موجود ہوتے ہیں  لہذا اس معاشرے میں ہرایک یہی چاہتا ہے کہ اپنی  مرضی  کے مطابق  زندگی بسر کریں لیکن  اسلام اور قرآن میں  اس کے لئے کچھ قانون اور آئین رکھے ہیں تا کہ لوگ اس قانون وآئین کے مطابق چلیں  لیکن جب بھی  کسی معاشرے میں کوئی  بُرا شخص حاکم بنتا ہے تووہ معاشرے کو بگاڑ کر اپنی حکومت اورمن مانی چلانے کی کوشش کرتا ہے ۔ امام حسین ؑ کے دور میں بھی  اسلامی معاشرہ اس حد تک بگڑ چکا تھا کہ جس کی کوئی حد نہیں تھی  لہذا امام حسین ؑ نے فر مایا: کہ میں اپنے نانا کی امت کی  اصلاح کی خاطر نکل رہا ہوں۔۲۵۔ اسی لئے آپ نے اسی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دئیے ۔

حوالہ جات :

1. احزاب  121 

2. مسند امام شهيد(ع)، عطاردي   ج‏3 ص 252  ،موسوعة كبرى انصاري  ج‏17  ص 330

3. کافی ج  ۶ ص 445،حياة امام حسين(ع)   باقر قرشي ج‏1ص40

4. تحف  العقول  ص  248

5. حیاۃ امام حسین ؑ  ج 1ص 128

6. نساء 86

7. کشف الغمہ ج 2 ص31

8. نحل 23

9.بحا ر الانوار ج  44 ص  189

10. تحف العقول  ابن شعبه حرانى ص 246

11. لہوف  سید ابن طاوس ص 137

12. منتهى الآمال، شيخ عباس قمى ،ج‏2،ص:675

13. ارشاد    مفید ج‏2 ص 87

14. سيره و سيماى امام حسين ؑحسينى جلالى ص109

15. إقبال الأعمال سید ابن طاووس ج‏1 ص 348 

16. پر توی عظمت  حسینؑ   ص150

17. اعراف 199

18. سفینۃ البحار   شیخ عباس قمی  ج  2 ص  116

19. بحار الانوار ج 78 ص 118 

20. کامل ابن اثیر  ج 3 ص 276

21. لہوف 24

22. لہوف  79

23. وقعة الطف ؛  ص96  

24. بحار الأنوار ج‏44 ص 329 

25. بحار الأنوار ج‏44 ص 329

imam hussain

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *