تازہ ترین

حیات طیبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا

آپ بیس جمادی الثانی روز جمعہ بعثت کے بعد پانچویں سال میں پیدا ہو ئی ہیں کہ یہی نظر یہ تشیع کے علماء متقد مین کے نزدیک معروف اور مشہور ہے
شئیر
41 بازدید
مطالب کا کوڈ: 5666

ولادت نور
آپ کی پیدائش بعثت کے پانچویں سال میں ۲۰/ جمادی الثانی کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور والدہ جناب خدیجة الکبریٰ ہیں ۔ جناب خدیجہ وہ خاتون ہیں پیغمبر اسلام پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور پوری زندگی آپ کا دفاع کرتی رہیں۔
حضرت زہرا سلام الله علیہا کو نور کیوں کہا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی امالی میں یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: کہ جب مجھے معراج ہوئی تو جبرئیل امین میرا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے گئے اورمجھے جنت کی ایک کجور پیش کی ، میں نے اسے کھایا اور وہ میرے سلب میں پہونچ کر نطفہ میں تبدیل ہوگیا ۔ اسی سے فاطمہ زہرا وجود میں آئیں۔ لہٰذا فاطمہ جنتی نور ہیں ، میں جب جنت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ کو سونگھ لیتا ہوں۔
ہاں! سب سے پہلے یہ نور حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے وجود میں رہا اور بعد میں حضرت زہرا سلام الله علیہا کی طرف منتقل ہوگیا۔
جب حضرت زہرا سلام الله علیہا کا نور اس دنیا میں آیا تو پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا دل شاد ہوگیا ۔ پیغمبر اسلام (ص) جانتے تھے کہ میری نسل فقط فاطمہ کے ذریعہ ہی آگے بڑھے گی اس لئے وہ ان سے بیحد محبت کرتے تھے اور احتراماً آپ کو ”ام ابیہا“ کہہ کر خطاب فرماتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ” فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے اذیت پہونچائی ۔ “ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا روز کامعمول تھا ک جب نماز صبح کے لئے تشریف لے جاتے تھے تو حضرت زہرا سلام الله علیہا کے دروازے کی چوکھٹ کو پکڑ کر فرماتے تھے: ”السلام علیک یا اہل بیت النبوة، انما یرید الله لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیرا۔
جس طرح دوسرے معصومین علیہم السلام کی تاریخ ولادت کے بارے میں اختلاف ہے اسی طرح حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی تاریخ ولادت کے بارے میں بھی اختلاف واقع ہوا ہے لہٰذا علماء اور محققین آپ کی تاریخ تو لد تعین کر نے سے عاجز رہے ہیں کیو نکہ آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں محققین نے کئی نظریات ذکر کئے ہیں کہ ان نظریات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ بیس جمادی الثانی روز جمعہ بعثت کے بعد پانچویں سال میں پیدا ہو ئی ہیں کہ یہی نظر یہ تشیع کے علماء متقد مین کے نزدیک معروف اور مشہور ہے اور اس نظریہ کے قائلین افراد ذیل ہیں :
١۔جناب کلینی نے اصول کا فی کے جلد اول صفحہ ٤٥٨ میں۔
٢۔ جناب طبرسی نے کتاب الا علام میں۔
٣۔ جناب طبری نے اپنی گر ان بہا کتاب دلائل الا مامة کے صفحہ ١٠ میں ۔
٤۔جناب مجلسی نے بحار الانوار جلد ٤٣میں۔
٥۔ جناب ابن شہر آشوب نے جلد ٣ میں ۔
٦۔جناب محدث قمی نے منتہی الامال کی جلد اول میں۔
٧۔ جناب محمد تقی صاحب ناسخ التواریخ نے ناسخ التواریخ میں۔
٨۔ جناب علی ابن عیسیٰ نے کشف الغمہ کے جلد دوم میں۔
٩۔فیض کا شانی وافی میں ۔
اور دیگر کچھ علماء نے بھی اس نظر یے کو قبول کیا ہے۔ ( کافی جلد ١ صفحہ ٤٥٨، دلائل الامامة ص١٠، منتہی الآمال جلد ١صفحہ١٠ وغیرہ)
اور اس نظر یہ پر کئی روایات بھی برہان اوردلیل کے طور پر نقل کی ہیں کہ ان میں سے ایک ابو بصیر کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا بیس (٢٠) جمادی الثا نی کو دنیا میں تشریف لائیں جبکہ اس وقت پیغمبر اکرم ۖ کی عمرپیتالیس سال تھی اور تولد کے بعد آٹھ سال تک پیغمبر اکرم کے سا تھ مکہ میں رہیں دس سال باپ کے ساتھ مدینہ میں زندگی گزاری باپ کے بعد ٧٥ دن زندہ رہیں اور تین جمادی الثانی سن گیارہ ہجری کو شہادت پائی۔ (جناب طبری ۔)
ہم زیارت جامعہ کبیرہ میں پڑھتے ہیں کہ الله نے آپ کے نور کو خلق کیا اور اسے اپنے عرش کی زینت بنایا ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا نور بلند مرتبہ مردوں کی سلبوں اور پاکیزہ عورتوں کے رحموں میں رہا۔
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا وہ عظیم خاتون ہیں جن کی حقیقی معرفت معصومین کے پاس ہے جس کا حصول فقط قرآنی آیات اور احادیث معصومین کے سایہ میں ہی ممکن ہے ۔ لہذا ایسی شخصیت کی حقیقی معرفت کا دعویٰ فقط انسان کامل ہی کر سکتا ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) عالم اسلام کی ایسی با عظمت خاتون ہیں جن کی فضیلت زندگی کے ہر شعبے میں آشکار ہے اور عظمتوں کے اس سمندر کی فضلیتوں کو قرآنی آیات اور معصومین (ع) کی روایات میں بار ہا ذکر کیا گیا ہے ۔
حضرت زہرا (س) کے فضائل کے بیان میں بہت زیادہ روایتیں وارد ہوئی ہیں لیکن ہم فقط ان احادیث کو بیان کریں گے جو قرآنی آیات کی تفسیر کے طور پر وارد ہوئی ہیں یا آیت کے شان نزول کو بیان کرتی ہیں
جب کہ یہ روایات فقط فضائل کے چند گوشوں کو بیان کرتی ہیں ۔
تفسیر فرات کوفی میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ “انا انزلناہ فی لیلۃ القدر” میں “لیلۃ” سے مراد فاطمہ زہرا (س) کی ذات گرامی ہے اور “القدر” ذات خداوند متعال کی طرف اشارہ ہے ۔لہذا جسے بھی فاطمہ زہرا (س) کا حقیقی عرفان حاصل ہو گیا اس نے لیلۃ القدر کو درک کر لیا ، آپ کو فاطمہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لوگ آپ کی معرفت سے عاجز ہیں۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا علمائے اھل سنت کی نطر میں
جگرگوشہ رسول ، شہزادی دو عالم ، فخر نسواں ،سردار خواتین دو جہاں ،بنت سردار انبیاء بتول ،عذرا جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا عظیم المرتبت بی بی کے بار ے میں جہاں علمائے تشیع نے اپنے اپنے قلم سے اپنی کتابوں میں قلم فرسائی کی ہے وہیں علمائے اہل سنت نے بھی حقیقت گوئی سے کام لیا ہے یہ الگ بات ہے کہ کچھ افراد جو ‘صم بکم عمی ‘کے مصداق ہیں انہوں نے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ خیر ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں اس لیے کہ سورج کے سامنے پردہ حائل کرنے سے اس کی روشنی نہیں چھپتی ۔
ہم یہاں انہیں علمائے اہل سنت کی کتابوں سے کچھ اقتباس حضرت زہرا کے سلسلہ سے قارئین کی خدمت میں اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
احمد ابن حنبل
اہلِ سنت کے چار مشہور ترین اہلِ مذاہب میں سے ایک اور حدیث کے بہت بڑے امام احمد ابن حنبل نے اپنی مسند کی تیسری جلد میں اپنی خاص اسناد کے ذریعے سے خادم رسول ۖ مالک بن انس سے روایت کی ہے: رسول اسلام ۖ چھ ماہ تک ہر روز نماز صبح کے لئے جاتے ہوئے حضرت فاطمہ کے گھر کے پاس سے گزرتے اور فرماتے: نماز! نماز!اے اہلِ بیت! اس کے بعد آپ پھر اس آیت کی تلاوت فرماتے اِنما یرِید اﷲ لِیذهب عَنکم الرِجسَ اھل البیت و یطهرکم تطهِیرا
اے اہلبیت!اللہ کا تو بس یہی ارادہ ہے کہ تمھیں ہر ناپاکی سے دور رکھے اور تمھیں خوب پاک و پاکیزہ رکھے۔
بخاری
حدیث کے معروف امام ابو عبداللہ محمد اسماعیل بخاری اپنی صحیح کے باب فضائل صحابہ میں اپنی اسناد سے نقل کرتے ہیں کہ رسولِ اسلام نے فرمایا: فاطمہ میرا پارۂ تن ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔
امام بخاری نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر رسول اللہ کا یہ فرمان نقل کیا ہے: فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اسے غضبناک کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (ج٦) پانچویں جلد میں انھوں نے آنحضرت کا یہ فرمان بھی نقل کیا ہے: الفاطمة سیدة نساء اھلِ الجنة’ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
مسلم بن حجاج
صحاح ستہ میں سے دوسری اہم کتاب صحیح مسلم سمجھی جاتی ہے۔ امام مسلم بن حجاج اپنی اس صحیح میں کہتے ہیں:
فاطمہ رسول کے جسم کا ٹکڑا ہے ،جو انھیں رنجیدہ کرتا ہے وہ رسول اللہۖ کو رنجیدہ کرتا ہے اور جو انھیں خوش کرتا ہے وہ رسول اللہ کو خوش کرتا ہے۔
ترمذی
امام ترمذی کی سنن بھی صحاح ستہ میں شامل ہے۔ وہ نقل کرتے ہیں: حضرت عائشہ سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سے رسول اللہ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ انھوں نے جواب دیا: فاطمہ۔ پھرپوچھا گیا: مردوں میں سے؟ کہنے لگیں: ان کے شوہر علی۔
خطیب بغدادی
احمد بن علی المعروف خطیب بغدادی پانچویں صدی کے مورخ اور محقق ہیں۔ تاریخ بغداد اور مدینة الاسلام ان کی مشہور کتاب ہے۔ اس میں وہ حسین بن معاذ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی اسناد کے ذریعے حضرت عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام نے فرمایا: روز محشر برپا ہوگا کہ ایک آواز آئے گی: اے لوگو!اپنی نظریں نیچی کرلو تاکہ فاطمہ بنت محمد گزرجائیں۔ ایک اور روایت میں وہ نقل کرتے ہیں: ایک پکارنے والا روز محشر ندا دے گا: اپنی آنکھوں کو بند لو تاکہ فاطمہ بنت محمد گزر جائیں۔
علامہ قندوزی
علامہ سلیمان قندوزی اپنی کتاب ینا بیع المودة میں اپنی اسناد سے انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں: نماز فجر کے وقت ہر روز رسول اللہ حضرت فاطمہ کے گھر کے دروازے پر آتے اور گھروالوں کو نماز کے لئے پکارتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے:
اِنما یرِید اﷲ لِیذهب عَنکم الرِجسَ اھل البیت و یطهرکم تطهِیرا
اور یہ سلسلہ نو ماہ تک جاری رہا۔ (سطور بالا میں مذکور ایک روایت میں چھ ماہ آیا ہے)۔ علامہ قندوزی یہ روایت درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں: یہ خبر تین سو صحابہ سے روایت ہوئی ہے۔
ابو داود
ابو داؤد سلیمان بن طیالسی کی کتاب حدیث کی قدیم اور اہم ترین کتابوںمیں سے شمار ہوتی ہے۔ وہ نقل کرتے ہیں: علی ابن ابی طالب نے فرمایا: کیا تم نہیں چاہتے کہ میں اپنے بارے میں اور فاطمہ بنتِ رسول کے بارے میں کچھ کہوں؟پھر حضرت علی فرمانے لگے:وہ اگرچہ رسول اللہ کو سب سے زیادہ عزیز تھیں تاہم میرے گھر میں چکی زیادہ پیسنے کی وجہ سے ان کا ہاتھ زخمی ہوگیا تھا ، پانی زیادہ اٹھانے کی وجہ سے آپ کے کندھے پر بھی ورم آگیا تھا اور جھاڑو دینے اور گھر کی صفائی کی وجہ سے ان کا لباس بوسیدہ ہوگیا تھا۔ ہم نے سنا کہ رسول اللہ ۖکے پاس کچھ خادمائیں ہیں۔ فاطمہ اپنے بابا جان کے پاس گئیں تاکہ ان سے کچھ مدد طلب کریں اورآنحضرت سے گھرمیں مدد کے لئے کوئی خادمہ مانگ لیں لیکن جب اپنے بابا جان کے پاس پہنچیں تو انھوں نے وہاں چند جوانوں کو دیکھا۔ انھیں بہت حیا آئی کہ اپنی درخواست بیان کریں۔ وہ کچھ کہے بغیر لوٹ آئیں۔ (سنن ابی داد ، ج ٢)
حاکم نیشاپوری
مستدرک علی الصحیحین امام حاکم نیشاپوری کی مشہور کتاب ہے۔ وہ اس میں نقل کرتے ہیں: رسول اللہ نے اپنے مرض موت میں حضرت فاطمہ سے فرمایا: بیٹی!کیا تم نہیں چاہتی کہ امت اسلام اور تمام عالم کی عورتوں کی سردار بنو؟
فخررازی
امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیرکبیر میں سورہ کوثر کے ذیل میں اس سورہ مبارکہ کے بارے میں متعدد وجوہ بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کوثر سے مراد آل رسول ہے۔ وہ کہتے ہیں: یہ سورت رسول اسلام کے دشمنوں کے طعن وعیب جوئی کو رد کرنے کے لئے نازل ہوئی۔ وہ آپ کو ابتر یعنی بے اولاد، جس کی یاد باقی نہ رہے اور مقطوع النسل کوکہتے تھے۔ اس سورت کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت کو ایسی بابرکت نسل عطا کرے گا کہ زمانے گزر جائیں گے لیکن وہ باقی رہے گی۔ دیکھیں کہ خاندان اہل بیت میں سے کس قدر افراد قتل ہوئے ہیں لیکن پھر بھی دنیا خاندانِ رسالت اورآپ کی اولاد سے بھری ہوئی ہے جبکہ بنی امیہ کی تعداد کتنی زیادہ تھی لیکن آج ان میں سے کوئی قابل ذکر شخص وجود نہیں رکھتا۔ ادھر ان (اولاد رسول)کی طرف دیکھیں باقر، صادق، کاظم، رضا وغیرہ جیسے کیسے کیسے اہل علم ودانش خاندان رسالت میں باقی ہیں ۔ (تفسیر فخرالدین رازی، ج ٢٣،ص ٤٤١مطبعہ بہیہ، مصر)
ابن ابی الحدید
عبدالحمید ابن ابی الحدید معروف معتزلی عالم اور نہج البلاغہ کے شارح ہیں ، وہ لکھتے ہیں: رسول اللہ لوگوں کے گمان سے زیادہ اور لوگ اپنی بیٹیوں کا جتنا احترام کرتے تھے اس سے زیادہ حضرت فاطمہ کی عزت کرتے تھے، یہاں تک کہ آباکو اپنی اولاد سے جو محبت ہوتی ہے رسول اللہ کی حضرت فاطمہ سے محبت اس سے کہیں زیادہ تھی۔ آپ نے ایک مرتبہ نہیں بلکہ بار بار، مختلف مقامات پر اور مختلف الفاظ میں، عام و خاص کی موجودگی میں فرمایا:
اِنها سیدة نِسائِ العالمِین و اِنها عدیل مریم بنت عمران وانها اذامرت فی الموقف نادی مناد من جهة العرش: یا اھل الموقف غضوا ابصارکم لتعبر فاطمة بنت محمد.
فاطمہ عالمین کی عورتوںکی سردار ہیں۔ وہ مریم بنت عمران کا درجہ رکھتی ہیں، وہ جب میدان حشرمیں سے گزریں گی تو عرش سے ایک منادی کی آواز بلند ہوگی: اے اہل محشر! اپنی آنکھیں نیچی کرلو تاکہ فاطمہ بنت محمد گزرجائیں۔
ابن صباغ مالکی
نامور عالم ابن صباغ مالکی کہتے ہیں:ہم آپ کی چند اہم خصوصیات ، نسبی شرافت اور ذاتی خوبیاں بیان کرتے ہیں: فاطمہ زہرا اس ہستی کی بیٹی ہیں جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: (سبحان الذی اسری بعبدہ)پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گئی۔ آپ بہترین انسان کی بیٹی ہیں اور پاک زاد ہیں ۔عمیق نظر رکھنے والے علماکا اس پراجماع اور اتفاق ہے کہ آپ عظیم خاتون ہیں۔ ( الفصول المہمہ، طبع بیروت ،ص٣٤١٢)
حافظ ابونعیم اصفہانی
حلیةالاولیاکے مصنف معروف عالم حافظ ابونعیم اصفہانی لکھتے ہیں: حضرت فاطمہ برگزیدہ نیکوکاروں اور منتخب پرہیزگاروں میں سے ہیں۔ آپ سیدہ بتول، بضعتِ رسول اور اولاد میں سے آنحضرت کو سب سے زیادہ محبوب اور آنحضرت کی رحلت کے بعد آپ کے خاندان میں سے آپ سے جاملنے والی پہلی شخصیت ہیں۔ آپ دنیا اور اس کی چیزوں سے بے نیاز تھیں۔ آپ دنیا کی پیچیدہ آفات وبلایا کے اسرارور موز سے آگاہ تھیں۔ (حلیة الاولیاطبع بیروت ج٢ ،ص٩٣١)
توفیق ابوعلم
استاد توفیق ابو علم مصر کے معاصر علمامحققین میں سے ہیں۔ انھوں نے الفاطمةالزہرا کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:فاطمہ اسلام کی تاریخ ساز شخصیتوں میں سے ہیں۔ ان کی عظمت شان اور بلند مرتبہ کے بارے میں یہی کافی ہے کہ وہ پیغمبراعظمۖ کی تنہا دختر ،امام علی ابن ابی طالب کی شریک حیات اور حسن وحسین کی والدہ ہیں۔ درحقیقت رسول اللہۖ کے لئے راحت جاں اور دل کا سرور تھیں۔ زہرا وہی خاتون ہیں کہ کروڑوں انسانوں کے دل جن کی طرف جھکتے ہیں اور جن کا نام گرامی زبان پر رہتا ہے۔ آپ وہی خاتون ہیں جنھیں آپ کے والد نے ام ابیہا کہا۔ عظمت واحترام کا جو تاج آپ کے والد نے اپنی بیٹی کے سرپررکھا ، ہم پر آپ کی تکریم کو واجب کردیتا ہے۔
آلوسی
آلوسی نے اپنی تفسیرروح المعانی جلد ٣ صفحہ١٣٨ پر سورہ آل عمران کی آیت ٤٢ کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ ‘اس آیت سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پر حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی برتری اور فضیلت ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ اس آیت میں ‘نسا العالمین’ سے مراد تمام زمانوں اور تمام ادوار کی خواتین مراد ہوں مگر چونکہ کہا گیا ہے کہ اس ایت میں مراد حضرت مریم کے زمانے کی عورتیں ہیں لہٰذا ثابت ہے کہ مریم علیہا السلام سیدہ فاطمہ صلواة اﷲ علیہاپر فضیلت نہیں رکھتیں’۔
آلوسی لکھتے ہیں: رسول اللہ ۖنے ارشاد فرمایا ہے: “اِن فاطمة البتول ا فضل النسا المتقدمات و المتخرات؛ فاطمه بتول صلواة اﷲ علیها تمام گذشتہ اور آئندہ عورتوں سے افضل ہیں”۔
آلوسی کے بقول “اس حدیث سے تمام عورتوں پر حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ سیدہ (صلواة اﷲ علیہا) رسول اللہۖکی روح و جان ہیں، چنانچہ سیدہ فاطمہ (صلواة اﷲ علیہا) عائشہ ام المومنین پر بھی برتری رکھتی ہیں”
السہیلی
السہیلی رسول اللہ ۖ کی معروف حدیث “فاطمة بضعة منی” کا حوالہ دیتے ہوئے کتاب روض الانف میں اس طرح رقم طراز ہیں لکھتے ہیں: “میری رائے میں کوئی بھی “بضعةا لرسولۖسے افضل و برتر نہیں ہو سکتا”۔ روض الانف صفحہ٢٧٩ (مکتب الکلیات الازہری مصر)
الزرقانی
الزرقانی لکھتے ہیں: جو رائے امام المقریزی، قطب الخضیری اور امام السیوطی نے واضح دلیلوں کی روشنی میں منتخب کی ہے یہ ہے کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا حضرت مریم (س)سمیت دنیا کی تمام عورتوں سے افضل و برتر ہیں۔ روض الانف جلد١ صفحہ١٧٨
السفراینی
تحریر کیا ہے: “فاطمہ ام المومنین خدیجہ (صلواة اﷲ علیہاپر)سے افضل ہیں، لفظ سیادت کی خاطر اور اسی طرح مریم (صلواة اﷲ علیہا)سے افضل و برتر ہیں۔ روض الانف جلد١ صفحہ١٧٨
ابن الجکنی
ابن الجکنی لکھتے ہیں: “صحیح تر قول کے مطابق فاطمہ سلام اللہ علیہا افضل النسا ہیں۔ روض الانف جلد١ صفحہ١٧٨
شیخ الرفاعی
الرفاعی کے اس قول کواسی کتاب میں ، اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ اسی قول کے مطابق متقدم اکابرین اور دنیا کے علما و دانشوروں نے صحیح قرار دیا ہے، فاطمہ تمام خواتین سے افضل ہیں۔
ڈاکٹر محمد سلیمان فرج
معروف عالم اہل سنت تحریر کرتے ہیں کہ فضیلت فاطمہ سید ة النساء العالمین کی فضیلت کو کوئی درک نہیں کر سکتا اس لئے کہ ان کا مقام بہت بلند اور انکی منزلت بہت عظیم ہے ،وہ رسول اسلام کا جز ء ہیں ،اسی وجہ سے بخاری نے آپ کے لئے روایت کی ہے کہ :پیامبر ۖ نے فرمایا فاطمہ میرا جزء ہے جس نے فاطمہ کو غضب ناک کیا اس نے مجھے غضب ناک کیا ۔ الاضواء فی مناقب الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنھا سید احمد سایح حسینی مقدمہ ص١
ابوبکر جابرجزایری
حضرت زہرا کے فضائل بہت زیادہ ہیں ،انہیں میں سے ایک علم حضرت زہرا ہے ،اور وہ کیوں عالمہ نہ ہوں جبکہ وہ اس رسول کی بیٹی ہیں جو شہر علم ہے،اور وہ رسول کا جزء ہیں ۔ العلم ولعلماء ،ابو بکر جابر جزائری ص٢٣٧
ڈاکٹر محمدطاہر القادری
مشہور و معروف سنی عالم دین ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی کتاب ‘الدر البیضاء فی مناقب فاطمة الزہرا’میں چار خواتین کی فضلیت سے متعلق احادیث کا حوالہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں: ‘احادیث میں کسی قسم کا تعارض (تصادم) نہیں ہے کیونکہ دیگر خواتین یعنی: مریم، آسیہ اور خدیجہ (صلواة اﷲ علیہاپر)، کی افضلیت کا تعلق ان کے اپنے زمانوں سے ہے یعنی وہ اپنے زمانوں کی عورتوں سے بہتر و برتر تھیں لیکن حضرت سیدہ عالمین (صلواة اﷲ علیہا)کی افضلیت عام اور مطلق ہے اور پورے عالم اور تمام زمانوں پر مشتمل (یعنی جہان شمول اور زمان شمول) ہے ۔
شاعر مشرق جناب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ کی شان میں اپنی شاعری زبان میں حیات طیبہ اور فضیلت پر شاعرانہ تعریف وتوصیف کی ہے جس سے یہ اندزہ ہوتا ہے علامہ اقبال بھی جناب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی دامن سے متوسل ہوتے تھے آئے ان کی شاعرانہ زبان میں حیات طیبہ پر نظر ڈالتے ہیں۔
شاعر مشرق جناب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال
مریم از یک نسبت عیسی عزیز از سه نسبت حضرت زهرا عزیز
مریم عیسی علیہ السلام کے حوالے سے ایک ہی نسبت سے بزرگ و عزیز ہیں؛ جبکہ حضرت زہرا تین نسبتوں سے بزرگ و عزیز ہیں۔
نو ر چشم رحم للعالمین آن امام اولین و آخرین
سیدہ رحمةللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نورچشم ہیں؛ جو اولین و آخرینِ عالم کے امام و رہبر ہیں۔
آن که جان در پیکر گیتی رسید روزگار تازہ آیین آفرید
وہی جنہوں نے گیتی (کائنات)کے پیکر میں روح پھونک دی؛ اور ایک تازہ دین سے معمور زمانے کی تخلیق فرمائی۔
بانوی آن تاجدار هل اتی مرتضی مشکل گشا شیر خدا
وہ “ہل اتی” کے تاجدار، مرتضی مشکل گشا، شیرخدا علیہ السلام کی زوج مکرمہ اور بانوئے معظمہ ہیں ۔
پادشاہ و کلبه ای ایوان او یک حسام و یک زرہ سامان او
علی علیہ السلام بادشاہ ہیں جن کا ایوان ایک جھونپڑی ہے اور ان کا پورا سامان ایک شمشیر اور ایک زرہ ہے۔
مادر آن مرکز پرگار عشق مادر آن کاروان سالار عشق
ماں ہیں ان کے جو عشق کا مرکزی نقطہ اور پرگار عشق ہیں اور وہ کاروان عشق کی سالار ۔
آن یکی شمع شبستان حرم حافظ جمعیت خیر الامم
وہ دوسرے (امام حسن مجتبی علیہ السلام)شبستان حرم کی شمع اور بہترین امت (امت مسلمہ)کے اجتماع و اتحاد کے حافظ ۔
تا نشینند آتش پیکار و کین پشت پا زد بر سر تاج و نگین
اس لئے کہ جنگ اور دشمنی کی آگ بجھ جائے آپ (امام حسن) (ع) نے حکومت کو لات مار کر ترک کردیا۔
و آن دگر مولای ابرار جهان قوت بازوی احرار جهان
اور وہ دوسرے (امام حسین علیہ السلام) ؛ دنیا کے نیک سیرت لوگوں کے مولا؛ اور دنیا کے حریت پسندوں کی قوت بازو ۔
در نوای زندگی سوز از حسین اهل حق حریت آموز از حسین
زندگی کی نوا میں سوز ہے تو حسین سے ہے اور اہل حق نے اگر حریت سیکھی ہے تو حسین سے سیکھی ہے
سیرت فرزندها از امهات جوهر صدق و صفا از امهات
فرزندوں کی سیرت اور روش زندگی ماں سے ورثے میں ملتی ہے؛ صدق و خلوص کا جوہر ماں سے ملتا ہے۔ بهر محتاجی دلش آن گونه سوخت با یهودی چادر خود را فروخت
ایک محتاج و مسکین کی حالت پر ان کو اس قدر ترس آیا کہ اپنی چادر یہودی کو بیچ ڈالی۔
مزرع تسلیم را حاصل بتول مادران را اسو ہ کامل بتول
تسلیم اور عبودیت کی کھیتی کا حاصل حضرت بتول سلام اللہ ہیں اور ماں کے لئے نمونہ کاملہ حضرت بتول (صلواة اﷲ علیہا)۔ لیات اقبال
حضرت مریم پر سیدہ فاطمہ سلام اللہ علہیا کی افضلیت سنی محدثین کی نگاہ میں
اس روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں:
یا فاطمة لا ترضین تکونی سیدة نساء العالمین و سیدة نساء هذه الامة و سیدة نسا المومنین؛
اے فاطمہ (س) !کیا آپ خوشنود نہیں ہونگی کہ دنیا کی خواتین کی سردار قرار پائیں اور اس امت کی خواتین کی سیدہ قرار پائیں اور با ایمان خواتین کی سیدہ قرار پائیں؟ المستدرک، ج٣ ، ص١٥٦
حاکم اور ذہبی دونوں اس روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ یہ روایت حضرت حوا ، ام البشر سے لے کر قیامت تک، دنیا کی تمام عورتوں پر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی افضلیت کی واضح ترین اور منھ بولتی دلیل ہے اور اس روایت نے ہر قسم کی نادرست تصورات کا امکان ختم کرکے رکھ دیا ہے۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سیدہ (صلوٰة اﷲ علیہا)سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: لا ترضین نک سید نسا العالمین”؛ کیا آپ خوشنود نہیں ہیں آپ عالمین کی خواتین کی سردار ہیں؟
سیدہ (صلوٰة اﷲ علیہا)نے عرض کیا:مریم کا کیا ہوگا؟فرمایا: تلک سیدة نسا عالمها ؛وہ اپنے زمانے کی خواتین کی سردار تھیں۔ حمد شوکانی، فتح القدیر،) بیروت: دار المعروف، ١٩٩٦م، ج١، ص٤٣٩۔
عبداللہ ابن عباس نے ایک طویل حدیث میں رسول اللہ ۖ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: میری بیٹی فاطمہ( صلوٰة اﷲ علیہا) بے شک اولین سے آخرین تک تمام عالمین کی خواتین کی سردار ہیں۔ ابراہیم جوینی، فرائد السمطین، ج٢، ص٣٥
نیز ایک طولانی حدیث کے ضمن میں پیغمبر خدا ۖنے فرمایا: ‘…چوتھی مرتبہ خدا نے نظر ڈالی اور فاطمہ (صلوٰة اﷲ علیہا)کو پورے عالم کی خواتین پر پسندیدہ اور افضل قرار دیا۔ سلیمان قندوزی، ینابیع المودة، ص٢٤٧، باب٥٦۔
ابن عباس پیغمبر خدا ۖسے روایت کرتے ہیں: “اربع نسوة سیدات عالمہن۔ مریم بنت عمران، و آسیہ بنت مزاحم، و خدیجہ بنت خویلد، و فاطمة بنت محمد و افضلہن عالِما فاطمة؛ چار خواتین اپنے زمانے کی دنیا کی سردار ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم (زوجہ فرعون) ،
خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد ۖ، اور ان کے درمیان سب سے زیادہ عالِم حضرت فاطمہ (صلوٰة اﷲ علیہا)ہیں۔ الدر المنثور، ج٢، ص١٩٤
نیز ابن عباس ہے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص)نے فرمایا: ‘ افضل العالمین مِن النساء الاولین و الآخرین فاطمة’ اولین اور آخرین کی خواتین میں سب سے افضل خاتون فاطمہ (س) ہیں۔ (المناقب المرتضوی، ص١١٣، بحوال غلام رضا کسائی، مناقب الزہرا، (قم: مطبع مہر، ١٣٩٨ ، ص٦٢
سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کا گھرانہ اہل بیت ہے
عن انس بن مالک رضی الله عنه ان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کا ن یمربباب فاطمه ستة اشهر اذا خرج الی صلاة الفجر ،یقول :الصلاة یا اھل البیت انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهیرا ( ترمذی ، الجامع الصحیح ،۵:۳۵۲، رقم :۳۲۰۶)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چھ ماہ تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول رہا کہ جب نماز فجر کے لیے نکلتے اورحضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دروازے کے پاس سے گزرتے توفرماتے :اے اہل بیت !نماز قائم کرو ۔(اورپھر یہ آیت مبارکہ پڑھتے )اے اہل بیت اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی آلودگی دور کردے اورتم کوخوب پاک وصاف کردے ۔
سیدہ سلام اللہ علیھا کا گھرانہ ہی اہل کساء ہے
عن صفیة شیبه ،قالت :عائشة رضی الله عن هل:خرج النبی صلی الله علیه وآله وسلم غداة واعلیه مرط مرحل من شعر اسود۔فجاء الحسن بن علی رضی الله عن هل فادخله ، ثم جاء الحسین رضی الله عنه فدخل معه ،ثم جاء ت فاطمة رضی الله عن هل فادخل هل ثم جاء علی رضی الله عنه فادخله ،ثم قال :انمایرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل بیت ویطهرکم تطهیرا (احمد بن حنبل ،فضائل الصحابہ ،۲:۶۷۲،رقم ۱۱۴۹)
صفیہ بنت شیبہ روایت کرتی ہیں :حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت باہر تشریف لائے درآں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے پس حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہما آئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس چادر میں داخل کرلیا پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چادر میں داخل ہوگئے پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا آئیں توآپ نے انہیں اس چادرمیں داخل کرلیا،پھر حضرت علی کرم اللہ وجھہ آئے توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادرمیں لے لیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی :”اے اہل بیت!،اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہرطرح کی )آلودگی دور کردے اورتم کو خو ب پاک وصاف کردے ۔
سیدہ سلام اللہ علیھا جنتی عورتوں کی اورآپ کے شہزادے جنتی جوانوں کے سردار ہیں
فاطمۃ سلام اللہ علیھا سیدة نساء اھل الجنۃ وابنا ھا سید اشباب اھل الجنۃ
عن حذیفة رضی الله تعالی عنه قال :قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم :ان هذا ملک لم ینزل الارض قط قبل اللیلة استاذن ربه ان یسلم علی ویبشرنی بان فاطمة سیدة نساء اهل الجنة، وان الحسن والحسین سیدا شباب اهل الجنة
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ایک فرشہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہو اورمجھے یہ خوشخبری دے :فاطمہ اہل جنت کی تمام عورتوں کی سرداراورحسن وحسین جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں۔
اللہ نے فاطمہ اورآل فاطمہ پر جہنم کی آگ حرام کردی
عن ابن عباس رضی الله عنه لقال :قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم لفاطمة رضی الله عنه لان الله غیر معذبک ولا ولاک
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا:اللہ تعالی تمہیں اورتمہاری اولاد کو آگ کا عذاب نہیں دے گا.
حضرت زہرا سلام الله علیہا کی شادی
جب حضرت زہرا سلام الله علیہا جوان ہوئیں تو انسان کامل میں پائے جانے والے تمام کمالات آپ کی ذات میں موجود تھے۔ چمکتا ہوا چہرہ ، نیک اخلاق، خاندانی شرافت، کلام کی فصاحت و بلاغت اور دیگر تمام کمالات جن کی تعداد سے الله آگاہ ہے ، آپ میں پائے جاتے تھے۔ ان ذاتی کمالات کے علاوہ سب سے بڑھ کر یہ تھا کہ آپ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی تھیں۔ اس لئے بہت سے اشراف و غیر اشراف انسان آپ سے شادی کے متمنی تھے ۔
ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھیں اس بات کا یقین تھا کہ پیغمبر اسلام فاطمہ کی شادی ہمارے ساتھ کرنے پر راضی ہو جائیں گے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ان میں سے ایک امیدوار ابوبکر بھی تھے لیکن پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ان کے جواب میں فرمایا: ” میں ابھی الله کے فیصلہ کا منتظرہوں۔“
عمر نے بھی اپنی تمنا کا اظہار کیا مگر انھیں بھی وہی جواب سننا پڑا جو پہلے سن چکے تھے ۔ انس بن مالک نے نقل کیا ہے کہ عبد الرحمٰن بن عوف اور عثمان بن عفان پیغمبر کے پاس آئے ، عبد الرحمٰن نے عرض کیاکہ آپ فاطمہ کی شادی میرے ساتھ کر دیجئے، میں مہر میں دس ہزار دینار اور مصر کے قیمتی کپڑے سے لدے ہوئے کالے رنگ کے ہری آنکھوں والے ایک سو اونٹ دوں گا۔
عثمان نے کہا کہ میں بھی اتنا مہر دینے کے لئے تیار ہوں آپ مجھ پر لطف فرمائے کیونکہ میں نے عبد الرحمٰن سے پہلے اسلام قبول کیا ہے۔ یہ سن کر پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو جلال آگیا اور آپ نے کچھ سنگریزے اٹھا کر عبد الرحمٰن کی طرف پھینکے اور فرمایا تو میرے سامنے اپنی دولت پر فخر کرتا ہے ؟ وہ سب سنگریزے موتیوں میں تبدیل ہوگئے اور ان میں سے ایک ایک در عبد الرحمٰن کی تمام دولت سے زیادہ قیمتی تھا۔
ابھی حضرت زہرا سلام الله کی شادی نہیں ہوئی تھی کہ پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑی اور وہ مدینہ جاکر آبادہوگئے۔ وہاں پر حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں رہتے تھے اور آپ کی عمر بیس سال ہو چکی تھی۔ آپ پیغمبر اسلام پر ایمان لانے والے سب سے پہلے انسان تھے اور آپ کی ذات اتنے کمالات کامرکز تھی کہ لوگ ان کی وجہ سے آپ سے حسد کرنے لگے تھے۔ آپ اپنے کمالات کی بنا پر تمام انسانوں میں اس طرح نمایاں تھے جیسے آسمان پر سورج نمایاں رہتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام و حضرت زہرا سلام الله علیہا دونوں ایک خاندان سے تھے تو کیا حضرت زہرا کے لئے حضرت علی علیہ السلام سے ، اور حضرت علی علیہ السلام کے لئے حضرت زہرا سلام الله علیہا سے بہتر شریک حیات ہو سکتا تھا؟ نہیں ہر گز نہیں۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے فاطمہ زہرا سلام الله علیہا سے شادی کی تمنا ظاہر نہیں کی؟
کچھ روایتوں میں ملتا ہے کہ آپ نے اپنی غربت کی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔ لیکن یہ بات بالکل غلط ہے ۔ کیونکہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :”اگر الله نے حضرت علی علیہ السلام کو پیدا نہ کیا ہوتا تو حضرت زہرا کا کوئی کفو نہ ہوتا۔“ ابن مسعود نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: ”الله نے مجھے فاطمہ کی شادی علی ﷼ کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے ۔“ کچھ بھی ہو ایک دن ایسا آہی گیا کہ حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس تمنا کا اظہار فرمایا ۔
زوجہٴ رسول جناب ام سلمہ فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے کانوں میں دروازہ کھٹکھٹائے جانے کی آواز آئی ۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب سنتی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جاؤ دروزاہ کھولو اور کہو کہ اندر آجاؤ،کیونکہ آنے والا وہ ہے جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتاہے اور وہ بھی الله اور اس کے رسول سے محبت کرتاہے۔ اسی دوران علی علیہ السلام گھر میں داخل ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے حضرت زہرا سلام الله علیہا کے ساتھ شادی کے سلسلہ میں بات چیت کی ۔ ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ یہ سن کر پیغمبر کا چہرہ خوشی سے کھل گیا اور آپ نے فرمایا: ”اس سے پہلے کہ میں زمین پر فاطمہ کی شادی علی سے کروں ، آسمان پر الله نے فاطمہ کی شادی علی سے کردی ہے۔“ جو بھی ہوا ہو یہ مبارک شادی ہوگئاور حضرت زہرا سلام الله علیہا کا مہر چارسو اسی درہم قرارپایا ۔ جیسے حضرت علی علیہ السلام نے اپنی زرہ بیچ کر ادا کیا۔
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس رقم کو چند حصوں میں تقسیم فرمایا:
ایک سو ساٹھ درہم عطر کے لئے۔ایک سو ساٹھ درہم لباس کے لئے۔ چھیاسٹھ درہم گھر کے سامان کے لئے اورچھیانوے درہم جناب ام سلمہ کو دئے کہ انھیں دیگر اخراجات کے لئے اپنے پاس رکھو۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس مختصر سامان کو خریدنے کے لئے کچھ لوگوں کو معین فرمایا۔ ہم یہاں پر حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام الله کے گھر کے سامان کی تفصیل بیان کرتے ہیں تاکہ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں اسے نمونہٴ عمل قرار دیں اور محبت پر مبنی بابرکت زندگی کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔
۱- لباس سات درہم
۲- چارد چاردرہم
۳- مقنعہ چار درہم
۴-کھجور کی پتیوں کا بنا تکیہ
۵- دوگدے جن میں سے ایک میں بھیڑ کی اون اور دوسرے میںکھجور کی پتیاں بھری ہوئی تھیں۔
۶-چار چمڑے کے تکیے جن میں اذخر نامی خوشبودار گھاس بھری ہوئی تھی۔
۷-ایک نازک اونی پردا
۸- ایک چٹائی
۹- جو پیسنے کے لئے ایک چکی
۱۰- کپڑے دھونے کا تشت
۱۱- ایک لکڑی کا پیالہ
۱۲-پانی کا جگ
۱۳- ایک صراحی
۱۴- ایک لوٹا
۱۵- ایک سبز رنگ کا سفالی کا مٹکا
۱۶- چندمٹی کے برتن
۱۷- ایک چمڑے کا گدا
۱۸- ایک چارد
یہ حضرت زہرا سلام الله علیہا کا جہز تھا جو پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لایا گیا۔ پیغمبر اسلام نے تمام چیزوں کو ہاتھوں میں لے کر دیکھا اور فرمایا: ”الله اس سامان کو اہل بیت کے لئے مبارک قرارد ے۔“
ایک روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہہ آپ نے فرمایا: ” اے لله ! اس سامان کو اہل بیت کے لئے مبارک قرار دے کہ اس میںاکثر برتن سفالی کے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام نے حضرت زہرا کی آمد پر جو انتظام فرمایا تھا اس کی تفصیل یہ ہے
۱- سونے کے کمرے میں باریک و نرم ریت بچھا دیا گیا تھا۔
۲- کمرے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لئے دونوں دیواروں کے بیچ ایک لکڑی لگا دی گئی تھی ۔
۳- گوسفند کی کھال بچھا کر اس پر کھجور کی پتیوں سے بنا ایک تکیہ رکھ دیا گیا تھا ۔
۴- دیوار میں ایک کھونٹی گاڑ کر اس پر ایک تولیہ لٹکا دیا گیا تھا ۔
۵- ایک صراحی کا انتظام کیا گیا تھا۔
۶- آٹا چھاننے کے لئے ایک چھنی مہیا کی گئی تھی۔
یہ تھا دین و دنیا کے امیر حضرت علی علیہ السلام کے گھر کا سرمایہ۔
ہاں! حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی بڑی سادگی کے ساتھ ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ولیمہ کرکے حضرت زہرا سلام الله علیہا کو حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ رخصت کردیا تھا۔
اس مبارک گھر کی بنیادجس طرح رکھی گئی اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
اس شادی کے نتیجہ میں جومبارک اولاد وجود میں آئی ان کے نور نے اس دنیا کو اس طرح منور فرمایا کہ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر انسان بخوبی واقف ہے۔ ہم یہاں پر فقط حضرت زہرا سلام الله علیہا کی اولاد کے ناموں کو بیان کررہے ہیں: ۳ ہجری․ق میں ۱۵/رمضان المبارک کو حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ، ۴ ہجری․ق میں تین شعبان المعظم کو حضرت امام حسین علیہ السلام ، ۶ ہجری․ق میں حضرت زینب سلام الله علیہااور پھر جناب ام کلثوم اس دنیا میں تشریف لائیں ۔ ان چار اولادکے علاوہ آپ کے ایک محسن نامی بیٹے بھی تھے۔ جو اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اس وقت شہید ہوگئے تھے جب ظالموں نے حضرت زہرا سلام الله علیہا پر دروازہ گرایا تھا اور آپ درو دیوار کے پس گئیں تھیں ۔

تحریر:محمد علی صابری (گنوخ)

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *