تازہ ترین

حضرت زهرا سلام الله علیها بیٹی اور ماں ہونے کے ناطےاسوہ حسنہ

مقدمه:
زمانہ جاہلیت میں عربوں کے نزدیک بیٹی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا تو دور کی بات ہے ان کے حقیر اور ننگ و عار ہونے کا تصور اس طرح معاشرے میں رائج تھا کہ وہ بیٹیوں کو زندہ در گور کردیا کرتے تھے ۔ وہ پر آشوب دور جس میں ظلم و تشدد کا دور دورہ تھا جس میں انسانیت کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا جس زمانہ کے ضمیر فروش بے حیا انسان کے لبادہ میں حیوان صفت افراد انسان کو زندہ در گور کر کے فخر و مباہات کیا کرتے تھے جو عورت ذات کو ننگ و عار سمجھتے تھے یہ وہ تشدد آمیز ماحول تھا جس میں ہر سمت ظلم و ستم کی تاریکی چھائی ہوئی تھی اسی تاریکی کو سپیدی سحر بخشنے کے لئے افق رسالت پر خورشید عصمت طلوع ہوا جس کی کرنوں نے نگاہ عالم کو خیرہ کر دیا اسی منجلاب میں ایک گلاب کھلا جس کی خوشبو نے مشام عالم کو معطر کر دیا ۔
شہزادی کائناتؑ کے تذکروں کا دائرہ کائنات میں نور کی پہلی کرن پھوٹنے سے لیکر آپ کی فانوس حیات کی روشنی کے گل ہونے والے لمحہ کے در میان موجود وسعتوں سے کہیں زیادہ ہے۔آپ اس عظیم نبی کی بیٹی ہیں جنہوں نے انسانیت کی فکروں کو ترقی سے سرفراز کرکے منزل معراج پر پہنچادیا نیز آپ ایسے مرد الہٰی کی زوجہ ہیں جو حق کا ایک اہم رکن اور تاریخ بشر یت کے سب سے عظیم نبی ؐ کے وجود کا استمرار تھے ۔آپ کمال عقل ،جمال روح،پاکیزہ صفات اور اصل کرم کی آخری منزلوں پر فائز تھیں آپ نے جس معاشرہ میں زندگی بسر کی اسے اپنی ضوفشانیوں سے منور کردیا اور یہی نہیں بلکہ اپنے افکار وخیالات کے نتیجہ میں آپ اس سے کہیں آگے نظر آئیں ،آپ نے رسالت الہٰیہ کے بر پا کردہ انقلاب میں ایسا مقام و مرتبہ حاصل کرلیا اور اس کا اتنا اہم رکن (حصہ)بن گئیں کہ جس کو سمجھے بغیر تاریخ رسالت کو سمجھنا قطعاً ناممکن ہے۔
حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”’ انا اعطیناک الکوثر”( )’ کوثر سے بالاتر کوئی کلمہ نہیں۔ اس زمانہ میں جب کہ عورت کو شر مطلق اور گناہ و فریب کا عنصر سمجھا جاتا تھا، اور خواتین پر ظلم کو اپنے لئے شرف شمار کیا جاتا تھا ایسے زمانہ میں ایک خاتون کے لئے قرآن مجید نہیں کہتا ” خیر”’ بلکہ کہتا ہے کوثر یعنی ”خیر کثیر”۔ایک ایسے ماحول میں جناب فاطمہ زہرا (س) خانہ نبوت و رسالت کی زینت بنیں اور اپنے نور وجود سے انہوں نے نہ صرف رسول اسلام (ص) کا گھر بلکہ تاریخ بشریت کے بام و در روشن و منور کردئے اور خداوند تبارک و تعالی نے آپ کی شان میں سورہ کوثر نازل کردیا ۔ ” اے نبی ! ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے ۔

شئیر
44 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4609

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا شجرہ مبارک
آپ کی پیدائش بعثت کے پانچویں سال میں ۲۰/ جمادی الثانی کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور والدہ جناب خدیجة الکبریٰ ہیں ۔ جناب خدیجہ وہ خاتون ہیں پیغمبر اسلام پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور پوری زندگی آپ کا دفاع کرتی رہیں۔
کنیت : ام الحسن ، ام الحسین ، ام المحسن ، ام الائمہ و ام ابیھا.( )
القاب : زہرا ، بتول ، صدیقہ ، کبری ، مبارکہ ، عذرہ ، طاہرہ ، سید النساء زہرا، سیدۃ النساء العلمین ، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ ، زکیہ ، خیر النساء,محدثه ( )
بچپن اور تربیت
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبری کے زیر سایہ رہیں اور جب بعثت کے دسویں برس خدیجۃ الکبریٰ علیہا السّلام کا انتقال ہو گیا تو آپ نے صرف اپنے بابا کے سایہ رحمت میں تربیت پائی۔ پیغمبر اسلام کی اخلاقی تربیت کا آفتاب تھا جس کی شعاعیں براہ راست اس بے نظیر گوہر کی آب و تاب میں اضافہ کر رہی تھیں۔
جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کو اپنے بچپن میں بہت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں۔ کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھروں سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی سنتی کے مشرکوں نے بابا کے سر پر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رہیں۔( )
جناب خدیجہ کی وفات کے وقت آپ کی عمر چھ سال سے زیادہ نہ تھی ماں کے بعد گھر میں اپنے والد کے آرام و آسائش کو ہمیشہ مد نظر رکھتی تھیں فاطمہ وہ بیٹی تھیں کہ جو ہمیشہ اپنے باپ کے نقش قدم پر ثابت قدم رہیں شہر مکہ کی گلی کوچہ اور مسجد الحرام سب رسول (ص) کی توہین کرنے اور اذیت پہونچانے والوں سے بھرے ہوئے تھے جب بھی آپ کے پدر محترم زخمی ہو کر واپس آتے تو آپ ہی چہرہ اقدس سے خون صاف کرکے زخموں پر مرہم رکھتیں اور اپنی پیاری پیاری باتوں سے رسول کا حوصلہ بڑھاتی تھیں جب باپ اپنے وطن میں رہ کر مسافر ، اور اپنے میں بیگانہ ، اپنوں کے ہوتے ہوئے تنہا ، اپنی زبان بولنے والوں میں بے زبان ، ہر وقت جہل وبت پرستی سے بر سر پیکار ، تبلیغ کا سنگین بار اٹھانے میں یک و تنہا تھا تو فاطمہ (ص) ہی تو تھیں جو اپنی بے لوث محبت سے باپ کے دل کو شاد کرتی تھیں ، اور والد کی رسالت کو تسلیم کرکے ان کی امیدوں کو تقویت بخشتی تھیں .اورجناب سیدہ اپنے والدِ گرامی رسول خدا کے مشن میں ان کی بہترین معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔ پدرانہ شفقت اپنی جگہ، رسول اللہ ص اپنی بیٹی کے جس عزت و تکریم اور انتہائی محبت و شفقت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اس کا بنیادی محرک حضرت فاطمہ کی عظیم شخصیت اور ان کی لامثال فداکاریاں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ فاطمه(س) نے اپنے بچپن سے ہی اپنے گفتار و کردار کے ذریعے اپنی جلالت و بزرگی کا مظہر بن گئیں۔ آپ کی معنویت کا یہ عالم تھا کہ طفلگی میں ہی رسول اللہ ص کے شانہ بشانہ تمام مصائب و آلام کا مقابلہ کیا۔
بارہا پیغمبر گرامی گرد آلود اور مجروح حالت میں جب گھر تشریف لے آتے تو کم سن بیٹی اپنے پدرِ بزرگوار کو معصومانہ لہجے میں کچھ یوں دلاسہ دیتی کہ جیسے فاطمہ (س)کے روپ میں آمنہ ع متکلم ہو۔ بالفاظِ دیگر کارِ آمنہ بدست فاطمہؑ انجام پایا تو رسولِ خدا نے اپنی لختِ جگر فاطمہ کو ’’ام ابیھا‘‘ یعنی ’’اپنے باپ کی ماں‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اس کے علاوہ رسولِ رحمت (ص) کے پیش نظر وہ تمام قربانیاں بھی تھیں جو اسلام کی حفاظت کے لیے مستقبلِ قریب میں حضرت زہراء بالواسطہ یا بلاواسطہ دینے والی تھی۔
مادر
جناب زہراء کے گردا گرد عظمتوں کا نور حالانکه انکی معنوی و نسبی انفرادیت کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ (س) کے چاروں اطراف کائنات کی ارفع ترین ہستیاں نظر آتی ہیں۔ ایک طرف سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیت والدِ گرامی، دوسری جانب بحیثیت ماں ملیکتہ العرب حضرت خدیجتہ الکبریٰ ہیں۔ تیسری اور چوتھی جانب مولائے کائنات علی مرتضیٰ بحیثیت شوہر اور سردارانِ جنت بحیثیت اولاد ہیں۔ یہ امر طے شدہ ہے کہ کسی فرد کی نسبت جس قدر پرعظمت شخصیات سے ہو گی۔ اُسی قدر اس کے شانوں پر گراں مسؤلیت کا بار ہوتا ہے۔ جس کی تکمیل حضرت فاطمہ (س) کے مبارک ہاتھوں انجام پائی ہے۔ نسبتوں کی اس سہ گونہ جلالت سے حضرت زہراء نے یہ ثابت کر دکھایا۔ کہ آپ کائنات کی سب سے اعلیٰ و ارفع بیٹی، بہترین زوجہ اور عظیم ترین ماں ہیں۔ وہ ماں جس کی آغوش میں ایسے فرزند پروان چڑھے جن کو اگر سرمایۂ دین اور حاصلِ پیغمبراسلام قرار دیا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔
چونکہ پروردگار عالم کا یہ مصمم ارادہ تھا کہ پیشوائے دین اور خلفائے رسول صدیقہ طاہرہ کی نسل سے ہوں اسی لئے آپ کی سب سے بڑی اور سخت ذمہ داری تربیت اولاد تھی ۔ تربیت صرف اسی کا نام نہیں ہے کہ اولاد کے لئے لوازم زندگی اور عیش و آرام فراہم کر دئے جائیں بلکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے اولاد کا کسی عہدہ پر فائز ہونا بھی تربیت والدین کا مرہون منت ہے ۔حضرت فاطمہ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ انھیں اماموں کی پرورش کرنی ہے ایسے بچوں کی پرورش کرنی ہے کہ اگر اسلام صلح و آشتی سے محفوذظ رہتا ہے تو صلح کریں اگر اسلام کی حفاظت جنگ کے ذریعہ ہو رہی ہے تو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے قیام کریں چاہے ظہر سے عصر تک بھرا گھر اجڑ جائے لیکن اسلام پر آنچ نہ آئے اگر اسلام ان کے گھر انہ کے برہنہ سر ہونے سے محفوظ رہتا ہے تو سر کی چادر کو عزیز نہ سمجھیں۔ دختر رسول بی بی فاطمہ (س) ہر ایک ماحول کو بہت بڑا اور حساس گردانتی تھیں آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ آغوش مادر تھی اس کے بعد گھر کا ماحول اور صحن خانہ بچوں کے لئے عظیم مدرسہ تھا ۔اگر سیرتِ امام حسن (ع )میں سخاوت کا جو پہلو نمایاں ہے تو اس کا سرچشمہ بھی حضرت زہراء کی ذاتِ گرامی ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ درِ زہراء پر کوئی سائل آ جائے اور پھر خالی ہاتھ لوٹ جائے۔ بارہا یہ بھی ہوا کہ خانۂ زہراء سامانِ خوردو نوش سے خالی تھا مگر پھر بھی بھوکا سیر ہو کے نکلا۔
آغوشِ فاطمہ کے دوسرے پروردہ امام حسین (ع ) اور زینب کبری ہیں(س) جنهوں نے اپنی ماں کی تربیت کا مظاہرہ میدان کربلا میں کیا۔ ایثارِ حسن ع اور صبر حسین ع کوئی اتفاقی یا حادثاتی عمل کا نتیجہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کے اوصاف و آداب پر سیرتِ زہر(س) کی گہری چھاپ ہر گونہ دکھائی دیتی ہے اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ دلبندِ زہراء امام حسین (ع )نے میدانِ کربلا میں جو تین دن انتہائی گرسنگی اور تشنگی کے عالم میں گزارے۔ اس کی مشق حضرت زہرا (س) نے انہیں بچپن میں بارہا کروائی تھی۔کہا جا سکتا ہے کہ صبرِحسین، ایثارِ فاطمہ (س)کا ہی دوسرا روپ ہے۔ نیز حضرتِ زہرا (س)اس لحاظ سے اپنے گود کے پالے حسین (ع )کے ساتھ میدان کربلا میں موجود تھیں۔ شہادتِ اباعبداللہ حسین (ع) دراصل شہادتِ رسول (ص )ہے تو اس لحاظ سے حسین (ع) کا جذبہ حرّیت، غیرتِ فاطمہ کا ہی نتجہ کہلایا جائے گا۔ دنیائے حق نواز درسگاہِ زہرا علیھا السلام کے عظیم احسان سے تا ابد زیر بار رہے گی کہ حسین (ع )ایسا معلمِ حریت اسی درسگاہ کی دین ہے۔
سیدہ فاطمۃ الزہراءؑ کی حیاتِ طیّبہ،اسوۂ حسنہ
امُ الأَئمہ سیدہ زہراسلام اللہ علیہا بعض روایات کے مطابق خود معصومین علیہم السلام کے لیے اسوہ حسنہ اوراُن پرحجّت قرارپائی ہیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام سے منسوب ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: : «نَحنُ حُجَجُ اللَّه عَلَى خَلقِه وَ جَدَّتُنَا فَاطِمَة حُجّة اللَّه عَلَینا» ہم ائمہ لوگوں پر اللہ کی حجتیں ہیں اور ہماری ماں فاطمہ ہمارے اوپر حجت ہیں۔( )آپ سلام اللہ علیہاانسانِ کامل اورتمام خوبیوں اورصفات کامجموعہ بلکہ اِس سے بھی بالاترہیں۔
حضرت فاطمہ (س) کی تقلید و پیروی میں ایک باایمان خاتون عالمِ روحانی کے اوجِ کمال تک پہنچ سکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عائلی، سماجی، ملی اور مادی ضرورتوں کو بھی پورا کر سکتی ہے۔ سیرتِ زہراء (س)سے یہی بات ثابت ہو جاتی ہے کہ نہ ہی روحانی طور اوجِ کمال تک پہنچنے کیلئے مادی اور حقیقی دنیا کو ترجیح دینا ہے اور نہ ہی حقیقی زندگی کے تقاضوں کی تکمیل کی خاطر روحانیت سے منہ موڑنا مناسب ہے بلکہ ایک متوازن زندگی ہی دینِ اسلام کی مطلوب شئے ہے۔ دورِ حاضر میں صنفِ نسواں سیرتِ فاطمہ (س) کی اس جھلک سے ایک ایسا درس سیکھ سکتی ہیں جس سے بہت سی معاشرتی کج رویوں کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔ طبقہ نسواں میں سے کچھ تو گھریلو کام کاج کو کسرِ شان سمجھتی ہیں اور کچھ گھریلو کام کی انجام دہی کے دوران لہو و لعب کے مشغلے کو بھی ساتھ ساتھ لے کے چلتی ہیں مثلاً یہ خواتین بظاہر غذا تیار کرنے میں مشغول ہوتی ہیں لیکن دراصل لہولعب کی آوازیں انہیں ہمہ تن گوش بناتی ہیں غذا تناول کرتے ہوئے اس کی نظر فحش مناظر پر ہوتی ہے۔سیرتِ فاطمہ زہرا ع کے مطابق یہ سرچشمہ قرآنِ کریم کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک مسلمان کسی بھی صورت اس سے بے نیاز ہو سکتا ہے بلکہ ہر حال میں کتابِ مجید کے ساتھ تمسک رکھنا سیرتِ زہرا (س (کا اولین تقاضہ ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (س)نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا ۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں لیکن نہ توکبھی ما تھےپر بل آئے نہ اپنے شوہر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام سے کبھی اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی .
ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہورہے :«یا فَاطِمَةُ أُعْطِیکِ مَاهوخَیرٌ لَکِ مِنْ خَادِمٍ وَ مِنَ‏الدُّنْیابِمَا فِیها»( ) اے فاطمہ میں ایسی چیز تمہیں عطا کروں گا جو خادمہ اور دنیا سے زیادہ تمہارے لیے بہتر ہے۔اس کے بعد فرمایا:34مرتبہ اللہ اکبر , 33 مرتبہ الحمد اللہ اور 33 مرتبہ سبحان اللہ.حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئیں کہ کنیز کی خواہش ترک کردی.تمام عورتوں کی سردار، حضرت فاطمہ کی معنوی شخصیت ہمارے ادراک اور ہماری توصیف سے بالاتر ہیں۔ یہ عظیم خاتون کہ جو معصومین (ع) کے زمرہ میں آتی ہیں ان کی اور ان کے خاندان کی محبت و ولایت دینی فریضہ ہے۔ اور ان کاغصہ اور ناراضگی خدا کا غضب اور اسکی ناراضگی شمار ہوتی ہے ( ) ۔یہ وہ هستی ہیں کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ عورت کے لئے سب سے بہتر کیا چیز ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: نہ کوئی غیر مرد اسے پہچانے اور نہ وہ کسی غیر مرد کو پہچانے۔یہ جملہ حضرت زہرا سلام الله علیہا کو چاہنے والی لڑکیوں اور عورتوں کے لئے ایک درس ہے۔ ان کے برابر ہونا تو یقینا بہت مشکل کام ہے لیکن یہ ضرور سمجھ لینا چاہئے کہ سلام الله علیہا کی نظر میں سب سے اہم چیز عورت کی عفت و عصمت ہے۔
حوالہ جات:
:قرآن کریم
: بحارالأنوار، ج 82، علامه مجلسی
: ریحانه النبی (ص) ترجمه بحارالأنوار
: سیرت النبی از علامہ شبلی نعمانی
: چودہ ستارے از علامہ ذیشان حیدر جوادی
:فاطمه الزهرا سرور دل پیامبر (ص) از احمدرحمانی ترجمه مهدی جعفری
: اطیب البیان فی تفسیر القرآن . عبدالحسین طیب

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *