قیام امام حسین اور امت کی اصلاح تحریر : ڈاکٹر مشتاق حسین حکیمی

دنيا ميں کوئي بھي تحريک  اچانک سے شروع نہيں ہوتي بلکہ اس کے وجود ميں آنے ميں بہت سارے علل و عوامل در کار ہونگے اور ان علل اور عوامل کے وجود ميں آنے ميں بھي سارا عرصہ گزر چکا ہوگا اس کے وجود ميں لانے کے کيا اہداف اور مقاصد تھے ان سب باتوں کااندازہ اس تحريک کي تاريخ کا مطالعہ کرنے سے ہي معلوم ہوگاـ  امام حسين عليہ السلام کا قيام تاريخ انسانيت ميں ايک بے مثال اور لازوال قيام ہے جو 61 ہجري کو وجود ميں آيا اور صدياں گزرنے کے بعد بھي اس کے آثار باقي ہيں اور قيام پر بحث اور مباحثے ہوتے ہيں اس قيام کے اہداف، نتائج اور اس کي ضرورت پر سير حاصل بحث ہوتي رہي ہے. اور يہ قيام بھي بس يزيد نے اچانک بيعت مانگا اور امام حسين نے بيعت سے انکار کيا اور جس کے نتيجے ميں حادثہ کربلا رونما ہوا، ايسا کبھي بھي نہيں ہوسکتا ہے رحلت پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے بعد سے ليکر 61 ھ تک کے ان پچاس سالوں ميں  کچھ ايسے کام ہوئے اور ايسي سازشيں ہوئيں جس کے نتيجے ميں  حادثہ عاشورا کا واقع ہونا ناگزير ہوا  اور سيد الشہداء  عليہ السلام کے لئے يہ لاثاني اور لازوال قرباني پيش کرنا پڑي. البتہ  امام حسين عليہ السلام نے اپنے قيام کے اہداف کو  واضح طور پر بيان کيا ہے اگر ان اہداف پر توجہ کي جائے تو وہ علل اور عوامل بھي سامنے آتے ہيں جس کي وجہ سے ان اہداف کے تناظر ميں يہ قيام وقوع پذير ہوا. اس مختصر تحرير ميں قيام سيد الشہداء کے اہداف ميں سے صرف ايک ہدف؛ «اصلاح امت» پر مختصر روشني ڈالنے کي کوشش کي گئي ہے