تازہ ترین

حضرت فاطمہ ؑ  رسول کے لئے ایک مشیر اور تیماردار کی طرح تھیں، رہبر معظم

سوال:یونیورسٹی کی طالبات کے لحاظ سے ہم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی زندگی کو اپنے لئے کیسے عملی نمونہ بناسکتی ہیں؟ آپ کی جوانی میں آپ کے آئیڈیل کون تھے؟

جواب: اچھا سوال ہے۔ سب سے پہلے تو میں یہ عرض کردوں کہ آئیڈیل خود ڈھونڈنا چاہئے، کسی دوسرےے کا بنایا ہوا آئیڈیل سب کیلئے آئیڈیل نہیں بن سکتا۔ یعنی ہمیں چاہئے کہ اپنے نظریات کے افق پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ وہاں موجود چہروں میں سے کون ہمیں زیادہ اچھا لگتا ہے وہی ہمارا آئیڈیل ببن جائےے گا۔ میرا عقیدہ ہے کہ مسلمان جوان کیلئےے خاص طور پر اس جوان کیلئے جو ائمہ علیھم السلام ، اہلبیت اور آغاز اسلام کے مسلمانوں سے پوری طرح آشنا ہے آئیڈیل تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے اور اس کیلئےے آئیڈیل شخصیات کی کمی بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ نے حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کا ذکر کیا۔ تو میں چند جملے آپ ؑ کی شخصیت کے سلسلے میں عرض کرتا ہوں۔ شاید دوسرےائمہ ؑ اور بزرگوں کے حوالے سے بھی یہ آپ کے سوچنے میں مدد دے سکیں۔

شئیر
61 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4325

آپ ایک ایسی لڑکی ہیں جو سائنس، صنعت، ٹیکنالوجی اور مادی تمدن کے ایک عظیم دور میں زندگی گزار رہی ہیں۔ آپ چودہ سو سال پہلے گزرنے والی ایک شخصیت سے توقع رکھتی ہیں کہ اپنے جیسی زندگی میں اس شخصیت کی تقلید کریں؟ مثلا دیکھیں کہ وہ یونیورسٹی کیسےے جاتی تھیں؟ یا جب عالمی سیاسی مسائل کے بارےے میں سوچتی تھیں تو کیسے سوچتی تھیں، ہرگز ایسا نہیں ہے۔

ہر انسان کی شخصیت میں کچھ اصلی خصوصیات ہوتے ہیں، ان کی شناخت ضروری ہے اور اپنے آئیڈیل میں انہیں خصوصیات کو تلاش کرنا چاہئے۔ مثلا آپ فرض کریں کہ آپ کو سمجھنا ہے کہ ارد گرد پیدا ہونے والے واقعات سے آپ کو کیسے نمٹنا ہےاب یا تو یہ واقعات اس دور کے ہیں جب کہ کمپیوٹر، جیٹ جہاز، ٹرین اور میٹرو کا دور ہے اور یا پھر اس دور کے ہیں جب یہ تمام چیزیں موجود نہیں ہیں لیکن بہر حال اردگرد واقعات تو موجود ہیں ۔ اب اس جگہ پر انسان دو طرح کے حالات سے نمٹتا ہے۔ ایک ذمہ دارانہ طریقہ ہے اور دوسرا غیر ذمہدارانہ۔ ذمہ دارانہ طریقے کی بھی کئی قسمیں ہیں، کس طرح کا محرک ہے؟ کس نقطہ نظر سے کام کو انجام دینا ہے؟ وغیرہ وغیرہ

تو انسان کو چاہئے کہ اس لحاظ سے ان اصلی خصوصیات میں اپنے آئیڈیل کو تلاش کرے اور اس کی پیروی کرے۔

حضرت فاطمہ ؑ کی عمر اس وقت چھ یا سات سال تھی جب شعب ابی طالب کا واقعہ پیش آیا۔ اسلام کے آغاز میں یہ انتہائی مشکل دور تھا۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے کھلم کھلا اسلام کی دعوت دینا شروع کردی تھی۔ مکہ کے لوگ، خاص طور پر جوان اور غلام حضور سے متصل ہورہے تھے۔ عرب کے ابلیس صفت بزرگ مثلا ابو لہب، ابوجہل اور کچھ دوسررے حضرات دیکھتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ سے نکال دیں اور انہوں نے یایسا ہی کیا۔ یہ دسیوں خاندان تھے جس میں پیغمبر کے رشتہ دار اور حضرت ابو طالب شامل تھے۔ باوجود اس کے حضرت ابوطالب ایک بڑی شخصیت تھے آپ کو بھی باہر نکال دیاگیا۔ اب جبکہ مکہ سے نکالے گئے تو کہاں جائیں؟

حضرت ابوطالب کی مکہ کے نزدیک فرض کیجئے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک تھوڑی سی زمین ہے اس کا نام شعب ابیطالب ہے۔۔ یعنی حضرت ابوطالب کی ملکیت کی ایک گھاٹی۔ آپ نے سوچا کہ وہاں پر چلا جائے اب آپ خود سوچئے کہ مکہ میں جہاں دن کو موسم بہت ہی گرم اور رات کو بے حد سرد ہوجاتا ہے۔ یہ لوگ تین سال تک اس بنجر جگہ پر زندگی گزارتےے ہیں۔ کس قدر بھوک، رنج اور مشکلات کا سامنا کیا ہوگا خدا ہی جانتا ہے۔ پیغمبر کی زنگی کا ایک سخت ترین دور وہاں گزرے۔ اس زمانے میں آپ کی قیادت کا مطلب صرف چند لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھنا نہیں تھا بلکہ یہ لوگ جو مصیبت میں گرفتار ہوئے ہیں ان کا دفاع کرنا بھی تھا۔

آپ جانتےہے ہیں کہ جب حالات اچھے ہوں تو ایک راہنما کے گرد جمع ہونے واالے سب لوگ اس سے خوش ہوتے ہیں، اسے دل سے دعائیں دیتے ہیں کہ اس کی وجہ سے آج ہم اتنی اچھی زندگی گزار رہے ہیں لیکن جب حالات بدل جائیں اور برے دن آجائیںتو سب لوگ شکوک و شبھات کا شکار ہوجاتے ہیں اور سوچنے لگتے ہیں کہ اس کی وجہ سے آج ہماری یہ حالت ہوگئی ہے۔ اگرچہ مضبوط ایمان والے لوگ ثابت قدم رہتے ہیں تاہم ان تمام مشکلات کا بوچھ رسول کا کاندھوں پر تھا۔ اسی اثنا میں حضرت ابوطالب بھی وفات پاجاتےے ہیں۔

حضرت ابوطالب نبی کے بہت بڑے حامی تھے۔ دوسری طرف حضرت خدیجہ جو نبی ﷺ کے لئے ایک بڑی دلاسا دینے والیی تھیں ایک ہفتہ کے اندر دنیا سے چل بسیں۔ اس سانحہ کے بعد نبی ﷺ تنہا رہ گئے۔

مجھے نہیں معلوم آپ کے کندھوں پر کبھی کچھ لوگوں کی ذمہ داری رہی ہے یا نہیں کہ آپ کو اندازہ ہوا ہو کہ ذمہ داری اور مسئولیت کیا چیز ہوتی ہے۔ واقعی ایسے وقت میں انسان پریشان ہوکر رہ جاتا ہے۔ اب ان حالات میں حضرت فاطمہ زہرا ؑ کا کردار ملاحظہ کیجئے۔ جب انسان تاریخ کا مطالعہ کرے تو اس طرح کی ضمنی چیزوں پر بھی توجہ رکھنی چاہئے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تاریخ میں عام طور پر ان چیزوں کو نظر انداز کیاگیا ہے۔

حضرت فاطمہ ؑ ایک ماں کی طرح نبی ﷺ کے ہمراہ رہیں۔ رسول کے لئے ایک مشیر اور تیماردار کی طرح تھیں۔ اسی لئے پیغمبر ﷺ نے فرمایا تھا”فاطمہ سلام اللہ علیھا ام ابیھا” ہیں۔ ام ابیھا یعنی اس وقت کہ جب آپ کی عمر صرف چھ سات سال تھی۔ اگرچہ عرب کے ماحول میں اور گرم علاقوں میں لڑکیاں جسمانی اور روحانی طور پر جلدی بڑی ہوجاتی ہیں، تقریبا ہمارےے ہاں کی دس بارہ سالہ لڑکی کی طرح۔

تو یہ جو احساس ذمہ داری ہمیں اس واقعہ میں نظر آتا ہے کہ کیا ایک جوان کے لئے عملی نمونہ اور آئیڈیل نہیں بن سکتا؟

تاکہ یہ نوجوان بھی اپنے اردگرد کے واقعات میں اپنی ذمہ داری کا احساس کر سکے۔ ایک نوجوان کے اندر فرحت و تازگی کی کیفیات کا عظیم سرمایہ جنم لیتا ہے اگر وہ اس کا صحیح استعمال کرے تو اپنے بوڑھے والدین کے دل سے تمام رنج و غم کو دور کر سکتاہے۔ ککیا یہ چیزیں ایک نوجوان کیلئے آئیڈیل نہیں بن سکتیں۔

دوسری مثال خانہ داری کی ہے۔ شاید کچھ لوگ سمجھیں کہ خانہ داری اور اچھی بیوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خاتون گھر میں اچھا کھانا پکائے اور گھر کو صاف ستھرا رکھے۔ نہیں ، خانہ داری کا صرف یہ مطلب نہیں ہے۔ آپ دیکھئے حضرت فاطمہ ؑ کی خانہ داری کیسی تھی نبی ﷺ نے تقریبا دس سال مدینے میں گزارے ہیں اس زمانہ میں تقریبا نو سال حضرت علیی ؑ اور حضرت فاطمہ ؑ میاں بیوی تھے۔ اس دوران چھوٹی بڑی کئی جنگیں بھی پیش آئیں۔ تقریبا ساٹھ جنگیں لڑی گ۴یں اور تقریبا سبھی جنگوں میں حضرت علی ؑ شریک رہے اب دیکھئے حضرت فاطمہ ایک ایسی بیوی ہیں جن کے شوہر اکثر میدان جنگ میں ہیں۔ اگر آپ میدان جنگ میں نہ ہوں تو میدان جنگ خالی رہ جائے ، میدان جنگ کو اس قدر آپ کی ضرورت ہے۔ ادھر مادی لحاظ سے گھر کی وہ حالت ہے کہ جو آپ 

و یطعمون الطعام علی حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا، انما نطعمکم لوجہ اللہ

والی آیت میں سن چکے ہیں۔ یعنی محض مفلسیی کی زندگی ہے جبکہ آپ ایک پیغمبر ﷺ کی بیٹی، ایک راہنما کی بیٹی ہیں گویا اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس ہے۔

غور کیجئے! کہ اس کام کیلئے کتنےے مضبوط اعصاب اور حوصلہ کی ضرورت ہے کہ ایک خاتون شوہر کو جہاد کیئے بھیج سکے کہ اس کے دل کو گھرر بار اور بطوں کی طرف سے بالکل مطمئن کردے، اس کا حوصلہ بڑھائے، بطوں کی اتنی شاندار تربیت کرے اگرچہ اب آپ کہ سکتے ہیں کہ امام حسن ع اور امام حسین ؑ دونوں امام تھے، ان کے مزاج میں امامت کی صفات تھیں لیکن حضرت زینب ؑ تو امام نہ تھیں لیکن حضرت فاطمہ ؑ نے نو سال کی اسی مدت میں ان کی تربیت کی تھی کیونکہ اس کے بعد (پیغمبر ﷺ کی وفات) کے بعد آپ کی عمر بھی زیادہ عرصہ وفا نہ کی۔

اس طرح  کی خانہ داری اور سلیقہ مندی کہ تاریخ میں آپ ایک خاندان کی محور قرار پائیں۔ کیا یہ سب چیزیں ایک نوجوان لڑکی کیلئے ایک خانہ دار خاتون کیلئےے یا اس کیلئے جو جلد ہی خانہ داری کے امور سنبھالنے والی ہے، آئیڈیل نہیں بن سکتیں؟

پیغمبر ﷺ کی وفات کے بععد آپ ؑ کا مسجد میں آنا، وہ بے مثال خطبہ دینا، یہ سب حیران کن چیزیں ہیں۔ ہم لوگ جو کہ فی البدیہ مقرر ہیں اس خطبہ کی عظمت کو بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہییں۔ ایک اٹھارہ بیس سال یا زیادہ سے زیادہ چوبیس سال کی لڑکی ان تمام مشکلات اور مصائب کے باوجود مسجد تشریف لاتی ہیں، لوگوں کے بہت بڑے مجمع کے سامنے پردےے میں رہتے ہوئے تقریر کرتی ہیں، کہ آج بھی اس تقریر کا ایک ایک لفظ تاریخ میں باقی ہے۔

عرب حافظہ میں مشہور تھے۔ اییک شخص آتا ہے اسی شعروں پر مشتمل قصیدہ پڑھتا ہے محفل ختم ہونےے پر دس آدمی اسی قصیدے کو اپنے حافظے سے دوباررہ لکھتے ہیں یہ جو عربی کے قصیدےے باری رہ گئے ہیں ان میں سے اکثر اسی طرح سے رہے ہیں۔ خطبے اور حدیثیں بھی اس طرح باقی بچی ہیں یعنی لوگوں نے انہیں اپنے حافظہ کے بل پر لکھ لیا اور محفوظ کرلیا۔ خواہ مخواہ کی باتیں تاریخ میں رقم نہیں ہوجاتیں۔ ہر ایک بات کو تارییخ نہیں لکھتی۔ کئی اشعار کہے گئے کئی تقریریں ہوئیں لییکن سب کی سب باقی نہ رہیں۔ وہ چیز جو تاریخ میں باقی رہی اور چودہ سو سال بعد اس کی عثمت کے سامنے انسان سجدہ ریز ہے۔ یہ خطبہ ہے میرےے خیال میں ایک نوجوان لڑکی کیلئےے یہ چیزیں آئیڈیل ہونا چاہئیں۔

آپ بھی اپنی جگہ حق بجانب ہیں کیونکہ قصور ہم زمہ دار افراد کا ہے۔ دینی اور معنوی امور میں ابھی تک یہ چیزیں کما حقہ جوان نسل تک نہیں پہنچیں۔ تاہم آپ لوگ خود بھی اس سلسلہ میں کام کر سکتے ہیں۔آئمہ ؑ کی تمام زندگی میں اسی قسم کی چیزیں موجود ہیں۔

امام محمد تقی ع کی زندگی بھی آئیڈیل ہے۔ اتنی عظمت والے امام کا انتقال صرف 25 برس کی عمر میں ہوگیا۔ یہ ہم نہیں کہتےے بلکہ تاریخ کہتی ہے۔ وہ تاریخ جسےے غیر شیعہ لوگوں نے لکھا ہے۔ آپ نے اپنے بچپن اور نوجوانی ہی سے لوگوں اور بادشاہت وقت مامون کی آنکھوں میں ایک خاص عظمت حاصل کرلی تھی۔ یہ چیز ہمارے لئے آئیڈیل بن سکتی ہے۔

تاہم اپنے زمانے میں بھی ہمیں آئیڈیل مل سکتے ہیں۔ امام خمینی ایک آئیڈیل تحے ہمارے یہ بسیجی نوجوان آئیڈیل ہیں جو شہید ہوگئے وہ بھی اور جو زندہ ہیں وہ بھی اگرچہ انسان کی فطرت اس طرح ہے کہ گزرجانے والے لوگوں اور شہیدوں کے بارے میں آسانی سے گفتگو کرسکتا ہے۔ آپ دیکھئے کہ کس طرح کے آئیڈیل آپ کو مل  سکتے ہیں۔ جنگ کے زمانے میں  ہم نے دیکھا کہ یہ نوجوان بسی جی اپنے شہر یا گاوں سےاٹھ کر آتے، ظاہرا عام آدمی نظر آتے تھے جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا کہ شہنشاہی حکومت نے صلاحیتوں کی پرورش کا دروازہ بند کر رکھا تھا۔ یہ لوگ شہنشاہی حکومت کے تحت ایک عام آدمی نظر آتے تھے لیکن جب موجودہ حکومت نے کے تحت میدان جنگ میں آتے تو ایک دم ان کی مخفی صلاحیتیں اجاگر ہوجاتیں۔ ایک بڑے کمانڈر بن جاتے اور پھر شہادت کا اعزاز پاکر رخصت ہوجاتے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔

چند سال پہلے ان کی زندگی کے واقعات پر مشتمل کچھ کتابچے شائع ہوئے تھے۔ “میرا کمانڈر” کے نام سے نوجوانوں کی یادداشت پر مشتمل کچھ واقعات لکھے گئے تھے، جس میں انہوں نے اپنے کمانڈر کا ذکر کیاتھا یہ واقعات ان کمانڈروں کی عظمت بیان کرتے ہیں اور ایک انسان کیلئے آئیڈیل بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری عملی شخصیات، ہماری ادبی شخصیات، ہمارے کھلاڑی، ہمارے فنکار اور دیگر ممتاز شخصیتیں بھی ایک لحاظ سے آئیڈیل بن سکتی ہیں۔

انسان اپنے آئیڈیل کو اپنے معیار کے مطابق انتخاب کرتا ہے آپ سے میری گزارش ہے کہ آپ بھی آئیڈیل کا انتخاب کرنا چاہیں تو معیار اس “تقوی” کو قرار دیں جس کی ہم نے ابھی مفصل تعریف کی ہے۔ اس چیز پر ضرور غور کریں۔ یہ “تقوی” کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے نظر انداز کیا جاسکے۔ دنیوی زندگی کیلئے بھی اس تقوی کی ضرورت ہے اور اخروی زندگی کیلئے بھی یہ تقوی ضروری ہے۔

اب یہ سوال کہ وہ کونسی شخصیات تھیں جنہوں نے مجھے متاثر کیا تو جواب یہ ہے کہ بہت سی شخصیات تھیں جوانی میں جس شخصیت مجھے متاثر کیا ان میں سب سے پہلے شہید نواب صفوی ہیں جب نواب صفوی مشہد آئے تو میری عمر پندرہ سال تھی۔ مشہد سے ان کے چلے جانے کے چند ماہ بعد انہیں بری طرح سے شہید کردیاگیا اس چیز نے بھی ہمیں بہت زیادہ متاثر کیا۔ اس کے بعد امام خمینی کی شخصیت ہے جس نے مجھے متاثرکیا۔ قم آنے سے پہلے اور جہادی کاروائیوں سے پہلے ہی میں نے امام خمینی کا نام سن رکھا تھا اور آپ کی زیارت کرنے سے پہلے ہی میں آپ کا ارادتمند تھا، حوزہ علمیہ قم میں تمام نوجوان آپ کے درس کو بہت پسند کرتے تھے۔ میں بھی جب قم گیا تو بلا تردید آپ کے درس میں شریک ہونے لگا۔ شروع سے آخر تک جب تک قم میں رہا۔ آپ کے درس میں ہمیشہ حاضر ہوتا رہا۔ امام خمینی کی شخصیت نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ اس کے علاوہ میرے والد محترم اور میری والدہ محترمہ نے مجھے کافی متاثر کیا۔ جن شخصیات نے مجھ پر گہرے اثرات چھوڑے ان میں سے ایک میری والدہ محترمہ بھی ہیں جو کہ ایک بہت ہی موثر خاتون تھیں۔

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *