تازہ ترین

مولوی سمیع الحق کا بہیمانہ قتل اور سوچنے کی باتیں/تحریر:محمد حسن جمالی 

 

اسلامی تعلیمات میں جابجا بنی نوع انسان کو ظلم کرنے اور ظالم کی حمایت کرنے سے اجتناب کرنے کی تاکید ہوئی ہےـ قران مجید اور احادیث میں صریح طور پر یہ حقیقت بیان ہوئی ہے کہ ظلم کرنے والوں کا انجام برا ہی ہوتا ہےـ متون دینی میں ظلم کی بہت ساری قسمیں بیان ہوچکی ہیں جن میں سے ایک انسان کا دوسرے انسانوں کی جان سے کھیلنا ہے ـ یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنی لاریب کتاب میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کا مترادف قرار دیا گیا ہے ـ یہ طے ہے کہ ظالم اور اس کے مددگار وسہولت کاروں کو نہ دنیا میں چین کی زندگی میسر ہوتی ہے اور نہ ہی ابدی زندگی میں انہیں عذاب الہی سے محفوظ رہنے کا کوئی راستہ ملتا ہے، وہ ظلم کا مزہ اسی دنیا میں ہی چکھ لیتا  ہے ،جس کی مثال تاریخ بشریت میں فراوان دیکھنے کو ملتی ہےـ

شئیر
60 بازدید
مطالب کا کوڈ: 4032

 ڈکٹیٹر صدام اور قزافی کی مثال ہی لے لیجئے صدام جو کسی زمانے میں دنیا کی بڑی طاقتوں خاص کر امریکہ کا بہت چہیتا اور مطیع تام رہا ہے وہ جو بھی آڈر دیتا صدام اس کے حکم کو سرآنکھوں پر بٹھا کر یس سر کہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے تھے وہ اس قدر امریکہ کا غلام تھا کہ لمحہ بھر کے لئے بھی اس کے اشارے سے سرمو اختلاف نہیں کرتا تھا چنانچہ صدام نے امریکہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے ملک کے عوام ہمسایہ ملک ایران اور کویت پر حملہ کردیا ۔عراق کے اندر ہر اس شخص اور گروہ کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا جس کے بارے میں صدام کو زرہ بھر بھی گمان ہوتا تھا کہ اس کی مخالفت کرے گاـ یوں لاتعداد انسانوں کے خون ناحق سے صدام نے اپنے ہاتھوں کو رنگین کرلیا، لیکن پوری پوری دنیا جانتی ہے کہ اس کا انجام اتنا برا ہوا جس کی نظیر تاریخ میں بہت کم نظر آتی ہےـ لیبیا سے تعلق رکھنے والا ظالم معمر قزافی کی داستان ظلم بھی صدام کے مظالم کی داستانوں سے ملتی جلتی ہے 8 ماہ کی خانہ جنگی میں 35/30 ہزار افراد ہلاک ہوئے  قذافی ایک مطلق العنان حکمراں تھا، جمہوری اقدار کا مخالف تھا۔ لیکن اس کا انجام بھی بہت برا ہوا معمر قذافی اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں بے دردی کے ساتھ ہلاک ہو گیا۔ باغیوں نے اس کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹا، ٹرک پر رکھ کر عبرت کا نشان بنایا اس کی موت پر عوام نے جشن منایا، جن لوگوں نے 42 سال اسے اپنا سربراہ بنائے رکھا، اسے ذلت کی موت مارا ۔اسی طرح تاریخ بشریت میں جتنے بھی ظالم حکمران گزرے ہیں سر انجام پھانسی یا بے دردی کاقتل ان کا مقدر بن چکا ہےـ

 جب اس حقیقت کے تناطر میں ہم مولوی سمیع الحق کو چھریوں کے وار سے اپنے گھر میں ہی قتل کرنے کے سانحے کو دیکھتے ہیں تو ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوتا ہے، کیونکہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے ـ درست ہے وہ عالم تھے، قرآن واحادیث شناس تھے، وہ بہت ساری کتابوں کے مؤلف ہونے کے ساتھ مایہ ناز استاد بھی تھے ،ان کی کلاس میں ہزاروں کی تعداد میں طلباء بیک وقت شرکت کرتے تھے ،وہ مختلف علوم جیسے فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، منطق، عربی گرامر، تفس اور حدیث کے ماہر تھے، انہیں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور پشتو سمیت دیگر علاقائی زبانوں پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ سند فضیلت و فراغت اور سند دورہ تفسیر قرآن کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث بھی تھے اور علماء میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ 1988ء میں مولانا عبدالحق کی وفات کے بعد مولانا سمیع الحق دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم بن گئے تھے ،ان کے مدرسے میں تین ہزار طلبا مشغول ہوتے ہیں ،لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ مولوی سمیع الحق مرحوم کیا اپنے شاگردوں کی ویسی تربیت کرنے میں موفق ہوئے جیسی تربیت اسلام چاہتا ہے؟ ہرگز نہیں!

 انہوں نے پوری زندگی اپنے مدرسے میں شاگردوں کو جہاد کی فکر وتربیت دینے میں گزاری ،ہزاروں طلباء نے ان کے مدرسے سے شدت پسندی اور تکفیری فکر لے کر طالبان کے نام سے پاکستان اور افغانستان میں پھیل کر بہت سارے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے میں کردار ادا کیاـ

 تحریک طالبان اغوا برائے تاوان، لوگوں کو قتل کر کے سر قلم کرنے اور بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ یہ حرکتیں اب بھی جاری ہیں۔ پچھلے کئی سال میں انہوں نے سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور کئی علمائے دین اور امن کمیٹی کے ارکان کو بھی ہلاک کیا ہے۔ یہاں تک کہ مسجدیں شہید کرنے میں وہ کوئی عار محسوس نہیں کرتے مثلاً 4 دسمبر 2009ء کو انہوں نے 17 نمازی بچوں سمیت چالیس افراد کے قتل اور راولپنڈی میں مسجد کو نقصان پہنچانے کی ذمہ داری قبول کی۔ طالبان پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ستر ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانی شہریوں کو خود کُش بم دہماکوں میں شہید کر چکے ہیں۔ جس میں زیادہ تر تعداد نمازیوں اور دیگر مذہبی اجتماعات میں شامل ہونے والے لوگوں کی ہے۔ طالبان کی دہشت گردی کا پاکستان میں نشانہ سب سے زیادہ شیعہ کیمونٹی اُس کے بعد سنی اور اقلیتی برادری کے لوگ بنے۔ طالبان نے جہاں فوجی اداروں پراٹیک کر کے ہزاروں پاکستانی فوجی جوانوں کو شہید کیا وہاں اِن کی درندگی اور سفاکی کا نشانہ سکول کے بے گناہ بچے بھی بنے جس کی ایک مثال آرمی پبلک سکول پشاور کے بے شمار معصوم بچوں کو سکول میں گھس کر کچھ کو ذبح اور کچھ کو گولیوں سے نشانہ بنا کر اُن کی خواتین اساتذہ کو بچوں کے سامنے زندہ جلا دیا گیا۔جانا ہے یہاں تک کہ مرحوم بابائے طالبان کا لقب مرحوم کی شناخت بن گیا  ان کے مدرسے کے فارغ التحصیل طلبا کی ایک بڑی تعداد نے افغانستان جاکر وہاں بے گناہ مسلمانوں پر شب خون مارا جن میں افغان طالبان کے امیر خان متقی، مولوی احمد جان اور ملا خیر اللہ جیسے سرفہرست شامل ہیں ۔ حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی مدرسہ حقانیہ سے متاثر ہو کر نکلے تھے۔ 

ڈان اخبار میں شائع ہونے والے ایک انگریزی مضمون کا محمد فصیل نے ترجمہ کیا ہے جس کا ایک حصہ یہ ہے  مدرسہ حقانیہ کا آغاز آٹھ طلبہ سے ہوا اور آج یہاں کم و بیش 3000 ہزار طالب علم پڑھ رہے ہیں۔ مولانا سمیع الحق نے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے عالمی معاملات پر اپنے نکتہ نظر کا اظہار کیا ہے۔ اس میں انہوں نے یہ دعوے بھی کیے ہیں کہ افغان طالبان نے بہترین حکومت کی مثال قائم کی تھی، اسامہ بن لادن مثالی انسان تھے اور دنیا میں القاعدہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔مولانا سمیع الحق کے مطابق اگر طلبہ تعلیم میں وقفہ لے کر افغان طالبان کے شانہ بشانہ لڑنے کی خواہش کریں تو ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ انہوں نے ملا عمر کو اعزازی ڈگری بھی دی تھی۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی سازش میں ملوث لوگ اس واردات سے پہلے اکوڑہ خٹک کے اسی مدرسے میں اکٹھے ہوئے تھےـ

 صحیح ہے کہ خود مرحوم سمیع الحق نے کھبی بھی علانیہ طور پر مسلمانوں کی تکفیر کا فتوی نہیں دیا لیکن کیا انہوں نے اپنے ہاں تربیت یافتہ طلبا کو مسلمانوں کی تکفیریت کے فتوے جاری کرنے سے روکنے کے لئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا؟ مرحوم نے مسلمان فرقوں کے قائدین سے اتحاد کرنے کے لئے ہاتھ ضرو بڑھایا لیکن کیا واقعی معنوں میں انہوں نے اپنی زندگی میں وحدت مسلمین کے تقاضوں کو عملی میدان میں پورا کیا؟ 

یہ وہ اہم باتیں ہیں جن پر ہر پاکستانی مسلمان کو تعصب کی عینک اتار کر سوچنے کی ضرورت ہے

این مطلب بدون برچسب می باشد.

یہ بھی پڑھنا مت بھولیں

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *