تازہ ترین

امام زمانہ کی معرفت ضروری کیوں ؟

امام زمانہ کی معرفت ضروری کیوں ؟
ڈاکٹر محمدیعقوب بشوی محقق و استاد جامعه المصطفی العالمیه
مقدمه:
یہاں ایک اہم سوال هر سالم فطرت انسان کےذهن میں پیدا ہوسکتا ہے اور وه یه کہ امام زمانہ کی معرفت ضروری کیوں ہے ؟جب کوئی مومن قرآن وسنت کا مطالعه کرتا ہےتو وه اس نتیجه پرپهنچتا ہےکه هر انسان کیلئے ضروری ہے کہ اس دنیوی زندگی میں اپنی سعادت کےلئےایک رهبرکا انتخاب کرئے قرآن مجیداس ضرورت امام اور انتخاب کویوں بیان کرتا ہے« يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِم »(۱). اس دن (قیامت کے روز)ہم ہر گرو ہ کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے.اس آیت سے پتہ چلتا ہے که ہر گروہ کیلئے دنیا میں کوئی نہ کوئی امام و رہبر ہونا چاہئے تاکه وه کل قیامت کےدن اس امام کےهمراه محشورهو! اسی ضرورت اور شناخت امام کی طرف بہت سی معتبر روایات دلالت کررهی ہیں ۔هم اختصارکی خاطر تنها برادران اهل سنت کی معتبر کتابوں سے بعض روایت بیان کریں گے.

شئیر
74 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5764

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )امامت اور رهبریت کو انسانی معاشرے کےلئےنهایت هی ضروری قراردیتےهوئےفرما تے ہیں:«من مات بغیر امام مات میتة جاهلیة ». (۲)
جو شخص بغیر کسی امام کے مرے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ۔دوسری روایت کو ابن عمر نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے یوں نقل کیا ہے۔
«من مات ولیس له امام مات میتة جاهلیة» . (۳)
جو شخص مرجائے اور اس کیلئے کوئی امام نہ ہو تو وہ جاہلیت اور کفر کی موت مرا ہے۔
ان دونوں روایتوں میں امام کے وجود پرزور دیا گیا ہے ۔کوئی امام ہونا چاہئے تاکہ انسان کفر و جاہلیت کی موت سے بچ سکے اور وہ امام بھی ایسا ہونا چاہئے کہ جو اپنے پیرو کار کو کفروجاہلیت کی موت سے بچا سکے تو امام کا سب سے زیادہ عالم ہونا ضرور ی ہے کیونکہ علم ہی کی بناء پر وہ اپنے پیرو کار وں کو اچھائی کا حکم دے گا جو امام خود اچھائی اور برائی ،ہدایت و گمراہی کی تشخیص نہ کرسکے وہ کیسے کسی کو بچا سکے گا ۔یقینا خد ا کسی جاہل اور گمراہ کو امام نہیں بنائے گا۔
دوسری حدیث میں امام کی بیعت کو اهم قرار دیتےهوئےیوں فرمایا:«من مات ولیس فی عنقه بیعة مات میتة جاهلیة» . (۴)
جو شخص مر ے در حالانکہ اس کی گردن پرکسی کی بیعت نہ ہو،وہ جاہلیت کی موت مرا ۔
یہ حدیث بتارہی ہے کہ انسان کی گردن پرکسی کی بیعت ہو وگرنہ وه کفر کی موت مرےگا!۔ یقینا یہ بیعت کسی جاہل ،ظالم او رفاسق کی نہیں هوسکتی کیونکہ دین نہ صرف کسی ظالم و فاسق کی بیعت کا امرکرتا ہے بلکہ ان سے مقابلہ اور ان کی مخالفت کا حکم دیتا ہے۔ «فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ فقد استَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى‏ لاَ انْفِصامَ لَها». (۵)
جو شخص بھی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کی مضبووط رسی سے متمسک ہو گیا جس کے ٹوٹنے کا امکان نہیں ہے۔
بیعت کسی ایسے شخص کی ہو جو خود گناهوں میں غرق نہ ہو وگرنہ کسی معصیت کار کی بیعت قرآن و سنت کے رو سے باطل ہے ۔
ایک حدیث میں یوں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا :
«من مات ولا بیعة علیه مات میتة جاهلیة». (۶)
جو شخص مرجائے اور اس پر کوئی بیعت نہ ہو تو (گویا )وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ۔ایک حدیث میں بیعت کی جگه اطاعت کا ذکر آیا ہے ۔
«من مات و لا طاعة علیه مات میتة جاهلیة ». (۷)
جو شخص مرجائے اور اس پر کسی کی اطاعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ۔یقینا یہ شخص کہ جس کی اطاعت کے بغیر انسان کفر کی موت مرتا ہے خدا کا ہی کوئی نمائندہ ہوگا ورنہ کسی گناہگار کی اطاعت ہی واجب نہیں بلکہ اس کی مخالفت واجب ہے ۔جب اس کی اطاعت هی واجب نه هوتو اس کی مخالفت کفرکی موت کیونکر بن سکتی ہے ؟ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اس بارےفرماتے ہیں :«لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق».(۸) خدا کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے ۔لهذا ایسا شخص اس حدیث کامصداق نهیں بن سکتا.
در اصل یہ احادیث کچھ پیغام دے رہی ہیں ۔پہلی والی حدیث میں کہا کسی امام کا وجود ضروری ہے دوسری قسم کی حدیث میں کہا کسی کی بیعت ضروری ہے ۔تیسری قسم کی حدیث میں کسی کی اطاعت کا ذکر ہوا اب چوتھی قسم کی حدیث کھل کے امام زمانہ کی معرفت کی طرف دعوت دے رہی ہے :«من مات ولم یعرف اما م زمانه ،مات میتة جاهلیة» . (۹)
جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے وہ جاہلیت اور کفر کی موت مرتاهے ۔
اس حدیث شریف کی رو سے ہر عاقل اور بالغ انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت اور شناخت حاصل کرے وگرنہ جاہلیت کی موت مرے گا لہٰذا هر انسان پر واجب ہے که وه زمانہ کے امام کو پہچاننے وگرنہ کفر کی موت مر جائے گا۔انسان کےبچنے کا راستہ ایک ہی ہے او ر وہ امام زمانه کی معرفت کا حصول ہے.اہل سنت کے بعض محققین نے ان احادیث کو سند کے اعتبار سے صحیح قراردیا ہے .جناب حمزہ احمد الزین اور(۱۰) جناب شعیب الا رنوؤط،(۱۱) اس حدیث کو صحیح جانتےہیں اورجناب بھجت افندی نے تو اس حدیث کو متفق علیہ جانا ہے۔ (۱۲)
یہ احادیث مختلف صحیح اسناد اور مضامین کے ساتھ ایک ہی پیغام دے رہی ہیں اور وہ یہ کہ ہر زمانے میں لوگوں کیلئے ایک امام ہونا چاہئے تاکہ انسان کفر اور جاہلیت کی موت سے نجات حاصل کرسکے ۔یہ وہی پیغام ہے کہ جس پر اصحاب اور تابعین نے عمل کیا ۔
ہمیں عبداللہ بن عمر کی زندگی میں اس حوالے سے ایک عجیب و غریب واقعہ ملتا ہے کہ جس کو اہل سنت کے عالم دین جناب ابن ابی الحدید معتزلی نے یوں نقل کیا ہے ۔
جناب عبداللہ بن عمر حجاج کے گھر میں حجاج سے بیعت کرنے کیلئے گیا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھایا حجاج نے ہاتھوں کے بجائے اپنے پیروں کو بیعت لینے کیلئے دراز کیا .(۱۳) عبداللہ بن عمر نے پوری زندگی میں حضرت علی (علیہ السلام) کی بیعت نہیں کی اور اسے اوپر والی احادیث یاد نہ رہی لیکن راتوں رات عبدالملک کی بیعت کرنے کی خاطر حجاج بن یوسف ثقفی کے گھر چلاجاتا ہے تاکہ ایک رات بھی کسی امام کی بیعت کے بغیر نہ گزر جائےاس خوف سے کہ کہیں رات کو موت آجائے اور گردن پر کسی امام کے بیعت نہ ہونے کی وجہ سے جاہلیت کی موت مر جائے !
سوال یہ ہے کہ کیوں عبداللہ بن عمر جیسے شخص کو یہ حدیث کہ جس کے راویوں میں اس کا اپنا نام بھی شامل ہے حضرت علی (علیہ السلام )کے دو ر حکومت میں یاد نہ رہی ؟پانچ سال سے زائد عرصے میں ایک مرتبہ بھی اس نے علی (علیہ السلام )کی بیعت نہیں کی .یہ حدیث اس وقت بھی موجود تھی ۔عجیب بات ہے علی( علیہ السلام) جیسی شخصیت کے ہاتھ پر بیعت کرنا بھی اسے گوارا نہیں تھا! لیکن حجاج بن یوسف جیسے ظالم و قاتل کے پیروں پر بھی وه بیعت کرلیتا ہے .!
شیعه،سنی معتبراور متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امام او ر رہبر قریشی ہونا چاہئے «الائمة من قریش».(۱۴) ائمہ قریش سے ہونا چاہیے ۔یہ حدیث متواتر ہے ۔ (۱۵)
جس امام کی معرفت واجب ہے وہ قریشی ہونا ہے. بعض صحیح احادیث کی بنا ء پر خلافت قریش سے باہر جا نہیں سکتی اگر چہ روی زمین پر دو نفر سے زیادہ کوئی انسان نہ ہوں.لازم ہے کہ دوسرا شخص قریشی اور امام ہو «لا یزال هذا الا مرفی قریش مابقی من الناس اثنان»(۱۶). یه امرخلافت پیوسته قریش میں ہی رہے گا جب تک دوانسان باقی ہونگے.یعنی پوری زمین پر صرف دو شخص زندہ ہو تو ان میں سے ایک کو قریشی اور خلیفہ ہونا چاہئے ۔یہ وہ احادیث ہیں کہ جناب ابن بطال کے بقول ابو بکر او رعمر نے سقیفہ کے دن انہی حدیثوں کے ذریعے انصار پر استدلال کیا تھا۔ (۱۷) اہل سنت امام کیلئے قریشی ہونے کے ساتھ ساتھ عدالت و اجتھاد کو بھی شرط جانتے ہیں ۔(۱۸) بعض اور راویات کے رو سے ایک ہی وقت میں ایک سے زائد خلیفہ نہیں ہونا چاہیے ۔
ایک سے زیادہ خلیفہ کی بیعت جائز نہیں ہے چنانچہ ابوہریرہ ،پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی یہ روایت بیان کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا :«اذا بویع لخلیفتین فاقتلوا الآخر منهما». (۱۹)
اگر ایک ہی وقت دو خلیفوں کیلئے بیعت لے تو ان میں سے ایک کو قتل کر ڈالو ۔اہل سنت کے ایک معروف عالم دین جناب نووی کہتے ہیں :«علماء کا اس بات پر اتفا ق ہے کہ ایک وقت میں د و خلیفوں کی بیعت کرنا جائز نہیں ہے اور اس سلسلے میں سر زمین اسلامی وسیع ہویا نہ ہو ». (۲۰)
دراصل یہ ساری حدیثیں یہ بیان کررہی ہیں کہ ہر زمانے میں ایک خلیفہ کا ہونا ضروری ہے اور وہ خلیفہ قریشی ہو ۔
عادل و عالم ہو !اما م کی شناخت ہر مسلمان بالغ اور عاقل پر واجب ہے امام کا نہ پہچا ننا، کفر کی موت کے مترادف ہے ۔امامت کی یہ شرائط کسی عنوان کے تحت بھی کسی جاہل، ظالم ،فاسق اور غیر قریشی پر صادق نہیں آتیں لہٰذا اس زمانے میں بھی کسی امام کا ہونا لازم و ضروری ہے جو قریشی ہو ،عالم ہو ،عادل ہو جس کی معرفت ،بیعت اور اطاعت موجب نجات ہو ۔و گرنہ تکذیب قول پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) لازم آئے گی ۔
لہٰذا ان تمام روایات کے رو سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ان تمام شرائط کے حامل امام فقط امام مہدی (علیہ السلام )ہیں کہ شیعہ ان کے وجود کے قائل ہیں اور بہت سے اہل سنت حضرات بھی شیعوں کی طرح آپ کی ولادت کے قائل ہیں ۔احادیث کو متواترجانتے ہیں(۲۱) . ہم یہاں بہت سے اہل سنت علماء کے نام ذکر کریں گے جو قائل ہیں کہ امام مہدی (علیہ السلام )کی ولادت ١٥شعبان ٢٥٥ ق کو ہوئی ہے ۔
١۔ جیسے :ابو بکر احمد بن حسین بن علی بیھقی شافعی (متوفای٢٥٨ق)؛ (۲۲)
٢۔ شمس الدین احمد بن محمد،معروف ابن خلکان(متوفای٨١6 ق)؛ (۲۳)
٣۔ حمداللّٰہ بن ابی بکر نصر مستوفی(متوفای٧٥٠ق)؛ (۲۴)
٤۔ ابوالولید محمد بن شحنہ حنفی(متوفای ٨١٠ق)؛ (۲۵)
٥۔ محمد بن محمد بن محمود نجار معروف خواجہ پارسا(متوفای ٨٢٢ق)؛ (۲۶)
٦۔ ابن صبّاغ مالکی(متوفای٨٥٥ق)؛ (۲۷)
٧۔ غیاث الدین معروف خواند میر(متوفای ٩٤٢ق)؛ (۲۸)
٨۔ ابن طولون(متوفای ٩٥٣ق)؛ (۲۹)
٩۔ عبدالوھاب شعرانی(متوفای٩٧٣ق)؛ (۳۰)
١٠۔ ابن حجر ہیتمی مکی(متوفای ٩٧٤ق)؛ (۳۱)
١١۔ سید جمال الدین عطاء اللّٰہ (متوفای٠٠٠اق)؛ (۲۳)
١٢۔ احمدبن یوسف دمشقی(متوفای ١٠١٩ق)؛ (۳۳)
١٣۔ عبداللّٰہ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی (متوفای بعداز ١١٥٤ق)؛ (۳۴)
١٤۔ محمد بن احمد سفارینی حنبلی (متوفای ٨٨ا1 (ق)؛ (۳۵)
١٥۔ مئومن شبلنجی (متوفای بعداز ١٢٩٠ق)؛ (۳۶)
١٦۔ سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی (متوفای ١٢٩٤ق)؛ (۳۷)
١٧۔ حسن عدوی حمزاوی مالکی (متوفای ١٣٠٣ ق)؛ (۳۸)
١٨۔ شہاب الدین احمد حلوانی (متوفای ١٣٠٨ق)؛ (۳۹)
١٩۔ قاضی بھلول بھجت افندی (متوفای ١٣٥٠ق)؛ (۴۰) و
٢٠۔ خیرالدین زر کلی (متوفای ١٣٩٦ق. (۴۱)
ایک شیعہ دانشور جناب مہدی فقیہ ایمانی نے اپنی کتاب میں اہل سنت کے ١١٢دانشوروں کے اسماء کو ذکر کیا ہے جو امام مہدی کی ولادت کے قائل ہیں . (۴۲)
اہل سنت کے ایک عالم دین جناب گنجی شافعی (متوفای ٦٥٨ق) کہتے ہیں :ممکن ہے امام مہدی اپنے ظہور کے زمانے تک زندہ رہے اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی جیسا کہ حضرت عیسیٰ ،حضرت الیاس اورحضرت خضر ،اولیاء اللہ میں سے زندہ ہیں اور اسی طرح دشمنان خدا میں سے دجال اورابلیس ابھی تک زند ہ ہیں .٨ (۴۳) اہل سنت کے ایک اور عالم جناب قاضی بھلول بھجت افندی کہتے ہیں :بارہواں امام ،صاحب العصرو الزمان ،القائم المہدی ابو القاسم ،پندرہ شعبان ،سال ٢٥٥ ق کو دنیا میں تشریف لائے آپکی والدہ کا نام نرجس ہے آپ کیلئے دوغیبتیں ہیں ۔صغریٰ اور کبریٰ ،،آپ مزید لکھتے ہیں کہ امام مہدی زندہ ہیں اور جب خدا اذن دے گا تب ظہور کریں گے اور زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔ امام مہدی کے ظہورپر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔یہ مسئلہ کسی دلیل کا محتاج بھی نہیں ہے . (۴۴)
آپ ہی حجت خدا ہیں کہ جس کی وجہ سے زمین قائم ہے «ان الارض لا تخلو من قائم لله بحجة ».(۴۵) اگرآپ کی معرفت اور شناخت نه هوتوتمام دوسرےاعتقادات و اعمال کےباوجود انسان جاهلیت کی موت مرتا ہے کیونکه جو چیزانسانی عقائد و رفتار کو سمت و سو دے کر،مقبول به درگاه الهی بناتی ہے وه امر و دستور امام ہے.یه فیض امام معصوم هے که جو گناهگاروں کےاعمال واعتقادات کوپروبال عطاکرتا هے اور اسے کفروجاهلیت کی موت سے نجات دیتا هے.

منابع

قرآن مجید؛

 

ابن ابی الحدید، شح نھج البلاغہ، ٢٠ج ، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٩٦٥م؛
ابن الصباغ، علی بن محمد بن احمد، ، الفصول المھمة فی معرفة احوال الائمة ، داراضواء بیروت ، ١٩٨٨م؛
ابن حنبل، امام احمد، المسند للامام احمد بن محمد حنبل ٢٠ج، تحقیق احمد شاکرو حمزہ احمد الزین ،دارلحدیث ، قاھرہ، ١٩٩٥م؛
ابن خلکان، ابی العباس شمس الدین احمدبن محمدبن ابی بکر، وفیات الاعیان٦ج، مکتبة النھفة المصریة، قاھرہ، ١٩٤٨م؛
ابن طولون، شمس الدین محمد، الائمة الاثنا عشر، منشورات الراضی، قم، (بی تا)؛
ابن عبدالملک ، (ابن بطال)ابی الحسن علی بن خلف ، شرح صحیح البخاری ١٠ج ، مکتبہ الرشد، ریاض ، ٢٠٠٠م؛
البانی ،محمد ناصرالدین ، ارواء الغلیل(فی تخریج احادیث منار السبیل)ج ٩، الاسلامی المکتب ، بیروت ،١٩٨٥م؛
بزّار ، ابو بکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق المتکی البحر الزخار(المعروف بمسند البزّار) ٩ج ، مکتبة العلوم الحکم ، مدینة ، ١٩٩٧م؛
بشوی،محمدیعقوب،،نقداحادیث مهدویت ازدیدگاه اهل سنت،قم:مرکزجهانی علوم اسلامی،1384ش؛
بصری ، سلیمان بن الجارودالفارسی ، مسند ابی داؤد الطیالسی، دارالمعرفة، بیروت، (بی تا)؛
بغدادی ، عبدالقاھر بن طاہر بن محمد، الفرق بین الفرق دارالمعرفة، بیروت ، ١٩٩٤م؛
بھجت افندی ، قاضی زنگہ زوری بھلول، تشریح و محاکمہ تاریخ ال محمد، ترجمہ میراز مھدی ادیب، چاپخانہ شھاب ، تھران ١٣٦١ق؛
تفتازانی، مسعود بن عمر بن عبداللّٰہ، شرح المقاصد، منشورات الشریف الرضی، قم ،١٩٨٩م؛
تمیمی، حافظ احمد بن علی بن المثنی، مسند ابی یعلی الموصلی ١٥ج، تحقیق حسین بن سلیم اسد، دارالثقافة العربیة، بیروت ، ١٩٩٢م؛
جزری ، لمبارک بن محمدبن الاثیر، جامع الاصول (فی احادیث الرسول)، مکتبة التجاریة، مکہ، ١٩٨٣م؛
حمزاوی العصری ، حسن العدوی ، مشارق الانوار ، مکتبة الامام امیر المومنین ، اصفھان،(بی تا )؛
حمیدی ، محمد بن فتوح ، الجمع بین الصحیحین٤ج، دار ابن حزم ، بیروت ، ١٩٩٨م؛
حنبلی ،قاضی ابی یعلی محمد بن الحسین الفراء ، الاحکام السلطانیة، دارالفکر، بیروت، ٢٠٠٠م؛
حنفی، حافظ سلیمان ابن ابراھیم القندوزی، بنابیع المعودة ،مکتبةبصیرتی ، قم ،١٩٦٦م؛
خطیب التبریزی، محمد بن عبداللّٰہ، مشکاة المصابیع٤ج، دارالفکر ،بیروت ،١٩٩١م؛
زر کلی ، خیرالدین ، الاعلام (قاسوس تراجم لاشھر الرجال والنساء من العرب و المستغربین و المستشرقین)٨ج، دارالعلم للملابین ،بیروت ، ١٩٨٩م؛
سفارینی ،محمد بن احمد ، لوائع الانوار ابیھة وسواطع الاسراء الاثریة، مکتبةالامام امیر المومنین، اصفھان، (بی تا)؛
شبلنجی، مؤمن بن حسن بن مؤمن ، نورالا بصار فی مناقب ال بیت النبی المختار، دارالکتب العلمیة، بیروت ،١٩٩٧م؛
شعرانی، عبدالوھاب بن احمد بن علی ، الیواقیت والجواھرفی بیان عقائد الاکابر، ٢ج، داراحیاء التراث العربی ، بیروت ١٩٩٧م؛
طبرانی ، ابی القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب اللخمی، مسند شامیین ٤ج، الرسالة مؤسة ، بیروت ، ١٩٩٤م؛
طبرانی ، ابی القاسم سلیمان بن احمد، المعجم الاوسط ١١ج، مکتبة المعارف ، ریاض ، ١٩٩٥م؛
عسقلانی ،ابن حجر، فتح الباری١٥ج، دارلکتب العلمیة، بیروت،١٩٩٧م؛
عسکری ، نجم الدین ، المھدی الموعود المنتظر دارالزھرا ، بیروت؛
فارسی، علاء الدین علی بن بلبان، صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان ١٨ج، تعلیق شعیب الارنؤوط، مؤسة الرسالة ،بیروت ، ١٩٩٧م؛
فقیہ ایمانی، مھدی، اصالة المھدویةفی الاسلام، موسة المعارف الاسلامیة، قم ، ١٤٢٠ق؛
قرطبی الجامع لاحکام القرآن ٢٠ج، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٩٨٥م؛
قرمانی، احمد بن یوسف، اخبار الدول وآثار الاول فی التاریخ ٣ج، عالم المکتب، بیروت ١٩٩٢م؛
کتانی ، ابو عبداللّٰہ محمد بن جعفر، نظم المتناثر، فی الحدیث المتواتر ، دارالکتب السلیفة ، مصر، ( بی تا)؛
مزی، جمال الدین ابی الحجاج یوسف عبدالرحمن ، تحفة الاشراف(بمعرفة الاطراف)١٤ج، دارالکتب العلمیة ، بیروت، ١٩٩٩م؛
مستقی الھندی، علاء الدین ، کنزالعمال ١٨ ج، مؤسة الرسالة، بیروت، ١٩٨٩م؛
مناوی ، محمد عبدالرؤوف ، فیض القدیر(شرح الجامع الصغیر) ء ج، دارالکتب العلمیة، بیروت، ١٩٩٤م؛
مھدی پور، علی اکبر، او خواھدامد ، موسة انتشارات رسالت،قم،١٣٧٩ ش؛
نوفلی الکنجی الشافعی، ابی عبداللّٰہ محمد بن یوسف البیان فی اخبار صاحب الزمان، موسسة النشر الاسلامی ، قم ، ١٤٠٩ق؛
نووی، شرح صحیح مسلم ١٨ج، دارالقلم، بیروت، (بی تا)؛
نیشا بوری ، ابی عبداللّٰہ الحاکم ، المستدرک٤ج، دارالمعرفة، بیروت، (بی تا)؛
ھاشمی ، محمد بن سعد بن منیع(المعروف بابن سعد)، الطبقات الکبری ٩ج، دارالکتب العلمیة، بیروت، ١٩٩١م؛
ھیتمی ، ابن حجر، الصواعق المحرقة(علی اھل الرفض والضلال، الزندقة)٢ج، البیھقی ، مؤسة الرسالة، بیروت ، ١٩٩٧م؛
ھیثمی، نورالدین علی بن ابی بکر المقصد العلی(فی زوائد ابی یعلی الموصلی)٤ج، دارالکتب العلمیة ، بیروت ، ١٩٩٣م؛
ھیثمی، نورالدین علی بن ابی بکر، مجمع الزوائدو منبع الفوائد، ١٠ج، دارالکتب العربیة، بیروت، (بی تا)؛
یبانی ،ابی بکر عمروبن ابی عاصم الضحاک بن مخلد، کتاب السنة، ٢ج، بہ قلم محمد ناصرالبانی، المکتب الاسلامی ، بیروت، ١٩٩٣م.

حوالہ جات
1: اسراء /٧١۔
2: المسند للامام احمد ،ج ١٣،ص ١٨٨؛مسند ابی یعلی الموصلی ،ج ١٣،ص ٣٦٦؛مسند ابی داؤدالطیالسی ،ج ص ٢٥٩؛مسند الشامیین ،ج ٢،ص ٤٣٨۔
3: صحیح ابن حبان ،ج ١٠،ص ٤٣٤؛ المقصد العلی ،ج ٢، ص ٣٨٩؛کتاب السنة ،ص ٤٨٩؛المعجم الاوسط،ج ٤،ص ٢٤٣؛ مجمع الزوائد ، ج ٥، ص ٢٢٤۔
4: جمع بین الصحیحین ،ج ٢،ص ٢٩٦،صحیح مسلم ،ج ٣،ص١٤٧٨؛جامع الاصول ،ج ٤،ص ٧٨؛مشکاة المصابیح ،ج ٢،ص ٣٣٤۔
5: بقرہ/٢٥٦۔
6: طبقات الکبری ،ج ٥،ص ١١٠،کنزالعمال ،ج ١،ص ١٠٣۔
7: مجمع الزوائد،ج ٥،ص ٢٢٣، البحرالز خار ،ج ٩، ص ٢٧٢؛المطالب العالیہ ج ٢،ص ٢٢٨۔
8: الجامع لأحكام القرآن، ج‏5، ص 259.
9: شرح المقاصد،ج ٥، ص ٢٣٩، تشریع و محاکمہ تاریخ آل محمد ،ص ١٤٠؛ ینابیع المودة ،ص ٤٨٣۔
10: المسند للامام احمد،ج ١٣،ص ١٨٨۔
11: صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان ،ج ١٠،ص ٤٣٤۔
12: تشریع و محاکمہ در تاریخ ال محمد ،ص ١٤٠۔
13: شرح نھج البلاغہ ،ج ١٣،ص ٢٤٢۔
14: المستدرک ،ج ٤،ص ٧٦،الفرق بین الفرق،ص ٣٠٨۔
15: نظم المتناثر ،ص ١٧٥،ارواء الغلیل ،ج ٢، ص ٢٨٩؛
16: تحفة الاشراف ،ج ٦، ص ٣٩، صحیح مسلم ،ج ١٢،ص ٤٣؛فیض القدیر، ج ٢،ص ٥٨٢۔
17: شرح صحیح البخاری ،ج ٨،ص ٢١١۔
18: الاحکام السطانیة ،ص ٢٤،الفرق بین الفرق ،ص ٣٠٨۔
19: مجمع الزوائد، ج ٥ ، ص ١٩٨۔
20: صحیح مسلم ،ج ١٢،ص ٤٧٤۔
21:نگارنده،نقداحادیث مهدویت ازدیدگاه اهل سنت،ص16.
22: المھدی الموعود المنتظر،ج١،ص١٨٢.
23: وفیات الاعیان ،ج ٣،ص 361.
24: اوخواھد آمد ،ص 61.
25: حوالہ سابق.
26: ینابیع المودة،ص٤٥١.
27: الفصول المھمہ،ص ٢٨٢.
28: اوخواھد آمد،ص 61.
29: الائمة الاثناعشر ،ص ١١٧.
30: الیواقیت والجواھرفی بیان عقائدالا کابر،ج ٢،ص 562.
31: الصواعق المحرقہ، ج٢،ص 601
32: اوخواھد آمد،ص 61.
33: اخبارالدول، ج ا،ص ٣٥٣۔
34: اوخواھد آمد ص61.
35: لوائع الانوار ،ص ٩.
36: نورالا بصار ،ص ٢٥٧.
37: ینابیع المودة،ص ٤٧٠
38: مشارق الانوار،ص ٦٠.
39: العطر الوردی، ص ٤٩،بہ نقل از اوخواہد آمد ،ص 62.
40: تشریع و محاکمہ در تاریخ آل محمد ،ص ١٣٨.
41: الاعلام ،ج ٦، ص ٨٠.
42: اصالة المھدویه فی الاسلام ،ص82-99.
43: البیان،ص ١٤٨.
44: تشریع ومحاکمہ در تاریخ ال محمد،ص ١٣٨،١٣٩.
45: فتح الباری ،ج ٦،ص ٦١١۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *