تازہ ترین

امام حسین وارث انبیاء

محمد قاسم رجائی

مقدمہ 

مختلف زیارت ناموں میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی ایک خاص خصوصیت  ذکر ہوئی ہے جو آپ کو دوسرے ائمہ سے ممتاز کرتی ہے وہ خصوصیت یہ ہےکہ آپ کو انبیاء علیہم السلام کا وارث قرار دیا ہے۔ اس مقالے میں ائمہ علیہم السلام کی وراثت اور بالخصوص حضرت امام حسین علیہ السلام کے وارث انبیا ء علیہم السلام ہونے کے بارے میں کچھ مطالب بیان کئے جائیں گے۔

وراثت کے لغوی اور اصطلاحی معنی

کسی مال  اور جائیداد کا   کسی معاملے اور زحمت و مشقت کے بغیر دوسرے تک منتقل ہونے کو ارث کہا جاتا ہے۔ اور فقہی اصطلاح میں مردے کے اموال  کا کسی معاملے اور اختیار کے بغیر دوسرے کی طرف منتقل ہونے کو ارث کہتے ہیں۔

شئیر
40 بازدید
مطالب کا کوڈ: 2130

 

ارث کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ مادی اور مالی ارث  ۲۔  معنوی ، علمی اور دینی ارث

قرآن کریم میں ارث کی دونوں اقسام کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ مادی اور مالی ارث کے بارے میں سورہ نساء اور دوسرے سوروں میں ذکر ہوا ہے۔  سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے: لرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا1(اورجومال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں مردوں کا ایک حصہ ہے اور (ایسا ہی) جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں تھوڑا ہو یا بہت عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے، یہ حصہ ایک طے شدہ امر ہے) اور معنوی و دینی وراثت میں نبوت اور ولایت کے ارث کا تذکرہ  قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر ہوا ہے۔ سورہ مریم میں ارشاد ہوتا ہے  يَرِثُنِىْ وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوْبَ وَاجْعَلْـهُ رَبِّ رَضِيًّا 2(جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور میرے پروردگار! اسے (اپنا) پسندیدہ بنا۔) اور سورہ نمل میں بھی ارشاد ہوتا ہے وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ3( اور سلیمان داؤد کے وارث بنے)۔

حدیث میں بھی ارشاد ہوتا ہے العلماء ورثة الانبیاء4( علما انبیاء کےوارث ہیں) اس حدیث میں بھی وراثت سے مراد علم دین ہے جو وہی معنوی وراثت ہے۔

مادی اور معنوی وراثت میں ایک اہم فرق ہے کہ مادی وراثت میں جب وارث مورث سے ارث لیتا ہے تو مورث کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے لیکن  معنوی وراثت میں ارث کے منتقل ہونے کے باوجود مورث سے اس کی ملکیت ختم  نہیں ہوتی بلکہ وہی ارث(علم، صفات حمیدہ اور کمالات نفسانی) مورث کے پاس باقی رہتا ہے۔

بعض علما اور محققین نے نبوت کی معنوی میراث کے بارے میں نازل ہونے والی آیات سے نبوت کے لوازم جیسے علم مراد لیا ہے5  کہ علم ارث بننے کی قابلیت رکھتا ہے لیکن نبوت میں ارث بننے کی قابلیت نہیں ہے ۔ اگر علما کو انبیاء علیہم السلام کا وارث قرار دیا گیا ہے توان کے درمیان ایک تناسب برقرار ہے۔ اسی طرح ائمہ علیہم السلام کو انبیاء کا وارث قرار دیا گیا ہے تو اس رابطے اور نسبت کی وجہ سے ہے جو انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے درمیان برقرار ہے۔  تفسیر مجمع البیان اور دوسری تفاسیر میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام  نے فرمایا: ان اولی الناس بالانبیاء اعملهم بما جاؤوا به 6( انبیاء سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق ان لوگوں کو پہنچتا ہے جو ان پر نازل ہونے والے احکام پر زیادہ عمل کرنے والے ہوں۔) اس کے بعد آپ نے اس آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی۔ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آَمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ 7.( ابراہیم سے نسبت رکھنے کا سب سے زیادہ حق ان لوگوں کو پہنچتا ہے جنہوں نے ان کی پیروی کی اور اب یہ نبی اور ایمان لانے والے (زیادہ حق رکھتے ہیں ) اور اللہ ایمان رکھنے والوں کا حامی اور کارساز ہے۔)

۱۔ زیارت ناموں میں وراثت کی بحث

ائمہ علیہم السلام کی پہچان:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، ائمہ معصومین علیہم السلام اور اسلام کے جید علمائے کرام زیارت ناموں کے ذریعے زیارت کی جانے والی شخصیت کا تعارف کراتے ہیں۔ زیارت نامے دعاؤں پر مشتمل ایک عظیم دینی معارف کا خزانہ ہیں۔ بزرگان دین  انہی زیارت ناموں کے ذریعے انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے مکتب کا تعارف کراتے ہیں اور ان کی نیک سیرت اور اہداف کو ان میں بیان کرتے ہیں جس طرح قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کی پہچان اور شناخت کا مأخذ ہے اسی طرح زیارت نامے بھی معارف کے مصادر و مأخذ ہیں جو کافی حد تک تحریفات سے محفوظ رہے ہیں۔

قرآن کریم میں بعض انبیاء علیہم السلام کے نام ذکر ہوئے ہیں اور زیارت ناموں میں بھی انہی انبیاء علیہم السلام کا نام باربار تکرار ہوا ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی نظر میں انہی انبیاء علیہم السلام کے اہداف اور مقاصد کی معرفت اور ان کے افکار اور سیرت میں غوروفکر کرنے سے باقی انبیاء علیہم السلام کی بھی معرفت اور پہچان ہوسکتی ہے۔

۲۔ ائمہ معصومین علیہم السلام وارث انبیاء 

مفاتیح الجنان اور دوسری دعاؤں کی کتابوںمیں منقول زیارت ناموں میں ائمہ معصومین علیہم السلام کو انبیاء علیہم السلام کا وارث قرار دیا گیا ہے جیسا کہ زیارت جامعہ کبیرہ میں ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ورثۃ الانبیاء کا لقب بھی دیا گیاہے۔  اسی طرح امام رضا علیہ السلام سے منقول امام زمان کی زیارت میں بارہ اماموں کے نام ذکر ہوئے ہیں اور وارث سید المرسلین کے عنوان سے ان کا تعارف کیا گیا  ہے۔بعض دعاؤں میں امام زمانہ علیہ السلام کو   السلام علی وارث الانبیاء( سلام ہو انبیاء کے وارث پر)  کہا گیا ہے۔ لیکن خصوصی طور پر امام علی علیہ السلام کی مبعث کے دن کی زیارت میں، امام حسین علیہ السلام اورامام رضا علیہ السلام کی زیارتوں میں انبیا ء علیہم السلام کا نام آیا ہے اور ان کو انبیا ء علیہم السلام کا وارث قرار دیاگیاہے۔

زیارت ناموں میں ایک اہم نکتے کی طرف زیادہ تاکید ہوئی ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے درمیان فکری اور معنوی روابط پائے جاتے ہیں۔ اسی لئے زائر اماموں کی زیارت کے شروع میں انبیاء علیہم السلام کے نام حضرت آدم سے خاتم تک اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے امام عصر علیہ السلام تک ان کے برجستہ  اوصاف کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔

قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کے اہداف اور مقاصد کی ہم آہنگی اور باہمی اتفاق و  یگانگی  کو تکرار کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسله8(ہم رسولوں میں تفریق کے قائل نہیں ہیں) ، لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِنهمْ9(ہم ان میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے)، وَلَمْ يُفَرِّقُوْا بَيْنَ اَحَدٍ مِّنهمْ 10 (ان میں سے کسی ایک کے درمیان کسی تفریق کے بھی قائل نہیں ہیں)  اور  مَا يُقَالُ لَكَ اِلَّا مَا قَدْ قِيْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ11(آپ سے وہی کچھ کہا جا رہا ہے جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا ہے)۔ اس کے علاوہ دیگر متعدد آیات میں اس مطلب کو بیان کیا ہے۔

عید غدیر کے دن امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت میں ہم پڑھتے ہیں: السلام علی انبیاء الله و رسله و ملائکته المقربین و عباده الصالحین۔( سلام ہو خدا کے نبیوں اس کے رسولوں ،اس کے مقرب فرشتگان  اور اس کے نیکوکار بندوں پر ) اور زیارت ناحیہ مقدسہ میں امام زمان علیہ السلام فرماتے ہیں: السلام علی آدم صفوة الله من خلقه ( سلام ہو آدم پر جو اس کے مخلوق میں سے اس کا برگزيده ہے) اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت میں بھی يهي جمله نقل هوا ہے۔

۳۔ امام حسین علیہ السلام وراثت کا مکمل نمونہ

جیسا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ بارہ امام سارے انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں  لیکن زیارت ناموں میں اس بات پر زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ امام حسین علیہ السلام ، انبیا ء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ مختلف زیارت ناموں میں حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعارف   انبیاء علیہم السلام کے وارث کے عنوان سے کیا گیا  ہے۔پندہویں  رجب ، عید فطر، عید قربان ، روزعرفہ ، عمومی زیارات اور خصوصی طور پر معروف زیارت ( زیارت وارث )میں ہم پڑھتے ہیں: 

اَلسَّلامُ عَلَیْكَ یا وارِثَ آدَمَ صِفْوۃ اللَّهِ سلام ہو آپ پر اے آدم کے وارث جو خدا کے برگزیدہ ہیں۔

اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا وارِثَ نُوحٍ نَبِىِّ اللَّهِ سلام ہو آپ پر اے نوح کے وارث جو خدا کے نبی ہیں۔

اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا وارِثَ اِبْراهیمَ خَلیلِ اللَّهِ سلام ہو آپ پر اے ابراہیم کے وارث جو خلیل اللہ ہیں۔

اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا وارِثَ مُوسى کَلیمِ اللَّهِ سلام ہو آپ پر اے موسی کے وارث جو کلیم اللہ ہیں۔

اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا وارِثَ عیسى رُوحِ اللَّهِ سلام ہو آپ پر اے عیسی کے وارث جو روح اللہ ہیں۔

اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا وارِثَ مُحَمَّدٍ حَبیبِ اللَّهِ اَلسَّلام سلام ہو آپ پر اے محمد کے وارث جو خدا کے حبیب ہیں۔

ایک اور زیارت نامے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا نام بھی لیا گیا ہے۔سلام ہو آپ پر  اے اسماعیل ذبیح کے وارث۔

۴۔ میراث انبیا 

اسلامی منابع میں غور  کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان زیارتوں  میں مندرجہ ذیل معنوی اور مادی وراثتیں مدنظر رکھی گئی ہیں:

1۔ خلیفہ الہی کا مقام:  جیسا کہ خداوند متعال نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اپنے خلیفہ کے عنوان سے منتخب کیا، دوسرے انبیاء علیہم السلام اور ان کے جانشین بھی زمین پر خدا کے خلیفہ کے عنوان سے لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے جو اس مقام کو یکے بعد دیگرے وراثت میں حاصل کرتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی اس معنوی مقام کو اپنے نانا، باپ اور بھائی سے وراثت میں پایا  اور اس کے عہدیدار ہوئے ہیں۔

2۔ علم: بہت سی روایتوں اور زیارتوں میں ذکرہوا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور دوسرے ائمہ علیہم السلام، انبیاء علیہم السلام خاص کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےعلم کے وارث تھے۔ اس سلسلے میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:”حضرت داؤد علیہ السلام نے انبیاء علیہم السلام کے علم کو وراثت میں حاصل کیا اور سلیمان علیہ السلام نے بھی اس علم کو اپنے باپ داؤد علیہ السلام سے وراثت میں پایا اور ہم نے بھی اس علم کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وراثت میں پایا ہے (السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا إِمَامَ الْمُؤْمِنِينَ وَ وَارِثَ عِلْمِ النَّبِيِّينَ وَ سُلَالَةَ الْوَصِيِّين) ۔12(سلام آپ پر اے مومنین کے امام اور انبیا کے علم کا وارث اور اوصیا کے ذریت)

3۔ آسمانی کتابیں:  نیمہ شعبان اور اول ماہ رجب کے لئے ذکر کی گئی زیارت میں امام حسین علیہ السلام کو تورات، انجیل او ر زبور کاوارثِ کہا گیا ہے۔13 (السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا وَارِثَ التَّوْرَاةِ وَ الْإِنْجِيلِ وَ الزَّبُور ) کیونکہ ان کتابوں کی اصل اور حقیقت، وہ مطالب ہیں جو ان میں لکھے گئے ہیں اور امام حسین علیہ السلام بھی ان مطالب سے آگاہ ہیں۔14

4۔انبیاءعلیہ السلام کی خصوصیات: بعض انبیاء علیہم السلام کے ہمراہ کچھ مقدس و سائل اور چیزیں ہوتی تھیں، جن کی معجزنما خصوصیتیں تھیں، جیسے: حضرت موسی علیہ السلام کا عصا اور صندوق، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا لباس اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی۔ روایات کے مطابق، یہ چیزیں ائمہ اطہار علیہم السلام کو منتقل ہوئی ہیں جو اس وقت امام زمانہ (عج) کے پاس ہیں اور ظہور کے وقت آپ علیہ السلام انہیں اپنے ساتھ لائیں گے اور ان سے استفادہ کریں گے۔15

۵۔ اچھے اخلاق و صفات: انبیاء علیہم السلام اوصاف حمیدہ  اور اخلاق حسنہ کے حامل ہیں۔ انہی اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ کی وجہ سے انہیں خداوند عالم نے منتخب کیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے ان اخلاق حمیدہ کو انبیاء علیہم السلام  سے وراثت میں پایا ہے۔ آپ صفات حمیدہ اور اخلاق کریمہ میں تمام لوگوں سے زیادہ انبیاء کے شبیہ تھے۔

۶۔ سیاسی وراثت: انبیاء علیہم السلام کو خداوند متعال کی جانب سے شرعی اور قانونی اختیارات حاصل ہیں اور وہ دنیا میں حکومت، ولایت اور قانونگذاری کا حق رکھتے ہیں جبکہ لوگوں پر لازم ہے کہ ان کی پیروی کریں ۔قرآن کریم میں اس مسئلے پر بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے۔  امام حسین علیہ السلام نے شرعی اور قانونی حیثیت و مقام ،  خلافت اور اطاعت و پیروی کے حق کو اپنے سے پہلے اماموں سے وراثت میں پایا ہے۔ اسی لیے فرمایا: نحن اهل بيت محمد اولي بولاية هذا الامه من هؤلاء المدعين ما ليس لهم ۔15 ( جو لوگ اس امت کی ولایت و سرپرستی کے دعویدار ہیں ان سب سے زیادہ حقدار ہم اہل بیت محمد ہیں۔)

۷۔ اجتماعی ذمہ داری: انبیاء خدا وند متعال کی جانب سے معاشرے کے ذمہ دار ہیں کہ اس ذمہ داری کو نبھانے میں اذیتوں اور مشقتوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ بعض انبیاء کو جام شہادت نوش کرنا پڑا اس کے باوجود اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے دستبردار نہیں ہوئے۔ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اذا ظهرت البدع في امتي فليظهر العالم علمه و الا فعليه لعنة الله والملائکة و الناس اجمعين16۔   ( جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہوں تو عالم پر ضروری ہے کہ اپنے علم کا اظہار کرے ، اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر اللہ تعالی ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔)

اب یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام، انبياء کی اس ذمہ داری کے وارث تھے اور ہیں۔ یہ بات وراثت کی بحث میں ایک اہم بات ہے۔ امام حسین علیہ السلام  انبیاء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس ذمہ داری کو نبھانے کےلیے میدان میں آئےاور آپ نے دنیا کے سامنے اعلان کرتے ہوئے فرمایا: الا ترون ان الحق لا يعمل به و ان الباطل لا يتناهي عنه.( کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں کیا جارہا  اور باطل سے روکا نہیں جارہا). اسی طرح : انما خرجت لطلب الاصلاح في امتي جدي اريد ان آمر بالمعروف و انهي  عن المنکر و اسير بسيرة جدي و ابي علي بن ابي طالب.17( میں صرف اپنے نانا کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا ہوں ، میں امر بالمعروف اور نہی از منکر کرنا چاہتا ہوں اور اپنے نانا اور بابا علی ابن ابیطالب کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں۔)

امام حسين عليه السلام نے کربلا کی جانب نکلنے کے بعد اپنے ابتدائی خطبے میں ارشاد فرمایا: مَنْ رأى سلطانًا جائرًا، مستحلًّا لحرم الله، ناكثًا لعهد الله، مخالفًا لسنّة رسول الله، يعمل في عباد الله بالإثم والعدوان فلم يغير بفعل ولا قول کان حقا علي الله ان يدخله مدخله.18( جو کسی ظالم بادشاہ کو دیکھے جو خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھتا ہو ، اس کے عہد و پیمان کو توڑتا ہو، سنت رسول کی مخالفت کرتا ہو ، خدا کے بندوں کے ساتھ ظلم و جور کے ساتھ پیش کرتا ہو پھر بھی اپنے قول و فعل کے ذریعے کوئی تبدیلی نہ لائے تو خدا کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اس کا ٹھکانہ بھی وہی قراردے گا جو اس ظالم بادشاہ کا ٹھکانہ ہے۔)

5۔ دشمن کا اقرار

 دشمن بھی امام حسین علیہ السلام کی ذات سے آشنا تھے اور آپ کو وارث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے تھے ۔ اما م علیہ السلام کی شہادت کے بعد یزید ملعون نے صراحتا اعلان کیا کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جنگ ، جنگ بدر کا بدلہ ہے جس میں ان کے خاندان کے بزرگوں کو قتل کیا گیا تھا آج وہ امام حسین علیہ السلام سے اس کا بدلہ لے رہا ہے۔ جیسا  کہ یزید ملعون کا مشہور شعر ہے جس میں اس نے بدر کے مشرکین کو خطاب کرکے کہا ہے۔

لیت اشیاخی ببدر شهدوا جزع الخزرج من وقع الاسل

فاهلو و استهلوا فرحا ثم قالو يا يزيد لا تشل

لست من خندف ان لم انتقم من بني احمد ما کان فعل19

ترجمه: کاش ، میرے آباءواجداد  آج زندہ ہوتے جو بدر میں مارے گئے  تو وہ دیکھتے کہ نیزوں کی چوٹ سے خزرج والے کیسے بیتاب ہوتے ہیں۔ وہ انتہائی مسرت و شادمانی سے جھومتے اور اچھلتے پھر کہتے : اے یزید! تمہارے ہاتھ کبھی شل نہ ہوں۔ اگر میں بنی احمد سے ان کے کئے کا بدلہ نہ لوں تو میں (اہل) خندف سے نہیں۔

نتیجہ

ائمہ معصومین علیہم السلام بالخصوص حضرت امام حسین علیہ السلام کے خطبوں اور زیارتوں مطالعہ اور  غور کرنے سے  ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام انبیا ء کرام علیہم السلام کےحقیقی وارث ہیں ۔ اور حضرت امام حسین علیہ السلام انبیا کے کامل ترین وارث ہیں ۔ یہ بات ہمیں ان کے زندگی کے مختلف پہلووں پر مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ آپ حضرت نے کس طرح انبیا ء کے اہداف اور مقاصد کو زندہ رکھنے میں بہترین کردار ادا فرمایا  اور رہتی دنیا تک انسانیت کو یہ درس دیا کہ کس طرح اقدار کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ اور اس بات کا خود دشمن نے بھی اقرار کیاہے۔

حوالہ جات:

  ۔ نساء/۷

2۔ مریم/۶

3۔ نمل/۱۶

4۔ بحارالانوار، ج۱، ص۱۶۲

5۔ سیرہ پیامبران در قرآن،ج ۷، ص ۲۶۸

6۔ تفسیر مجمع البیان، ج2، س 476

7۔ آل عمران/۶۸

8۔ بقرہ/۲۸۵

9۔ بقرہ/ ۱۳۶، آل عمران/۸۴

10 ۔ نساء/ ۱۵۲

11۔ فصلت/۴۳

12۔ کامل الزیارات، ص 318۔

13۔ الکافی،  ج 1، ص 225۔

14۔ الإقبال بالأعمال الحسنہ، ج 3، ص 341.

15۔  الکافی، ج 1، ص 231 – 237.

16۔ سفینہ البحار، ج۱، ص ۶۳

17. ايضا

18. بحارالانوار، ج 44، ص 329

19. ايضا، ص377 

20. البدء و التاريخ، ج 6، ص 12

 

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *