جناب سیدہ کونینؑ اور تربیت اولاد

مقدمہ
الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ علی محمد وآلہ الطاہرین ولعنۃ اللہ علی اعدائھم اجمعین ۔ اما بعد
بنی نوع بشر کی تربیت کرنا اس قدر مہم ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے کو مربی کے طور پیش کیا ہے اور رسالت مآپ ؐکو پہلی بار تکلم کرنے کا حکم جب دیا تو اپنی تربیت والی صفت کا نام لے کر شروع کرنے کا حکم ہوا:اقراٴ بسم ربک الذی خلق ۔ اور ان ذوات مقدسہ کو مربی اور ہادی بشریت کے طور پر خلق فرمایا۔اسی اہمیت کے پیش نظر یہ مقالہ بعنوان” سیدہ کونینؑ اور تربیت اولاد "لکھا گیا ہے جس میں تربیت اولاد کے کچھ قواعد و اصول اور کچھ واقعات کو رنگ فاطمی میں رقم کرنے کی کوشش کی ہے ،ساتھ ہی تربیت اولاد کی اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے والدین کو کس قدر تلاش اور کیا کیا طریقے اختیار کرنا چاہئے ، سے بحث کی ہے کہ جس کے نتیجہ میں اولاد صالح انسان کی دنیوی اور اخروی زندگی کے لئے بھی مفید ثابت ہو،اس مدعا کو احادیث معصومینؑ خصوصاً جناب سیدہ ؑکے فرامین کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ مقالہ مختصر ہی سہی لیکن تربیت اولاد سے مربوط فاطمہ ؑ کی زحمتوں کی عکاسی کرتا ہے۔
حضرت زهرا سلام الله علیها بیٹی اور ماں ہونے کے ناطےاسوہ حسنہ


مقدمه:
زمانہ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک بیٹی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا تو دور کی بات ہے ان کے حقیر اور ننگ و عار ہونے کا تصور اس طرح معاشرے میں رائج تھا کہ وہ بیٹیوں کو زندہ در گور کردیا کرتے تھے ۔ وہ پر آشوب دور جس میں ظلم و تشدد کا دور دورہ تھا جس میں انسانیت کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا جس زمانہ کے ضمیر فروش بے حیا انسان کے لبادہ میں حیوان صفت افراد انسان کو زندہ در گور کر کے فخر و مباہات کیا کرتے تھے جو عورت ذات کو ننگ و عار سمجھتے تھے یہ وہ تشدد آمیز ماحول تھا جس میں ہر سمت ظلم و ستم کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اسی تاریکی کو سپیدی سحر بخشنے کے لئے افق رسالت پر خورشید عصمت طلوع ہوا جس کی کرنوں نے نگاہ عالم کو خیرہ کر دیا اسی منجلاب میں ایک گلاب کھلا جس کی خوشبو نے مشام عالم کو معطر کر دیا ۔
شہزادی کائناتؑ کے تذکروں کا دائرہ کائنات میں نور کی پہلی کرن پھوٹنے سے لیکر آپ کی فانوس حیات کی روشنی کے گل ہونے والے لمحہ کے در میان موجود وسعتوں سے کہیں زیادہ ہے۔آپ اس عظیم نبی کی بیٹی ہیں جنہوں نے انسانیت کی فکروں کو ترقی سے سرفراز کرکے منزل معراج پر پہنچادیا نیز آپ ایسے مرد الہٰی کی زوجہ ہیں جو حق کا ایک اہم رکن اور تاریخ بشر یت کے سب سے عظیم نبی ؐ کے وجود کا استمرار تھے ۔آپ کمال عقل ،جمال روح،پاکیزہ صفات اور اصل کرم کی آخری منزلوں پر فائز تھیں آپ نے جس معاشرہ میں زندگی بسر کی اسے اپنی ضوفشانیوں سے منور کردیا اور یہی نہیں بلکہ اپنے افکار وخیالات کے نتیجہ میں آپ اس سے کہیں آگے نظر آئیں ،آپ نے رسالت الہٰیہ کے بر پا کردہ انقلاب میں ایسا مقام و مرتبہ حاصل کرلیا اور اس کا اتنا اہم رکن (حصہ)بن گئیں کہ جس کو سمجھے بغیر تاریخ رسالت کو سمجھنا قطعاً ناممکن ہے۔
حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”’ انا اعطیناک الکوثر”( )’ کوثر سے بالاتر کوئی کلمہ نہیں۔ اس زمانہ میں جب کہ عورت کو شر مطلق اور گناہ و فریب کا عنصر سمجھا جاتا تھا، اور خواتین پر ظلم کو اپنے لئے شرف شمار کیا جاتا تھا ایسے زمانہ میں ایک خاتون کے لئے قرآن مجید نہیں کہتا ” خیر”’ بلکہ کہتا ہے کوثر یعنی ”خیر کثیر”۔ایک ایسے ماحول میں جناب فاطمہ زہرا (س) خانہ نبوت و رسالت کی زینت بنیں اور اپنے نور وجود سے انہوں نے نہ صرف رسول اسلام (ص) کا گھر بلکہ تاریخ بشریت کے بام و در روشن و منور کردئے اور خداوند تبارک و تعالی نے آپ کی شان میں سورہ کوثر نازل کردیا ۔ ” اے نبی ! ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے ۔
عصمت حضرت زهرا مرضیه سلام الله علیها از آیه تطهیر و حدیث ثقلین /راجه مظفر عباس

انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهکم تطهیرا
اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ حضرت زھرا علیھا السلام طاہرہ اور معصومہ ہیں ہر قسم کے گناہ اور لغزش سے پاک ہیں ، ہم اس نوشتہ میں حضرت زھرا علیہا السلام کی عصمت کو فریقین کی کتابوں سے ثابت کریں گے لیکن ضروری نہیں کہ ہر انسان ہماری تحریر سے متفق ہو لیکن بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر انصاف اور تعصب سے دور رہتے ہوئے ہماری تحریر کا ملاحظہ کیا جائے تو روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر نیک اختر حضرت زھرا ۖ جناب مریم اور دیگر معصوم خواتین کی طرح درجہ عصمت پر فائز ہیں ، اور جنت کی خواتین کی سرداری کا شرف بھی اسی بی بی طاہرہ معصومہ زکیہ راضیہ ، مرضیہ ، بتول کو حاصل ہے ۔
