اللہ تعالی نے شیطان کو کیوں خلق کیا؟
اکثر اوقات یہ سوال ذھن میں آتا ہے کہ اللہ تعالی نے شیطان کو کیوں خلق کیا؟ ایک طرف سے انسان کو عبادت کرنے کا اور اللہ تعالی کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے تو دوسری طرف سے انسان کو حق سے بھٹکانے اور گمراہ کرنے کے لیے شیطان کو خلق کیا ہے۔
جیسا کہ قرآن پاک میں حضرت آدم و حوا کا واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے۔
فَأَزَلَّهُمَا الشَّیْطانُ عَنْها فَأَخْرَجَهُما مِمَّا كانا فِیهِ وَ قُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَ لَكُمْ فِی الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَ مَتاعٌ إِلى حِینٍ(بقره 36)
ترجمہ: تب شیطان نے (اس درخت کے باعث) ان کے قدم پھسلائے۔ اور انہیں اس (عیش و آرام) سے نکلوا دیا جس میں وہ تھے اور ہم نے کہا اب تم (زمین پر) اتر جاؤ۔ ایک دوسرے کے دشمن ہو کر۔ اور تمہارے لئے زمین میں ایک (خاص) وقت تک ٹھہرنے اور فائدہ ا ٹھانے کا سامان موجود ہے۔
قرآن مجید میں شیطان سے مراد
شیطان کا لفظ «شطن» س لیا گیا ہے جسکا معنی خبیث اور پست کے ہیں۔ اور شیطان سرکش اور نافرمان موجود کو کہا جاتا ہے۔ خواہ وہ جن ہو یا انسان ہو یا کوئی اور حیوان۔
شیطان کسی فرد کا نام نہیں بلکہ ایک جنس کا نام ہے یعنی ہر منحرف اور اذیت دہندہ اور باغی کو شیطان ہے خوان انسان ہو یا غیر انسان۔ جس شخص کو ہم شیطان کہتے ہیں اسکا نام ابلیس ہے اس کو شیطان اس لیے کہا گیا کہ اس نے حضرت آدم کو فریب دیا اور اب اپنی پوری ٹیم لیکر انسان کو گمراہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔
اس لیے قرآن مجید میں متعدد بار شیاطین (شیطان کی جمع) کا لفظ بھی آیا ہے۔
” وَ كَذلِكَ جَعَلْنا لِكُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیاطِینَ الْإِنْسِ وَ الْجِنِّ” سورہ انعام : 112
ترجمہ اسیطرح سے ہم نے ہر پیغمبر کے لیے انسانی اور جنی شیطانوں میں دشمن قرار دیا ہے۔
پس ابلیس کو شیطان اس کی شرارتوں کی وجہ سے لقب ملا ہے۔
اسیطرح سے کبھی جراثیم کو بھی شیطان کہا گیا ہے۔
حضرت امیر المومنین کا ارشاد ہے۔:
لا تشربوا الماء من ثلمة الاناء و لا من عروته، فان الشیطان یقعد على العروة و الثلمة “: (كافى جلد 6 كتاب الاطعمة و الاشربة، باب الاوانى)
یعنی پانی کو برتن کے دستہ کی طرف سے یا اس حصے سے نہ پئیں جہاں سے ٹوٹا ہوا ہو کیوں کہ شیطان دستہ اور ٹوٹی ہوئی جگہ پر بیٹھتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے۔: ” و لا یشرب من اذن الكوز، و لا من كسره ان كان فیه فانه مشرب الشیاطین ” (كافى جلد 6 كتاب الاطعمة و الاشربة، باب الاوانى )”
کوزہ کے ٹوٹے ہوئے حصے کی طرف سے پانی نہ پیا کریں کیوںکہ وہ شیطان رہنے کی جگہ ہے۔
پیامبر اکرم کی حدیث بھی ہے کہ اپنی مونچھیں لمبی نہ رکھیں کیوںکہ شیطان وہاں اپنے لیے پناہ گاہ قرار دیتا ہے۔ (كافى جلد 6 كتاب الاطعمة و الاشربة، باب الاوانى)
پس ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا معنی ضرر پہنچانے والے جراثیم بھی ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ شیطان کا لفظ جہاں پر بھی آجائے جراثیم کا معنی دے نہیں ایسا نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے شیطان کو کیوں خلق کیا؟
شیطان کا کام بندوں کو گمراہ کرنا ہے اور اللہ سے دور کرنا ہے تو اللہ تعالی نے اسے کیوں خلق کیا ہے
جواب
1۔ اللہ تعالی نے شیطان کو شیطان خلق نہیں کیا جیسے کہ تاریخ میں واضح ہے کہ کئی سالوں سے وہ فرشتوں کی صف میں رہے اپنی پاک فطرت کے ساتھ رہے اور بعد میں اپنی آزادی کا غلط فایدہ اٹھایا اور طاغوت اور سرکش بن گیا۔ لہذا معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کو ابتدا میں پاک خلق کیا اور بعد میں اسے کے اپنے اعمال کے نتیجے میں ابلیس سے شیطان بن گیا۔
2۔ شیطان کا وجود اس انسان کے لیے جو کمال کے مراحل کو طے کرنا چاہتا ہے اس کے ضرر میں نہیں بلکہ اس کے ذریعے سے کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ ہمیشہ ترقی مخالفت میں آجاتی ہے۔
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے۔
جب تک انسان کسی پاورفل دشمن کے مقابلے میں نہ آجائے اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرتا ہے شیطان جسے اللہ تعالی نے « عدو مبین » کہا ہے ان کی گمراہی کے ہتھکنڈوں کو دیکھ کر مومن شخص بھی اپنے ایمان کا مظاہرہ کرتا ہے۔
تحریر: مشتاق حسین حکیمی
http://mushtaqhakimi.blogfa.com/
این مطلب بدون برچسب می باشد.
دیدگاهتان را بنویسید